مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

آپ کی سوچ پر کون اثر کر رہا ہے؟‏

آپ کی سوچ پر کون اثر کر رہا ہے؟‏

‏”‏اِس زمانے کے طورطریقوں کی نقل کرنا چھوڑ دیں۔‏“‏‏—‏رومیوں 12:‏2‏۔‏

گیت:‏ 11،‏  22

1،‏ 2.‏ ‏(‏الف)‏ جب پطرس نے یسوع سے کہا:‏ ”‏مالک!‏ خود پر رحم کریں“‏ تو یسوع نے کیا جواب دیا؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏ (‏ب)‏ یسوع مسیح نے ایسا ردِعمل کیوں دِکھایا؟‏

یسوع مسیح کے شاگرد حیران‌وپریشان تھے۔‏ اُن کا خیال تھا کہ یسوع اِسرائیل کی بادشاہت بحال کرنے آئے ہیں لیکن یسوع نے اُنہیں بتایا کہ جلد ہی اُن پر اذیت ڈھائی جائے گی اور اُنہیں مار ڈالا جائے گا۔‏ پطرس رسول سے رہا نہیں گیا۔‏ اُنہوں نے یسوع سے کہا:‏ ”‏مالک!‏ خود پر رحم کریں۔‏ آپ کے ساتھ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔‏“‏ اِس پر یسوع نے پطرس سے کہا:‏ ”‏میرے سامنے سے ہٹ جاؤ،‏ شیطان!‏ تُم میری راہ میں رُکاوٹ بن رہے ہو کیونکہ تُم خدا کی سوچ نہیں بلکہ اِنسان کی سوچ رکھتے ہو۔‏“‏—‏متی 16:‏21-‏23؛‏ اعمال 1:‏6‏۔‏

2 یہ کہنے سے یسوع مسیح نے واضح کِیا کہ یہوواہ کی سوچ میں اور شیطان کی دُنیا کی سوچ میں بڑا فرق ہے۔‏ (‏1-‏یوحنا 5:‏19‏)‏ پطرس چاہتے تھے کہ یسوع مسیح صرف اپنا سوچیں جیسا کہ دُنیا میں عام ہے۔‏ لیکن یسوع جانتے تھے کہ یہوواہ چاہتا تھا کہ وہ خود کو اُس اذیت اور موت کے لیے ذہنی طور پر تیار کریں جو اُن پر آنی تھی۔‏ یسوع نے پطرس کو جو جواب دیا،‏ اُس سے اُنہوں نے دُنیا کی سوچ کو رد کر دیا اور ظاہر کِیا کہ وہ یہوواہ کی سوچ سے مکمل طور پر متفق تھے۔‏

3.‏ یہوواہ کی سوچ کو اپنانا اور دُنیا کی سوچ کو رد کرنا کیوں مشکل ہوتا ہے؟‏

3 ہماری سوچ کس کی سوچ سے میل کھاتی ہے؟‏ یہوواہ کی سوچ سے یا دُنیا کی سوچ سے؟‏ مسیحیوں کے طور پر ہم اپنے کاموں سے خدا کو خوش کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔‏ لیکن ہمیں خود سے پوچھنا چاہیے کہ ”‏کیا مَیں اپنی سوچ سے بھی یہوواہ کو خوش کر رہا ہوں؟‏ کیا مَیں معاملات کو اُس کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں اور اُس کے نظریات اپناتا ہوں؟‏“‏ ایسا کرنے کے لیے سخت کوشش کرنی پڑتی ہے جبکہ دُنیا کی سوچ اپنانا بہت آسان ہوتا ہے کیونکہ ”‏دُنیا کی روح“‏ ہر طرف موجود ہے۔‏ (‏اِفسیوں 2:‏2‏)‏ اِس کے علاوہ دُنیا کے لوگ اپنے فائدے کا سوچتے ہیں اور شاید ہمارا دل بھی ایسا کرنے کو چاہے۔‏ واقعی دُنیا کی سوچ کو اپنانا بہت آسان ہوتا ہے جبکہ یہوواہ کی سوچ کو اپنانا مشکل ہوتا ہے۔‏

