مطالعے کا مضمون نمبر 48
وفاداری کے اِمتحان سے گزرتے وقت اپنے ہوشوحواس قائم رکھیں
”ہر طرح کے حالات میں اپنے ہوشوحواس قائم رکھیں۔“—2-تیم 4:5۔
گیت نمبر 123: تابعدار ہوں
مضمون پر ایک نظر a
1. اپنے ہوشوحواس قائم رکھنے کا کیا مطلب ہے؟ (2-تیمُتھیُس 4:5)
جب ہمیں مشکلوں کا سامنا ہوتا ہے تو یہوواہ اور اُس کی تنظیم کے لیے ہماری وفاداری کا اِمتحان ہو سکتا ہے۔ لیکن ہم مشکلوں کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟ اپنے ہوشوحواس قائم رکھنے، چوکس رہنے اور ایمان کی راہ پر قائم رہنے سے۔ (2-تیمُتھیُس 4:5 کو پڑھیں۔) ہم پُرسکون رہنے، ٹھنڈے دماغ سے سوچنے اور معاملوں کو یہوواہ کی نظر سے دیکھنے سے اپنے ہوشوحواس قائم رکھ سکتے ہیں۔ جب ہم ایسا کریں گے تو ہمارے جذبات ہماری سوچ پر حاوی نہیں ہوں گے۔
2. اِس مضمون میں ہم کن باتوں پر غور کریں گے؟
2 پچھلے مضمون میں ہم نے تین ایسی مشکلوں پر بات کی تھی جو کلیسیا کے باہر سے آتی ہیں۔ اور اِس مضمون میں ہم تین ایسے مسئلوں پر بات کریں گے جو کلیسیا کے اندر کھڑے ہو سکتے ہیں اور جن کی وجہ سے یہوواہ کے لیے ہماری وفاداری کا اِمتحان ہو سکتا ہے۔ یہ تین مسئلے یہ ہیں: (1) جب ہمیں لگتا ہے کہ ہمارے کسی ہمایمان نے ہمارے ساتھ بُرا سلوک کِیا ہے؛ (2) جب ہماری اِصلاح کی جاتی ہے اور (3) جب ہمیں تنظیم میں ہونے والی تبدیلیوں کو قبول کرنا مشکل لگتا ہے۔ اِن مسئلوں کا سامنا کرتے وقت ہم اپنے ہوشوحواس کیسے قائم رکھ سکتے ہیں اور یہوواہ اور اُس کی تنظیم کے وفادار کیسے رہ سکتے ہیں؟
جب ہمارا کوئی ہمایمان ہمارے ساتھ بُرا سلوک کرتا ہے
3. جب ہمارا کوئی ہمایمان ہمارے ساتھ بُرا سلوک کرتا ہے تو شاید ہمیں کیسا لگے؟
3 کیا آپ کو کبھی لگا کہ آپ کے کسی ہمایمان نے آپ کے ساتھ بُرا سلوک کِیا ہے، شاید کسی ایسے بھائی نے جو کلیسیا میں کوئی خاص ذمےداری رکھتا ہے؟ یقیناً اُس بھائی کا مقصد آپ کا دل دُکھانا نہیں تھا۔ (روم 3:23؛ یعقو 3:2) لیکن پھر بھی اُس کی باتوں سے آپ کا دل دُکھا۔ شاید آپ کا اِتنا زیادہ دل دُکھا کہ آپ کی راتوں کی نیند اُڑ گئی اور آپ سوچنے لگے: ”اگر یہ بھائی ایسا کر سکتا ہے تو مجھے نہیں لگتا ہے کہ یہ خدا کی تنظیم ہے۔“ شیطان تو چاہتا ہی یہ ہے کہ آپ ایسا سوچیں۔ (2-کُر 2:11) اِس طرح کی سوچ آپ کو یہوواہ اور اُس کی تنظیم سے دُور کر سکتی ہے۔ تو اگر ہمیں لگتا ہے کہ کسی بہن یا بھائی نے ہمارے ساتھ بُرا سلوک کِیا ہے تو ہم اپنے ہوشوحواس کیسے قائم رکھ سکتے ہیں اور کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہمارے ذہن میں غلط سوچ نہ آئے؟
