مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ میں پناہ لیں

یہوواہ میں پناہ لیں

‏”‏[‏یہوواہ]‏ اپنے خادموں کی جانوں کا فدیہ دیتا ہے؛‏ اور جو کوئی اُس میں پناہ لے وہ مُجرم نہ ٹھہرے گا۔‏“‏‏—‏زبور 34:‏22‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن۔‏

گیت:‏ 49،‏  6

1.‏ گُناہ‌گار ہونے کی وجہ سے خدا کے بہت سے بندے کیسا محسوس کرتے ہیں؟‏

‏”‏مَیں کتنا بےبس ہوں!‏“‏ (‏رومیوں 7:‏24‏)‏ یہ بات پولُس رسول نے رومیوں کے نام خط میں لکھی۔‏ آج بھی خدا کے بہت سے بندے پولُس کی طرح بےحوصلہ اور پریشان ہو جاتے ہیں۔‏ مگر کیوں؟‏ کیونکہ ہم یہوواہ کو خوش تو کرنا چاہتے ہیں لیکن گُناہ‌گار ہونے کی وجہ سے ہم کبھی کبھار ایسا کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔‏ کچھ مسیحی جنہوں نے سنگین گُناہ کِیا ہے،‏ وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہوواہ اُنہیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔‏

2.‏ ‏(‏الف)‏ زبور 34:‏22 سے یہ کیسے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کے بندوں کو اپنے گُناہوں پر شرمندگی کے بوجھ تلے دبے نہیں رہنا چاہیے؟‏ (‏ب)‏ اِس مضمون میں ہم کیا سیکھیں گے؟‏ (‏بکس  ‏”‏کیا پناہ کے شہر مستقبل کی کسی چیز کا عکس تھے؟‏“‏ کو دیکھیں۔‏)‏

2 بائبل میں بتایا گیا ہے کہ جب ہم یہوواہ میں پناہ لے لیتے ہیں تو ہمیں اپنے گُناہوں پر شرمندگی کے بوجھ تلے دبے رہنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔‏ ‏(‏زبور 34:‏22 کو فٹ‌نوٹ سے پڑھیں۔‏ *‏)‏ لیکن یہوواہ میں پناہ لینے کا کیا مطلب ہے؟‏ اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہوواہ ہمارے ساتھ رحم سے پیش آئے اور ہمیں معاف کرے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‏ اِن سوالوں کے جواب جاننے کے لیے آئیں،‏ قدیم اِسرائیل میں کیے گئے پناہ کے شہروں کے بندوبست پر غور کریں۔‏ یہ بندوبست موسیٰ کی شریعت میں موجود تھا۔‏ سچ ہے کہ 33ء کی عیدِپنتِکُست کے بعد سے خدا کے بندے اِس شریعت کے پابند نہیں رہے لیکن یہ شریعت یہوواہ کی طرف سے تھی۔‏ اِس لیے پناہ کے شہروں کے بندوبست پر غور کرنے سے ہم یہ سیکھ پاتے ہیں کہ یہوواہ خدا گُناہ کو،‏ گُناہ کرنے والوں کو اور توبہ کرنے والوں کو کیسا خیال کرتا ہے۔‏ لیکن پہلے آئیں،‏ یہ دیکھیں کہ پناہ کے شہروں کا کیا مقصد تھا اور اِن کے سلسلے میں کون سے اصول بنائے گئے تھے۔‏

