دُنیاوی سوچ کا شکار ہونے سے بچیں
”خبردار رہیں کہ کوئی آپ کو ایسے فلسفوں اور فضول باتوں کا شکار نہ بنا لے جو . . . دُنیا کے بنیادی اصولوں کے مطابق ہیں۔“—کُلسّیوں 2:8۔
1. پولُس رسول نے کُلسّے کے مسیحیوں کے نام خط کیوں لکھا؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔)
پولُس رسول نے 60-61ء کے لگ بھگ کُلسّیوں کی کلیسیا کے نام خط لکھا۔ اُس وقت وہ روم میں قید تھے۔ اِس خط میں پولُس نے مسیحیوں کو بتایا کہ اُنہیں ”روحانی سمجھ“ یعنی معاملات کو یہوواہ کی نظر سے دیکھنے کی صلاحیت کی ضرورت کیوں ہے۔ (کُلسّیوں 1:9) پولُس نے کہا: ”مَیں یہ باتیں اِس لیے کہہ رہا ہوں تاکہ کوئی شخص آپ کو دلکش باتوں سے دھوکا نہ دے سکے۔ خبردار رہیں کہ کوئی آپ کو ایسے فلسفوں اور فضول باتوں کا شکار نہ بنا لے جو اِنسانی روایتوں اور دُنیا کے بنیادی اصولوں کے مطابق ہیں لیکن مسیح کے مطابق نہیں ہیں۔“ (کُلسّیوں 2:4، 8) پھر پولُس نے بتایا کہ دُنیا کے کچھ مقبول نظریات غلط کیوں ہیں اور بہت سے لوگ اِن نظریات کو کیوں پسند کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ لوگ اِس لیے اِن نظریات کو مانتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو لوگ اُنہیں سمجھدار خیال کریں گے۔ لہٰذا پولُس نے کُلسّے کے مسیحیوں کو خط اِس لیے لکھا تاکہ وہ دُنیاوی سوچ اور بُرے کاموں سے دُور رہنے میں اُن کی مدد کر سکیں۔—کُلسّیوں 2:16، 17، 23۔
2. اِس مضمون میں ہم ایسے نظریات پر بات کیوں کریں گے جن کی بنیاد دُنیاوی سوچ ہے؟
2 جو لوگ دُنیاوی سوچ رکھتے ہیں، وہ یہوواہ کے اصولوں کو نظرانداز کرتے ہیں۔ آجکل دُنیاوی سوچ ہر
جگہ عام ہے۔ ہماری ملازمت کی جگہ پر، سکول میں اور ٹیوی اور اِنٹرنیٹ پر اِس سوچ کو فروغ دیا جاتا ہے۔ اگر ہم محتاط نہیں رہتے تو یہ سوچ آہستہ آہستہ ہم پر حاوی ہو سکتی ہے اور ہمارے ایمان کو کمزور کر سکتی ہے۔ ہم دُنیاوی سوچ کے اثر سے بچنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ اِس مضمون میں ہم پانچ ایسے نظریات پر بات کریں گے جن کی بنیاد دُنیاوی سوچ ہے۔ ہم یہ دیکھیں گے کہ ہم ایسے نظریات کا شکار ہونے سے کیسے بچ سکتے ہیں۔کیا ہمیں خدا پر ایمان لانے کی ضرورت ہے؟
3. بہت سے لوگوں کو کون سا نظریہ پسند ہے اور کیوں؟
3 ”مجھے ایک اچھا اِنسان بننے کے لیے خدا پر ایمان لانے کی ضرورت نہیں ہے۔“ یہ نظریہ دُنیا کے بہت سے ملکوں میں عام ہے۔ اِس نظریے پر ایمان لانے والے لوگ شاید اِس بات پر تحقیق نہیں کرتے کہ آیا خدا ہے یا نہیں۔ وہ بس یہ چاہتے ہیں کہ اُنہیں اپنے کاموں کے لیے کسی کو جواب نہ دینا پڑے اور وہ جو کرنا چاہیں، وہ کریں۔ (زبور 10:4 کو پڑھیں۔) کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ اگر وہ یہ کہیں گے کہ ”مَیں خدا پر ایمان لائے بغیر بھی اچھے معیاروں کے مطابق زندگی گزار سکتا ہوں“ تو لوگ اُنہیں زیادہ دانشمند خیال کریں گے۔
