مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ کی طرح اِنصاف‌پسند اور رحم‌دل بنیں

یہوواہ کی طرح اِنصاف‌پسند اور رحم‌دل بنیں

‏”‏ربُ‌الافواج نے کلام کر کے یوں فرمایا تھا۔‏ عدل سے اِنصاف کرو اور ایک دوسرے پر رحم و کرم کرو۔‏“‏‏—‏زکریاہ 7:‏9‏،‏ کیتھولک ترجمہ۔‏

گیت:‏ 21،‏  11

1،‏ 2.‏ ‏(‏الف)‏ یسوع مسیح خدا کی شریعت کے بارے میں کیسا محسوس کرتے تھے؟‏ (‏ب)‏ شریعت کے عالم اور فریسی شریعت کو کیسے توڑمروڑ کر پیش کر رہے تھے؟‏

یسوع مسیح کو شریعت سے محبت تھی۔‏ یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کیونکہ شریعت اُن کے باپ یہوواہ کی طرف سے تھی جو اُن کی زندگی میں سب سے اہم ہے۔‏ زبور 40:‏8 میں درج پیش‌گوئی میں بتایا گیا کہ یسوع مسیح خدا کی شریعت سے کتنی محبت رکھیں گے۔‏ اِس میں لکھا ہے:‏ ”‏اَے میرے خدا!‏ میری خوشی تیری مرضی پوری کرنے میں ہے بلکہ تیری شریعت میرے دل میں ہے۔‏“‏ یسوع نے اپنی باتوں اور کاموں سے ظاہر کِیا کہ شریعت کامل اور فائدہ‌مند تھی اور اِس میں لکھی باتیں ضرور پوری ہوں گی۔‏—‏متی 5:‏17-‏19‏۔‏

2 یسوع مسیح کو یہ دیکھ کر بہت دُکھ ہوا ہوگا کہ شریعت کے عالم اور فریسی شریعت کو توڑمروڑ کو پیش کر رہے تھے۔‏ اِس وجہ سے لوگوں کو یہ تاثر مل رہا تھا کہ شریعت پر عمل کرنا بہت مشکل ہے۔‏ یسوع مسیح نے اُن سے کہا:‏ ”‏تُم پودینے،‏ اجوائن اور زیرے کا دسواں حصہ .‏ .‏ .‏ دیتے ہو۔‏“‏ اِس کا مطلب تھا کہ وہ شریعت میں درج قوانین کی چھوٹی سے چھوٹی تفصیل پر بھی سختی سے عمل کرتے تھے۔‏ تو پھر اُن میں کیا خامی تھی؟‏ یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏لیکن [‏تُم]‏ شریعت کے اہم معاملوں یعنی اِنصاف،‏ رحم اور ایمان کو نظرانداز کرتے ہو۔‏“‏ (‏متی 23:‏23‏)‏ فریسی جو کہ خود کو بڑا نیک سمجھتے تھے،‏ وہ یہ نہیں دیکھتے تھے کہ شریعت کے قوانین کے پیچھے کون سے اصول ہیں۔‏ لیکن یسوع مسیح یہ جانتے تھے کہ شریعت کا کیا مقصد ہے اور اِس کے ہر قانون سے یہوواہ خدا کے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے۔‏