‏’‏اپنے لئے پناہ کے شہر مقرر کرو‘‏

3.‏ قدیم اِسرائیل میں قاتل کے ساتھ کیا کِیا جاتا تھا؟‏

3 جب کوئی شخص کسی کو قتل کر دیتا تھا تو یہ یہوواہ کے نزدیک بہت سنگین معاملہ ہوتا تھا۔‏ اگر کوئی اِسرائیلی کسی کو قتل کرتا تو جس شخص کا قتل ہوتا،‏ اُس کے سب سے قریبی رشتےدار نے جسے ”‏خون کا اِنتقام لینے والا“‏ کہا جاتا تھا،‏ قاتل کو مارنا ہوتا تھا۔‏ (‏گنتی 35:‏19‏)‏ اِس طرح قاتل کو اُس شخص کی جان کے بدلے اپنی جان دینی ہوتی تھی جسے اُس نے مارا ہوتا تھا۔‏ اگر قاتل کو فوراً نہ مارا جاتا تو ملک ناپاک ہو سکتا تھا۔‏ یہوواہ خدا نے حکم دیا تھا کہ ”‏تُم اُس ملک کو جہاں رہو گے ناپاک نہ کرنا کیونکہ خون [‏یعنی اِنسان کا خون بہانا]‏ ملک کو ناپاک کر دیتا ہے۔‏“‏—‏گنتی 35:‏33،‏ 34‏۔‏

4.‏ جب کسی اِسرائیلی سے غیراِرادی طور پر کسی کا قتل ہو جاتا تھا تو وہ کیا کر سکتا تھا؟‏

4 لیکن ایسے شخص کے سلسلے میں خدا نے کیا حکم دیا تھا جس سے غیراِرادی طور پر کسی کا قتل ہو جاتا تھا؟‏ اگرچہ اُس نے یہ قتل جان بُوجھ کر نہیں کِیا ہوتا تھا لیکن پھر بھی اُس کے سر پر کسی معصوم کو قتل کرنے کا جُرم ہوتا تھا۔‏ (‏پیدایش 9:‏5‏)‏ یہوواہ نے کہا کہ ایسی صورت میں قتل کرنے والے شخص کے لیے رحم ظاہر کِیا جا سکتا ہے۔‏ وہ شخص خون کا اِنتقام لینے والے سے اپنی جان بچانے کے لیے پناہ کے چھ شہروں میں سے کسی ایک میں جا سکتا تھا۔‏ جب اُسے اُس شہر میں رہنے کی اِجازت مل جاتی تھی تو وہ محفوظ ہو جاتا تھا۔‏ لیکن اُسے اُس شہر میں کاہنِ‌اعظم کی موت تک رہنا ہوتا تھا۔‏—‏گنتی 35:‏15،‏ 28‏۔‏

5.‏ پناہ کے شہروں کے بندوبست کی بدولت ہم یہوواہ کو اَور اچھی طرح کیوں سمجھ پاتے ہیں؟‏

5 پناہ کے شہروں کا بندوبست کسی اِنسان نے نہیں بلکہ یہوواہ خدا نے کِیا تھا۔‏ اُس نے یشوع کو حکم دیا:‏ ”‏بنی‌اِسرائیل سے کہہ کہ اپنے لئے پناہ کے شہر .‏ .‏ .‏ مقرر کرو۔‏“‏ (‏یشوع 20:‏1،‏ 2،‏ 7،‏ 8‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شہر یہوواہ کی ہدایت سے ہی مخصوص کیے گئے تھے۔‏ لہٰذا پناہ کے شہروں کے بندوبست پر غور کرنے سے ہم یہوواہ کے بارے میں بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر اِس بندوبست سے ہم یہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہوواہ کتنا رحیم ہے۔‏ اِس کے علاوہ ہم یہ بھی سیکھ پاتے ہیں کہ ہم آج یہوواہ میں پناہ لینے کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔‏

وہ ”‏بزرگوں کو اپنا معاملہ پیش کرے“‏

6،‏ 7.‏ ‏(‏الف)‏ غیراِرادی قتل کے مُقدمے کا فیصلہ کرنے میں بزرگوں کا کیا کردار تھا؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏ (‏ب)‏ مفرور شخص کے لیے بزرگوں سے بات کرنا کیوں ضروری تھا؟‏

6 جس اِسرائیلی کے ہاتھوں حادثاً کسی کا قتل ہو جاتا تھا،‏ اُسے پناہ کے شہر کے دروازے پر ”‏بزرگوں کو اپنا معاملہ پیش“‏ کرنا ہوتا تھا۔‏ بزرگوں کو اُس شخص کی رہائش کا بندوبست کرنا ہوتا تھا۔‏ (‏یشوع 20:‏4‏،‏ اُردو جیو ورشن‏)‏ کچھ وقت کے بعد وہ بزرگ اُس شخص کو اُس شہر کے بزرگوں کے پاس بھیج دیتے تھے جہاں قتل ہوا تھا۔‏ ‏(‏گنتی 35:‏24،‏ 25 کو پڑھیں۔‏)‏ اگر وہ بزرگ یہ فیصلہ کرتے کہ یہ قتل غیراِرادی طور پر ہوا تھا تو وہ قتل کر کے بھاگے ہوئے یعنی مفرور شخص کو پناہ کے شہر واپس بھیج دیتے تھے۔‏

