مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏’‏مَیں تیری سچائی پر چلوں گا‘‏

‏’‏مَیں تیری سچائی پر چلوں گا‘‏

‏”‏اے [‏یہوواہ]‏ اپنی راہ مجھ کو بتا تاکہ مَیں تیری سچائی پر چلوں۔‏“‏‏—‏زبور 86:‏11‏،‏ کیتھولک ترجمہ۔‏

گیت:‏ 26،‏  10

1‏-‏3.‏ ‏(‏الف)‏ ہمیں بائبل میں درج سچائیوں کے بارے میں کیسا محسوس کرنا چاہیے؟‏ مثال دے کر واضح کریں۔‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویروں کو دیکھیں۔‏)‏ (‏ب)‏ اِس مضمون میں ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟‏

آج‌کل لوگ اکثر کوئی چیز خریدنے کے بعد اِسے واپس کر دیتے ہیں۔‏ کچھ ملکوں میں دُکانوں سے خریدی ہوئی 9 فیصد چیزیں واپس کر دی جاتی ہیں جبکہ آن‌لائن خریدی ہوئی 30 فیصد چیزیں واپس کر دی جاتی ہیں۔‏ اکثر اِس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ چیز خریدار کو پسند نہیں آئی یا پھر اُس میں کوئی نقص تھا۔‏ لہٰذا خریدار اِسے واپس کر کے اِس کے بدلے کوئی اَور چیز لے لیتا ہے یا پھر ادا کی گئی رقم واپس کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔‏

2 ہم خریدی ہوئی چیزیں واپس کر سکتے ہیں لیکن بائبل کی سچائیوں کی بات اَور ہے۔‏ ’‏سچائی کو مول لینے‘‏ کے بعد ہم اِسے کبھی ’‏بیچ نہیں ڈالنا‘‏ چاہتے یعنی ”‏سچائی کے بارے میں صحیح علم“‏ حاصل کرنے کے بعد ہم اِسے کبھی ترک نہیں کرنا چاہتے۔‏ (‏امثال 23:‏23 کو پڑھیں؛‏ 1-‏تیمُتھیُس 2:‏4‏)‏ پچھلے مضمون میں ہم نے کچھ قربانیوں پر غور کِیا جو ہم نے سچائی کو مول لینے کی خاطر دی ہیں۔‏ مثال کے طور پر ہم نے بائبل کی سچائیاں سیکھنے کے لیے دوسرے کاموں سے وقت نکالا۔‏ ہو سکتا ہے کہ ہم نے ایک ایسی ملازمت یا پیشہ ترک کر دیا جس میں ہم نے بہت پیسے کمائے۔‏ شاید کچھ لوگوں کے ساتھ ہمارے تعلقات میں تبدیلی آئی۔‏ اِس کے علاوہ ہم نے اپنی سوچ اور اپنا چال‌چلن بدل لیا اور ایسے رسم‌ورواج چھوڑ دیے جو یہوواہ کو پسند نہیں۔‏ لیکن ہمیں پکا یقین ہے کہ یہ تمام قربانیاں اُن برکتوں کی نسبت کچھ بھی نہیں جو ہمیں سچائی سیکھنے سے حاصل ہوئی ہیں۔‏