4. ہم ایک ایسے شخص کو کون سی دلیل دے سکتے ہیں جو خدا پر ایمان نہیں رکھتا؟
4 کیا اِس نظریے کی کوئی ٹھوس بنیاد ہے کہ خدا کا کوئی وجود نہیں ہے؟ جو لوگ اِس سوال کا جواب سائنس سے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ اکثر کشمکش میں پڑ جاتے ہیں۔ البتہ اِس سوال کا جواب بالکل سادہ سا ہے جسے ایک آسان سی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ کیا ایک گھر خودبخود وجود میں آ سکتا ہے؟ بےشک نہیں۔ کسی کو اِسے بنانا پڑتا ہے۔ کسی بھی گھر کے برعکس جاندار بہت پیچیدہ ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ چھوٹے چھوٹے خلیے بھی وہ کام کر سکتے ہیں جو کوئی گھر نہیں کر سکتا۔ یہ خلیے اپنے جیسے نئے خلیے بنا سکتے ہیں۔ اِس کا مطلب ہے کہ خلیے معلومات کو ذخیرہ کر سکتے ہیں اور اِسے نئے خلیوں تک منتقل کر سکتے ہیں۔ اِس طرح نئے خلیے بھی اپنے جیسے اَور خلیے بنا سکتے ہیں۔ لیکن خلیوں میں یہ صلاحیت کس نے ڈالی ہے؟ بائبل میں اِس سوال کا جواب یوں دیا گیا ہے: ”ہر گھر کو کسی نے بنایا ہے لیکن سب چیزوں کو خدا نے بنایا ہے۔“—عبرانیوں 3:4۔
5. اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ ”مَیں خدا پر ایمان لائے بغیر بھی یہ جان سکتا ہوں کہ کیا اچھا ہے اور کیا بُرا“ تو ہم اُسے کیا جواب دے سکتے ہیں؟
5 اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ ”مَیں خدا پر ایمان لائے بغیر بھی یہ جان سکتا ہوں کہ کیا اچھا ہے اور کیا بُرا“ تو ہم اُسے کیا جواب دے سکتے ہیں؟ یہ سچ ہے کہ خدا کے کلام میں بتایا گیا ہے کہ کچھ لوگ جو خدا پر ایمان نہیں رکھتے، وہ بھی اچھے اصولوں پر چلتے ہیں۔ (رومیوں 2:14، 15) مثال کے طور پر ہو سکتا ہے کہ ایسے لوگ اپنے ماں باپ کا احترام کرتے ہوں اور اُن سے پیار کرتے ہوں۔ لیکن اگر وہ یہوواہ کے معیاروں پر نہیں چلتے تو شاید وہ زندگی میں بہت بُرے فیصلے کریں۔ (یسعیاہ 33:22) بہت سے ذہین لوگ اِس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہمیں اِس دُنیا کے بڑے بڑے مسئلوں کو حل کرنے کے لیے خدا کی مدد کی ضرورت ہے۔ (یرمیاہ 10:23 کو پڑھیں۔) لہٰذا ہمیں یہ کبھی نہیں سوچنا چاہیے کہ ہم خدا پر ایمان لائے بغیر اور اُس کے معیاروں پر چلے بغیر اچھے بُرے کی پہچان کر سکتے ہیں۔—زبور 146:3۔
کیا ہمیں مذہب کی ضرورت ہے؟
6. بہت سے لوگ مذہب کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟
6 ”مجھے خوش رہنے کے لیے مذہب کی ضرورت نہیں ہے۔“ بہت سے لوگ سوچتے ہیں کہ مذہب کا حصہ بننے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور اگر وہ کسی مذہب میں شامل ہو جائیں گے تو اُن کی زندگی بےرونق ہو جائے گی۔ اِس کے علاوہ بہت سے مذاہب دوزخ کی تعلیم دیتے ہیں، لوگوں کو چندہ دینے پر مجبور کرتے ہیں یا سیاستدانوں کی حمایت کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ حیرانی کی بات نہیں کہ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ وہ مذہب کے بغیر بہت خوش ہیں۔ ایسے لوگ شاید کہیں: ”مَیں خدا کے بارے میں تو جاننا چاہتا ہوں لیکن مَیں کسی مذہب کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔“
7. سچے مذہب کا حصہ ہونے کی وجہ سے ہم خوش کیوں رہ پاتے ہیں؟
1-تیمُتھیُس 1:11) یہوواہ جو بھی کام کرتا ہے، دوسروں کی بھلائی کے لیے کرتا ہے۔ اُس کے بندوں کے طور پر ہم بھی دوسروں کی بھلائی کے لیے کام کرتے ہیں اور اِس سے ہمیں خوشی ملتی ہے۔ (اعمال 20:35) مثال کے طور پر یہوواہ کی عبادت کرنے والے خاندان کے افراد اِس لیے خوش رہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے گھر والوں کی بھلائی کے لیے کام کرتے ہیں۔ اُنہیں سکھایا جاتا ہے کہ وہ اپنے جیون ساتھی کا احترام کریں، اُس کے وفادار رہیں، اپنے گھر والوں کے لیے محبت ظاہر کریں اور اپنے بچوں کی اچھی تربیت کریں۔ یہوواہ کے اصولوں پر عمل کرنے کی وجہ سے وہ کلیسیا کے بہن بھائیوں کے لیے بھی محبت ظاہر کرتے ہیں اور اُن کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔—یسعیاہ 65:13، 14 کو پڑھیں۔
7 کیا ہم واقعی مذہب کے بغیر خوشی حاصل کر سکتے ہیں؟ بِلاشُبہ ایک شخص جھوٹے مذہب کے بغیر خوش رہ سکتا ہے۔ لیکن کوئی شخص اُس وقت تک حقیقی خوشی حاصل نہیں کر سکتا جب تک وہ ”خوشدل خدا“ یہوواہ کا دوست نہیں بن جاتا۔ (8. متی 5:3 کے مطابق ہمیں حقیقی خوشی کیسے مل سکتی ہے؟
8 تو پھر کیا یہ نظریہ درست ہے کہ ایک شخص خدا کی خدمت کیے بغیر سچی خوشی حاصل کر سکتا ہے؟ ذرا غور کریں کہ لوگوں کو خوشی کس چیز سے ملتی ہے۔ کچھ لوگوں کو اپنے پیشے، کسی خاص کھیل یا اپنے مشغلے سے خوشی ملتی ہے۔ کچھ لوگوں کو اپنے گھر والوں اور دوستوں کا خیال رکھنے سے خوشی ملتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ اِن چیزوں سے کسی حد تک خوشی ملتی ہے لیکن حقیقی خوشی کے لیے ہمیں کچھ اَور بھی کرنے کی ضرورت ہے۔ چونکہ ہم جانوروں سے فرق ہیں اِس لیے ہم اپنے خالق کے بارے میں جان سکتے ہیں اور اُس کی عبادت کر سکتے ہیں۔ اور خدا نے ہمیں بنایا بھی اِس طرح ہے کہ ایسا کرنے سے ہمیں خوشی ملتی ہے۔ (متی 5:3 کو پڑھیں۔) مثال کے طور پر ہمیں اُس وقت خوشی اور حوصلہافزائی ملتی ہے جب ہم اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ مل کر یہوواہ کی عبادت کرتے ہیں۔ (زبور 133:1) ہمیں اِس بات کی بھی بہت خوشی ہے کہ ہم ایک عالمگیر برادری کا حصہ ہیں، پاک صاف زندگی گزارتے ہیں اور مستقبل کے سلسلے میں ایک شاندار اُمید رکھتے ہیں۔
کیا ہمیں جنسی تعلقات کے حوالے سے خدا کے معیاروں کی ضرورت ہے؟
9. (الف) جنسی تعلقات کے بارے میں کون سا نظریہ عام ہے؟ (ب) خدا کے کلام میں حرامکاری کو غلط قرار کیوں دیا گیا ہے؟
9 ”کسی ایسے شخص سے جنسی تعلق قائم کرنے میں کیا حرج ہے جس سے آپ کی شادی نہیں ہوئی؟“ لوگ شاید ہم سے کہیں: ”آپ لوگوں کے اصول تو بڑے سخت ہیں۔ چھوڑو اِن اصولوں کو اور زندگی کا مزہ لو۔“ لیکن خدا کے کلام میں حرامکاری سے منع کِیا گیا ہے۔ * (1-تھسلُنیکیوں 4:3-8 کو پڑھیں۔) چونکہ یہوواہ ہمارا خالق ہے اِس لیے وہ اِس بات کا پورا حق رکھتا ہے کہ وہ ہمارے لیے معیار قائم کرے۔ خدا کے معیاروں کے مطابق صرف وہی مرد اور عورت جنسی تعلقات قائم کر سکتے ہیں جن کی آپس میں شادی ہوئی ہے۔ یہوواہ خدا نے ہمیں یہ معیار اِس لیے دیے ہیں کیونکہ وہ ہم سے پیار کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اگر ہم اِن پر چلیں گے تو ہمیں فائدہ ہوگا۔ جو خاندان خدا کے معیاروں پر چلتا ہے، اُس کے افراد ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں، ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر بھروسا رکھتے ہیں۔ لیکن جو لوگ جان بُوجھ کر خدا کے معیاروں کو نظرانداز کرتے ہیں، وہ اُن کو سزا دے گا۔—عبرانیوں 13:4۔
10. ایک مسیحی کو حرامکاری سے بچنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
10 بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ہم حرامکاری سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ ہمیں محتاط رہنا چاہیے کہ ہم کیسی چیزیں دیکھتے ہیں۔ یسوع مسیح نے کہا: متی 5:28، 29) لہٰذا ہمیں ہر طرح کے فحش مواد سے دُور رہنا چاہیے اور ایسے گانے نہیں سننے چاہئیں جن میں بےہودہ زبان اِستعمال کی جاتی ہے۔ پولُس رسول نے لکھا: ”اپنے جسم کے اعضا کو حرامکاری . . . کے اِعتبار سے مار ڈالیں۔“ (کُلسّیوں 3:5) اِس کے علاوہ ہمیں نہ تو ایسی چیزوں کے بارے میں سوچنا چاہیے اور نہ ہی بات کرنی چاہیے جن میں بےحیائی پائی جاتی ہے۔—اِفسیوں 5:3-5۔