7 مفرور شخص کو بزرگوں سے بات کرنے کی ضرورت کیوں ہوتی تھی؟‏ بزرگوں کی ذمےداری تھی کہ وہ بنی‌اِسرائیل کو پاک رکھیں اور غیراِرادی قتل کرنے والے شخص کی مدد کریں تاکہ وہ اُس بندوبست سے فائدہ حاصل کر سکے جو یہوواہ نے رحم کی بدولت کِیا تھا۔‏ بائبل کے ایک عالم نے لکھا کہ اگر وہ مفرور شخص بزرگوں کے پاس نہ جاتا تو وہ مارا جا سکتا تھا۔‏ اُس نے یہ بھی لکھا کہ ایسی صورت میں وہ اپنی موت کا ذمےدار خود ہوتا کیونکہ اُس نے خدا کے حکم پر عمل نہیں کِیا تھا۔‏ غیراِرادی قتل کرنے والے شخص کے لیے مدد تو دستیاب تھی لیکن اِس مدد کو حاصل کرنے کے لیے اُسے خود کوشش کرنی ہوتی تھی۔‏ اگر وہ پناہ کے کسی شہر میں نہ جاتا تو جس شخص کو اُس نے قتل کِیا ہوتا تھا،‏ اُس کا سب سے قریبی رشتےدار اُسے مارنے کا حق رکھتا تھا۔‏

8،‏ 9.‏ جس مسیحی سے سنگین گُناہ ہو جاتا ہے،‏ اُسے بزرگوں سے بات کیوں کرنی چاہیے؟‏

8 آج بھی جس مسیحی سے سنگین گُناہ ہو جاتا ہے،‏ اُسے یہوواہ کے ساتھ دوستی بحال کرنے کے لیے بزرگوں کے پاس جانا چاہیے تاکہ وہ اُس کی مدد کریں۔‏ لیکن بزرگوں کے پاس جانا ضروری کیوں ہے؟‏ اِس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ یہوواہ نے بزرگوں کو مقرر کِیا ہے تاکہ وہ ایسے معاملات پر فیصلہ کریں جن میں کوئی مسیحی سنگین گُناہ کرتا ہے۔‏ (‏یعقوب 5:‏14-‏16‏)‏ دوسری وجہ یہ ہے کہ جو مسیحی دل سے توبہ کرتے ہیں،‏ بزرگ اُن کی مدد کر سکتے ہیں تاکہ وہ پھر سے خدا کی خوشنودی حاصل کر سکیں اور دوبارہ گُناہ کرنے سے بچ سکیں۔‏ (‏گلتیوں 6:‏1؛‏ عبرانیوں 12:‏11‏)‏ تیسری وجہ یہ ہے کہ بزرگوں کو تربیت دی جاتی ہے کہ وہ توبہ کرنے والوں کی حوصلہ‌افزائی کریں اور احساسِ‌شرمندگی اور تکلیف سے نکلنے میں اُن کی مدد کریں۔‏ یہوواہ نے اپنے کلام میں کہا ہے کہ ایسے بزرگ ”‏آندھی سے پناہ‌گاہ کی مانند“‏ ہیں۔‏ (‏یسعیاہ 32:‏1،‏ 2‏)‏ بِلاشُبہ ایسے شفیق بزرگوں کو مقرر کرنے سے یہوواہ ہم پر رحم کی خوبی ظاہر کرتا ہے۔‏

