سرِورق کا موضوع : ایماندار کیوں بنیں؟
بےایمانی کے اثرات
”اپنے مسئلوں کو حل کرنے کے لیے تھوڑی بہت بےایمانی تو کرنی پڑتی ہے۔“—سمانتھا، جنوبی افریقہ۔
کیا آپ کا بھی یہی خیال ہے؟ سمانتھا کی طرح ہم سب کبھی نہ کبھی مسئلوں سے دوچار ہوتے ہیں۔ لیکن جس طرح ہم اِن مسئلوں کو حل کرتے ہیں، اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم کن معیاروں پر چلتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ہمیں اپنی عزت بہت پیاری ہے اور ہم کسی بھی صورت میں شرمندگی نہیں اُٹھانا چاہتے تو ہم بےایمانی کا سہارا لے کر کام نکال لیتے ہیں۔ مگر جب حقیقت سامنے آتی ہے تو تب پتہ چلتا ہے کہ بےایمانی کا انجام ہمیشہ بُرا ہی ہوتا ہے۔ اِس سلسلے میں چند حقائق پر غور کریں۔
بےایمانی—اِعتماد کی قاتل
رشتوں کی بنیاد اِعتماد پر ہوتی ہے۔ جب دو لوگ ایک دوسرے پر بھروسا کرتے ہیں تو اُنہیں ایک دوسرے سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ لیکن اِعتماد راتوں رات پیدا نہیں ہوتا۔ جب لوگ آپس میں وقت گزارتے ہیں، کُھل کر باتچیت کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے بےلوث محبت کرتے ہیں تو اُن کے درمیان اِعتماد کا رشتہ مضبوط ہوتا ہے۔ لیکن معمولی سی بےایمانی بھی اِعتماد کو چکناچُور کر سکتی ہے۔ اور اگر ایک بار اِعتماد ٹوٹ جائے تو پھر یہ آسانی سے بحال نہیں ہوتا۔
کیا آپ کو کبھی کسی ایسے شخص نے دھوکا دیا ہے جسے آپ اپنا قریبی دوست سمجھتے تھے؟ اُس وقت آپ کو کیسا محسوس ہوا تھا؟ یقیناً آپ کو بہت دُکھ ہوا ہوگا۔ ایسا ردِعمل تو فطری ہے۔ لہٰذا اِس بات میں کوئی شُبہ نہیں کہ بےایمانی رشتوں کی بنیاد کو کھوکھلا کر سکتی ہے۔
بےایمانی—ایک وبا
امریکہ کی ایک یونیورسٹی کے معاشیات کے پروفیسر رابرٹ اِنز کی تحقیق سے پتہ چلا کہ ”بےایمانی ایک وبا کی طرح ہے۔“ لہٰذا جتنا زیادہ آپ ایک بےایمان شخص کے ساتھ اُٹھیں بیٹھیں گے، اُتنا ہی زیادہ آپ کو بےایمانی کی بیماری لگنے کا خطرہ ہوگا۔
آپ بےایمانی کے پھندے میں پھنسنے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ اِس سلسلے میں پاک کلام کے اصول آپ کے کام آ سکتے ہیں۔ آئیں، چند ایسے اصولوں پر غور کریں۔