4. (الف) جب یوسف کے ساتھ بُرا سلوک کِیا گیا تو اُنہوں نے اپنے ہوشوحواس کیسے قائم رکھے؟ (پیدایش 50:19-21) (ب) ہم یوسف سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
4 یہوواہ سے ناراض نہ ہوں۔ جب یوسف نوجوان تھے تو اُن کے بڑے بھائیوں نے اُن کے ساتھ بہت بُرا سلوک کِیا۔ وہ اُن سے نفرت کرتے تھے اور اُن میں سے کچھ تو اُنہیں جان سے مار ڈالنا چاہتے تھے۔ (پید 37:4، 18-22) یوسف کے بھائیوں نے اُن کی جان تو نہیں لی لیکن اُنہوں نے یوسف کو ایک غلام کے طور پر بیچ دیا جس کی وجہ سے یوسف کو تقریباً 13 سال تک بہت سخت مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یوسف اِس بات پر شک کر سکتے تھے کہ ”پتہ نہیں، یہوواہ مجھ سے محبت کرتا بھی ہے یا نہیں۔“ یا وہ یہ سوچ سکتے تھے کہ ”یہوواہ نے اِس بُرے وقت میں مجھے اکیلا چھوڑ دیا ہے۔“ لیکن وہ یہوواہ سے ناراض نہیں ہوئے۔ اِس کی بجائے اُنہوں نے پُرسکون رہ کر اپنے ہوشوحواس قائم رکھے۔ اور جب اُنہیں اپنے بھائیوں سے بدلہ لینے کا موقع ملا تو اُنہوں نے ایسا بالکل بھی نہیں کِیا بلکہ اُنہوں نے اُن کے لیے محبت دِکھائی اور اُنہیں معاف کر دیا۔ (پید 45:4، 5) یوسف ایسا اِس لیے کر پائے کیونکہ اُنہوں نے ٹھنڈے دماغ سے سوچا۔ اپنے مسئلوں کے بارے میں سوچتے رہنے کی بجائے یوسف نے اِس بات پر دھیان دیا کہ یہوواہ اُن سے کیا چاہتا ہے۔ (پیدایش 50:19-21 کو پڑھیں۔) اِس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ یہ کہ جب ہمارے ساتھ بُرا سلوک ہوتا ہے تو ہمیں یہوواہ سے ناراض نہیں ہو جانا چاہیے یا یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ اُس نے ہمیں اکیلا چھوڑ دیا ہے۔ اِس کی بجائے ہمیں اِس بات پر دھیان دینا چاہیے کہ وہ مشکل وقت میں کس کس طرح سے ہمارا ساتھ دے رہا ہے۔ اِس کے علاوہ جب عیبدار ہونے کی وجہ سے دوسرے ہمارے ساتھ بُرا سلوک کرتے ہیں تو ہمیں محبت کی وجہ سے اُن کے عیب پر پردہ ڈال دینا چاہیے۔—1-پطر 4:8۔
5. جب بھائی مارکو کو محسوس ہوا کہ اُن کے ساتھ بُرا سلوک ہوا ہے تو اُنہوں نے اپنے ہوشوحواس کیسے قائم رکھے؟
5 ذرا جنوبی امریکہ میں رہنے والے ایک بھائی کی مثال پر غور کریں جن کا نام مارکو ہے۔ b وہ کلیسیا میں ایک بزرگ ہیں۔ اُنہوں نے اُس وقت کے بارے میں بتایا جب اُنہیں لگا کہ اُن کی کلیسیا کے کچھ بزرگوں نے اُن کے ساتھ بُرا سلوک کِیا ہے۔ اُنہوں نے کہا: ”مَیں زندگی میں پہلے کبھی اِس طرح کی پریشانی سے نہیں گزرا تھا۔ میری راتوں کی نیند اُڑ گئی تھی اور مَیں اِس بات پر روتا تھا کہ مَیں کچھ بھی نہیں کر سکتا۔