9 خدا کے بہت سے بندوں نے دیکھا ہے کہ بزرگوں سے بات کرنے اور اُن سے مدد لینے سے وہ شرمندگی کے بوجھ سے نکل پائے ہیں۔‏ ذرا اِس سلسلے میں ڈینئل نامی بھائی کی مثال پر غور کریں۔‏ اُنہوں نے ایک سنگین گُناہ کِیا اور کافی مہینوں تک بزرگوں کو اِس بارے میں نہیں بتایا۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏مَیں نے سوچا کہ اِتنا وقت گزرنے کے بعد اب بزرگ میری کوئی مدد نہیں کر سکتے۔‏“‏ مگر اُنہیں یہ ڈر بھی تھا کہ کسی کو اُن کے گُناہ کے بارے میں پتہ چل جائے گا۔‏ اُنہیں لگتا تھا کہ اُنہیں ہمیشہ دُعا کے شروع میں یہوواہ سے معافی مانگنی چاہیے۔‏ لیکن آخرکار وہ بزرگوں کے پاس گئے اور اُن سے مدد مانگی۔‏ اُنہوں نے بتایا:‏ ”‏سچ ہے کہ مَیں بزرگوں سے بات کرنے سے ڈرتا تھا۔‏ لیکن جب مَیں نے ایسا کِیا تو مجھے یوں لگا جیسے میرے سر سے ایک بھاری بوجھ اُتر گیا ہو۔‏“‏ اب ڈینئل دوبارہ سے کُھل کر یہوواہ سے بات کر سکتے تھے اور اُن کا ضمیر بھی صاف ہو گیا تھا۔‏ حال ہی میں اُنہیں کلیسیا میں خادم مقرر کِیا گیا ہے۔‏

‏”‏وہ اُن شہروں میں سے کسی میں بھاگ جائے“‏

10.‏ غیراِرادی قتل کرنے والے شخص کو معافی حاصل کرنے کے لیے کیا کرنا ہوتا تھا؟‏

10 غیراِرادی قتل کرنے والے شخص کو معافی حاصل کرنے کے لیے فوراً سب سے قریبی پناہ کے شہر میں بھاگ جانا ہوتا تھا۔‏ ‏(‏یشوع 20:‏4 کو پڑھیں۔‏)‏ اُس کی زندگی کا اِنحصار اِس بات پر تھا کہ وہ پناہ کے شہر میں بھاگ جائے اور کاہنِ‌اعظم کی موت تک وہاں رہے۔‏ ایسا کرنے سے مفرور شخص بڑی قربانی دیتا تھا کیونکہ اُسے اپنا کام اور گھربار چھوڑ کر جانا ہوتا تھا اور وہ کُھلے عام سفر بھی نہیں کر سکتا تھا۔‏ * (‏گنتی 35:‏25‏)‏ لیکن اِس قربانی کا اُسے بہت فائدہ ہوتا تھا۔‏ اگر وہ پناہ کے شہر سے نکل آتا تو اِس سے ظاہر ہوتا کہ اُسے اِس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ اُس نے ایک معصوم شخص کو قتل کِیا ہے اور وہ اپنی جان بھی خطرے میں ڈالتا۔‏

11.‏ توبہ کرنے والا مسیحی یہ کیسے ظاہر کر سکتا ہے کہ وہ خدا کے رحم کے لیے اُس کا شکرگزار ہے؟‏

11 آج بھی جب ایک شخص اپنے گُناہوں پر توبہ کرتا ہے تو اُسے خدا سے معافی حاصل کرنے کے لیے کچھ قدم اُٹھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ اُسے اپنی بُری روِش کو چھوڑنے کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ اِس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ ہر ایسی چیز سے دُور رہے جو اُسے سنگین گُناہ کی طرف لے جا سکتی ہے۔‏ پولُس رسول نے بتایا کہ کُرنتھس کے مسیحیوں نے توبہ کرنے کے بعد کیا کِیا۔‏ پولُس نے لکھا:‏ ”‏جب آپ نے ایسا دُکھ محسوس کِیا جو خدا کو پسند ہے تو اِس کے نتیجے میں آپ میں بڑا جوش پیدا ہوا،‏ آپ کو دھچکا لگا،‏ آپ نے اپنی بدنامی کو دُور کِیا،‏ آپ نے خدا کا خوف کِیا اور آپ نے بڑے شوق اور جذبے سے غلطی کو درست کِیا۔‏“‏ (‏2-‏کُرنتھیوں 7:‏10،‏ 11‏)‏ لہٰذا اگر ہم بھی گُناہ سے دُور رہنے کی پوری کوشش کرتے ہیں تو ہم یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہمیں اپنے گُناہ کا احساس ہے اور ہم یہ نہیں سوچتے کہ خدا ہمارے کچھ کیے بغیر ہی ہم پر رحم کر دے گا۔‏