”اگر ایک شخص ایک عورت کو ایسی نظر سے دیکھتا رہے کہ اُس کے دل میں اُس عورت کے لیے جنسی خواہش بھڑک اُٹھے تو وہ اپنے دل میں اُس کے ساتھ زِنا کر چُکا ہے۔ اگر آپ کی دائیں آنکھ آپ کو گمراہ کر رہی ہے تو اِسے نکال کر پھینک دیں۔“ (کیا ہمیں ایک اچھا پیشہ اِختیار کرنے کی جستجو کرنی چاہیے؟
11. ہمارے دل میں ایک اچھا پیشہ اِختیار کرنے کی خواہش کیوں پیدا ہو سکتی ہے؟
11 ”ایک اچھا پیشہ اِختیار کرنے سے آپ کو خوشی ملے گی۔“ شاید لوگ ہمیں کہیں کہ ہمیں زندگی میں کوئی ایسا پیشہ اِختیار کرنا چاہیے جس کی وجہ سے ہم مقبول بن جائیں، ہمارے پاس بڑا اِختیار آ جائے یا ہم بہت پیسہ کما سکیں۔ چونکہ بہت سے لوگ سوچتے ہیں کہ ایک اچھا پیشہ ہی خوشی کی ضمانت ہے اِس لیے یہ سوچ ہمارے ذہن میں بھی گھر کر سکتی ہے۔
12. کیا ایک اچھا پیشہ اِختیار کرنے سے آپ کو خوشی ملے گی؟
12 کیا یہ سچ ہے کہ ایک ایسا پیشہ جو آپ کو مقبول یا بااِختیار بنا دے، آپ کو خوشی بھی بخشے گا؟ جی نہیں۔ ذرا اِس بات پر غور کریں۔ شیطان چاہتا تھا کہ وہ مقبول اور بااِختیار بنے۔ اور ایک لحاظ سے وہ بن بھی گیا۔ لیکن کیا وہ خوش ہے؟ بالکل نہیں۔ بائبل میں لکھا ہے کہ شیطان بہت غصے میں ہے۔ (متی 4:8، 9؛ مکاشفہ 12:12) اِس کے برعکس ذرا سوچیں کہ ہمیں اُس وقت کتنی خوشی ملتی ہے جب ہم دوسروں کو خدا اور ایک شاندار مستقبل کے بارے میں بتاتے ہیں۔ دُنیا کا کوئی بھی پیشہ آپ کو ایسی خوشی نہیں دے سکتا۔ اِس کے علاوہ ایک اچھا پیشہ اِختیار کرنے کے چکر میں لوگ اکثر مقابلہبازی پر اُتر آتے ہیں، جلدی طیش میں آ جاتے ہیں یا دوسروں سے حسد کرنے لگتے ہیں۔ لیکن اپنی پسند کا پیشہ اِختیار کرنے کے بعد بھی وہ مطمئن نہیں ہوتے۔ بائبل میں لکھا ہے کہ ایسے لوگ دراصل ”ہوا کو پکڑنے“ کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔—واعظ 4:4، اُردو جیو ورشن۔
13. (الف) ہمیں اپنی ملازمت کو کیسا خیال کرنا چاہیے؟ (ب) پولُس رسول کو حقیقی خوشی کیسے ملی؟
13 یہ سچ ہے کہ ہمیں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے ملازمت کرنی ہوتی ہے اور اپنی پسند کی ملازمت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن ہماری ملازمت ہماری زندگی میں سب سے اہم نہیں ہونی چاہیے۔ یسوع مسیح نے کہا: ”کوئی شخص دو مالکوں کا غلام نہیں ہو سکتا۔ یا تو وہ ایک سے محبت رکھے گا اور دوسرے سے نفرت یا پھر وہ ایک سے لپٹا رہے گا اور دوسرے کو حقیر جانے گا۔ آپ خدا اور دولت دونوں کے غلام نہیں بن سکتے۔“ (متی 6:24) ہمیں سب سے زیادہ خوشی یہوواہ خدا کی خدمت کرنے اور دوسروں کو بائبل کی تعلیم دینے سے مل سکتی ہے۔ پولُس رسول نے دیکھا تھا کہ یہ بات واقعی سچ ہے۔ جب پولُس نوجوان تھے تو وہ ایک اچھا پیشہ اِختیار کرنے کی جستجو کر رہے تھے۔ لیکن بعد میں اُنہیں حقیقی خوشی یہ دیکھ کر ملی کہ جن لوگوں کو اُنہوں نے مُنادی کی تھی، اُنہوں نے خدا کے کلام کے اثر سے اپنی زندگیوں میں تبدیلیاں کیں۔ (1-تھسلُنیکیوں 2:13، 19، 20 کو پڑھیں۔) دُنیا کے کسی بھی پیشے سے ہمیں اُتنی خوشی نہیں مل سکتی جتنی یہوواہ کی خدمت کرنے اور دوسروں کو اُس کے بارے میں بتانے سے ملتی ہے۔