“ لیکن بھائی مارکو نے اپنے ہوشوحواس قائم رکھے اور اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے کی پوری کوشش کی۔ اُنہوں نے شدت سے دُعائیں کیں اور یہوواہ سے اِلتجا کی کہ وہ اُنہیں اپنی پاک روح دے اور اِس مشکل سے نمٹنے کی طاقت عطا کرے۔ اُنہوں نے تنظیم کی کتابوں اور رسالوں میں ایسی معلومات بھی ڈھونڈیں جو اُن کے کام آ سکیں۔ اِس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ یہ کہ اگر کوئی بہن یا بھائی ہمارے ساتھ بُرا سلوک کرتا ہے تو ہمیں پُرسکون رہنا چاہیے اور اپنے دل میں غلط سوچ نہیں آنے دینی چاہیے۔ ہم نہیں جانتے کہ اُس بہن یا بھائی نے کس وجہ سے ہم سے بُری طرح سے بات کی یا بُری طرح سے پیش آیا۔ اِس لیے دُعا میں یہوواہ سے بات کریں اور اُس سے کہیں کہ وہ معاملے کو اُس بہن یا بھائی کی نظر سے دیکھنے میں آپ کی مدد کرے۔ ایسا کرنے سے آپ اُس بہن یا بھائی کی نیت پر شک نہیں کریں گے اور اُس کی غلطی کو معاف کر دیں گے۔ (امثا 19:11) یاد رکھیں کہ یہوواہ آپ کی صورتحال سے اچھی طرح واقف ہے اور وہ اِس مشکل سے نمٹنے کے لیے آپ کو طاقت ضرور دے گا۔—2-توا 16:9؛ واعظ 5:8۔
جب ہماری اِصلاح کی جاتی ہے
6. جب یہوواہ ہماری اِصلاح کرتا ہے تو یہ کیوں ضروری ہے کہ ہم اِسے اُس کی محبت کا ثبوت سمجھیں؟ (عبرانیوں 12:5، 6، 11)
6 جب یہوواہ ہماری اِصلاح کرتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ ہمیں بہت تکلیف پہنچے۔ لیکن اگر ہم صرف اِس بات پر دھیان دیں گے کہ اِس اِصلاح سے ہمیں کتنی تکلیف ہوئی ہے تو ہم یہ سوچنے لگیں گے کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور ہماری بہت سختی سے اِصلاح کی گئی ہے۔ ایسی سوچ کی وجہ سے ہم یہ بھول رہے ہوں گے کہ یہوواہ اِس لیے ہماری اِصلاح کرتا ہے کیونکہ وہ ہم سے محبت کرتا ہے۔ (عبرانیوں 12:5، 6، 11 کو پڑھیں۔) اور اگر ہم اپنے جذبات کو خود پر حاوی ہونے دیں گے تو شیطان کو ہمارے جذبات سے کھیلنے کا موقع مل جائے گا۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم اِصلاح کو رد کر دیں، یہاں تک کہ آہستہ آہستہ یہوواہ اور اُس کی کلیسیا سے دُور ہو جائیں۔ اگر ہماری اِصلاح ہوئی ہے تو ہم اپنے ہوشوحواس کو کیسے قائم رکھ سکتے ہیں؟
7. (الف) جیسا کہ تصویر میں دِکھایا گیا ہے، جب اِصلاح ہونے پر پطرس خود میں بہتری لائے تو یہوواہ نے کیا کِیا؟ (ب) آپ نے پطرس سے کیا سیکھا ہے؟
