مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 46

اپنے ”‏ایمان کی بڑی ڈھال“‏ کو اچھی حالت میں رکھیں

اپنے ”‏ایمان کی بڑی ڈھال“‏ کو اچھی حالت میں رکھیں

‏”‏ایمان کی بڑی ڈھال اُٹھا لیں۔‏“‏‏—‏اِفس 6:‏16‏۔‏

گیت نمبر 119‏:‏ ایمان مضبوط رکھنے کی اہمیت

مضمون پر ایک نظر *

1،‏ 2.‏ ‏(‏الف)‏ اِفسیوں 6:‏16 کے مطابق ہمیں ”‏ایمان کی بڑی ڈھال“‏ کی ضرورت کیوں ہے؟‏ (‏ب)‏ اِس مضمون میں کن سوالوں پر بات کی جائے گی؟‏

کیا آپ کے پاس ”‏ایمان کی بڑی ڈھال“‏ ہے؟‏ ‏(‏اِفسیوں 6:‏16 کو پڑھیں۔‏)‏ بےشک ہم سب کے پاس یہ ڈھال ہے۔‏ ایک بڑی ڈھال جسم کے زیادہ‌تر حصوں کی حفاظت کرتی ہے۔‏ اِسی طرح ایمان حرام‌کاری،‏ تشدد اور اِس دُنیا میں ہونے والے دیگر بُرے کاموں کے اثر سے آپ کی حفاظت کرتا ہے۔‏

2 لیکن چونکہ ہم ”‏آخری زمانے“‏ میں رہ رہے ہیں اِس لیے ہمارا ایمان آزمایا جاتا رہے گا۔‏ (‏2-‏تیم 3:‏1‏)‏ تو پھر ہم یہ جائزہ کیسے لے سکتے ہیں کہ آیا ہمارے ایمان کی ڈھال مضبوط ہے یا نہیں؟‏ اور ہم اپنی اِس ڈھال کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟‏ اِس مضمون میں اِن سوالوں پر بات کی جائے گی۔‏

اپنے ایمان کی ڈھال کا جائزہ لیں

جنگ کے بعد فوجی اِس بات کو یقینی بناتے تھے کہ اُن کی ڈھالوں کی فوراً مرمت ہو۔‏ (‏پیراگراف نمبر 3 کو دیکھیں۔‏)‏

3.‏ فوجی اپنی ڈھالوں کی دیکھ‌بھال کیسے کرتے تھے اور کیوں؟‏

3 قدیم زمانے میں فوجیوں کے پاس اکثر ایسی ڈھالیں ہوتی تھیں جن پر چمڑا چڑھا ہوتا تھا۔‏ فوجی ڈھالوں پر تیل لگاتے تھے تاکہ چمڑا خراب نہ ہو اور دھات کو زنگ نہ لگے۔‏ اگر ایک فوجی دیکھتا تھا کہ جنگ میں اُس کی ڈھال کو نقصان پہنچا ہے تو وہ اِس بات کو یقینی بناتا تھا کہ یہ فوراً ٹھیک ہو۔‏ ایسا کرنے سے وہ ہر وقت اگلی جنگ کے لیے تیار ہوتا تھا۔‏ یہ مثال ہمارے ایمان پر کیسے لاگو ہوتی ہے؟‏

4.‏ ہمیں اپنے ایمان کی ڈھال کا جائزہ کیوں لیتے رہنا چاہیے اور ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟‏

4 قدیم زمانے کے فوجیوں کی طرح ہمیں بھی باقاعدگی سے اپنے ایمان کی ڈھال کا جائزہ لینا چاہیے اور اِسے اچھی حالت میں رکھنا چاہیے۔‏ ایسا کرنے سے ہم بھی ہر وقت جنگ کے لیے تیار ہوں گے۔‏ کیسی جنگ کے لیے؟‏ مسیحیوں کے طور پر ہم ایک روحانی جنگ لڑ رہے ہیں اور ہمارے دُشمنوں میں بُرے فرشتے شامل ہیں۔‏ (‏اِفس 6:‏10-‏12‏)‏ اپنے ایمان کی ڈھال کو اچھی حالت میں رکھنا ہماری اپنی ذمےداری ہے،‏ کوئی اَور ہمارے لیے ایسا نہیں کر سکتا۔‏ لیکن ہم اپنے ایمان کو کیسے مضبوط کر سکتے ہیں تاکہ ہم آزمائشوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہ سکیں؟‏ پہلے تو ہمیں خدا سے مدد مانگنی چاہیے۔‏ اور پھر ہمیں خدا کے پاک کلام کی روشنی میں خود کو دیکھنا چاہیے اور یہ سمجھنا چاہیے کہ خدا ہمیں کس نظر سے دیکھتا ہے۔‏ (‏عبر 4:‏12‏)‏ بائبل میں لکھا ہے:‏ ”‏سارے دل سے [‏یہوواہ]‏ پر توکل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔‏“‏ (‏امثا 3:‏5،‏ 6‏)‏ اِس آیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے کسی ایسی صورتحال کے بارے میں سوچیں جس کا آپ کو حال ہی میں سامنا ہوا ہے۔‏ مثال کے طور پر کیا آپ کسی سنگین مالی مشکل سے گزرے ہیں؟‏ کیا اُس وقت آپ کے ذہن میں عبرانیوں 13:‏5 آئی جس میں خدا نے یہ وعدہ کِیا ہے:‏ ”‏مَیں تمہیں کبھی نہیں چھوڑوں گا۔‏ مَیں تمہیں کبھی ترک نہیں کروں گا۔‏“‏ کیا اِس وعدے سے آپ کو یہ اِعتماد ملا کہ یہوواہ آپ کی مدد کرے گا؟‏ اگر ہاں تو اِس کا مطلب ہے کہ آپ نے اپنے ایمان کی ڈھال کو اچھی حالت میں رکھا ہوا ہے۔‏

5.‏ اپنے ایمان کا جائزہ لینے کے بعد شاید ہمیں کیا پتہ چلے؟‏

5 جب ہم اپنے ایمان کا جائزہ لیتے ہیں تو شاید ہمارے سامنے کچھ ایسی باتیں آئیں جو ہمیں سوچنے پر مجبور کر دیں۔‏ ہو سکتا ہے کہ ہمیں خود میں کچھ ایسی کمزوریاں نظر آئیں جن کا ہمیں اندازہ بھی نہ ہو۔‏ مثال کے طور پر شاید ہم محسوس کریں کہ ہم نے کچھ فکروں کو خواہ‌مخواہ سر پر سوار کر رکھا ہے یا جھوٹی باتوں نے ہمارے ذہن میں شک کا بیج بو دیا ہے یا ہم مایوسی کے احساسات کا شکار ہو گئے ہیں۔‏ اگر ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ایسی باتوں کی وجہ سے ہمارا ایمان کمزور پڑ رہا ہے تو ہم اِسے مزید نقصان سے کیسے بچا سکتے ہیں؟‏

ہمارے ایمان کو نقصان پہنچانے والی تین چیزیں

6.‏ کن معاملات کے بارے میں فکرمند ہونا اچھی بات ہے؟‏

6 کچھ معاملات ایسے ہیں جن کے بارے میں فکرمند ہونا اچھی بات ہے۔‏ مثال کے طور پر یہ اچھی بات ہے کہ ہم یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کو خوش کرنے کی فکر میں رہیں۔‏ (‏1-‏کُر 7:‏32‏)‏ اگر ہم سے کوئی سنگین گُناہ ہو جاتا ہے تو ہم یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی بحال کرنے کے سلسلے میں فکرمند ہوتے ہیں۔‏ (‏زبور 38:‏18‏)‏ اِس کے علاوہ ہمیں اپنے جیون ساتھی کو خوش کرنے اور اپنے گھر والوں اور ہم‌ایمانوں کی بھلائی کی بھی فکر ہوتی ہے۔‏—‏1-‏کُر 7:‏33؛‏ 2-‏کُر 11:‏28‏۔‏