3.‏ اِس مضمون میں ہم کیا سیکھیں گے؟‏

3 مسیحیوں کے طور پر ہم موسیٰ کی شریعت کے پابند نہیں ہیں۔‏ (‏رومیوں 7:‏6‏)‏ تو پھر یہوواہ نے اپنے کلام بائبل میں شریعت کو کیوں شامل کِیا ہے؟‏ وہ چاہتا ہے کہ ہم شریعت کے ”‏اہم معاملوں“‏ یعنی اِس کے پیچھے موجود اصولوں کو سمجھیں۔‏ مثال کے طور پر ہم پناہ کے شہروں کے بندوبست سے کون سے اصول سیکھتے ہیں؟‏ پچھلے مضمون میں ہم نے دیکھا تھا کہ قتل کر کے بھاگے ہوئے یعنی مفرور شخص کو جو کام کرنے ہوتے تھے،‏ اُن سے ہم کیا سیکھتے ہیں۔‏ اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ پناہ کے شہروں کے بندوبست سے ہم یہوواہ خدا کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں اور ہم اُس جیسی خوبیاں کیسے ظاہر کر سکتے ہیں۔‏ ہم اِن تین سوالوں پر غور کریں گے:‏ پناہ کے شہروں کے بندوبست سے کیسے پتہ چلتا ہے کہ یہوواہ خدا رحیم ہے؟‏ اِس بندوبست سے ہم زندگی کے بارے میں خدا کے نظریے کے متعلق کیا سیکھتے ہیں؟‏ اور اِس سے کیسے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ حقیقی اِنصاف کا سرچشمہ ہے؟‏ ہر سوال پر غور کرتے وقت یہ سوچیں کہ آپ اپنے آسمانی باپ یہوواہ کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں۔‏‏—‏اِفسیوں 5:‏1 کو پڑھیں۔‏

یہوواہ کی طرح رحم‌دل بنیں

4،‏ 5.‏ ‏(‏الف)‏ مفرور شخص کے لیے کون سے اِنتظام کیے گئے تھے تاکہ وہ آسانی سے پناہ کے شہر میں پہنچ سکے؟‏ (‏ب)‏ یہ اِنتظام کیوں کیے گئے تھے؟‏ (‏ج)‏ اِن اِنتظامات سے ہمیں یہوواہ خدا کے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے؟‏

4 اِسرائیل میں ایسی جگہوں کو پناہ کے شہروں کے طور پر مخصوص کِیا گیا جہاں آسانی سے جایا جا سکتا تھا۔‏ یہوواہ نے بنی‌اِسرائیل سے کہا کہ وہ دریائےیردن کے آر پار تین تین شہر چُنیں۔‏ لیکن کیوں؟‏ تاکہ مفرور شخص جلدی اور آسانی سے اِن شہروں میں سے کسی ایک میں جا سکے۔‏ (‏گنتی 35:‏11-‏14‏)‏ اِن شہروں تک جانے والے راستے بھی اچھی حالت میں رکھے جاتے تھے۔‏ (‏اِستثنا 19:‏3‏)‏ یہودی روایت کے مطابق اِن راستوں پر ایسے نشان لگے ہوتے تھے جن کی مدد سے مفرور شخص آسانی سے پناہ کے شہر میں پہنچ سکتا تھا۔‏ چونکہ اِسرائیل میں پناہ کے شہر موجود تھے اِس لیے غیراِرادی قتل کرنے والے شخص کو کسی غیرملک میں پناہ نہیں لینی پڑتی تھی جہاں وہ جھوٹے معبودوں کی پرستش کرنے کی آزمائش میں پڑ سکتا تھا۔‏

5 ذرا سوچیں کہ یہوواہ نے اُس شخص کو مارنے کا حکم دیا تھا جو کسی کا قتل کر دیتا تھا۔‏ لیکن اُس نے اِس بات کا بھی خیال رکھا کہ جو شخص حادثاً کسی کا قتل کر دے،‏ اُس کے لیے رحم اور ہمدردی ظاہر کی جائے اور اُس کی حفاظت کا بندوبست کِیا جائے۔‏ بائبل کے ایک عالم کے مطابق مفرور شخص کی سہولت کے لیے ”‏سب کچھ آسان سے آسان تر بنایا گیا۔‏“‏ یہوواہ بےرحم منصف نہیں ہے جو اپنے بندوں کو سزا دینے کے موقعے ڈھونڈتا ہے۔‏ وہ تو ”‏بڑا رحیم“‏ خدا ہے۔‏—‏اِفسیوں 2:‏4‏۔‏