12.‏ اگر ایک مسیحی چاہتا ہے کہ خدا اُس پر رحم کرتا رہے تو اُسے کن کاموں کو چھوڑنے کی ضرورت ہے؟‏

12 اگر ایک مسیحی چاہتا ہے کہ خدا اُس پر رحم کرتا رہے تو اُسے کن کاموں کو چھوڑنے کی ضرورت ہے؟‏ اُسے ایسے کاموں اور چیزوں کو چھوڑنے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے جو اُسے اچھی لگتی ہیں لیکن جن کی وجہ سے وہ گُناہ میں پڑ سکتا ہے۔‏ (‏متی 18:‏8،‏ 9‏)‏ مثال کے طور پر اگر آپ کے دوست ایسے کام کرتے ہیں جو خدا کو پسند نہیں ہیں تو کیا آپ اُن کے ساتھ میل جول رکھنا چھوڑیں گے؟‏ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ شراب پینے کے سلسلے میں خود پر قابو نہیں رکھ پاتے تو کیا آپ ہر ایسی صورتحال سے بچیں گے جس میں آپ حد سے زیادہ شراب پینے کی آزمائش میں پڑ سکتے ہیں؟‏ اگر آپ کو جنسی خواہشات پر قابو پانا مشکل لگتا ہے تو کیا آپ ایسی فلموں،‏ ویب‌سائٹس اور کاموں سے دُور رہیں گے جن کی وجہ سے آپ کے ذہن میں گندے خیالات پیدا ہو سکتے ہیں؟‏ یاد رکھیں کہ ہم یہوواہ کے حکموں پر عمل کرنے کے لیے جو بھی قربانی دیتے ہیں،‏ اُس کا بڑا فائدہ ہوتا ہے۔‏ بِلاشُبہ اِس احساس سے بُرا اَور کوئی احساس نہیں کہ یہوواہ نے ہمیں چھوڑ دیا ہے۔‏ اور اِس احساس سے اچھا اَور کوئی احساس نہیں کہ ہم پر یہوواہ کی ”‏ابدی شفقت“‏ کا سایہ ہے۔‏—‏یسعیاہ 54:‏7،‏ 8‏۔‏

‏’‏وہ تمہاری پناہ ٹھہریں‘‏

13.‏ ایک مفرور شخص پناہ کے شہر میں محفوظ اور خوش‌گوار زندگی کیوں گزار سکتا تھا؟‏

13 جب مفرور شخص پناہ کے کسی شہر میں چلا جاتا تھا تو وہ محفوظ ہوتا تھا۔‏ اِن شہروں کے بارے میں یہوواہ خدا نے کہا کہ یہ ”‏تمہاری پناہ ٹھہریں۔‏“‏ ‏(‏یشوع 20:‏2،‏ 3‏)‏ یہوواہ نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا تھا کہ مفرور شخص پر دوبارہ مُقدمہ چلایا جائے۔‏ اِس کے علاوہ خون کا اِنتقام لینے والے کو بھی یہ اِجازت نہیں تھی کہ وہ پناہ کے شہر میں داخل ہو کر مفرور شخص کو قتل کرے۔‏ جب مفرور شخص پناہ کے شہر میں ہوتا تھا تو وہ یہوواہ کے سایے میں محفوظ ہوتا تھا۔‏ وہ قید میں نہیں ہوتا تھا۔‏ وہ کام کر سکتا تھا،‏ دوسروں کی مدد کر سکتا تھا اور سکون سے یہوواہ کی عبادت کر سکتا تھا۔‏ بےشک وہ خوش‌گوار اور اِطمینان‌بخش زندگی گزار سکتا تھا۔‏