7.‏ امثال 29:‏25 کے مطابق ہمیں اِنسانوں سے کیوں نہیں ڈرنا چاہیے؟‏

7 اِس کے برعکس ایسی فکریں جنہیں ہم خواہ‌مخواہ سر پر سوار کر لیتے ہیں،‏ ہمارے ایمان کو کمزور کر سکتی ہیں۔‏ مثال کے طور پر ہو سکتا ہے کہ ہم ہر وقت اِس فکر میں رہیں کہ ہماری بنیادی ضرورتیں کیسے پوری ہوں گی۔‏ (‏متی 6:‏31،‏ 32‏)‏ اِس فکر کی وجہ سے شاید ہم زیادہ سے زیادہ چیزیں حاصل کرنے کے چکر میں پڑ جائیں۔‏ اور پھر کرتے کرتے شاید ہم پیسے سے پیار کرنے لگ پڑیں۔‏ اِس کے نتیجے میں یہوواہ پر ہمارا ایمان کمزور پڑ سکتا ہے اور اُس کے ساتھ ہماری دوستی میں دراڑ آ سکتی ہے۔‏ (‏مر 4:‏19؛‏ 1-‏تیم 6:‏10‏)‏ اِس کے علاوہ ہم ایک اَور معاملے کے بارے میں بھی حد سے زیادہ فکرمند ہو سکتے ہیں۔‏ اور وہ یہ ہے کہ دوسرے ہم سے خوش رہیں۔‏ اگر یہ فکر ہمارے سر پر سوار ہو جاتی ہے تو اِس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے؟‏ ہمارے دل میں یہوواہ کو ناخوش کرنے کے ڈر سے زیادہ اِس بات کا ڈر بیٹھ سکتا ہے کہ لوگ ہمارا مذاق اُڑائیں گے یا ہمیں اذیت دیں گے۔‏ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اِنسانوں کا ڈر ہم پر حاوی نہ ہو تو ہمیں یہوواہ سے ایمان اور دلیری مانگنی چاہیے۔‏‏—‏امثال 29:‏25 کو پڑھیں؛‏ لُو 17:‏5‏۔‏

‏(‏پیراگراف نمبر 8 کو دیکھیں۔‏)‏ *

8.‏ اگر کوئی ہمارے سامنے جھوٹی باتیں کرتا ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‏

8 شیطان ”‏جھوٹ کا باپ“‏ ہے۔‏ وہ لوگوں کو یہوواہ اور ہمارے بہن بھائیوں کے خلاف جھوٹی باتیں پھیلانے کے لیے اِستعمال کرتا ہے۔‏ (‏یوح 8:‏44‏)‏ مثال کے طور پر برگشتہ اشخاص اِنٹرنیٹ،‏ ٹی‌وی اور اخباروں وغیرہ میں یہوواہ کی تنظیم کے خلاف جھوٹی معلومات پھیلاتے ہیں اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔‏ یہ جھوٹی باتیں شیطان کے ”‏جلتے تیروں“‏ میں شامل ہیں۔‏ (‏اِفس 6:‏16‏)‏ اگر کوئی ہمارے سامنے ایسی جھوٹی باتیں کرتا ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‏ ہمیں اِنہیں ہرگز نہیں سننا چاہیے کیونکہ ہمیں یہوواہ اور اپنے بہن بھائیوں پر پورا بھروسا ہے۔‏ برگشتہ لوگوں کی جھوٹی باتیں سننا تو دُور،‏ ہم اُن سے کسی قسم کا رابطہ بھی نہیں رکھتے۔‏ ہم کسی بھی وجہ سے اُن کے ساتھ بحث میں نہیں اُلجھتے،‏ تجسّس کی وجہ سے بھی نہیں۔‏