3 یسوع مسیح نے ایک تاجر کی مثال دی جو عمدہ موتیوں کی تلاش میں تھا۔‏ جب اُسے ایک بہت ہی قیمتی موتی مل گیا تو اُس نے ”‏فوراً اپنا سب کچھ بیچ دیا اور اِس موتی کو خرید لیا۔‏“‏ اِس موتی سے مُراد خدا کی بادشاہت کے بارے میں سچائی ہے۔‏ اِس مثال سے یسوع مسیح نے ظاہر کِیا کہ کچھ لوگ سچائی کی کتنی قدر کرتے ہیں۔‏ (‏متی 13:‏45،‏ 46‏)‏ جب ہم نے خدا کی بادشاہت کے بارے میں سچائی اور بائبل کی باقی سچائیوں کو سیکھا تو ہم اِنہیں حاصل کرنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار تھے۔‏ جب تک ہمارے دل میں سچائی کی قدر رہے گی،‏ ہم اِسے کبھی ترک نہیں کریں گے۔‏ لیکن افسوس کی بات ہے کہ کچھ مسیحیوں نے سچائی کی قدر کرنا چھوڑ دیا ہے،‏ یہاں تک کہ اِسے ترک کر دیا ہے۔‏ ہم ایسا کبھی نہیں کرنا چاہتے بلکہ ہمیشہ تک ”‏سچائی کے مطابق“‏ چلنا چاہتے ہیں۔‏ ‏(‏3-‏یوحنا 2-‏4 کو پڑھیں۔‏)‏ اِس کا مطلب ہے کہ ہم سچائی کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دینا چاہتے ہیں جو کہ ہمارے طرزِزندگی سے ظاہر ہوگا۔‏ لیکن کچھ مسیحیوں نے سچائی کو کیوں بیچ ڈالا؟‏ اُنہوں نے یہ کیسے کِیا؟‏ ہم اِس خطرے میں پڑنے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏ اور ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ سچائی کے مطابق چلنے کا ہمارا عزم اَور مضبوط ہو جائے؟‏

کچھ مسیحیوں نے سچائی کو کیوں اور کیسے بیچ ڈالا؟‏

4.‏ یسوع مسیح کے زمانے میں کچھ لوگوں نے سچائی کے مطابق چلنا کیوں چھوڑ دیا؟‏

4 یسوع مسیح کے زمانے میں کچھ لوگوں نے پہلے تو سچائی کو قبول کِیا لیکن بعد میں اِس کے مطابق چلنا چھوڑ دیا۔‏ مثال کے طور پر جب یسوع نے ہزاروں لوگوں کو معجزانہ طور پر کھانا کھلایا تو بِھیڑ گلیل کی جھیل کے پار اُن کے پیچھے پیچھے گئی۔‏ لیکن پھر یسوع نے ایک ایسی بات کہی جو لوگوں کو بہت ناگوار گزری۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏جب تک آپ اِنسان کے بیٹے کا گوشت نہیں کھائیں گے اور اُس کا خون نہیں پئیں گے،‏ آپ ہمیشہ کی زندگی نہیں پائیں گے۔‏“‏ لوگوں نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ یسوع کی بات کا کیا مطلب تھا بلکہ وہ آپس میں کہنے لگے:‏ ”‏یہ تو بکواس ہے۔‏ اِس آدمی کی باتیں ہم سے برداشت نہیں ہوتیں۔‏“‏ اِس وجہ سے ”‏یسوع کے بہت سے شاگردوں نے اُن کی پیروی کرنا چھوڑ دی اور دوبارہ سے اُن کاموں میں لگ گئے جو وہ پہلے کرتے تھے۔‏“‏—‏یوحنا 6:‏53-‏66‏۔‏

5،‏ 6.‏ ‏(‏الف)‏ ہمارے زمانے میں کچھ مسیحیوں نے جان بُوجھ کر سچائی سے کیوں ’‏مُنہ پھیر لیا‘‏ ہے؟‏ (‏ب)‏ بعض مسیحی سچائی سے دُور کیسے ہو جاتے ہیں؟‏

5 افسوس کی بات ہے کہ ہمارے زمانے میں بھی کچھ مسیحیوں نے جان بُوجھ کر سچائی سے ’‏مُنہ پھیر لیا‘‏ ہے۔‏ (‏عبرانیوں 3:‏12-‏14‏)‏ شاید اُنہیں بائبل کی کسی آیت کی نئی وضاحت سے اِختلاف تھا یا اُنہیں کسی مُعزز بھائی کی بات یا کام سے اِعتراض تھا۔‏ یا شاید جب بائبل سے اُن کی اِصلاح کی گئی تو اُنہیں اچھا نہیں لگا۔‏ یا پھر ہو سکتا ہے کہ کلیسیا میں کسی بہن یا بھائی سے اُن کا جھگڑا ہو گیا تھا۔‏ کچھ مسیحی یہوواہ سے برگشتہ لوگوں یا مخالفوں کی باتوں میں آ گئے جو ہمارے بارے میں جھوٹی باتیں پھیلاتے ہیں۔‏ بہرحال وجہ چاہے کچھ بھی ہو،‏ اِن مسیحیوں کو چاہیے تھا کہ وہ یہوواہ خدا اور اُس کی کلیسیا سے مُنہ پھیر لینے کی بجائے پطرس رسول کی طرح یسوع مسیح پر بھروسا کرتے۔‏ جب باقی لوگ یسوع مسیح کی بات سُن کر اُنہیں چھوڑ کر چلے گئے تو یسوع نے رسولوں سے پوچھا:‏ ”‏کیا آپ بھی مجھے چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں؟‏“‏ اِس پر پطرس نے کہا:‏ ”‏مالک،‏ ہم کس کے پاس جائیں؟‏ ہمیشہ کی زندگی کی باتیں تو آپ ہی کرتے ہیں۔‏“‏—‏یوحنا 6:‏67-‏69‏۔‏