کیا ہم دُنیا کے مسئلوں کو حل کر سکتے ہیں؟
14. بہت سے لوگ اِس نظریے کو کیوں پسند کرتے ہیں کہ اِنسان اپنے مسئلوں کو خود حل کر سکتے ہیں؟
14 ”اِنسان اپنے مسئلوں کو خود حل کر سکتے ہیں۔“ بہت سے لوگ اِس نظریے کو پسند کرتے ہیں کیونکہ اگر یہ نظریہ درست ہے تو اِنسانوں کو خدا کی رہنمائی کی ضرورت نہیں ہے اور وہ جو چاہے، کر سکتے ہیں۔ اِس کے علاوہ بعض لوگوں کو یہ نظریہ اِس لیے بھی صحیح لگتا ہے کیونکہ کچھ جائزوں کے مطابق دُنیا میں جنگیں، جُرم، بیماریاں اور غربت کم ہوتی جا رہی ہے۔ ایک رپورٹ میں کہا گیا: ”اِنسانوں میں بہتری اِس لیے آ رہی ہے کیونکہ اُنہوں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ دُنیا کو بہتر بنا کر رہیں گے۔“ لیکن کیا یہ سچ ہے؟ کیا اِنسانوں نے واقعی یہ جان لیا ہے کہ اِس دُنیا کے مسئلوں کو کیسے حل کِیا جا سکتا ہے؟ آئیں، اِس سلسلے میں چند حقائق پر غور کریں۔
15. یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ اِس دُنیا کے مسائل بہت سنگین ہیں؟
15 کیا اِنسانوں نے جنگ کے مسئلے کو حل کر لیا ہے؟ پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے دوران 6 کروڑ سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے۔ 2015ء کے دوران 1 کروڑ 24 لاکھ لوگ جنگوں یا اذیت کی وجہ سے اپنے گھروں کو
چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ یوں پناہگزینوں کی کُل تعداد 6 کروڑ 50 لاکھ تک جا پہنچی۔ کیا اِنسانوں نے جرائم کو ختم کر لیا ہے؟ دُنیا کے بعض ملکوں میں کچھ جرائم میں کمی آئی ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ دیگر قسم کے جرائم، مثلاً اِنٹرنیٹ کے ذریعے جرائم، گھریلو تشدد، دہشتگردی اور کرپشن میں اِضافہ ہو رہا ہے۔ کیا اِنسان بیماریوں کو ختم کر پائے ہیں؟ یہ سچ ہے کہ اِنسانوں نے کچھ بیماریوں کا علاج دریافت کر لیا ہے۔ لیکن 2013ء کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال 60 سال سے کم عمر کے 90 لاکھ لوگ دل کے دورے، فالج، کینسر، سانس کی بیماری اور ذیابیطس کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ کیا اِنسانوں نے غربت کے مسئلے پر قابو پا لیا ہے؟ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق صرف افریقہ میں ہی 1990ء میں 28 کروڑ لوگ اِنتہائی غربت کی زندگی گزار رہے تھے جبکہ 2012ء میں یہ تعداد 33 کروڑ تک جا پہنچی تھی۔16. (الف) صرف خدا کی بادشاہت ہی دُنیا کے مسئلوں کو کیوں حل کر سکتی ہے؟ (ب) یسعیاہ نبی اور زبورنویس نے کن کاموں کا ذکر کِیا جو خدا کی بادشاہت کرے گی؟