6.‏ کیا فریسی یہوواہ کی طرح رحم‌دل تھے؟‏ وضاحت کریں۔‏

6 فریسی دوسروں پر رحم نہیں کرتے تھے۔‏ مثال کے طور پر یہودی روایت کے مطابق فریسی ایسے شخص کو معاف نہیں کِیا کرتے تھے جو تین سے زیادہ بار ایک ہی غلطی کرتا تھا۔‏ یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ فریسیوں کا رویہ کتنا بُرا تھا،‏ یسوع مسیح نے فریسی اور ٹیکس وصول کرنے والے کی مثال دی جو خدا سے دُعا کر رہے ہوتے ہیں۔‏ فریسی خدا سے کہتا ہے:‏ ”‏اَے خدا،‏ مَیں تیرا شکر کرتا ہوں کہ مَیں دوسروں کی طرح لُٹیرا،‏ بُرا اور زِناکار نہیں ہوں اور اِس ٹیکس وصول کرنے والے کی طرح بھی نہیں ہوں۔‏“‏ یسوع مسیح اِس مثال سے کیا بتانا چاہتے تھے؟‏ وہ یہ بتانا چاہتے تھے کہ فریسی ”‏دوسروں کو ناچیز خیال“‏ کرتے تھے اِس لیے وہ اُن کے ساتھ رحم سے پیش نہیں آتے تھے۔‏—‏لُوقا 18:‏9-‏14‏۔‏

کیا آپ کی شخصیت ایسی ہے کہ لوگ آپ سے آسانی سے معافی مانگ سکیں؟‏ خاکسار بنیں تاکہ لوگ بِلاجھجک آپ سے بات کر سکیں۔‏ (‏پیراگراف 4-‏8 کو دیکھیں۔‏)‏

7،‏ 8.‏ ‏(‏الف)‏ آپ رحم‌دلی کا مظاہرہ کرنے کے سلسلے میں یہوواہ خدا کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ ہمیں دوسروں کو معاف کرنے کے لیے خود میں خاکساری کی خوبی کیوں پیدا کرنی چاہیے؟‏

7 ہمیں یہوواہ خدا کی مثال پر عمل کرنا چاہیے نہ کہ فریسیوں کی۔‏ لہٰذا دوسروں کے ساتھ رحم اور ہمدردی سے پیش آئیں۔‏ ‏(‏کُلسّیوں 3:‏13 کو پڑھیں۔‏)‏ جس طرح یہوواہ نے مفرور شخص کے لیے ایسے اِنتظام کیے کہ وہ آسانی سے پناہ کے شہر میں پہنچ سکے اُسی طرح آپ بھی اپنی شخصیت کو ایسا بنائیں کہ دوسرے آپ سے آسانی سے معافی مانگ سکیں۔‏ (‏لُوقا 17:‏3،‏ 4‏)‏ خود سے پوچھیں:‏ ”‏کیا مَیں دوسروں کو جلدی اور آسانی سے معاف کر دیتا ہوں؟‏ کیا مَیں تب بھی ایسا کرتا ہوں جب دوسرے مجھے بار بار ٹھیس پہنچاتے ہیں؟‏ اگر کسی شخص نے میرا دل دُکھایا ہے تو کیا مَیں اُس کے ساتھ صلح کرنے کی دلی خواہش رکھتا ہوں؟‏“‏

8 دوسروں کو معاف کرنے کے لیے ہمیں خود میں خاکساری کی خوبی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔‏ فریسی خود کو باقی سب لوگوں سے بڑا سمجھتے تھے اور اُنہیں اپنی معافی کے قابل خیال نہیں کرتے تھے۔‏ لیکن مسیحیوں کے طور پر ہم خاکساری سے کام لیتے ہوئے ”‏دوسروں کو اپنے سے بڑا“‏ سمجھتے ہیں اور اِس لیے ہم اُنہیں دل سے معاف کرنا چاہتے ہیں۔‏ (‏فِلپّیوں 2:‏3‏)‏ ہم خود سے پوچھ سکتے ہیں:‏ ”‏کیا مَیں یہوواہ خدا کی مثال پر عمل کرتا ہوں اور خاکساری ظاہر کرتا ہوں؟‏“‏ اگر ہم خاکسار ہیں تو دوسروں کے لیے ہم سے معافی مانگنا آسان ہوگا اور ہمارے لیے اُنہیں معاف کرنا آسان ہوگا۔‏ لہٰذا خفا ہونے میں جلدی نہ کریں بلکہ رحم‌دلی کا مظاہرہ کرنے کے لیے تیار رہیں۔‏—‏واعظ 7:‏8،‏ 9‏۔‏

