آپبیتی
”مَیں یہوواہ کی خدمت کرنا چاہتا تھا“
ہم نے گرنبوری کے گاؤں کا دورہ کِیا جو سُرینام کے برساتی جنگلات میں واقع ہے۔ ہم نے وہاں کچھ لوگوں کو خدا حافظ کہا اور پھر ایک کشتی میں بیٹھ کر تاپانوہونی دریا سے سفر کرنے لگے۔ اِس تیز بہاؤ والے دریا سے گزرتے وقت ہماری کشتی کی موٹر پر لگا پنکھا ایک چٹان سے ٹکرا گیا۔ جلد ہی کشتی ڈوبنے لگی اور ہم پانی کے اندر چلے گئے۔ میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ حالانکہ حلقے کے نگہبان کے طور پر دورہ کرتے وقت میں اکثر کشتی میں ہی سفر کِیا کرتا تھا لیکن مَیں نے کبھی تیرنا نہیں سیکھا۔
یہ بتانے سے پہلے کہ آگے کیا ہوا، آئیے مَیں آپ کو بتاتا ہوں کہ مَیں نے کُلوقتی طور پر خدمت کرنا کیسے شروع کی۔
مَیں 1942ء میں کیریبیئن جزائر کے جزیرے کیوراساؤ میں پیدا ہوا۔ میرے ابو سُرینام سے تھے لیکن وہ کام کرنے کے لیے کیوراساؤ جزیرے پر شفٹ ہو گئے تھے۔ میرے ابو اُن لوگوں میں سے ایک تھے جو کیوراساؤ میں سب سے پہلے یہوواہ کے گواہ بنے۔ یہ میرے پیدا ہونے سے کچھ سال پہلے کی بات تھی۔ ہم پانچ بہن بھائی تھے اور ابو ہر ہفتے ہم سب کے ساتھ مل کر بائبل پر بات کرتے تھے۔ ابو کے لیے ایسا کرنا آسان نہیں تھا کیونکہ بائبل پر بات کرنے کو ہمارا دل نہیں چاہتا تھا۔ جب مَیں 14 سال کا ہوا تو ابو اپنی بوڑھی امی کی دیکھبھال کرنے کے لیے ہم سب کو لے کر سُرینام شفٹ ہو گئے۔
اچھے دوستوں کا ساتھ
سُرینام کی کلیسیا میں مَیں ایسے نوجوانوں کے ساتھ وقت گزارنے لگا جو بڑے جوش سے یہوواہ کی خدمت کر رہے تھے۔ وہ مجھ سے کچھ ہی سال بڑے تھے اور پہلکار تھے۔ جب وہ اِس بارے میں بات کر رہے ہوتے تھے کہ اُنہیں مُنادی کرتے وقت کتنے اچھے تجربے ہوئے تو اُن کے چہرے خوشی سے کھل اُٹھتے تھے۔ اِجلاسوں کے بعد مَیں اور میرے دوست بائبل کے موضوعات پر باتچیت کرتے تھے۔ کبھی کبھار تو ہم ستاروں بھرے آسمان کے نیچے بیٹھ کر بات کرتے تھے۔ میرے اِن دوستوں نے میری یہ سمجھنے میں بڑی مدد کی کہ مَیں اپنی زندگی میں کیا کرنا چاہتا ہوں۔ مَیں یہوواہ کی خدمت کرنا چاہتا تھا۔ 16 سال کی عمر میں مَیں نے بپتسمہ لے لیا اور 18 سال کی عمر میں مَیں پہلکار بن گیا۔
مَیں نے بہت اہم باتیں سیکھیں