16 اِن حقائق پر غور کر کے ہم حیران نہیں ہوتے۔ آج دُنیا کی معاشی اور سیاسی تنظیموں کو خودغرض لوگ چلا رہے ہیں۔ یہ لوگ جنگ، جُرم، بیماری اور غربت کو ختم نہیں کر سکتے۔ صرف خدا کی بادشاہت ہی ایسا کر سکتی ہے۔ ذرا سوچیں کہ یہوواہ اپنی بادشاہت کے ذریعے اِنسانوں کے لیے کیا کچھ کرے گا۔ اُس کی بادشاہت ایسی تمام وجوہات کو ختم کر دے گی جو جنگوں کا باعث بنتی ہیں جیسے کہ خودغرضی، کرپشن، وطنپرستی، جھوٹے مذاہب اور شیطان۔ (زبور 46:8، 9) خدا کی بادشاہت بہت جلد جرائم کو بھی ختم کر دے گی۔ دراصل آج بھی خدا کی بادشاہت لوگوں کو ایک دوسرے سے محبت کرنا اور ایک دوسرے پر بھروسا کرنا سکھا رہی ہے۔ کوئی اَور حکومت ایسا نہیں کر سکتی۔ (یسعیاہ 11:9) یہوواہ خدا بیماری کو بھی ختم کر دے گا اور لوگوں کو اچھی صحت بخشے گا۔ (یسعیاہ 35:5، 6) وہ غربت کا بھی نامونشان مٹا دے گا اور سب لوگوں کو یہ موقع دے گا کہ وہ خوشگوار زندگی گزار سکیں اور اُس کی قربت میں رہ سکیں۔ یہ چیزیں مالودولت سے کہیں زیادہ بیشقیمت ہیں۔—زبور 72:12، 13۔
”آپ کو پتہ ہو کہ لوگوں کو کس طرح جواب دینا ہے“
17. آپ دُنیاوی سوچ کا شکار ہونے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟
17 جب آپ کوئی مقبول نظریہ سنتے ہیں جو آپ کے عقیدوں کے خلاف ہوتا ہے تو اِس کے بارے میں خدا کے کلام سے تحقیق کریں اور کسی پُختہ بہن یا بھائی سے بات کریں۔ اِس بات پر غور کریں کہ لوگ اُس نظریے کو کیوں پسند کرتے ہیں، وہ نظریہ درست کیوں نہیں ہے اور آپ اُسے غلط ثابت کرنے کے لیے کون سی دلیلیں دے سکتے ہیں۔ ہم پولُس رسول کی اِس ہدایت پر عمل کرنے سے دُنیاوی سوچ کا شکار ہونے سے بچ سکتے ہیں: ”جب آپ اُن لوگوں کے ساتھ ہوں جو کلیسیا کے رُکن نہیں ہیں تو دانشمندی سے کام لیں . . . تاکہ آپ کو پتہ ہو کہ لوگوں کو کس طرح جواب دینا ہے۔“—کُلسّیوں 4:5، 6۔
^ پیراگراف 9 بائبل کے کچھ ترجموں میں یوحنا 7:53–8:11 کا حصہ شامل کِیا گیا ہے لیکن بائبل کے اصل متن میں یہ حصہ موجود نہیں تھا۔ بعض لوگ اِس حصے کو پڑھ کر یہ سمجھنے لگے ہیں کہ صرف ایک بےعیب اِنسان ہی اُس شخص کو غلط قرار دے سکتا ہے جس نے حرامکاری کی ہے۔ لیکن خدا نے بنیاِسرائیل کو جو شریعت دی تھی، اُس میں لکھا تھا: ”اگر کوئی مرد کسی شوہر والی عورت سے زِنا کرتے پکڑا جائے تو وہ دونوں مار ڈالے جائیں۔“—اِستثنا 22:22۔