زندگی کی قدر کریں اور خون کے جُرم سے بچیں

9.‏ یہوواہ خدا نے بنی‌اِسرائیل کو یہ بات کیسے سمجھائی کہ زندگی مُقدس ہے؟‏

9 پناہ کے شہروں کا بندوبست کرنے کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ بنی‌اِسرائیل کو بےگُناہ کے خون کے جُرم سے بچایا جا سکے۔‏ (‏اِستثنا 19:‏10‏)‏ یہوواہ خدا کو زندگی سے محبت ہے لیکن ”‏بےگُناہ کا خون بہانے والے ہاتھ“‏ سے نفرت ہے۔‏ (‏امثال 6:‏16،‏ 17‏)‏ چونکہ وہ اِنصاف‌پسند اور مُقدس ہے اِس لیے وہ اِس بات کو بھی نظرانداز نہیں کر سکتا کہ کوئی شخص حادثاً قتل ہو جائے۔‏ یہ سچ ہے کہ جس شخص سے حادثاً کسی کا قتل ہو جاتا تھا،‏ اُس پر رحم کِیا جا سکتا تھا۔‏ لیکن اُس شخص کو پہلے اِس معاملے کے بارے میں بزرگوں کو ساری تفصیل بتانی ہوتی تھی۔‏ اگر بزرگ یہ فیصلہ کرتے کہ موت حادثے کی صورت میں ہوئی تھی تو مفرور شخص کو کاہنِ‌اعظم کی موت تک پناہ کے شہر میں رہنا ہوتا تھا۔‏ اِس کا مطلب ہے کہ مفرور شخص کو اپنی باقی ساری زندگی بھی پناہ کے شہر میں گزارنی پڑ سکتی تھی۔‏ پناہ کے شہروں کے بندوبست سے تمام اِسرائیلیوں پر یہ بات واضح ہو گئی کہ زندگی مُقدس ہے۔‏ لہٰذا اُنہیں ہر ممکن کوشش کرنی تھی کہ اُن کی وجہ سے کسی کی جان خطرے میں نہ پڑ جائے۔‏ یوں وہ زندگی کے سرچشمے یعنی یہوواہ خدا کے لیے احترام دِکھا سکتے تھے۔‏

10.‏ یسوع مسیح کے مطابق شریعت کے عالموں اور فریسیوں نے یہ کیسے ظاہر کِیا کہ اُن کی نظر میں دوسروں کی زندگی کی کوئی قدر نہیں ہے؟‏

10 یہوواہ خدا کے برعکس شریعت کے عالموں اور فریسیوں کی نظر میں دوسروں کی زندگی کی کوئی قدر نہیں تھی۔‏ یسوع مسیح نے اُن سے کہا:‏ ”‏تُم نے علم کے دروازے کی چابی چھین لی ہے۔‏ تُم خود بھی اندر نہیں جاتے اور اُن لوگوں کی راہ میں بھی رُکاوٹ ڈالتے ہو جو اندر جانا چاہتے ہیں۔‏“‏ (‏لُوقا 11:‏52‏)‏ یسوع مسیح کی اِس بات کا کیا مطلب تھا؟‏ شریعت کے عالموں اور فریسیوں کا فرض تھا کہ وہ لوگوں کو خدا کا کلام سمجھائیں اور ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے میں اُن کی مدد کریں۔‏ لیکن ایسا کرنے کی بجائے اُنہوں نے لوگوں کو یسوع مسیح کی پیروی سے روکنے کی کوشش کی جو ”‏زندگی کے عظیم پیشوا“‏ ہیں۔‏ (‏اعمال 3:‏15‏)‏ یوں وہ لوگوں کو تباہی کی طرف لے جا رہے تھے۔‏ شریعت کے عالم اور فریسی مغرور اور خودغرض تھے اور اُنہیں لوگوں کی زندگیوں کی کوئی فکر نہیں تھی۔‏ وہ واقعی ظالم اور بےرحم تھے۔‏