9.‏ مایوسی کا ہم پر کیا اثر ہو سکتا ہے؟‏

9 مایوسی ایک ایسی چیز ہے جو ہمارے ایمان کو کمزور کر سکتی ہے۔‏ سچ ہے کہ ہم اپنے مسئلوں سے نظریں نہیں چُرا سکتے اور نہ ہی ہمیں چُرانی چاہئیں۔‏ لیکن اگر ہم اپنے مسئلوں کو ذہن پر حاوی کر لیتے ہیں تو ہم مایوسی میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔‏ اِس طرح ہمارا دھیان اُس شان‌دار اُمید سے ہٹ سکتا ہے جو یہوواہ نے ہمیں دی ہے۔‏ (‏مکا 21:‏3،‏ 4‏)‏ مایوسی کے احساسات ہماری طاقت نچوڑ سکتے ہیں اور ہمارے لیے یہوواہ کی خدمت کرنا مشکل بنا سکتے ہیں۔‏ (‏امثا 24:‏10‏)‏ لیکن ہمیں ایسا نہیں ہونے دینا چاہیے۔‏

10.‏ ہم ایک بہن کے خط سے کیا سیکھتے ہیں؟‏

10 ذرا امریکہ میں رہنے والی ایک بہن کی مثال پر غور کریں جو اپنے بیمار شوہر کی دیکھ‌بھال کرتی ہے۔‏ حالانکہ اُس کے شوہر کی صحت بہت خراب رہتی ہے لیکن پھر بھی وہ اپنے ایمان کو مضبوط رکھے ہوئے ہے۔‏ اُس بہن نے ہمارے مرکزی دفتر کو ایک خط لکھا جس میں اُس نے کہا:‏ ”‏کبھی کبھار صورتحال ایسی پیدا ہو گئی کہ ہم بڑے پریشان اور مایوس ہو گئے۔‏ لیکن ہم نے اپنی توجہ اپنی اُمید سے نہیں ہٹنے دی۔‏ مَیں یہوواہ کی بہت شکرگزار ہوں کہ وہ ہمیں ایسی معلومات فراہم کرتا ہے جن سے ہمارا ایمان اور حوصلہ بڑھتا ہے۔‏ ہمیں اِن معلومات اور حوصلہ‌افزائی کی واقعی بڑی ضرورت ہے۔‏ اِن سے ہمیں ہمت ملتی ہے کہ ہم یہوواہ کی خدمت کرتے رہیں اور اُن مشکلات کا مقابلہ کریں جن کے ذریعے شیطان ہمیں کمزور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔‏“‏ اِس بہن کی مثال سے ہم یہ سیکھتے ہیں کہ ہم مایوسی کے احساسات پر کیسے غالب آ سکتے ہیں۔‏ ایک بات تو یہ ہے کہ ہم یاد رکھیں کہ شیطان ہماری مشکلات کا فائدہ اُٹھا کر ہم پر آزمائشیں لاتا ہے۔‏ دوسری بات یہ ہے کہ ہم یہوواہ پر بھروسا رکھیں کہ وہ ہمیں حقیقی تسلی دے سکتا ہے۔‏ اور تیسری بات یہ ہے کہ ہم اُس روحانی کھانے کے لیے یہوواہ کے شکرگزار ہوں جو وہ ہمیں فراہم کرتا ہے۔‏

کیا آپ نے اپنے ”‏ایمان کی بڑی ڈھال“‏ کو اچھی حالت میں رکھا ہوا ہے؟‏ (‏پیراگراف نمبر 11 کو دیکھیں۔‏)‏ *

11.‏ اپنے ایمان کا جائزہ لینے کے لیے ہمیں خود سے کون سے سوال پوچھنے چاہئیں؟‏

11 کیا آپ کو کوئی ایسا حلقہ نظر آتا ہے جس میں آپ کو اپنا ایمان مضبوط کرنے کی ضرورت ہے؟‏ ذرا پچھلے کچھ مہینوں کے بارے میں سوچیں اور خود سے یہ سوال پوچھیں:‏ ”‏کیا کوئی ایسی فکر تھی جسے مَیں نے اپنے سر پر سوار نہیں ہونے دیا؟‏ کیا مَیں نے برگشتہ لوگوں کی جھوٹی باتیں سننے اور اُن کے ساتھ بحث میں اُلجھنے سے اِنکار کِیا؟‏ کیا مَیں مایوسی کے احساسات پر قابو پانے کے قابل ہوا؟‏“‏ اگر آپ کو اِن میں سے کسی صورتحال کا سامنا ہوا ہے اور آپ نے جواب ہاں میں دیا ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ آپ کا ایمان اچھی حالت میں ہے۔‏ لیکن پھر بھی ہمیں خبردار رہنا چاہیے کیونکہ شیطان کے پاس اَور بھی ہتھیار ہیں جنہیں وہ ہمارے خلاف اِستعمال کرتا ہے۔‏ آئیں،‏ اِن میں سے ایک پر بات کرتے ہیں۔‏