پہلکار کے طور پر خدمت کرتے وقت مَیں نے بہت سی ایسی اہم باتیں سیکھیں جن کی مدد سے مَیں کُلوقتی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد بنا پایا۔ مثال کے طور پر پہلی بات تو مَیں نے یہ سیکھی کہ دوسروں کو ٹریننگ دینا بہت ضروری ہوتا ہے۔ جب مَیں نے پہلکار کے طور پر خدمت شروع کی تو ایک مشنری نے مجھے بہت کچھ سکھایا۔ اِس مشنری کا نام وِلم وان سیجیل تھا۔ اُنہوں نے مجھے سکھایا کہ مَیں کلیسیا میں اپنی ذمےداریاں کیسے پوری کر سکتا ہوں۔ اُس وقت تو مجھے اندازہ بھی نہیں تھا کہ مجھے اُس ٹریننگ کی کتنی زیادہ
ضرورت تھی۔ اگلے سال مَیں خصوصی پہلکار بن گیا۔ اِس کے بعد سے مَیں سُرینام کے دُوردراز علاقوں میں ہمارے چھوٹے چھوٹے گروپوں کی پیشوائی کرنے لگا۔ یہ علاقے برساتی جنگلات میں تھے۔ مَیں بتا بھی نہیں سکتا ہے کہ مَیں وِلم جیسے بھائیوں کا کتنا شکرگزار ہوں جنہوں نے مجھے ایسی ٹریننگ دی جو آگے چل کر میرے بہت کام آئی۔ اِس کے بعد سے مَیں دوسروں کو ٹریننگ دیتے وقت اِنہی بھائیوں کی مثال پر عمل کرنے لگا۔دوسری بات جو مَیں نے سیکھی، وہ یہ تھی کہ سادہ زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ پہلے سے ہر چیز کا حساب کتاب لگا لینے کا کتنا فائدہ ہوتا ہے۔ ہر مہینے کے شروع میں مَیں اور میرے ساتھ خصوصی پہلکار کے طور پر خدمت کرنے والا بھائی سوچتے تھے کہ ہمیں آنے والے ہفتوں میں کھانے پینے کی کون سی چیزیں اور کون سا ضروری سامان چاہیے ہوگا۔ پھر ہم میں سے کوئی ایک لمبا سفر کر کے شہر جاتا تھا اور وہاں سے ضروری سامان لے آتا تھا۔ ہمیں مہینے کا جو خرچہ ملتا تھا، ہم اُسے بہت دھیان سے اِستعمال کرتے تھے اور پورے مہینے کے لیے ضروری چیزیں لے آتے تھے۔ اگر ہمارے پاس کوئی چیز ختم ہو جاتی تھی تو کوئی نہ کوئی ہماری مدد کر دیتا تھا۔ نوجوانی میں سادہ زندگی گزارنے اور چیزوں کا پہلے سے حساب کتاب لگا لینے سے مَیں ساری زندگی اپنا دھیان یہوواہ کی خدمت پر رکھ پایا۔
تیسری بات جو مَیں نے سیکھی، وہ یہ تھی کہ جب ہم لوگوں کو اُن کی زبان میں بائبل کا پیغام سناتے ہیں تو اِس سے اُنہیں بہت فائدہ ہوتا ہے۔ مَیں نے بچپن سے ہی وہ زبانیں سیکھی تھیں جو سُرینام میں عام بولی جاتی ہیں جیسے کہ ڈچ، انگریزی، پاپیامینٹو اور سرانانٹونگو (جسے سرانان بھی کہا جاتا ہے)۔ لیکن برساتی جنگلات میں مَیں نے دیکھا کہ لوگوں نے خوشخبری کے پیغام کو اُس وقت خوشی سے قبول کِیا جب اُنہوں نے اِسے اپنی مقامی زبان میں سنا۔ حالانکہ مجھے اُن کی کچھ مقامی زبانیں بولنا مشکل لگا جیسے کہ ساراماکان زبان۔ لیکن مَیں نے پھر بھی ہمت نہیں ہاری۔ مَیں نے بہت سے لوگوں کو بائبل کی تعلیم دی کیونکہ مَیں اُن سے اُن کی مقامی زبان میں بات کرتا تھا۔