11.‏ ‏(‏الف)‏ پولُس رسول نے یہ کیسے ظاہر کِیا کہ وہ زندگی کو ویسا ہی خیال کرتے ہیں جیسا یہوواہ کرتا ہے؟‏ (‏ب)‏ پولُس کی طرح جوش کے ساتھ مُنادی کرنے میں کون سی چیز ہماری مدد کرے گی؟‏

11 ہم یہوواہ خدا کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں اور شریعت کے عالموں اور فریسیوں کی طرح بننے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏ ہمیں زندگی کی قدر کرنی چاہیے اور اِسے بیش‌قیمت خیال کرنا چاہیے۔‏ پولُس رسول نے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بادشاہت کی خوش‌خبری سنانے سے یہ ظاہر کِیا کہ وہ زندگی کی قدر کرتے ہیں۔‏ اِسی لیے وہ کہہ سکتے تھے:‏ ”‏مَیں تمام اِنسانوں کے خون سے بَری ہوں۔‏“‏ ‏(‏اعمال 20:‏26،‏ 27 کو پڑھیں۔‏)‏ کیا پولُس صرف اِس لیے مُنادی کرتے تھے کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اُن کا ضمیر اُنہیں ملامت کرے یا کیا وہ صرف اِس لیے ایسا کر رہے تھے کیونکہ یہوواہ نے اُنہیں حکم دیا تھا؟‏ جی نہیں۔‏ پولُس کو لوگوں سے محبت تھی۔‏ وہ اُن کی زندگی کو بیش‌قیمت خیال کرتے تھے۔‏ (‏1-‏کُرنتھیوں 9:‏19-‏23‏)‏ ہمیں بھی زندگی کو ویسا ہی خیال کرنا چاہیے جیسا یہوواہ کرتا ہے۔‏ وہ چاہتا ہے کہ سب لوگ توبہ کریں اور ہمیشہ کی زندگی حاصل کریں۔‏ (‏2-‏پطرس 3:‏9‏)‏ یہوواہ خدا کی طرح کیا آپ بھی ایسا چاہتے ہیں؟‏ اگر ہم میں رحم کی خوبی ہے تو ہم جوش کے ساتھ مُنادی کریں گے اور ہمیں اِس کام سے خوشی بھی ملے گی۔‏

12.‏ خدا کے بندوں کو حفاظتی تدابیر کا خیال کیوں رکھنا چاہیے؟‏

12 اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم زندگی کے بارے میں ویسا ہی نظریہ رکھیں جیسا یہوواہ رکھتا ہے تو ہمیں حفاظتی تدابیر کا خیال رکھنا چاہیے۔‏ ہمیں احتیاط سے گاڑی چلانی چاہیے اور احتیاط سے کام کرنا چاہیے۔‏ ہمیں تب بھی ایسا کرنا چاہیے جب ہم عبادت‌گاہوں کی تعمیر و مرمت کرتے ہیں یا جب ہم عبادت پر جانے کے لیے سفر کرتے ہیں۔‏ ہمیں کبھی بھی پیسے یا وقت بچانے کی خاطر اپنی یا دوسروں کی جان خطرے میں نہیں ڈالنی چاہیے۔‏ یہوواہ خدا ہمیشہ صحیح کام کرتا ہے اور ہم اُس کی مثال پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔‏ خاص طور پر بزرگوں کو اپنی اور دوسروں کی حفاظت کا خیال رکھنا چاہیے۔‏ (‏امثال 22:‏3‏)‏ اگر کوئی بزرگ آپ کو حفاظتی تدابیر کے بارے میں بتاتا ہے تو اُس کی بات کو دھیان سے سنیں۔‏ (‏گلتیوں 6:‏1‏)‏ زندگی کے بارے میں ویسا ہی نظریہ رکھیں جیسا یہوواہ رکھتا ہے۔‏ یوں آپ خون کے جُرم سے بَری رہیں گے۔‏

