سرِورق کا موضوع:
کیا ایمانداری گھاٹے کا سودا ہے؟
جاپان کے رہنے والے ہتوشی ایک ایسی کمپنی میں کام کرتے تھے جو لوگوں کو ملازمت دِلاتی ہے۔ وہ اکاؤنٹس کے شعبے میں تھے۔ ایک دن وہ اپنے باس کے ساتھ کچھ حسابات کا جائزہ لے رہے تھے۔ اُن کے باس نے اُن سے کہا کہ وہ اِن حسابات کی جھوٹی رپورٹ تیار کریں۔ لیکن ہتوشی نے اپنے باس سے کہا کہ اُن کا ضمیر اُنہیں ایسی بےایمانی کرنے کی اِجازت نہیں دیتا۔ اِس پر اُن کے باس نے اُنہیں نوکری سے نکالنے کی دھمکی دی اور آخرکار اُنہیں واقعی نوکری سے نکال دیا۔
اگلے کچھ مہینوں کے دوران ہتوشی نے نوکری ملنے کی اُمید ہی چھوڑ دی۔ ایک بار جب وہ اِنٹرویو دینے گئے تو اُنہوں نے اِنٹرویو کے دوران یہ بات واضح کر دی کہ وہ کسی قسم کی بےایمانی نہیں کریں گے۔ اِنٹرویو لینے والے شخص نے کہا: ”تُم تو بڑے عجیب آدمی ہو۔“ ہتوشی کے گھر والوں اور دوستوں نے اُن کی حوصلہافزائی کی کہ وہ ایمانداری سے زندگی گزارنے کے فیصلے پر اٹل رہیں۔ اِس کے باوجود ہتوشی کو اپنے اِس فیصلے پر شک ہونے لگا۔ اُنہوں نے کہا: ”مَیں یہ سوچتا تھا کہ ایمانداری سے چلنے کا آخر مجھے کیا فائدہ ہوا ہے۔“
ہتوشی کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ آجکل ہر کوئی ایمانداری کی قدر نہیں کرتا۔ کاروباری لوگوں کو تو لگتا ہے کہ ایمانداری سے چلنے میں سوائے گھاٹے کے اَور کچھ نہیں۔ جنوبی افریقہ میں ملازمت کرنے والی ایک عورت نے کہا: ”مَیں جن لوگوں کے ساتھ کام کرتی ہوں، اُن میں سے زیادہتر بےایمان ہیں۔ بعض اوقات مجھ پر بھی بےایمانی کرنے کے لیے بہت زیادہ دباؤ ڈالا جاتا ہے۔“
یوں تو بےایمانی کی بہت سی قسمیں ہیں۔ لیکن اِن میں سے ایک آجکل بہت عام ہے اور وہ ہے جھوٹ۔ کچھ سال پہلے میساچوسٹس کی ایک یونیورسٹی کے ماہرِنفسیات، رابرٹ فیلڈمین کے ایک سروے سے ظاہر ہوا کہ 60 فیصد لوگ 10 منٹ کی باتچیت میں کمازکم ایک بار جھوٹ ضرور بولتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا: ”یہ نتیجہ بہت حیرانکُن تھا۔ ہمیں یہ توقع نہیں تھی کہ جھوٹ بولنا اِس قدر عام ہوگا۔“ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ زیادہتر لوگ یہ پسند نہیں کرتے کہ اُن سے جھوٹ بولا جائے پھر بھی جھوٹ بولنا دن بہدن بڑھتا جا رہا ہے۔
جھوٹ بولنا، چوری کرنا اور ایسے ہی دوسرے کام آجکل اِتنے عام کیوں ہیں؟ بےایمانی کا پورے معاشرے پر کیا اثر پڑتا ہے؟ سب سے اہم سوال تو یہ ہے کہ ہم بےایمانی کے پھندے میں پھنسنے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