6 کچھ اَور مسیحی آہستہ آہستہ سچائی سے دُور ہو گئے اور اُنہیں اِس کا احساس بھی نہیں ہوا۔‏ ایسے مسیحی ایک ایسی کشتی کی طرح ہوتے ہیں جو آہستہ آہستہ کنارے سے دُور ہو جاتی ہے۔‏ بائبل میں مسیحیوں کو خبردار کِیا گیا ہے کہ وہ ”‏کبھی ایمان سے دُور نہ ہوں۔‏“‏ (‏عبرانیوں 2:‏1‏)‏ اکثر ایسے مسیحی اِرادتاً سچائی سے دُور نہیں ہوتے۔‏ مگر وہ یہوواہ اور خود میں دُوری پیدا ہونے دیتے ہیں جس کی وجہ سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہوواہ سے اُن کی دوستی کمزور ہونے لگتی ہے اور پھر بالکل ختم ہو جاتی ہے۔‏ ہم اِس خطرے میں پڑنے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏

ہم سچائی کو بیچنے کے خطرے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏

7.‏ ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم سچائی کو کبھی نہ بیچیں؟‏

ہم یہ اِنتخاب نہیں کر سکتے کہ ہم بائبل کی کن سچائیوں کو قبول کریں گے اور کن کو نظرانداز کریں گے۔‏

7 سچائی پر چلتے رہنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم یہوواہ کی ہر بات کو قبول کریں اور اُس پر عمل کریں۔‏ ہمیں سچائی کو اپنی زندگی میں سب سے پہلا درجہ دینا چاہیے اور ہر معاملے میں بائبل کے اصولوں پر عمل کرنا چاہیے۔‏ بادشاہ داؤد نے دُعا میں یہوواہ سے کہا:‏ ”‏مَیں تیری سچائی پر چلوں [‏گا]‏۔‏“‏ (‏زبور 86:‏11‏،‏ کیتھولک ترجمہ‏)‏ اُن کا عزم تھا کہ وہ عمر بھر سچائی پر چلتے رہیں گے۔‏ ہمارا بھی یہی عزم ہونا چاہیے۔‏ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ہم اُن چیزوں کو یاد کرنے لگیں گے جو ہم نے سچائی کی خاطر قربان کی تھیں اور شاید اُنہیں دوبارہ سے حاصل کرنے کی خواہش محسوس کریں گے۔‏ یاد رکھیں کہ ہم اِس بات کا اِنتخاب نہیں کر سکتے کہ ہم بائبل کی کن سچائیوں کو قبول کریں گے اور کن کو نظرانداز کریں گے بلکہ ہمیں ”‏تمام سچائی“‏ پر چلنا ہوگا۔‏ (‏یوحنا 16:‏13‏،‏ اُردو ریوائزڈ ورشن‏)‏ پچھلے مضمون میں ہم نے دیکھا تھا کہ سچائی کو مول لینے کی خاطر ہمیں پانچ حلقوں میں قربانیاں دینی پڑیں۔‏ اب ہم دیکھیں گے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم اُن چیزوں کو دوبارہ سے حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں جو ہم نے پیچھے چھوڑ دی ہیں۔‏—‏متی 6:‏19‏۔‏

8.‏ وقت کا غلط اِستعمال ایک مسیحی کو سچائی سے دُور کیسے کر سکتا ہے؟‏ ایک مثال دیں۔‏