‏”‏اِن ہی احکام کے موافق فیصلہ“‏ کریں

13،‏ 14.‏ بنی‌اِسرائیل کے بزرگ یہوواہ خدا کی طرح اِنصاف‌پسندی سے کام کیسے لے سکتے تھے؟‏

13 یہوواہ خدا نے بنی‌اِسرائیل کے بزرگوں کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ اُس کی طرح اِنصاف سے کام لیں۔‏ بزرگوں کو پہلے تو تمام حقائق کا جائزہ لینا ہوتا تھا۔‏ پھر اُنہیں قتل کرنے والے کی نیت،‏ رویے اور ماضی کے کاموں کی بِنا پر یہ فیصلہ کرنا ہوتا تھا کہ اُس پر رحم کِیا جانا چاہیے یا نہیں۔‏ بزرگوں کو یہ دیکھنا ہوتا تھا کہ مفرور شخص کہیں قتل ہونے والے شخص سے نفرت تو نہیں کرتا تھا یا کہیں اُس نے اُسے جان بُوجھ کر تو نہیں مارا تھا۔‏ ‏(‏گنتی 35:‏20-‏24 کو پڑھیں۔‏)‏ اگر گواہوں کا بیان لیا جاتا تو کم از کم دو گواہوں کی شہادت پر مفرور شخص کو سزا سنائی جا سکتی تھی۔‏—‏گنتی 35:‏30‏۔‏

14 سارے معاملے کی اچھی طرح جانچ‌پڑتال کرنے کے بعد بزرگوں کو نہ صرف قتل کے واقعے پر بلکہ مفرور شخص کی شخصیت،‏ پس‌منظر اور حالات پر بھی غور کرنا ہوتا تھا۔‏ بزرگوں کو سمجھ‌داری سے کام لینا تھا۔‏ اُنہیں صرف ایسی باتوں پر غور نہیں کرنا تھا جو وہ دیکھ سکتے تھے بلکہ ایسی باتوں کو بھی جاننے کی کوشش کرنی تھی جو اُن کی نظروں سے اوجھل تھیں۔‏ سب سے بڑھ کر اُنہیں یہوواہ سے پاک روح مانگنی تھی تاکہ وہ اُس کی مثال پر عمل کرتے ہوئے سمجھ‌داری،‏ اِنصاف‌پسندی اور رحم کی بِنا پر فیصلہ کر سکیں۔‏—‏خروج 34:‏6،‏ 7‏۔‏

15.‏ گُناہ‌گار لوگوں کے بارے میں یسوع مسیح کا نظریہ فریسیوں کے نظریے سے کیسے فرق تھا؟‏