بےشک اِس دوران کچھ ایسی باتیں بھی ہوئیں جن سے مجھے بڑی شرمندگی ہوئی۔ مثال کے طور پر ایک بار مَیں نے ساراماکان بولنے والی ایک عورت سے اُس کا حال چال پوچھا کیونکہ مَیں نے سنا تھا کہ اُس کے پیٹ میں کافی دنوں سے درد ہے۔ لیکن مَیں نے جو اُس سے پوچھا، اُس کا کچھ اَور ہی مطلب تھا۔ دراصل مَیں نے اُس سے پوچھا کہ کیا وہ پیٹ سے ہے۔ ظاہری بات ہے کہ یہ سوال سُن کر اُس عورت کو بہت شرمندگی ہوئی۔ اِس طرح کی غلطیوں کے باوجود بھی مَیں لوگوں سے اُن کی مقامی زبان میں ہی بات کرنے کی کوشش کرتا تھا۔
مزید ذمےداریاں
1970ء میں مجھے حلقے کا نگہبان بنا دیا گیا۔ اُس سال مَیں نے دُوردراز علاقوں کے بہت سے گروپوں کو سکرین پر یہوواہ کے گواہوں کے مرکزی دفتر کی تصویریں دِکھائیں۔ اِن بہن بھائیوں تک پہنچنے کے لیے مَیں نے اور کچھ بھائیوں نے ایک بڑی کشتی کے ذریعے ایک دریا پار کِیا۔ اپنی کشتی میں ہم ایک جنریٹر، گیس کا ٹینک، لالٹینیں اور تصویریں دِکھانے کا سازوسامان لے کر گئے۔ جب ہم اپنی منزل تک پہنچ گئے تو ہم یہ سارا سامان اُٹھا کر اُس جگہ گئے جہاں ہم نے تصویریں دِکھانی تھیں۔ اِس طرح کے سفر کے حوالے سے جو بات مجھے اچھی طرح یاد ہے، وہ یہ ہے کہ اِن دُوردراز علاقوں میں لوگ ایسے اِنتظامات کو کتنا پسند کرتے تھے۔ مجھے لوگوں کو یہوواہ اور اُس کی تنظیم کے بارے میں سکھا کر بہت اچھا لگتا تھا۔ لوگوں کو یہوواہ کے قریب آتے دیکھ کر مجھے اِتنی زیادہ خوشی ملتی تھی کہ مَیں اپنی ساری قربانیاں بھول جاتا تھا۔
تہری ڈوری میں بندھنا
سچ ہے کہ اکیلے رہ کر یہوواہ کی خدمت کرنا زیادہ آسان تھا لیکن مَیں زندگی میں ایک ایسا ساتھی چاہتا تھا جو یہوواہ کی خدمت کرنے میں عمر بھر میرا ساتھ دے۔ اِس لیے مَیں یہوواہ سے دُعا کرنے لگا کہ وہ ایک ایسا جیون ساتھی ڈھونڈنے میں میری مدد کرے جو خوشی سے میرے ساتھ اِن برساتی جنگلات میں کُلوقتی طور پر خدمت کر سکے کیونکہ یہاں خدمت کرنا آسان نہیں تھا۔ پھر ایک سال بعد مَیں ایک خصوصی پہلکار سے ملا جس کا نام ایتھل تھا۔ ہم دونوں شادی کے اِرادے سے ایک دوسرے کو جاننے لگے۔ ایتھل ہر طرح سے یہوواہ کی خدمت کرنے کو تیار تھیں پھر چاہے اِس میں اُنہیں کتنی مشکلوں کا سامنا ہی کیوں نہ ہو۔ ایتھل کو بچپن سے ہی پولُس کی مثال بڑی اچھی لگتی تھی اور وہ اُن کی طرح یہوواہ کی خدمت کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھیں۔ ہم نے ستمبر 1971ء میں شادی کر لی اور مل کر کلیسیاؤں کا دورہ کرنے لگے۔