آپ یہ ایمان رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ آپ کے گُناہ معاف کرتا ہے۔‏ (‏پیراگراف 14-‏16 کو دیکھیں۔‏)‏

14.‏ اپنے گُناہ سے توبہ کرنے والے مسیحی کس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں؟‏

14 خدا کے کچھ بندے اپنے کسی سنگین گُناہ پر توبہ کرنے کے بعد بھی شرمندگی کے احساس میں مبتلا رہتے ہیں۔‏ کچھ تو یہ بھی سوچتے ہیں کہ یہوواہ اُن کے گُناہ کو کبھی نہیں بھولے گا۔‏ اگر آپ بھی ایسا ہی محسوس کرتے ہیں تو یقین مانیں کہ جب یہوواہ کسی کو معاف کرتا ہے تو مکمل طور پر معاف کرتا ہے۔‏ خدا کی معافی حاصل کرنے کے بعد آپ کو شرمندگی کے احساس میں ڈوبے رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔‏ ڈینئل جن کا پہلے ذکر کِیا گیا ہے،‏ اُنہوں نے دیکھا کہ یہ بات واقعی سچ ہے۔‏ جب بزرگوں نے اُن کی اِصلاح کی اور دوبارہ سے صاف ضمیر حاصل کرنے میں اُن کی مدد کی،‏ تو اُنہیں بہت سکون ملا۔‏ اُنہوں نے بتایا:‏ ”‏اب مَیں شرمندگی کے احساس سے نکل آیا ہوں۔‏ جب یہوواہ ہمیں معاف کر دیتا ہے تو گُناہ کا احساس ہمیں بار بار نہیں ستاتا۔‏ یہوواہ خدا اپنے وعدے کے مطابق ہمارا بوجھ اُٹھا لیتا ہے اور اِسے دُور پھینک دیتا ہے۔‏ پھر ہمیں دوبارہ کبھی اِس بوجھ تلے دبنا نہیں پڑتا۔‏“‏ پناہ کے شہر میں داخل ہونے کے بعد مفرور شخص کو اِس بات کا ڈر نہیں ہوتا تھا کہ خون کا اِنتقام لینے والا شہر میں آ کر اُسے مار دے گا۔‏ اِسی طرح یہوواہ سے اپنے گُناہوں کی معافی حاصل کرنے کے بعد ہمیں بھی اِس بات کا ڈر نہیں ہونا چاہیے کہ وہ ہمیں ہمارے گُناہ یاد دِلائے گا یا ہمیں اِن کی سزا دے گا۔‏‏—‏زبور 103:‏8-‏12 کو پڑھیں۔‏

15،‏ 16.‏ یہ جان کر کہ یسوع نے ہمارے لیے فدیہ ادا کِیا اور وہ ہمارے کاہنِ‌اعظم ہیں،‏ اِس بات پر آپ کا ایمان کیوں مضبوط ہوتا ہے کہ خدا ہم پر رحم کرتا ہے؟‏