8 وقت۔‏ ہمیں دانش‌مندی سے اپنے وقت کو اِستعمال کرنا چاہیے تاکہ ہم سچائی سے دُور نہ ہو جائیں۔‏ اگر ہم محتاط نہیں رہیں گے تو ہم غیرضروری کاموں میں حد سے زیادہ وقت صرف کرنے لگیں گے،‏ مثلاً سیروتفریح میں،‏ مشغلوں میں،‏ اِنٹرنیٹ پر اور ٹی‌وی دیکھنے میں۔‏ یوں تو یہ کام غلط نہیں ہیں لیکن شاید ہم اِن کاموں میں وہ وقت صرف کرنے لگیں جو ہم مطالعہ کرنے اور مُنادی کرنے میں صرف کِیا کرتے تھے۔‏ ایما * نامی بہن کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔‏ اُنہیں بچپن سے ہی گھوڑے بہت پسند تھے اور وہ گُھڑ سواری کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی تھیں۔‏ لیکن پھر اُنہیں احساس ہوا کہ وہ اپنے اِس مشغلے میں بہت زیادہ وقت صرف کر رہی ہیں۔‏ اِس لیے اُنہوں نے اپنے معمول میں تبدیلیاں لانے کا عزم کِیا۔‏ ایما کو بہن کوری ویلز کی آپ‌بیتی سے بھی بہت فائدہ ہوا جو ایک زمانے میں گُھڑ سواری کے شو میں حصہ لیتی تھیں۔‏ * اب ایما یہوواہ کی خدمت میں زیادہ وقت صرف کر رہی ہیں اور اپنے اُن رشتےداروں اور دوستوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارتی ہیں جو یہوواہ کی عبادت کرتے ہیں۔‏ وہ یہ جان کر خوش ہیں کہ وہ اپنے وقت کا بہترین اِستعمال کر رہی ہیں اور یہوواہ کے زیادہ قریب ہو گئی ہیں۔‏

9.‏ ہم مال‌واسباب کو حد سے زیادہ اہمیت دینے کے خطرے میں کیسے پڑ سکتے ہیں؟‏

9 پُرآسائش زندگی۔‏ سچائی پر چلتے رہنے کے لیے بہت ضروری ہے کہ ہم مال‌واسباب کو حد سے زیادہ اہمیت نہ دیں۔‏ جب ہم نے سچائی کو سیکھا تھا تو ہمیں احساس ہوا کہ یہوواہ کی خدمت مال‌واسباب سے کہیں زیادہ اہم ہے۔‏ اُس وقت ہم نے سچائی کو مول لینے کی خاطر بہت سی چیزوں کی قربانی دی۔‏ مگر جب ہم دیکھتے ہیں کہ دوسرے نت نئے فون یا ٹیبلٹ وغیرہ خرید رہے ہیں یا پُرآسائش زندگی گزار رہے ہیں تو شاید ہمیں محرومی کا احساس ہونے لگے۔‏ ہو سکتا ہے کہ ہم اُن چیزوں پر راضی نہ رہیں جو ہمارے پاس ہیں اور ہماری توجہ یہوواہ کی خدمت سے ہٹ کر پُرآسائش زندگی حاصل کرنے پر لگ جائے۔‏ کچھ ایسا ہی دیماس کے ساتھ ہوا۔‏ وہ ’‏اِس دُنیا سے اِتنی محبت کرنے لگے‘‏ کہ اُنہوں نے پولُس رسول کے ساتھ مل کر خدا کی خدمت کرنا چھوڑ دیا۔‏ (‏2-‏تیمُتھیُس 4:‏10‏)‏ ہو سکتا ہے کہ دیماس کو خدا کی خدمت کرنے سے اِتنا لگاؤ نہیں تھا جتنا کہ آسائشوں سے تھا۔‏ یا پھر شاید وہ پولُس رسول کے ساتھ خدمت کرنے کے لیے مزید قربانیاں نہیں دینا چاہتے تھے۔‏ ہم اِس سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟‏ ہو سکتا ہے کہ ماضی میں ہمیں بھی پُرآسائش زندگی سے بڑا پیار تھا۔‏ اگر ہم محتاط نہیں رہیں گے تو یہ پیار دوبارہ سے ہمارے دل میں جاگ اُٹھے گا اور اِس حد تک زور پکڑے گا کہ ہم سچائی سے پیار کرنا چھوڑ دیں گے۔‏