ایتھل بچپن سے ہی زیادہ آسائشوں کی عادی نہیں تھیں۔ اِس لیے اُنہیں برساتی جنگل میں خدمت کرنے کے لیے خود کو ڈھالنا اِتنا مشکل نہیں لگا۔ مثال کے طور پر جب ہم گھنے جنگلوں میں واقع کلیسیاؤں کا دورہ کرنے کی تیاریاں کر رہے ہوتے تھے تو ہم اپنے ساتھ بس گنی چُنی چیزیں لے جاتے تھے۔ ہم دریا میں اپنے کپڑے دھوتے اور نہاتے تھے۔ ہم نے وہ سب چیزیں کھانے کی بھی عادت ڈال لی تھی جو لوگ ہمیں دیتے تھے جیسے کہ بڑی چھپکلیاں، پیرانہا مچھلی یا ایسی کوئی بھی چیز جسے وہ جنگل سے شکار کر کے لاتے تھے یا دریا سے پکڑتے تھے۔ جب پلیٹیں نہیں ہوتی تھیں تو ہم کیلوں کے پتوں پر کھانا کھاتے تھے۔ اور جب چمچ نہیں ہوتے تھے تو ہم اپنے ہاتھوں سے کھانا کھاتے تھے۔ مَیں نے اور ایتھل نے دیکھا کہ مل کر اِس طرح سے یہوواہ کے لیے قربانیاں دینے سے ہماری ”تہری ڈوری“ اَور مضبوط ہو گئی۔ (واعظ 4:12) ایسے تجربے کسی پیسے سے نہیں خریدے جا سکتے تھے!
ایک دن جب ہم ایک دُوردراز علاقے میں ایک گروپ کے بہن بھائیوں سے مل کر واپس آ رہے تھے تو ہمارے ساتھ وہ ہوا جو مَیں نے مضمون کے شروع میں بتایا تھا۔ جب ہم اُس جگہ پہنچے جہاں پانی کا بہاؤ بہت تیز تھا تو ہماری کشتی تھوڑی دیر کے لیے پانی کے اندر گئی اور پھر جلد ہی
اُوپر آ گئی۔ شکر ہے کہ ہم سب نے لائف جیکٹ پہنی ہوئی تھی اور کوئی بھی کشتی سے بہہ کر دُور نہیں گیا۔ مگر ہماری کشتی پانی سے بھر گئی تھی۔ اِس لیے ہم نے کھانے کے برتنوں سے کھانا نکال کر دریا میں ڈال دیا اور پھر اُن برتنوں سے کشتی سے پانی نکالنے لگے۔ہمارے پاس کھانے کی کوئی چیز نہیں بچی تھی اِس لیے سفر کرتے وقت ہم دریا سے مچھلی پکڑنے کی کوشش کرنے لگے۔ لیکن ہمارے ہاتھ ایک بھی مچھلی نہیں لگی۔ اِس لیے ہم نے یہوواہ سے دُعا میں کہا کہ وہ ہمیں آج کی ضرورت کے مطابق روٹی دے۔ دُعا کے فوراً بعد ایک بھائی نے دریا میں مچھلی پکڑنے کا کانٹا پھینکا اور ہمارے ہاتھ اِتنی بڑی مچھلی لگی کہ یہ ہم پانچ لوگوں کے لیے کافی تھی۔
شوہر، باپ اور حلقے کے نگہبان کے فرائض
پانچ سال حلقے کے نگہبان کے طور پر کام کرنے کے بعد مجھے اور ایتھل کو ایک ایسی خبر ملی جس کی ہمیں توقع بھی نہیں تھی۔ ہم ماں باپ بننے والے تھے۔ یہ خبر سُن کر مَیں بہت خوش تھا حالانکہ مَیں نہیں جانتا تھا کہ آگے چل کر کیا ہوگا۔ مَیں اور ایتھل ہر حال میں کُلوقتی طور پر یہوواہ کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔ 1976ء میں ہمارا بیٹا ایتھنیایل پیدا ہوا۔ اور پھر اِس کے ڈھائی سال بعد ہمارا دوسرا بیٹا جُوآنی پیدا ہوا۔