پیسوں اور چیزوں کی کشش

12.‏ پیسوں اور چیزوں کی کشش کا ہم پر کیا اثر ہو سکتا ہے؟‏

12 پیسوں اور چیزوں کی کشش کی بدولت خدا کی خدمت سے ہمارا دھیان ہٹ سکتا ہے اور ہمارا ایمان کمزور پڑ سکتا ہے۔‏ پولُس رسول نے کہا:‏ ”‏کوئی فوجی کاروباری معاملوں میں نہیں اُلجھتا کیونکہ وہ اُس شخص کو خوش کرنا چاہتا ہے جس نے اُسے بھرتی کِیا ہے۔‏“‏ (‏2-‏تیم 2:‏4‏)‏ دراصل رومی فوجیوں کو کوئی کاروبار کرنے کی اِجازت نہیں ہوتی تھی۔‏ لیکن اگر کوئی فوجی اِس ہدایت کو نظرانداز کرتا تھا تو کیا ہو سکتا تھا؟‏

13.‏ ایک فوجی کاروباری معاملوں میں کیوں نہیں اُلجھتا تھا؟‏

13 ذرا کچھ فوجیوں کے بارے میں سوچیں جو صبح کے وقت اپنی تلواروں کے ساتھ لڑنے کی مشق کر رہے ہیں۔‏ اُن کا ایک ساتھی اُن کے ساتھ موجود نہیں ہے کیونکہ اُس نے بازار میں کھانے پینے کی چیزوں کی ایک دُکان کھولی ہوئی ہے۔‏ شام کو فوجی اپنے جنگی لباس کا جائزہ لیتے ہیں اور اپنی تلواروں کو تیز کرتے ہیں۔‏ لیکن جس فوجی نے دُکان کھولی ہوئی ہے،‏ وہ اِس دوران کھانے پینے کی چیزیں تیار کرنے میں لگا رہتا ہے تاکہ اُنہیں اگلے دن بیچ سکے۔‏ اگلی صبح دُشمن اچانک دھاوا بول دیتے ہیں۔‏ آپ کے خیال میں کون سا فوجی جنگ کے لیے تیار ہوگا اور اپنے کمانڈر کو خوش کرے گا؟‏ اور اگر آپ جنگ میں ہوتے تو آپ کس فوجی کے ساتھ کھڑے ہونا چاہتے:‏ اُس کے ساتھ جو جنگ کے لیے تیار تھا یا اُس کے ساتھ جس کا دھیان اپنے مقصد سے ہٹا ہوا تھا؟‏

14.‏ مسیح کے فوجیوں کے طور پر ہمارے لیے کون سی بات سب سے زیادہ اہم ہے؟‏

14 اچھے فوجیوں کی طرح ہم بھی اپنا دھیان اپنے مقصد سے ہٹنے نہیں دیتے۔‏ اور ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے کمانڈروں یعنی یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کو خوش کریں۔‏ ہمارے لیے یہ بات اِتنی اہم ہے کہ اِس کے مقابلے میں شیطان کی دُنیا کی کوئی بھی چیز کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔‏ ہم پوری کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے پاس ضروری کاموں کے لیے ہمیشہ وقت اور توانائی ہو۔‏ اِن کاموں میں یہ شامل ہے کہ ہم یہوواہ کی خدمت کریں اور اپنے ایمان کی ڈھال اور اپنے جنگی لباس کے باقی حصوں کو اچھی حالت میں رکھیں۔‏