4.‏ ‏(‏الف)‏ اگر ہم دُنیا کی سوچ کو خود پر اثر کرنے دیں گے تو اِس کا کیا نتیجہ ہو سکتا ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم اِس مضمون میں کیا سیکھیں گے؟‏

4 اگر ہم دُنیا کی سوچ کو خود پر اثر کرنے دیں گے تو ہو سکتا ہے کہ ہم خودغرض بن جائیں اور خود طے کرنا چاہیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔‏ (‏مرقس 7:‏21،‏ 22‏)‏ اِس لیے یہ بہت اہم ہے کہ ہم ”‏اِنسان کی سوچ“‏ نہیں بلکہ ”‏خدا کی سوچ“‏ اپنائیں۔‏ اِس مضمون کے ذریعے ہم ایسا کرنا سیکھیں گے۔‏ ہم دیکھیں گے کہ یہوواہ کی سوچ کو اپنانے میں ہمارا بھلا کیوں ہے۔‏ ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ ہم دُنیا کی سوچ کے اثر میں آنے سے کیسے بچ سکتے ہیں۔‏ اگلے مضمون میں ہم سیکھیں گے کہ بعض معاملات میں یہوواہ کا نظریہ کیا ہے اور ہم اِسے کیسے اپنا سکتے ہیں۔‏

یہوواہ کی سوچ اپنانا ہمارے لیے فائدہ‌مند ہے

5.‏ کچھ لوگ یہ کیوں نہیں چاہتے کہ کوئی اُن کی سوچ پر اثر ڈالے؟‏

5 کچھ لوگ یہ نہیں چاہتے کہ کوئی بھی اُن کی سوچ پر اثر ڈالے۔‏ وہ کہتے ہیں کہ ”‏مَیں اپنا اچھا بُرا خود سوچ سکتا ہوں۔‏“‏ وہ اپنی من‌مانی کرنا چاہتے ہیں اور اِسے اپنا حق سمجھتے ہیں۔‏ وہ نہیں چاہتے کہ اُنہیں دوسروں کی طرح بننے پر مجبور کِیا جائے۔‏ *

6.‏ ‏(‏الف)‏ یہوواہ خدا نے ہمیں کیا کرنے کی آزادی دی ہے؟‏ (‏ب)‏ کیا ہماری آزادی لامحدود ہے؟‏

6 یہوواہ کی سوچ کو اپنانے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم مختلف معاملوں کے بارے میں اپنی رائے قائم نہیں کر سکتے۔‏ 2-‏کُرنتھیوں 3:‏17 میں لکھا ہے:‏ ”‏جہاں یہوواہ کی روح ہے وہاں آزادی ہے۔‏“‏ یہوواہ نے ہمیں یہ آزادی دی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک منفرد شخصیت کا مالک ہو۔‏ اُس نے ہمیں یہ فیصلہ کرنے کا حق بھی دیا ہے کہ ہم کن چیزوں کو پسند کریں گے اور کن میں دلچسپی لیں گے۔‏ لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ ہماری آزادی لامحدود ہے۔‏ ‏(‏1-‏پطرس 2:‏16 کو پڑھیں۔‏)‏ یہوواہ چاہتا ہے کہ صحیح اور غلط کے بارے میں جاننے کے لیے ہم اُس کے کلام سے رہنمائی حاصل کریں۔‏ کیا یہ ہم پر سختی ہے یا یہ ہمارے فائدے کے لیے ہے؟‏

7،‏ 8.‏ جب یہوواہ ہمیں اُس کی سوچ اپنانے کو کہتا ہے تو کیا وہ ہم پر سختی کرتا ہے؟‏ مثال دے کر واضح کریں۔‏