7 اِصلاح ہونے پر خود میں بہتری لائیں۔ یسوع مسیح نے کئی بار دوسرے رسولوں کے سامنے پطرس کی اِصلاح کی۔ (مر 8:33؛ لُو 22:31-34) یقیناً اِس وجہ سے پطرس کو بہت شرمندگی ہوئی ہوگی۔ لیکن وہ یسوع کے وفادار رہے۔ جب اُن کی اِصلاح کی گئی تو وہ خود میں بہتری لائے اور اُنہوں نے اپنی غلطیوں سے سیکھا۔ اِس وجہ سے یہوواہ نے پطرس کو اجر دیا اور اُنہیں کلیسیا میں بھاری ذمےداریاں دیں۔ (یوح 21:15-17؛ اعما 10:24-33؛ 1-پطر 1:1) ہم پطرس سے کیا سیکھتے ہیں؟ یہ کہ جب ہم اِس بات پر دھیان نہیں دیتے کہ اِصلاح کی وجہ سے ہمیں کتنی شرمندگی اُٹھانی پڑی بلکہ خود میں بہتری لاتے ہیں تو ہمیں اور دوسروں کو فائدہ ہوتا ہے۔ یوں ہم یہوواہ اور اپنے بہن بھائیوں کے اَور زیادہ کام آ سکتے ہیں۔
8-9. (الف) جب بھائی برنارڈو کی اِصلاح کی گئی تو شروع شروع میں اُنہیں کیسا لگا؟ (ب) بھائی برنارڈو اپنی سوچ کو درست کیسے کر پائے؟
8 ذرا موزمبیق میں رہنے والے ایک بھائی کی مثال پر غور کریں جن کا نام برنارڈو ہے۔ وہ کلیسیا میں ایک بزرگ تھے لیکن پھر اُن سے یہ اعزاز لے لیا گیا۔ شروع شروع میں بھائی برنارڈو کو کیسا لگا؟ اُنہوں نے کہا: ”مَیں بہت غصے میں تھا کیونکہ مجھے بالکل اچھا نہیں لگا کہ میری اِصلاح کی گئی ہے۔“ بھائی برنارڈو اِس بات سے پریشان تھے کہ کلیسیا کے بہن بھائی اُن کے بارے میں کیا سوچیں گے۔ اُنہوں نے کہا: ”مجھے خود کو بدلنے اور یہوواہ اور اُس کی تنظیم پر پھر سے بھروسا کرنے میں کئی مہینے لگے۔“ بھائی برنارڈو معاملے کو یہوواہ کی نظر سے کیسے دیکھ پائے؟
9 اُنہوں نے اپنی سوچ کو درست کِیا۔ اُنہوں نے کہا: ”جب مَیں بزرگ تھا تو مَیں اکثر عبرانیوں 12:7 کی مدد سے دوسروں کو سمجھاتا تھا کہ جب یہوواہ اُن کی اِصلاح کرتا ہے تو وہ اِس کے بارے میں صحیح سوچ رکھیں۔ مَیں نے خود سے پوچھا: ”کس کس کو اِس آیت پر عمل کرنے کی ضرورت ہے؟ یہوواہ کے سب بندوں کو جن میں مَیں بھی شامل ہوں۔““ پھر بھائی برنارڈو نے یہوواہ اور اُس کی تنظیم پر اپنے بھروسے کو مضبوط کرنے کے لیے اَور بھی قدم اُٹھائے۔ وہ اَور زیادہ بائبل پڑھنے لگے اور اِس میں لکھی باتوں پر اَور گہرائی سے سوچ بچار کرنے لگے۔ حالانکہ وہ ابھی بھی یہ سوچ رہے تھے کہ کلیسیا کے بہن بھائی اُن کے بارے میں کیا سوچیں گے لیکن اُنہوں نے نہ تو اُن کے ساتھ مُنادی کرنا چھوڑی اور نہ ہی اِجلاسوں میں جواب دینا چھوڑا۔ کچھ عرصے بعد بھائی برنارڈو پھر سے بزرگ بن گئے۔ اگر بھائی برنارڈو کی طرح آپ کی بھی اِصلاح ہوئی ہے تو اِس بات پر دھیان نہ دیں کہ اِس وجہ سے آپ کو کتنی شرمندگی ہوئی ہے بلکہ خود میں بہتری لائیں۔ (امثا 8:33؛ 22:4) اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ آپ کو اِس بات کا اجر دے گا کہ آپ اُس کے اور اُس کی تنظیم کے وفادار رہے ہیں۔