15.‏ پولُس رسول نے مسیحیوں کو کس حوالے سے خبردار کِیا اور کیوں؟‏

15 پولُس رسول نے مسیحیوں کو خبردار کِیا کہ ”‏جو لوگ امیر بننے پر تُلے ہیں،‏ وہ .‏ .‏ .‏ ایمان سے پھر“‏ جائیں گے۔‏ (‏1-‏تیم 6:‏9،‏ 10‏)‏ اِس لیے ہمیں ہمیشہ چوکس رہنا چاہیے۔‏ اِصطلاح ”‏پھر گئے“‏ سے ظاہر ہوتا ہے کہ غیرضروری چیزیں حاصل کرنے کے چکر میں ہمارا دھیان ضروری باتوں سے ہٹ سکتا ہے۔‏ اور اِس وجہ سے ہمارے دل میں ’‏فضول اور نقصان‌دہ خواہشیں‘‏ جڑ پکڑ سکتی ہیں۔‏ لیکن ہمیں اِن خواہشوں کو اپنے دل میں ہرگز جگہ نہیں دینی چاہیے۔‏ اِس کی بجائے ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ خواہشیں اصل میں شیطان کے ہتھیار ہیں جو وہ ہمارے ایمان کو کمزور کرنے کے لیے اِستعمال کرتا ہے۔‏

16.‏ مرقس 10:‏17-‏22 میں درج واقعے سے ہمیں کن سوالوں پر غور کرنے کی ترغیب ملتی ہے؟‏

16 فرض کریں کہ ہمارے پاس اِتنے پیسے ہیں کہ ہم بہت سی چیزیں خرید سکتے ہیں۔‏ ایسی صورت میں اگر ہم وہ چیزیں خرید لیتے ہیں جو ہمیں پسند ہیں مگر ہمیں اُن کی ضرورت نہیں تو کیا ہم کچھ غلط کر رہے ہوں گے؟‏ لازمی نہیں ہے۔‏ لیکن ہمیں خود سے یہ سوال ضرور پوچھنے چاہئیں:‏ ”‏اگر مَیں ایک چیز خرید سکتا ہوں تو کیا میرے پاس اِتنا وقت اور توانائی ہے کہ مَیں اُس چیز کو اِستعمال کر سکوں اور اُس کی دیکھ‌بھال کر سکوں؟‏ کہیں مجھے اُن چیزوں سے لگاؤ تو نہیں ہو جائے گا جو مَیں خریدتا ہوں؟‏ کہیں اِس لگاؤ کی وجہ سے میری سوچ اُس جوان آدمی جیسی تو نہیں ہو جائے گی جس نے یسوع کی پیشکش کو ٹھکرا دیا اور یہوواہ کی خدمت نہیں کی؟‏“‏ ‏(‏مرقس 10:‏17-‏22 کو پڑھیں۔‏)‏ یہ کتنا اچھا ہوگا کہ ہم سادہ زندگی گزاریں اور اپنے قیمتی وقت اور توانائی کو یہوواہ کی خدمت میں زیادہ حصہ لینے کے لیے اِستعمال کریں!‏

اپنے ایمان کی ڈھال کو مضبوطی سے تھامے رکھیں

17.‏ ہمیں کون سی بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے؟‏

17 ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم ایک جنگ لڑ رہے ہیں اور ہمیں ہر روز اِس جنگ میں لڑنے کے لیے تیار رہنا ہے۔‏ (‏مکا 12:‏17‏)‏ ہمارے بہن بھائی ہمارے ایمان کی ڈھال کو نہیں اُٹھا سکتے بلکہ یہ ہماری اپنی ذمےداری ہے کہ ہم اِس ڈھال کو مضبوطی سے تھامے رکھیں۔‏