15 بنی‌اِسرائیل کے مقابلے میں ہمارے پاس اِس بات پر ایمان رکھنے کی زیادہ ٹھوس وجہ ہے کہ یہوواہ ہم پر رحم کرتا ہے۔‏ جب پولُس نے کہا کہ وہ خود کو بےبس محسوس کر رہے تھے کیونکہ وہ خدا کے حکموں پر پوری طرح عمل نہیں کر پا رہے تھے تو اِس کے بعد اُنہوں نے لکھا:‏ ”‏مَیں خدا کا شکر کرتا ہوں جس نے ہمارے مالک یسوع مسیح کے ذریعے مجھے بچایا ہے!‏“‏ (‏رومیوں 7:‏25‏)‏ پولُس کی اِس بات کا کیا مطلب تھا؟‏ اگرچہ پولُس بُری خواہشوں سے لڑ رہے تھے اور ماضی میں گُناہ کر چُکے تھے لیکن اُنہوں نے توبہ کر لی تھی۔‏ اُنہیں یقین تھا کہ یہوواہ خدا نے یسوع مسیح کی قربانی کی بِنا پر اُن کے گُناہ معاف کر دیے ہیں۔‏ چونکہ یسوع مسیح نے ہمارے لیے اپنی جان کا فدیہ دیا ہے اِس لیے ہم صاف ضمیر اور دلی اِطمینان حاصل کر سکتے ہیں۔‏ (‏عبرانیوں 9:‏13،‏ 14‏)‏ ہمارے کاہنِ‌اعظم کے طور پر یسوع مسیح ”‏اُن لوگوں کو مکمل نجات دِلا سکتے ہیں جو اُن کے ذریعے خدا سے دُعا کرتے ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ زندہ ہیں اور ہمیشہ اِن لوگوں کے لیے اِلتجائیں کر سکتے ہیں۔‏“‏ (‏عبرانیوں 7:‏24،‏ 25‏)‏ قدیم زمانے میں کاہنِ‌اعظم بنی‌اِسرائیل کو یہ یقین دِلاتا تھا کہ یہوواہ نے اُن کے گُناہ معاف کر دیے ہیں۔‏ چونکہ ہمارے کاہنِ‌اعظم یسوع مسیح ہیں اِس لیے ہم اِس بات پر اَور مضبوط ایمان رکھ سکتے ہیں کہ ’‏ہم پر رحم کِیا جائے گا اور ہمیں ضرورت کے وقت رحمت عطا کی جائے گی۔‏‘‏—‏عبرانیوں 4:‏15،‏ 16‏۔‏

16 یہوواہ میں پناہ لینے کے لیے ہمیں یسوع مسیح کی قربانی پر ایمان لانے کی ضرورت ہے۔‏ یہ نہ سوچیں کہ فدیے سے صرف لوگوں کو مجموعی طور پر فائدہ ہوتا ہے۔‏ اِس بات پر یقین رکھیں کہ فدیے سے آپ کو ذاتی طور پر فائدہ ہوتا ہے۔‏ (‏گلتیوں 2:‏20،‏ 21‏)‏ یہ ایمان رکھیں کہ فدیے کی بدولت یہوواہ خدا آپ کے گُناہ معاف کرتا ہے اور اِس کے ذریعے آپ کو ہمیشہ کی زندگی کی اُمید ملتی ہے۔‏ فدیہ آپ کے لیے یہوواہ کا تحفہ ہے۔‏

17.‏ آپ یہوواہ میں پناہ کیوں لینا چاہتے ہیں؟‏

17 پناہ کے شہروں کے بندوبست پر غور کرنے سے ہم یہ سمجھ پاتے ہیں کہ یہوواہ کتنا رحیم ہے۔‏ اِس بندوبست سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ زندگی مُقدس ہے۔‏ اِس کے علاوہ ہم اِس سے یہ بھی سیکھتے ہیں کہ بزرگ ہماری مدد کیسے کر سکتے ہیں؛‏ دل سے توبہ کرنے میں کیا کچھ شامل ہے اور ہم اِس بات پر پورا اِعتماد کیوں رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ ہمیں معاف کرتا ہے۔‏ کیا آپ نے یہوواہ میں پناہ لی ہوئی ہے؟‏ جتنے محفوظ آپ یہوواہ کی پناہ میں ہو سکتے ہیں اُتنے کہیں اَور نہیں ہو سکتے۔‏ (‏زبور 91:‏1،‏ 2‏)‏ اگلے مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ پناہ کے شہروں کے بندوبست پر غور کرنے سے ہم خدا کی مثال پر کیسے عمل کر پاتے ہیں جو اِنصاف‌پسندی اور رحم کی سب سے اعلیٰ مثال ہے۔‏

^ پیراگراف 2 زبور 34:‏22 ‏(‏نیو اُردو بائبل ورشن)‏:‏ ‏”‏[‏یہوواہ]‏ اپنے خادموں کی جانوں کا فدیہ دیتا ہے؛‏ اور جو کوئی اُس میں پناہ لے وہ مُجرم نہ ٹھہرے گا۔‏“‏

^ پیراگراف 10 یہودی عالموں کے مطابق مفرور شخص کے گھر والے اُس کے ساتھ رہنے کے لیے پناہ کے شہر میں چلے جاتے تھے۔‏