10.‏ ہمیں کس طرح کے دباؤ میں نہیں آنا چاہیے؟‏

10 دوسروں کے ساتھ تعلقات۔‏ اگر ہم سچائی کے مطابق چلتے رہنا چاہتے ہیں تو ہم اُن لوگوں کے دباؤ میں نہیں آئیں گے جو یہوواہ کی خدمت نہیں کرتے۔‏ شروع شروع میں جب ہم بائبل کی سچائیوں کے بارے میں سیکھنے لگے تھے تو اُن رشتےداروں اور دوستوں کے ساتھ ہمارے تعلقات میں تبدیلی آئی جو یہوواہ کے گواہ نہیں تھے۔‏ اِن میں سے کچھ شاید ہمارے عقیدوں کا احترام کرنے لگے جبکہ دوسرے ہماری مخالفت کرنے لگے۔‏ (‏1-‏پطرس 4:‏4‏)‏ ظاہری بات ہے کہ ہم اپنے پورے خاندان کے ساتھ صلح صفائی سے رہنے کی کوشش کریں گے لیکن ہم اُنہیں خوش کرنے کے لیے یہوواہ کے معیاروں پر سمجھوتا نہیں کریں گے۔‏ اِس کے علاوہ ہم یہ بھی یاد رکھیں گے کہ 1-‏کُرنتھیوں 15:‏33 کے مطابق ہمارے قریبی دوست صرف ایسے لوگ ہونے چاہئیں جو یہوواہ سے محبت کرتے ہیں۔‏

11.‏ ہم غلط سوچ اور کاموں سے کنارہ کیسے کر سکتے ہیں؟‏

11 غلط سوچ اور کام۔‏ سچائی کے مطابق چلتے رہنے کے لیے ہمارا چال‌چلن یہوواہ کی نظر میں پاک ہونا چاہیے۔‏ (‏یسعیاہ 35:‏8؛‏ 1-‏پطرس 1:‏14-‏16 کو پڑھیں۔‏‏)‏ جب ہم بائبل کی سچائیاں سیکھنے لگے تو ہم خدا کے معیاروں پر پورا اُترنے کے لیے اپنی زندگی میں تبدیلیاں لانے لگے۔‏ ہم میں سے بعض کو تو بہت بڑی تبدیلیاں لانی پڑیں۔‏ لیکن ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہم اپنے پاک چال‌چلن کو چھوڑ کر پھر سے دُنیا کے بُرے طورطریقوں کو نہ اپنا لیں۔‏ ہم اِس خطرے میں پڑنے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏ اُس قربانی پر سوچ بچار کریں جو یہوواہ نے ہمیں پاک کرنے کے لیے دی۔‏ اُس نے ہماری خاطر اپنے پیارے بیٹے یسوع مسیح کو قربان کر دیا۔‏ (‏1-‏پطرس 1:‏18،‏ 19‏)‏ یہوواہ کی نظر میں پاک رہنے کے لیے ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ فدیہ کتنا قیمتی تھا جو یسوع مسیح نے ہمارے لیے ادا کِیا۔‏

12،‏ 13.‏ ‏(‏الف)‏ ہمیں تہواروں اور تقریبوں کے سلسلے میں یہوواہ کے نظریے پر کیوں قائم رہنا چاہیے؟‏ (‏ب)‏ اب ہم کس بات پر غور کریں گے؟‏