جب ہمیں تنظیم میں ہونے والی تبدیلیوں کو قبول کرنا مشکل لگتا ہے
10. یہوواہ کی عبادت کے حوالے سے ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے بنیاِسرائیل کے کچھ مردوں کی وفاداری کا اِمتحان کیسے ہوا؟
10 جب یہوواہ کی تنظیم میں کوئی تبدیلی ہوتی ہے تو ہماری وفاداری کا اِمتحان ہو سکتا ہے۔ اگر ہم محتاط نہیں رہیں گے تو ہم یہوواہ سے دُور ہونے کے خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر غور کریں کہ جب یہوواہ نے موسیٰ کو شریعت دے کر اپنی عبادت کے حوالے سے کچھ تبدیلیاں کیں تو اِس کا کچھ بنیاِسرائیل پر کیا اثر ہوا۔ شریعت سے پہلے گھر کے سربراہ وہ کام کرتے تھے جو بعد میں کاہنوں کو دیے گئے۔ وہ یہوواہ کے لیے قربانگاہیں بناتے تھے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے اُس کے حضور قربانیاں پیش کرتے تھے۔ (پید 8:20، 21؛ 12:7؛ 26:25؛ 35:1، 6، 7؛ ایو 1:5) لیکن جب یہوواہ نے بنیاِسرائیل کو شریعت دی تو گھر کے سربراہوں سے یہ اعزاز لے لیا گیا۔ یہوواہ نے ہارون کے گھرانے سے کاہنوں کو چُنا تاکہ وہ اُس کے حضور قربانیاں چڑھائیں۔ اِس تبدیلی کے بعد سے اگر کسی گھرانے کا سربراہ جو ہارون کی اولاد سے نہیں تھا، وہ کام کرتا جو صرف کاہنوں کو دیے گئے تھے تو وہ جان سے مارا جا سکتا تھا۔ c (احبا 17:3-6، 8، 9) کیا اِسی وجہ سے قورح، داتن، ابیرام اور 250 سرداروں نے موسیٰ اور ہارون کے اِختیار کے خلاف بغاوت کی؟ (گن 16:1-3) ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے۔ وجہ چاہے کچھ بھی ہو، قورح اور اُن کے ساتھی یہوواہ کے وفادار رہنے میں ناکام رہے۔ اگر تنظیم میں ہونے والی کسی تبدیلی کی وجہ سے آپ کی وفاداری کا اِمتحان ہوتا ہے تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟
11. ہم کچھ قہاتیوں سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
11 تنظیم میں ہونے والی تبدیلیوں کی پوری حمایت کریں۔ جب بنیاِسرائیل بیابان میں تھے تو قہاتیوں کو بہت اہم ذمےداری دی گئی تھی۔ جب جب بنیاِسرائیل ایک جگہ سے دوسری جگہ جا کر رہنے لگتے تھے تو کچھ قہاتی عہد کے صندوق کو اُن کے آگے آگے لے کر چلتے تھے۔ (گن 3:29، 31؛ 10:33؛ یشو 3:2-4) یہ کتنا بڑا اعزاز تھا! لیکن جب بنیاِسرائیل کنعان میں بس گئے تو قہاتیوں کی ذمےداری بدل گئی۔ اب عہد کے صندوق کو باقاعدگی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ اِس لیے سلیمان کے دَورِحکومت میں کچھ قہاتیوں کو یہوواہ کی حمد میں گیت گانے، کچھ کو دربانوں کے طور پر کام کرنے اور کچھ کو اُن کوٹھریوں کی دیکھبھال کرنے کی ذمےداری دی گئی جن میں لاویوں کے لیے سامان رکھا ہوتا تھا۔ (1-توا 6:31-33؛ 26:1، 24) بائبل میں کہیں بھی یہ ذکر نہیں ملتا کہ اِن کاموں کی وجہ سے قہاتیوں نے شکایت کی یا اِس بات پر اِصرار کِیا کہ اُنہیں اہم رُتبہ دیا جائے کیونکہ وہ پہلے بھی بہت خاص ذمےداری نبھا رہے تھے۔ ہم قہاتیوں سے کیا سیکھتے ہیں؟ یہ کہ ہم پورے دل سے یہوواہ کی تنظیم میں ہونے والی تبدیلیوں کی حمایت کریں۔ ایسی تبدیلیوں کی بھی جن کا ہماری ذمےداری پر اثر پڑتا ہے۔ آپ کو جو بھی ذمےداری دی جاتی ہے، اُسے خوشی سے نبھائیں۔ یاد رکھیں کہ آپ کی ذمےداری آپ کو یہوواہ کی نظر میں خاص نہیں بناتی بلکہ یہوواہ کے لیے آپ کی وفاداری آپ کو اُس کی نظر میں خاص بناتی ہے۔—1-سمو 15:22۔
12. جب بہن زُوبی کو ایک فرق طریقے سے یہوواہ کی خدمت کرنے کو کہا گیا تو اُنہیں کیسا لگا؟
12 ذرا بہن زُوبی کی مثال پر غور کریں جو مشرقِوسطیٰ سے ہیں۔ وہ 23 سال سے زیادہ عرصے سے بیتایل میں خدمت کر رہی تھیں اور اُنہیں وہاں کام کرنا بہت پسند تھا۔ لیکن پھر اُنہیں خصوصی پہلکار بنا دیا گیا۔ اُنہوں نے کہا: ”مجھے بہت دھچکا لگا۔ مجھے ایسا لگا جیسے مَیں کسی کام کی نہیں ہوں۔ مَیں بار بار بس یہی سوچنے لگی کہ ”آخر مجھ سے غلطی کہاں پر ہوئی ہے؟““ افسوس کی بات ہے کہ اُن کی کلیسیا کے کچھ بہن بھائیوں نے اُن کا غم بانٹنے کی بجائے اِسے اَور بڑھا دیا۔ وہ اُن سے کہنے لگے: ”اگر آپ بیتایل میں اچھے سے کام کرتیں تو تنظیم کبھی بھی آپ کو وہاں سے جانے کو نہ کہتی۔“ کچھ عرصے تک تو بہن زُوبی اِتنی بےحوصلہ رہیں کہ وہ ہر رات روتی تھیں۔ لیکن پھر اُنہوں نے کہا: ”مَیں نے کبھی اپنے دل میں یہ شک نہیں آنے دیا کہ یہوواہ اور اُس کی تنظیم مجھ سے پیار نہیں کرتی۔“ اِس مشکل وقت میں بہن زُوبی اپنے ہوشوحواس کیسے قائم رکھ پائیں؟
13. بہن زُوبی غلط سوچ کا مقابلہ کیسے کر پائیں؟
13 بہن زُوبی نے اپنی غلط سوچ کا مقابلہ کِیا۔ لیکن کس طرح؟ اُنہوں نے تنظیم کے تیار کیے ہوئے ایسے مضمون پڑھے جن میں ویسی صورتحال بتائی گئی تھی جس سے وہ گزر رہی تھیں۔ مثال کے طور پر اُنہوں نے 1 فروری 2001ء کے ”مینارِنگہبانی“ میں مضمون ”آپ حوصلہشکنی کا مقابلہ کر سکتے ہیں!“ پڑھا جس سے اُنہیں بہت فائدہ ہوا۔ اِس مضمون میں مرقس کی مثال دی گئی تھی جو بائبل کی کتابیں لکھنے والوں میں سے ایک تھے۔ شاید مرقس بھی اُس وقت بےحوصلہ ہو گئے ہوں جب اُن کی ذمےداری بدل دی گئی تھی۔ بہن زُوبی نے کہا: ”مایوسی سے نمٹنے کے لیے مرقس کی مثال نے میرے لیے دوا کا کام کِیا۔“ بہن زُوبی اپنے دوستوں کے بھی قریب رہیں۔ اُنہوں نے خود کو اُن سے الگ تھلگ نہیں کر لیا اور نہ ہی یہ سوچتی رہیں کہ اُن کے ساتھ ایسا کیوں ہوا۔ وہ سمجھ گئیں کہ یہوواہ کی تنظیم جو بھی فیصلے کرتی ہے، وہ پاک روح کی رہنمائی میں کرتی ہے اور اِس تنظیم میں پیشوائی کرنے والے بھائیوں کو اُن کی بہت فکر ہے۔ وہ یہ بھی سمجھ گئیں کہ یہوواہ کی تنظیم میں یہ بات سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے کہ یہوواہ کا کام اچھی طرح سے ہو۔
14. بھائی ولاڈو کو یہوواہ کی تنظیم میں ہونے والی کس تبدیلی کو قبول کرنا مشکل لگ رہا تھا اور وہ اِسے قبول کیسے کر پائے؟
14 ذرا بھائی ولاڈو کی مثال پر بھی غور کریں جو سلووینیا میں رہتے ہیں۔ اُن کی عمر 73 سال ہے اور وہ کلیسیا میں ایک بزرگ ہیں۔ جب بھائی ولاڈو کی کلیسیا اور ایک دوسری کلیسیا کو ملا کر ایک کلیسیا بنا دیا گیا اور اُس عبادتگاہ کو بند کر دیا گیا جسے اُن کی کلیسیا اِستعمال کر رہی تھی تو بھائی ولاڈو کو اِس تبدیلی کو قبول کرنا بہت مشکل لگ رہا تھا۔ اُنہوں نے کہا: ”مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آخر ہماری اِتنی پیاری عبادتگاہ بند کیوں کر دی گئی ہے۔ مجھے بہت دُکھ ہوا کیونکہ ہم نے حال ہی میں اِس کی مرمت کرائی تھی۔ مَیں فرنیچر بناتا ہوں اور مَیں نے اپنی کلیسیا کے لیے بھی کچھ فرنیچر بنایا تھا۔ اِس کے علاوہ دو کلیسیاؤں کے ایک ہو جانے کی وجہ سے ہمیں بہت سی تبدیلیاں بھی کرنی پڑیں جو ہم بڑی عمر والے مبشروں کے لیے آسان نہیں تھیں۔“ کس چیز نے بھائی ولاڈو کی مدد کی تاکہ وہ تنظیم کی ہدایت پر عمل کر سکیں؟ اُنہوں نے کہا: ”جب ہم خود کو اُن تبدیلیوں کے مطابق ڈھالتے ہیں جو یہوواہ کی تنظیم کرتی ہے تو ہمیں ہمیشہ برکتیں ملتی ہیں۔ یہ تبدیلیاں ہمیں مستقبل میں ہونے والی بڑی بڑی تبدیلیوں کے لیے تیار کر دیتی ہیں۔“ اگر آپ کی کلیسیا اور ایک اَور کلیسیا کو ملا کر ایک کلیسیا بنا دیا گیا ہے یا یہوواہ کی خدمت میں آپ کی ذمےداری بدل دی گئی ہے تو کیا آپ کو یہ تبدیلیاں قبول کرنا مشکل لگ رہا ہے؟ اگر ہاں تو یقین مانیں کہ یہوواہ آپ کے احساسات کو اچھی طرح سے سمجھتا ہے۔ لیکن جب آپ اِن تبدیلیوں کی حمایت کرتے ہیں اور یہوواہ اور اُس کی تنظیم کے ساتھ جُڑے رہتے ہیں تو یہوواہ آپ کو ضرور برکت دے گا۔—زبور 18:25۔
ہر بات میں اپنے ہوشوحواس قائم رکھیں