7 ذرا اِس مثال پر غور کریں۔‏ والدین اپنے بچوں کو اچھی قدریں سکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ وہ اُن کی تربیت کرتے ہیں تاکہ بچے ایمان‌دار اور محنتی بنیں اور دوسروں کا خیال کرنا سیکھیں۔‏ یہ بچوں پر کوئی سختی نہیں ہوتی بلکہ والدین اُنہیں کامیاب زندگی گزارنے کے لیے تیار کر رہے ہوتے ہیں۔‏ پھر جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جاتے ہیں تو وہ اپنے فیصلے خود کر سکتے ہیں۔‏ اگر وہ اُن اچھی قدروں کے مطابق زندگی گزارنے کا اِنتخاب کرتے ہیں جو اُن کے والدین نے اُنہیں سکھائی تھیں تو اِس بات کا زیادہ اِمکان ہے کہ وہ اچھے فیصلے کریں گے اور بہت سے مسئلوں اور پریشانیوں سے بچے رہیں گے۔‏

یہوواہ چاہتا ہے کہ ہم مختلف معاملوں کے بارے میں اُس کا نظریہ اپنائیں اور اُس کی قدروں کے مطابق زندگی گزاریں۔‏

8 اچھے والدین کی طرح یہوواہ بھی چاہتا ہے کہ اُس کے بچے کامیاب زندگی گزاریں۔‏ (‏یسعیاہ 48:‏17،‏ 18‏)‏ اِس لیے وہ ہمیں اچھے چال‌چلن اور رویے کے حوالے سے بنیادی اصول سکھاتا ہے۔‏ وہ ہماری حوصلہ‌افزائی کرتا ہے کہ ہم مختلف معاملوں کے بارے میں اُس کا نظریہ اپنائیں اور اُس کی قدروں کے مطابق زندگی گزاریں۔‏ یہ ہم پر کوئی سختی نہیں بلکہ اِس طرح ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت تیز ہو جاتی ہے۔‏ (‏زبور 92:‏5؛‏ امثال 2:‏1-‏5؛‏ یسعیاہ 55:‏9‏)‏ یوں ہم ایسے فیصلے کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں جن سے ہماری زندگی خوش‌گوار ہو جاتی ہے۔‏ (‏زبور 1:‏2،‏ 3‏)‏ واقعی یہوواہ کی سوچ اپنانے کے بڑے فائدے ہیں!‏

یہوواہ کی سوچ سب سے افضل ہے

9،‏ 10.‏ اِس بات کے کیا ثبوت ہیں کہ یہوواہ کی سوچ دُنیا کی سوچ سے افضل ہے؟‏

9 ہمیں اِس لیے بھی یہوواہ کی سوچ اپنانی چاہیے کیونکہ اُس کی سوچ دُنیا کی سوچ سے کہیں افضل ہے۔‏ دُنیا بھی چال‌چلن،‏ گھریلو معاملوں اور ملازمت وغیرہ کے حوالے سے مشورے دیتی ہے۔‏ لیکن اکثر یہ مشورے یہوواہ کی سوچ کے بالکل برعکس ہوتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر شیطان کی دُنیا لوگوں کو صرف اپنے فائدے کا سوچنے کی حوصلہ‌افزائی کرتی ہے۔‏ وہ اکثر اِس خیال کو فروغ دیتی ہے کہ ہر طرح کے جنسی تعلقات صحیح اور جائز ہیں۔‏ دُنیا شادی‌شُدہ جوڑوں کو یہ مشورہ دیتی ہے کہ خوش رہنے کے لیے وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے بھی علیٰحدہ ہو سکتے یا طلاق لے سکتے ہیں۔‏ یہ سب باتیں بائبل کی تعلیمات سے میل نہیں کھاتیں۔‏ مگر کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جدید زمانے میں بائبل کے مشوروں کی نسبت دُنیا کے مشوروں پر عمل کرنا بہتر ہے۔‏ کیا واقعی ایسا ہے؟‏