15 فریسی رحم کی بِنا پر فیصلے نہیں کرتے تھے۔‏ وہ صرف یہ دیکھتے تھے کہ گُناہ کرنے والے شخص نے کون سا گُناہ کِیا ہے۔‏ وہ اُس شخص کے حالات اور شخصیت پر غور نہیں کرتے تھے۔‏ جب کچھ فریسیوں نے یسوع مسیح کو متی کے گھر کھانا کھاتے ہوئے دیکھا تو اُنہوں نے شاگردوں سے کہا:‏ ”‏تمہارا اُستاد ٹیکس وصول کرنے والوں اور گُناہ‌گاروں کے ساتھ کیوں کھانا کھاتا ہے؟‏“‏ یسوع مسیح نے اُنہیں جواب دیا:‏ ”‏تندرست لوگوں کو حکیم کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ بیمار لوگوں کو۔‏ جائیں اور اِس بات کا مطلب سمجھیں کہ ”‏مجھے قربانیوں کی بجائے رحم پسند ہے۔‏“‏ مَیں دین‌داروں کو بلانے نہیں آیا بلکہ گُناہ‌گاروں کو۔‏“‏ (‏متی 9:‏9-‏13‏)‏ کیا یسوع مسیح سنگین گُناہ کرنے والوں کے لیے عُذر پیش کر رہے تھے؟‏ ہرگز نہیں۔‏ وہ چاہتے تھے کہ ایسے لوگ توبہ کریں۔‏ اِس لیے جب یسوع مسیح لوگوں کو بادشاہت کا پیغام سناتے تھے تو وہ اُنہیں توبہ کرنے کی نصیحت بھی کرتے تھے۔‏ (‏متی 4:‏17‏)‏ یسوع مسیح جانتے تھے کہ کچھ ”‏ٹیکس وصول کرنے والے اور گُناہ‌گار“‏ خود کو بدلنا چاہتے ہیں۔‏ وہ لوگ متی کے گھر صرف کھانا کھانے نہیں آئے تھے۔‏ وہ وہاں اِس لیے آئے تھے کیونکہ وہ ”‏یسوع کے پیروکار تھے۔‏“‏ (‏مرقس 2:‏15‏)‏ لیکن افسوس کی بات ہے کہ زیادہ‌تر فریسی،‏ لوگوں کو اُس نظر سے نہیں دیکھتے تھے جس سے یسوع مسیح دیکھتے تھے۔‏ فریسی یہ نہیں مانتے تھے کہ لوگ خود کو بدل سکتے ہیں۔‏ اُنہیں لگتا تھا کہ گُناہ‌گار لوگ کبھی توبہ نہیں کر سکتے۔‏ اُن کی سوچ یہوواہ خدا کی سوچ کے بالکل اُلٹ تھی جو اِنصاف اور رحم کا سرچشمہ ہے۔‏

16.‏ بزرگوں کی عدالتی کمیٹی کو کیا جاننے کی کوشش کرنی چاہیے؟‏

16 آج بزرگوں کو بھی یہوواہ خدا کی مثال پر عمل کرنا چاہیے جو ”‏اِنصاف کو پسند“‏ کرتا ہے۔‏ (‏زبور 37:‏28‏)‏ اُنہیں پہلے تو ”‏خوب تفتیش کر کے پتا لگانا“‏ چاہیے کہ آیا گُناہ ہوا بھی ہے یا نہیں۔‏ اگر گُناہ ہوا ہو تو اُنہیں بائبل کے اصولوں کی بِنا پر یہ طے کرنا چاہیے کہ وہ کیا کریں گے۔‏ (‏اِستثنا 13:‏12-‏14‏)‏ جب بزرگوں کی عدالتی کمیٹی کسی معاملے کی جانچ‌پڑتال کرتی ہے تو اُنہیں بڑی احتیاط سے یہ طے کرنا چاہیے کہ سنگین گُناہ کرنے والے شخص نے توبہ کی ہے یا نہیں۔‏ ایسا کرنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔‏ ایک شخص نے سچے دل سے توبہ کی ہے یا نہیں،‏ اِس کا اندازہ اِس بات سے ہوتا ہے کہ وہ اپنے گُناہ کو کیسا خیال کرتا ہے اور اُس کے دل میں کیا ہے۔‏ (‏مکاشفہ 3:‏3‏)‏ اگر گُناہ کرنے والا شخص یہ چاہتا ہے کہ اُس پر رحم کِیا جائے تو اُسے دل سے توبہ کرنی چاہیے۔‏

17،‏ 18.‏ بزرگ یہ کیسے جان سکتے ہیں کہ ایک شخص نے دل سے توبہ کی ہے یا نہیں؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

17 یہوواہ خدا اور یسوع مسیح ایک شخص کے خیالات اور احساسات سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں کیونکہ وہ دلوں کو پڑھ سکتے ہیں۔‏ لیکن بزرگ دلوں کو نہیں پڑھ سکتے۔‏ لہٰذا اگر آپ ایک بزرگ ہیں تو آپ یہ کیسے جان سکتے ہیں کہ ایک شخص نے دل سے توبہ کی ہے یا نہیں؟‏ سب سے پہلے دُعا میں یہوواہ خدا سے سمجھ‌داری مانگیں۔‏ (‏1-‏سلاطین 3:‏9‏)‏ پھر خدا کے کلام اور وفادار غلام کی مطبوعات کی مدد سے اِس بات کا جائزہ لیں کہ توبہ کرنے والا شخص ”‏دُنیاوی دُکھ“‏ میں مبتلا ہے یا کیا وہ ’‏ایسا دُکھ محسوس کر رہا ہے جو خدا کو پسند ہے‘‏ یعنی کیا اُس کی توبہ حقیقی ہے۔‏ (‏2-‏کُرنتھیوں 7:‏10،‏ 11‏)‏ اِس کے علاوہ بائبل سے اُن لوگوں کی مثالوں پر غور کریں جنہوں نے توبہ کی اور جنہوں نے توبہ نہیں کی اور یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ اُن لوگوں کے احساسات،‏ خیالات اور چال‌چلن کے بارے میں کیا بتایا گیا ہے۔‏