15. جب ہمیں کلیسیا کے اندر مسئلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ہم اپنے ہوشوحواس کیسے قائم رکھ سکتے ہیں؟
15 جیسے جیسے اِس دُنیا کا خاتمہ نزدیک آ رہا ہے، ہم اِس بات کی توقع رکھ سکتے ہیں کہ ہمیں کلیسیا کے اندر مسئلوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اور اِن مسئلوں کی وجہ سے یہوواہ کے لیے ہماری وفاداری کا اِمتحان ہو سکتا ہے۔ اِس لیے ہمیں اپنے ہوشوحواس قائم رکھنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔ اگر آپ کا کوئی ہمایمان آپ کے ساتھ بُرا سلوک کرتا ہے تو اپنے دل میں تلخی نہ آنے دیں۔ اور اگر آپ کی اِصلاح کی جاتی ہے تو اِس بات پر دھیان نہ دیں کہ اِس وجہ سے آپ کو کتنی شرمندگی اُٹھانی پڑی بلکہ خود میں بہتری لائیں۔ اور جب یہوواہ کی تنظیم میں کوئی ایسی تبدیلی ہوتی ہے جس کا آپ کی زندگی پر گہرا اثر ہوتا ہے تو اِس تبدیلی کی حمایت کرنے کی پوری کوشش کریں۔
16. آپ یہوواہ اور اُس کی تنظیم پر اپنے بھروسے کو مضبوط کیسے رکھ سکتے ہیں؟
16 آپ اُس وقت بھی یہوواہ اور اُس کی تنظیم پر اپنے بھروسے کو مضبوط رکھ سکتے ہیں جب آپ کی وفاداری کا اِمتحان ہوتا ہے۔ لیکن ایسا کرنے کے لیے آپ کو اپنے ہوشوحواس کو قائم رکھنا ہوگا۔ اِس کا مطلب ہے کہ آپ کو پُرسکون رہنا ہوگا، ٹھنڈے دماغ سے سوچنا ہوگا اور معاملوں کو یہوواہ کی نظر سے دیکھنا ہوگا۔ بائبل میں ایسے لوگوں کی مثالوں کے بارے میں پڑھنے اور اِن پر سوچ بچار کرنے کا عزم کریں جنہوں نے کامیابی سے اُن مشکلوں کا سامنا کِیا جن کا سامنا آپ کر رہے ہیں۔ یہوواہ سے مدد کے لیے دُعا کریں اور کبھی بھی خود کو کلیسیا سے الگ تھلگ نہ کریں۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو پھر چاہے جو بھی ہو جائے، شیطان آپ کو یہوواہ اور اُس کی تنظیم سے کبھی جُدا نہیں کر سکے گا۔—یعقو 4:7۔
گیت نمبر 126: آخر تک قائم رہیں!
a کبھی کبھار یہوواہ اور اُس کی تنظیم کا وفادار رہنا خاص طور پر اُس وقت مشکل ہو جاتا ہے جب ہمیں کلیسیا کے اندر مسئلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اِس مضمون میں ہم تین ایسے ہی مسئلوں پر بات کریں گے اور دیکھیں گے کہ ہم یہوواہ اور اُس کی تنظیم کے وفادار رہنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔
b کچھ نام فرضی ہیں۔
c شریعت میں یہ حکم دیا گیا تھا کہ گھر کے جو سربراہ جانور کا گوشت کھانے کے لیے اُسے ذبح کرنا چاہتے ہیں، وہ اُس جگہ جائیں جسے یہوواہ نے چُنا ہے۔ لیکن اگر اُن کا گھر اُس جگہ سے بہت دُور ہوتا تھا تو وہ خود بھی اِسے ذبح کر سکتے تھے۔—اِست 12:21۔