چونکہ اُس وقت سُرینام میں بھائیوں کی بہت ضرورت تھی اِس لیے برانچ نے فیصلہ کِیا کہ مَیں اپنے بچوں کی پرورش کرنے کے ساتھ ساتھ حلقے کے نگہبان کے طور پر خدمت کرتا رہوں۔ جب ہمارے بیٹے چھوٹے تھے تو مجھے دورہ کرنے کے لیے ایسے حلقے دیے جاتے تھے جن میں کچھ ہی کلیسیائیں ہوتی تھیں۔ اِس طرح مَیں مہینے کے تقریباً ڈیڑھ دو ہفتے حلقے کے نگہبان کے طور پر خدمت کرتا تھا اور باقی مہینہ اپنی کلیسیا میں پہلکار کے طور پر خدمت کرتا تھا۔ جب مَیں قریب کی کلیسیاؤں کا دورہ کرتا تھا تو ایتھل اور بچے میرے ساتھ ہی جاتے تھے۔ لیکن جب مَیں برساتی جنگلات میں کلیسیاؤں کا دورہ کرتا تھا یا وہاں اِجتماع پر جاتا تھا تو مَیں اکیلے ہی جاتا تھا۔
اپنی سب ذمےداریوں کو اچھی طرح سے نبھانے کے لیے مَیں پہلے سے ہی سوچ سمجھ کر منصوبے بناتا تھا۔ مَیں اِس بات کا خیال رکھنے کی پوری کوشش کرتا تھا کہ ہمارا گھرانہ ہر ہفتے خاندانی عبادت کرے۔ جب مَیں برساتی جنگلات کی کلیسیاؤں کا دورہ کرتا تھا تو ایتھل بچوں کے ساتھ خاندانی عبادت کرتی تھیں۔ ہمارے لیے جہاں تک ممکن ہوتا تھا، ہم خاندان کے طور پر مل کر کام کرتے تھے۔ مَیں اور ایتھل باقاعدگی سے اپنے بیٹوں کے ساتھ سیروتفریح کرتے اور کھیلتے تھے اور اُنہیں ایسی دلچسپ جگہوں پر گھمانے لے جاتے تھے جو ہمارے گھر کے قریب تھیں۔ مَیں اکثر رات دیر تک اپنی تقریروں اور حصوں کی تیاری کرتا رہتا تھا۔ اور ایتھل امثال 31 میں بتائی گئی بیوی کی طرح ”پَو پھٹنے سے پہلے“ یعنی صبح سویرے ہی جاگ جاتی تھیں تاکہ ہم بچوں کے سکول جانے سے پہلے مل کر روزانہ کی آیت پر بات کر سکیں اور اِکٹھے ناشتہ کر سکیں۔ (امثال 31:15، اُردو جیو ورشن) مَیں یہوواہ کا بہت شکرگزار ہوں کہ مجھے ایک ایسی بیوی کا ساتھ ملا ہے جو اُن ذمےداریوں کو نبھانے میں ہمیشہ میری مدد کرتی ہے جو یہوواہ نے مجھے دی ہیں۔