12 ایسے رسم‌ورواج جو خدا کو پسند نہیں۔‏ ہو سکتا ہے کہ ہمارے رشتےدار،‏ ہمارے ساتھ کام کرنے والے یا پھر ہمارے ہم‌جماعت ہمیں ایسے تہواروں یا تقریبوں میں شامل ہونے کو کہیں جو یہوواہ کو پسند نہیں ہیں۔‏ ہم اِس طرح کے دباؤ کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟‏ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہوواہ کس وجہ سے اِن تہواروں کو پسند نہیں کرتا۔‏ اِس سلسلے میں ہم اپنی مطبوعات میں تحقیق کر سکتے ہیں کہ اِن تہواروں کی شروعات کیسے ہوئی۔‏ جب ہم اِس بات پر سوچ بچار کرتے ہیں کہ ہم کن وجوہات کی بِنا پر اِن تہواروں اور تقریبوں میں حصہ نہیں لیتے تو ہمیں پکا یقین ہو جاتا ہے کہ ہم اُس راہ پر چل رہے ہیں جو ’‏مالک کو پسند ہے۔‏‘‏ (‏اِفسیوں 5:‏10‏)‏ اگر ہم یہوواہ خدا اور اُس کے کلام پر پورا بھروسا کرتے ہیں تو ہمیں یہ ڈر نہیں رہے گا کہ لوگ کیا سوچیں گے۔‏—‏امثال 29:‏25‏۔‏

13 بِلاشُبہ ہمارا عزم ہے کہ ہم ہمیشہ تک سچائی پر چلتے رہیں۔‏ لیکن ہم اِس عزم کو اَور مضبوط کیسے کر سکتے ہیں؟‏ آئیں،‏ اِس سلسلے میں تین طریقوں پر غور کرتے ہیں۔‏

سچائی کے مطابق چلنے کے عزم کو اَور مضبوط کریں

14.‏ ‏(‏الف)‏ بائبل کا مطالعہ کرنے سے سچائی کے مطابق چلنے کا ہمارا عزم کیوں مضبوط ہوگا؟‏ (‏ب)‏ ہمیں حکمت،‏ تربیت اور فہم کو کیوں مول لینا چاہیے؟‏

14 پہلا طریقہ یہ ہے کہ ہم پاک کلام کی سچائیوں کا مطالعہ کرنے اور اِن پر سوچ بچار کرنے کے معمول پر قائم رہیں۔‏ آپ اِن سچائیوں کا جتنا زیادہ مطالعہ کریں گے اُتنا ہی زیادہ آپ کے دل میں اِن کی قدر بڑھے گی۔‏ امثال 23:‏23 میں ”‏سچائی کو مول“‏ لینے کی ہدایت دینے کے بعد یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہمیں ”‏حکمت اور تربیت اور فہم کو بھی“‏ مول لینا چاہیے۔‏ یہ کافی نہیں کہ ہم صرف بائبل کی سچائیوں سے واقف ہوں بلکہ ہمیں اِن پر عمل بھی کرنے کی ضرورت ہے۔‏ فہم کو حاصل کرنے کا مطلب ہے کہ ہم یہ سمجھ جائیں کہ بائبل کی سچائیوں کا آپس میں کیا تعلق ہے۔‏ حکمت ہمیں اُن باتوں عمل کرنے کی ترغیب دیتی ہے جو ہم نے سیکھی ہیں۔‏ اور ہماری تربیت اُس وقت ہوتی ہے جب سچائی ہمیں احساس دِلاتی ہے کہ ہمیں کن حلقوں میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔‏ ہمیں اِس تربیت پر فوراً عمل کرنا چاہیے۔‏ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ یہ تربیت چاندی سے کہیں زیادہ بیش‌قیمت ہے۔‏—‏امثال 8:‏10‏۔‏