10 یسوع مسیح نے کہا کہ ”‏دانش‌مندی اپنے کاموں سے نیک ثابت ہوتی ہے۔‏“‏ (‏متی 11:‏19‏)‏ حالانکہ دُنیا نے ٹیکنالوجی کے میدان میں بڑی ترقی کی ہے لیکن یہ جنگ،‏ نسل‌پرستی اور جرائم جیسے بڑے بڑے مسئلوں کو حل نہیں کر پائی۔‏ اِس کے علاوہ دُنیا میں حرام‌کاری کو غلط خیال نہیں کِیا جاتا لیکن پھر بھی بہت سے لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ حرام‌کاری کی وجہ سے شادیاں ٹوٹ جاتی ہیں،‏ بیماریاں لگتی ہیں اور اَور بھی نقصان ہوتے ہیں۔‏ اِس کے برعکس جو لوگ یہوواہ کی سوچ کو اپناتے ہیں،‏ اُن کی گھریلو زندگی زیادہ خوش‌گوار ہو جاتی ہے،‏ اُن کی صحت بہتر رہتی ہے اور وہ دُنیا بھر میں یہوواہ کے خادموں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے ہیں۔‏ (‏یسعیاہ 2:‏4؛‏ اعمال 10:‏34،‏ 35؛‏ 1-‏کُرنتھیوں 6:‏9-‏11‏)‏ اِن حقیقتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ کی سوچ دُنیا کی سوچ سے افضل ہے۔‏

11.‏ موسیٰ نے کس کی سوچ کو اپنایا؟‏ اور اِس کا کیا نتیجہ نکلا؟‏

11 قدیم زمانے میں یہوواہ کے خادم جانتے تھے کہ اُس کی سوچ سب سے افضل ہے۔‏ موسیٰ کی مثال لیں۔‏ حالانکہ اُنہوں نے ”‏مصر کے تمام علوم کی تعلیم پائی“‏ لیکن پھر بھی وہ مانتے تھے کہ یہوواہ ہی حقیقی دانش‌مندی فراہم کرتا ہے۔‏ (‏اعمال 7:‏22؛‏ زبور 90:‏12‏)‏ اِس لیے اُنہوں نے یہوواہ سے درخواست کی کہ ”‏مجھ کو اپنی راہ بتا۔‏“‏ (‏خروج 33:‏13‏)‏ چونکہ موسیٰ نے یہوواہ کی سوچ کو اپنایا اِس لیے یہوواہ نے اپنے مقصد کو پورا کرنے کے سلسلے میں موسیٰ کو اہم کردار دیا اور پاک کلام میں اُن کے ایمان کو سراہ کر اُنہیں عزت بخشی۔‏—‏عبرانیوں 11:‏24-‏27‏۔‏

12.‏ پولُس رسول کس بِنا پر فیصلے کرتے تھے؟‏

12 پولُس رسول بہت ہی ذہین اور پڑھے لکھے آدمی تھے اور کم از کم دو زبانیں روانی سے بولتے تھے۔‏ (‏اعمال 5:‏34؛‏ 21:‏37،‏ 39؛‏ 22:‏2،‏ 3‏)‏ لیکن وہ دُنیاوی دانش‌مندی کی بِنا پر نہیں بلکہ خدا کے کلام کی بِنا پر فیصلہ کرتے تھے۔‏ ‏(‏اعمال 17:‏2؛‏ 1-‏کُرنتھیوں 2:‏6،‏ 7،‏ 13 کو پڑھیں۔‏)‏ اِس کے نتیجے میں اُنہیں مُنادی کے کام میں بڑی کامیابی حاصل ہوئی اور ابدی اِنعام پانے کی اُمید ملی۔‏—‏2-‏تیمُتھیُس 4:‏8‏۔‏

13.‏ ایک شخص کی سوچ کو بدلنے کی ذمےداری کس پر آتی ہے؟‏

13 اِس میں کوئی شک نہیں کہ یہوواہ خدا کی سوچ دُنیا کی سوچ سے کہیں افضل ہے۔‏ اگر ہم خدا کے معیاروں کے مطابق چلیں گے تو ہمیں حقیقی خوشی اور کامیابی حاصل ہوگی۔‏ لیکن یہوواہ ہمیں کبھی اُس کی سوچ اپنانے پر مجبور نہیں کرتا۔‏ اِسی طرح ”‏وفادار اور سمجھ‌دار غلام“‏ اور کلیسیا کے بزرگ بھی ہمیں اپنی سوچ میں تبدیلی لانے پر مجبور نہیں کرتے۔‏ (‏متی 24:‏45؛‏ 2-‏کُرنتھیوں 1:‏24‏)‏ یہ تو ہم میں سے ہر ایک کی اپنی ذمےداری ہے کہ ہم اپنی سوچ کو بدلیں تاکہ ہم معاملات کو یہوواہ کی نظر سے دیکھیں۔‏ ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟‏

دُنیا کے طورطریقوں کی نقل کرنے سے بچیں

14،‏ 15.‏ ‏(‏الف)‏ یہوواہ کی سوچ کو اپنانے کے لیے ہمیں کن باتوں پر سوچ بچار کرنا چاہیے؟‏ (‏ب)‏ ہمیں دُنیاوی نظریات کو اپنے دل‌ودماغ میں کیوں نہیں آنے دینا چاہیے؟‏ مثال دیں۔‏

14 رومیوں 12:‏2 میں لکھا ہے:‏ ”‏اِس زمانے کے طورطریقوں کی نقل کرنا چھوڑ دیں بلکہ اپنی سوچ کا رُخ موڑ کر خود کو مکمل طور پر بدل لیں تاکہ آپ جان جائیں کہ خدا کی اچھی اور پسندیدہ اور کامل مرضی کیا ہے۔‏“‏ اِس آیت سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ خواہ سچائی میں آنے سے پہلے ہماری سوچ جیسی بھی تھی،‏ ہم اِسے بدل سکتے ہیں اور خدا کی سوچ کو اپنا سکتے ہیں۔‏ بےشک زندگی میں ہونے والے واقعات اور موروثی عوامل ہماری سوچ پر کسی حد تک اثر ڈالتے ہیں لیکن ہم اِس میں تبدیلی ضرور لا سکتے ہیں۔‏ تبدیلی کا اِنحصار اِس پر ہے کہ ہم کن باتوں کو اپنے دل‌ودماغ میں آنے دیتے ہیں اور کن چیزوں کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔‏ لہٰذا اگر ہم یہوواہ کے نظریوں پر سوچ بچار کریں گے تو ہمیں یقین ہو جائے گا کہ اُس کی سوچ ہمیشہ درست ہے۔‏ پھر ہمارے دل میں اُس کے نظریے اپنانے کی خواہش مضبوط ہو جائے گی۔‏

15 اپنی سوچ کا رُخ موڑ کر یہوواہ کی سوچ کو اپنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم ”‏اِس زمانے کے طورطریقوں کی نقل کرنا چھوڑ دیں۔‏“‏ اِس کا مطلب ہے کہ ہمیں ہر ایسی چیز کو دیکھنا،‏ پڑھنا یا سننا چھوڑ دینا چاہیے جس میں ایسے نظریات پیش کیے جاتے ہیں جو یہوواہ کی سوچ کے خلاف ہیں۔‏ اِس بات کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے آئیں،‏ ایک مثال پر غور کریں۔‏ فرض کریں کہ ایک شخص زیادہ صحت‌مند رہنے کے لیے غذائیت‌بخش کھانا کھانے کا معمول بناتا ہے۔‏ لیکن اگر وہ ساتھ ساتھ آلودہ کھانے بھی کھاتا ہے تو اُس کی ساری کوششیں بےکار جائیں گی۔‏ اِسی طرح اگر ہم اپنے دل‌ودماغ کو دُنیاوی سوچ سے آلودہ ہونے دیں گے تو یہوواہ کی سوچ کے بارے میں سیکھنے کی ہماری کوششیں بےکار جائیں گی۔‏

16.‏ ہم دُنیا کی سوچ سے متاثر ہونے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏

16 کیا ہم دُنیاوی سوچ سے مکمل طور پر بچ سکتے ہیں؟‏ نہیں کیونکہ ہم اِس دُنیا میں رہتے ہیں اور ہمارا واسطہ کسی نہ کسی طرح سے اِس کی سوچ سے پڑتا ہے۔‏ (‏1-‏کُرنتھیوں 5:‏9،‏ 10‏)‏ یہاں تک کہ جب ہم مُنادی کرتے وقت لوگوں سے بات کرتے ہیں تو ہمیں اُن کے جھوٹے عقیدے اور غلط نظریات سننے کو ملتے ہیں۔‏ یہ سچ ہے کہ ہم دُنیاوی نظریات سے مکمل طور پر تو نہیں بچ سکتے لیکن اِن کے بارے میں سوچتے رہنا یا اِنہیں قبول کرنا ہمارے اِختیار میں ہے۔‏ یسوع مسیح کی طرح ہمیں بھی اُن خیالات کو فوراً رد کر دینا چاہیے جو شیطان پیش کرتا ہے۔‏ اِس کے علاوہ جہاں تک ممکن ہو،‏ ہمیں کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس سے غیرضروری طور پر ہمارا واسطہ دُنیا کی سوچ سے پڑے۔‏‏—‏امثال 4:‏23 کو پڑھیں۔‏

17.‏ ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہمارا واسطہ غیرضروری طور پر دُنیا کی سوچ سے نہ پڑے؟‏

17 مثال کے طور پر ہمیں سوچ سمجھ کر دوستوں کا اِنتخاب کرنا چاہیے۔‏ بائبل میں آگاہ کِیا گیا ہے کہ اگر ہم ایسے لوگوں سے قریبی دوستی قائم کریں گے جو یہوواہ کی عبادت نہیں کرتے تو ہم اُن کی سوچ اپنانے لگیں گے۔‏ (‏امثال 13:‏20؛‏ 1-‏کُرنتھیوں 15:‏12،‏ 32،‏ 33‏)‏ اِس کے علاوہ ہمیں تفریح کا اِنتخاب بھی سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔‏ ہمیں ہر ایسی تفریح کو رد کرنا چاہیے جس میں اِرتقا کے نظریے،‏ ظلم‌وتشدد یا حرام‌کاری کو فروغ دیا جاتا ہے۔‏ یوں ہم اپنے ذہن کو اُس زہرآلودہ سوچ سے محفوظ رکھیں گے ”‏جو خدا کے علم کے خلاف“‏ ہے۔‏—‏2-‏کُرنتھیوں 10:‏5‏۔‏

کیا ہم اپنے بچوں کی مدد کرتے ہیں تاکہ وہ نقصان‌دہ تفریح کو رد کریں؟‏ (‏پیراگراف 18،‏ 19 کو دیکھیں۔‏)‏

18،‏ 19.‏ ‏(‏الف)‏ جب دُنیا کی سوچ کو غیرواضح طریقے سے پیش کِیا جاتا ہے تو ہمیں محتاط کیوں رہنا چاہیے؟‏ (‏ب)‏ ہمیں خود سے کون سے سوال پوچھنے چاہئیں اور کیوں؟‏

18 ہمیں دُنیا کی سوچ کو تب بھی پہچان لینا اور رد کرنا چاہیے جب اِسے غیرواضح طریقے سے پیش کِیا جاتا ہے۔‏ مثال کے طور پر میڈیا میں کچھ خبروں کو اِس طرح سے پیش کِیا جاتا ہے جس سے کسی سیاسی نظریے کی حمایت کی جاتی ہے۔‏ کبھی کبھار نیوز رپورٹوں میں ایسے منصوبوں اور کارناموں کو اُجاگر کِیا جاتا ہے جنہیں دُنیا سراہتی ہے۔‏ کچھ کتابوں اور فلموں میں اِس نظریے کو فروغ دیا جاتا ہے کہ ایک شخص کو سب سے پہلے اپنے یا اپنے گھر والوں کے فائدے کا سوچنا چاہیے اور اِس نظریے کو اِس طرح سے پیش کِیا جاتا ہے کہ یہ معقول اور واجب لگتا ہے۔‏ لیکن یہ نظریہ بائبل کے خلاف ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ہم اور ہمارے گھر والے تب ہی حقیقی معنوں میں خوش ہوں گے جب ہم یہوواہ خدا سے سب سے زیادہ محبت کریں گے۔‏ (‏متی 22:‏36-‏39‏)‏ اِس کے علاوہ بچوں کی کچھ کہانیوں میں ناجائز تعلقات کو اِس طرح سے پیش کِیا جاتا ہے کہ بچوں کو تاثر ملتا ہے کہ یہ غلط نہیں ہیں۔‏