مَیں نے اور ایتھل نے اپنی طرف سے سخت کوشش کی ہے کہ ہمارے بچے یہوواہ سے محبت کریں اور لگن سے اُس کی خدمت کریں۔ ہم چاہتے تھے کہ ہمارے بیٹے کُلوقتی طور پر یہوواہ کی خدمت کرنے کا فیصلہ کریں؛ لیکن اِس لیے نہیں کہ ہم ایسا چاہتے ہیں بلکہ اِس لیے کہ وہ ایسا چاہتے ہیں۔ ہم ہمیشہ اُنہیں بتاتے تھے کہ ہمیں کُلوقتی طور پر یہوواہ کی خدمت کرنے سے کتنی خوشیاں ملیں۔ ہم نے کبھی اُن سے یہ نہیں چھپایا کہ ایسا کرتے وقت ہمیں مشکلوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ مگر ہم نے اِس بات پر زور دیا کہ یہوواہ نے اِن مشکلوں میں کس کس طرح سے ہماری مدد کی اور ایک خاندان کے طور پر ہمیں برکت دی۔ ہم نے اِس بات کا بھی خیال رکھا کہ ہمارے بیٹے اپنے ایسے ہمایمانوں سے دوستی کریں جو یہوواہ کو اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
یہوواہ نے ہمیشہ میری مدد کی تاکہ مَیں اپنے گھرانے کی ضرورتوں کو پورا کر سکوں۔ مَیں نے بھی اپنی طرف سے وہ سب کچھ کِیا جو مَیں کر سکتا تھا۔ جب میری شادی نہیں ہوئی تھی اور مَیں برساتی جنگلات میں خصوصی پہلکار کے طور پر خدمت کر رہا تھا تو مَیں نے سیکھا تھا کہ مَیں پہلے سے سوچوں کہ مَیں پیسے کہاں کہاں خرچ کروں گا۔ حالانکہ ہم پیسوں کو بہت سمجھداری سے اِستعمال کرتے تھے لیکن پھر بھی کبھی کبھار ہمارے پاس ضرورت کی ہر چیز نہیں ہوتی تھی۔ ایسے موقعوں پر مَیں نے صاف طور پر دیکھا کہ یہوواہ ہماری مدد کو آیا۔ مثال کے طور پر 1986ء سے 1992ء میں سُرینام میں خانہجنگی چل رہی تھی۔ اِس دوران ضرورت کی چھوٹی موٹی چیزیں خریدنا بھی بڑا مشکل ہو گیا تھا۔ لیکن یہوواہ نے تب بھی ہماری ضرورتوں کو پورا کِیا۔—متی 6:32۔
میری زندگی کا سب سے بہترین فیصلہ
یہوواہ نے ساری زندگی ہمارا خیال رکھا ہے اور ہمیں سچی خوشی اور اِطمینان دیا ہے۔ ہمارے بچے ہمارے لیے بہت بڑی برکت ہیں اور اُنہیں بچپن سے یہوواہ کے بارے میں سکھانا ہمارے لیے ایک بہت بڑا اعزاز رہا ہے۔ ہم بہت خوش ہیں کہ ہمارے بچوں نے بھی کُلوقتی طور پر یہوواہ کی خدمت کرنے کا فیصلہ کِیا ہے۔ ایتھنیایل اور جُوآنی دونوں نے ہی تنظیم کے سکولوں سے تربیت حاصل کی ہے اور اب وہ اپنی اپنی بیویوں کے ساتھ سُرینام برانچ میں خدمت کر رہے ہیں۔
ایتھل اور مَیں اب کافی بوڑھے ہو چُکے ہیں۔ لیکن ہم ابھی بھی خصوصی پہلکاروں کے طور پر یہوواہ کی خدمت کر رہے ہیں۔ ہم اِس خدمت میں اِتنے زیادہ مصروف ہیں کہ مجھے ابھی بھی وقت ہی نہیں ملتا کہ مَیں تیرنا سیکھ لوں۔ لیکن کوئی بات نہیں۔ مَیں جب بھی اپنی زندگی پر نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ نوجوانی میں کُلوقتی طور پر یہوواہ کی خدمت کرنے کا فیصلہ کرنا میری زندگی کا سب سے بہترین فیصلہ تھا جس پر مجھے کوئی پچھتاوا نہیں۔