18.‏ قدیم زمانے میں فوجی اپنی ڈھالوں کو مضبوطی سے کیوں تھامے رکھتے تھے؟‏

18 قدیم زمانے میں اُس فوجی کو بڑی عزت ملتی تھی جو جنگ میں بہادری سے لڑتا تھا۔‏ لیکن جو فوجی اپنی ڈھال کے بغیر گھر لوٹتا تھا،‏ اُسے بہت شرمندگی اُٹھانی پڑتی تھی۔‏ رومی تاریخ‌دان تستُس نے لکھا:‏ ”‏اگر ایک فوجی کی ڈھال میدانِ‌جنگ میں رہ جاتی تھی تو یہ اُس کے لیے بڑی بےعزتی کی بات ہوتی تھی۔‏“‏ اِس وجہ سے فوجی اِس بات کا خاص خیال رکھتے تھے کہ وہ اپنی ڈھالوں کو مضبوطی سے تھامے رکھیں۔‏

اپنے ایمان کی ڈھال کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کے لیے ایک بہن خدا کے کلام کا مطالعہ کر رہی ہے،‏ باقاعدگی سے اِجلاسوں میں جا رہی ہے اور مُنادی کے کام میں حصہ لے رہی ہے۔‏ (‏پیراگراف نمبر 19 کو دیکھیں۔‏)‏

19.‏ ہم اپنے ایمان کی ڈھال کو مضبوطی سے کیسے تھامے رکھ سکتے ہیں؟‏

19 ہم اپنے ایمان کی ڈھال کو مضبوطی سے کیسے تھامے رکھ سکتے ہیں؟‏ ہمیں باقاعدگی سے اِجلاسوں میں حاضر ہونا چاہیے اور دوسروں کو یہوواہ کے نام اور اُس کی بادشاہت کے بارے میں بتانا چاہیے۔‏ (‏عبر 10:‏23-‏25‏)‏ اِس کے علاوہ ہمیں ہر روز خدا کا کلام پڑھنا چاہیے اور اُس سے دُعا کرنی چاہیے کہ وہ اِس میں لکھی باتوں پر عمل کرنے میں ہماری مدد کرے۔‏ (‏2-‏تیم 3:‏16،‏ 17‏)‏ پھر شیطان کا کوئی بھی ہتھیار ہمیں دائمی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔‏ (‏یسع 54:‏17‏)‏ ہمارے ”‏ایمان کی بڑی ڈھال“‏ ہماری حفاظت کرے گی اور ہم اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر ڈٹے رہیں گے۔‏ یوں ہم اُن جنگوں کو جیت پائیں گے جو ہمیں ہر روز اپنے ایمان کو مضبوط رکھنے کے لیے لڑنی پڑتی ہیں۔‏ اِس کے علاوہ ہمیں اُس وقت یسوع کی حمایت میں کھڑے ہونے کا اعزاز بھی ملے گا جب وہ شیطان اور اُس کے ساتھیوں کو مات دیں گے۔‏—‏مکا 17:‏14؛‏ 20:‏10‏۔‏

گیت نمبر 118‏:‏ ہمیں اَور ایمان دے

^ پیراگراف 5 فوجی جنگ میں اپنی حفاظت کے لیے ڈھال اِستعمال کرتے تھے۔‏ ہمارا ایمان بھی ایک ڈھال کی طرح ہے۔‏ جس طرح فوجیوں کے لیے ضروری ہوتا تھا کہ وہ اپنی ڈھال کو اچھی حالت میں رکھیں اُسی طرح ہمارے لیے بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے ایمان کو مضبوط حالت میں رکھیں۔‏ اِس مضمون میں بتایا جائے گا کہ ہم اپنے ”‏ایمان کی بڑی ڈھال“‏ کو اچھی حالت میں کیسے رکھ سکتے ہیں۔‏

^ پیراگراف 58 تصویر کی وضاحت‏:‏ ایک گواہ خاندان ٹی‌وی دیکھ رہا تھا۔‏ پھر ٹی‌وی پر گواہوں کے متعلق جھوٹی باتیں پھیلانے والے برگشتہ لوگوں کے بارے میں ایک خبر نشر ہوئی۔‏ اِس پر اُس خاندان نے فوراً ٹی‌وی بند کر دیا ہے۔‏

^ پیراگراف 60 تصویر کی وضاحت‏:‏ بعد میں خاندانی عبادت کے دوران والد بائبل میں درج ایک واقعے کے ذریعے اپنے بیوی بچوں کا ایمان مضبوط کر رہا ہے۔‏