15.‏ ‏”‏سچائی کی پیٹی“‏ ہمیں کیسے محفوظ رکھتی ہے؟‏

15 سچائی کے مطابق چلتے رہنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم اِس پر ہر روز عمل کرنے کا عزم کریں۔‏ ”‏اپنی کمر پر سچائی کی پیٹی“‏ باندھے رکھیں۔‏ (‏اِفسیوں 6:‏14‏)‏ قدیم زمانے میں فوجی لڑائی کے دوران اپنی کمر کو سہارا دینے اور اندرونی اعضا کو زخمی ہونے سے محفوظ رکھنے کے لیے پیٹی باندھتے تھے۔‏ لیکن اگر پیٹی کس کر نہیں باندھی جاتی تھی تو یہ نہ تو کمر کو سہارا دے سکتی تھی اور نہ ہی اعضا کو محفوظ رکھ سکتی تھی۔‏ ”‏سچائی کی پیٹی“‏ باندھنے سے ہم کیسے محفوظ رہیں گے؟‏ اگر ہم اِسے کس کر باندھے رکھیں گے تو سچائی ہمیں غلط سوچ سے محفوظ رکھے گی اور ہم اچھے فیصلے کر پائیں گے۔‏ جب ہم کسی آزمائش کا مقابلہ کر رہے ہوں گے تو سچائی کے سہارے ہم وہ کام کریں گے جو خدا کی نظر میں صحیح ہیں۔‏ ایک فوجی کبھی بھی اپنی پیٹی باندھے بغیر محاذ پر نہیں جاتا تھا۔‏ اِسی طرح ہم بھی سچائی کی پیٹی کو کبھی نہیں اُتاریں گے یعنی ہمیشہ سچائی کے مطابق چلیں گے۔‏ فوجی اِس لیے بھی پیٹی باندھتا تھا تاکہ وہ اِس پر اپنی تلوار لٹکا سکے۔‏ ہم بھی کچھ ایسا ہی کر سکتے ہیں۔‏

16.‏ بائبل کی تعلیم دینے سے سچائی پر چلنے کا ہمارا عزم اَور مضبوط کیوں ہو جاتا ہے؟‏

16 سچائی کے مطابق چلتے رہنے کا تیسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم دوسروں کو بائبل کی سچائیاں سکھانے میں زیادہ سے زیادہ وقت صرف کریں۔‏ بائبل ایک تلوار کی طرح ہے۔‏ جس طرح ایک اچھا فوجی مضبوطی سے اپنی تلوار کو تھامے رکھتا تھا اِسی طرح ہمیں بھی ”‏روح کی تلوار یعنی خدا کا کلام“‏ تھامے رکھنا چاہیے۔‏ (‏اِفسیوں 6:‏17‏)‏ ہمیں ”‏سچائی کے کلام کو صحیح طور پر اِستعمال“‏ کرنے کے ہنر میں بہتری لاتے رہنا چاہیے۔‏ (‏2-‏تیمُتھیُس 2:‏15‏)‏ جب ہم دوسروں کو بائبل کی سچائیوں کی تعلیم دیتے ہیں تو یہ سچائیاں ہمارے دل‌ودماغ پر نقش ہو جاتی ہیں اور اِن پر چلنے کا ہمارا عزم اَور بھی مضبوط ہو جاتا ہے۔‏

سچائی یہوواہ کی طرف سے ایک بیش‌قیمت نعمت ہے۔‏

17.‏ آپ سچائی کی قدر کیوں کرتے ہیں؟‏

17 سچائی یہوواہ کی طرف سے ایک بیش‌قیمت نعمت ہے۔‏ اِس کی بدولت ہم اپنے آسمانی باپ کے دوست بن گئے ہیں۔‏ اِس دوستی سے زیادہ بیش‌قیمت چیز اَور کوئی نہیں۔‏ یہوواہ خدا ہمیں بہت سی باتیں سکھا چُکا ہے۔‏ لیکن یہ تو بس شروعات ہے۔‏ اُس کا وعدہ ہے کہ وہ ہمیں ہمیشہ نئی نئی باتیں سکھاتا رہے گا۔‏ لہٰذا سچائی کو ایک قیمتی موتی جان کر اِس کی قدر کریں۔‏ اِس ہدایت پر عمل کرتے رہیں کہ ’‏سچائی کو مول لیں اور اِسے بیچ نہ ڈالیں۔‏‘‏ پھر آپ بھی داؤد کی طرح اِس عزم پر قائم رہیں گے کہ ”‏مَیں .‏ .‏ .‏ سچائی پر چلوں [‏گا]‏۔‏“‏—‏زبور 86:‏11‏،‏ کیتھولک ترجمہ۔‏

^ پیراگراف 8 فرضی نام اِستعمال کِیا گیا ہے۔‏

^ پیراگراف 8 اِس تجربے کی ویڈیو انگریزی یا ہندی میں دیکھنے کے لیے جےڈبلیو براڈکاسٹنگ پر جائیں اور حصہ INTERVIEWS AND EXPERIENCES کے تحت حصہ TRUTH TRANSFORMS LIVES میں اِس ویڈیو کو چلائیں:‏ ”Cory Wells: I Wanted “‎the Real Life‎