18 اِس کے بعد صرف یہ دیکھنے کی بجائے کہ توبہ کرنے والے شخص نے کون سا گُناہ کِیا ہے،‏ اِس بات پر بھی غور کریں کہ وہ کیسی شخصیت کا مالک ہے۔‏ اُس کے پس‌منظر،‏ اُس کی نیت اور اُس کی صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کریں۔‏ بائبل میں پیش‌گوئی کی گئی تھی کہ کلیسیا کے سر کے طور پر یسوع مسیح ”‏نہ اپنی آنکھوں کے دیکھنے کے مطابق اِنصاف کرے گا اور نہ اپنے کانوں کے سننے کے موافق فیصلہ کرے گا۔‏ بلکہ وہ راستی سے مسکینوں کا اِنصاف کرے گا اور عدل سے زمین کے خاکساروں کا فیصلہ کرے گا۔‏“‏ (‏یسعیاہ 11:‏3،‏ 4‏)‏ بزرگو،‏ اِس بات کو یاد رکھیں کہ یسوع مسیح نے آپ کو اپنی کلیسیا کی دیکھ‌بھال کرنے کے لیے مقرر کِیا ہے اور وہ فیصلہ کرتے وقت اِنصاف اور رحم سے پیش آنے میں آپ کی مدد کریں گے۔‏ (‏متی 18:‏18-‏20‏)‏ ہم خدا کے بہت شکرگزار ہیں کہ اُس نے ایسے بزرگوں کو مقرر کِیا ہے جو ہماری فکر رکھتے ہیں۔‏ یہ بزرگ ہماری بھی مدد کرتے ہیں کہ ہم دوسروں کے ساتھ پیش آتے وقت اِنصاف‌پسندی اور رحم کا مظاہرہ کریں۔‏

19.‏ آپ نے پناہ کے شہروں کے بندوبست سے کون سی باتیں سیکھی ہیں جن پر آپ عمل کرنے کا اِرادہ رکھتے ہیں؟‏

19 موسیٰ کی شریعت میں یہوواہ خدا اور اُس کے اصولوں کے بارے میں ’‏بنیادی تعلیمات اور سچائیاں‘‏ پائی جاتی ہیں۔‏ (‏رومیوں 2:‏20‏)‏ مثال کے طور پر پناہ کے شہروں کے بندوبست سے بزرگ یہ سیکھتے ہیں کہ اُنہیں ”‏عدل سے اِنصاف“‏ کرنا چاہیے اور اِس بندوبست سے ہم سب یہ سیکھتے ہیں کہ ہمیں ”‏ایک دوسرے پر رحم“‏ کرنا چاہیے۔‏ (‏زکریاہ 7:‏9‏،‏ کیتھولک ترجمہ‏)‏ اگرچہ ہم شریعت کے پابند نہیں ہیں لیکن یہوواہ کے معیار آج بھی نہیں بدلے۔‏ وہ آج بھی اِنصاف اور رحم کو بہت اہم خیال کرتا ہے۔‏ ہمارے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ ہم اُس خدا کی عبادت کرتے ہیں جو اِنصاف‌پسندی اور رحم کا سرچشمہ ہے۔‏ لہٰذا یہ عزم کریں کہ آپ ویسی خوبیاں ظاہر کریں گے جیسی خدا میں ہیں اور یوں اُس کی پناہ میں رہیں گے۔‏