19 اِس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں تفریح کرنا بالکل چھوڑ دینا چاہیے۔‏ ہم مناسب تفریح سے ضرور لطف‌اندوز ہو سکتے ہیں۔‏ لیکن ہمیں خود سے پوچھنا چاہیے:‏ ”‏کیا مَیں دُنیا کی سوچ کو تب بھی پہچان لیتا ہوں جب اِسے غیرواضح طریقے سے پیش کِیا جاتا ہے؟‏ کیا مَیں خود کو اور اپنے بچوں کو ٹی‌وی پروگراموں میں،‏ اِنٹرنیٹ پر یا کتابوں میں پیش کیے جانے والے غلط نظریات سے محفوظ رکھتا ہوں؟‏ کیا مَیں اپنے بچوں کی مدد کرتا ہوں کہ وہ معاملات کو یہوواہ کی نظر سے دیکھیں تاکہ وہ اُن نظریات سے متاثر نہ ہوں جو وہ سنتے اور دیکھتے ہیں؟‏“‏ اگر ہم یہوواہ خدا کی سوچ اور دُنیا کی سوچ میں فرق کر پائیں گے تو ہم ”‏اِس زمانے کے طورطریقوں کی نقل“‏ نہیں کریں گے۔‏

آپ کی سوچ پر کون اثر کر رہا ہے؟‏

20.‏ ایک شخص کی سوچ کس سے متاثر ہوتی ہے؟‏

20 یاد رکھیں کہ حقیقت میں معلومات فراہم کرنے کے صرف دو ماخذ ہیں،‏ ایک یہوواہ اور ایک شیطان اور اُس کی دُنیا۔‏ اِن میں سے کون آپ پر اثر کر رہا ہے؟‏ وہی جس سے آپ معلومات حاصل کرتے ہیں۔‏ اگر ہم شیطان کی دُنیا کو خود پر اثر کرنے دیں گے تو ہم اُس کی سوچ اور طورطریقوں کو اپنائیں گے۔‏ لہٰذا یہ بہت اہم ہے کہ ہم اُن چیزوں کا خوب سوچ سمجھ کر اِنتخاب کریں جو ہم دیکھتے،‏ پڑھتے اور سنتے ہیں یا جن کے بارے میں ہم سوچتے ہیں۔‏

21.‏ اگلے مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟‏

21 اِس مضمون میں ہم نے سیکھا ہے کہ یہوواہ کی سوچ اپنانے کے لیے یہ کافی نہیں کہ ہم اپنے دل‌ودماغ کو آلودہ ہونے سے پاک رکھیں۔‏ اِس کے ساتھ ساتھ ہمیں خدا کے نظریات پر بھی سوچ بچار کرنا چاہیے تاکہ ہم معاملات کو اُس کی نظر سے دیکھ سکیں۔‏ اگلے مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ ہم یہوواہ کی سوچ کو اپنانے کے لیے اَور کیا کر سکتے ہیں۔‏

^ پیراگراف 5 سچ تو یہ ہے کہ ہر شخص کسی نہ کسی طرح سے دوسروں کی سوچ سے متاثر ہوتا ہے۔‏ مثال کے طور پر خواہ ہم زندگی کی اِبتدا جیسے پیچیدہ موضوع پر سوچ رہے ہوں یا محض اِس بات کا فیصلہ کر رہے ہوں کہ ہم کیا پہنیں گے،‏ ہماری سوچ ایک حد تک دوسروں کی سوچ سے متاثر ہوتی ہے۔‏ البتہ یہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم کس کے اثر کو قبول کریں گے۔‏