مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

سرِورق کا موضوع:‏ اپنوں کی موت کا غم کیسے سہیں؟‏

آپ اپنے غم پر قابو پا سکتے ہیں!‏

آپ اپنے غم پر قابو پا سکتے ہیں!‏

کسی عزیز کی موت کے غم پر قابو پانے کے سلسلے میں آج‌کل بہت سی معلومات اور مشورے دستیاب ہیں۔‏ لیکن ضروری نہیں کہ یہ سب فائدہ‌مند بھی ہوں۔‏ مثال کے طور پر کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اپنوں کی موت پر رونا یا غم کا اِظہار کرنا صحیح نہیں جبکہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسی صورت میں کُھل کر رونا اچھا ہوتا ہے۔‏ لیکن اِس سلسلے میں سب سے اچھے مشورے پاک کلام میں پائے جاتے ہیں جن کی حمایت جدید ماہرین بھی کرتے ہیں۔‏

کچھ معاشروں میں مرد کا رونا مردانگی کے خلا‌ف سمجھا جاتا ہے۔‏ لیکن  کیا  اِس  طرح سب کے سامنے اپنے غم کا اِظہار کرنا واقعی شرم کی بات ہے؟‏ نفسیات کے ماہرین یہ مانتے ہیں کہ رونا اپنے غم کو ظاہر کرنے کا ایک فطری طریقہ ہے۔‏ اِس سے آپ کو زندگی میں آگے بڑھنے کی ہمت ملتی ہے،‏ چاہے آپ کا غم کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو۔‏ آنسوؤں کو دبا کر رکھنے سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے۔‏ خدا کا کلام اِس بات کی حمایت نہیں کرتا کہ کسی عزیز کی موت پر رونا غلط ہے یا مردانگی کے خلا‌ف ہے۔‏ اِس سلسلے میں یسوع مسیح کی مثال پر غور کریں۔‏ اپنے پیارے دوست لعزر کی وفات پر وہ سب کے سامنے رو پڑے حالانکہ تھوڑی ہی دیر میں وہ اُنہیں زندہ کرنے والے تھے۔‏—‏یوحنا 11:‏33-‏35‏۔‏

بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب کسی شخص کا کوئی اپنا فوت ہوتا ہے تو وہ غم کے ساتھ ساتھ غصے کا اِظہار بھی کرتا ہے۔‏ ایسا خاص طور پر تب ہوتا ہے جب اُس کے عزیز کی موت اچانک ہوئی ہو۔‏ اُس کے غصے میں آنے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔‏ شاید کسی نے اُس سے کوئی بےتکی اور دُکھ پہنچانے والی بات کہہ دی ہو۔‏ اِس سلسلے میں جنوبی افریقہ کے رہنے والے مائیک نے بتایا:‏ ”‏مَیں 14 سال کا تھا جب میرے ابو فوت ہو گئے۔‏ اُن کے جنازے پر ایک پادری نے کہا کہ خدا کو اچھے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے اِس لیے وہ اُنہیں اپنے پاس جلدی بلا لیتا ہے۔‏ * یہ بات سُن کر مَیں بہت غصے میں آ گیا کیونکہ جتنی ضرورت ہمیں اپنے باپ کی تھی اُتنی کسی اَور کو نہیں تھی۔‏ اُس پادری کی بات سے آج بھی میرا دل بہت دُکھتا ہے حالانکہ میرے ابو کو فوت ہوئے 63 سال ہو گئے ہیں۔‏“‏

کبھی کبھی ہم اپنے کسی عزیز کی موت کے لیے خود کو قصوروار سمجھنے لگتے ہیں۔‏ اگر اُس کی موت اچانک ہوئی ہو تو شاید ہم سوچنے لگیں:‏ ”‏اگر مَیں نے ایسا کِیا ہوتا تو وہ نہ مرتا۔‏“‏ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جب ہم اپنے اُس عزیز سے آخری بار ملے تھے تو ہمارا اُس کے ساتھ جھگڑا ہوا تھا۔‏ اِس وجہ سے شاید ہم خود کو کوستے رہیں۔‏

اگر آپ کسی اپنے کی موت کے بعد اکثر غصے میں آ جاتے ہیں اور خود کو قصوروار سمجھتے ہیں تو چپ نہ سادھ لیں۔‏ کسی ایسے دوست سے بات کریں جو آپ کی بات کو دھیان سے سنے اور آپ کو یہ یقین دِلائے کہ اکثر لوگ اپنے کسی پیارے کو کھو دینے پر ایسا ہی محسوس کرتے ہیں۔‏ پاک کلام میں لکھا ہے:‏ ”‏دوست ہر وقت محبت دِکھاتا ہے۔‏“‏—‏امثال 17:‏17‏۔‏

ایک سوگوار شخص کا سب سے اچھا دوست صرف یہوواہ خدا ہی ہو  سکتا  ہے۔‏  اِس لیے اپنا دل اُس کے سامنے کھول کر رکھ دیں کیونکہ ”‏اُس کو آپ کی فکر ہے۔‏“‏ (‏1-‏پطرس 5:‏7‏)‏ اگر آپ یہوواہ خدا کو اپنے جذبات کے بارے میں بتائیں گے تو وہ آپ کو ایسا ”‏اِطمینان دے گا جو سمجھ سے باہر ہے“‏ اور یوں آپ کے غم اور دُکھ کی شدت کم ہو جائے گی۔‏ (‏فِلپّیوں 4:‏6،‏ 7‏)‏ اِس کے علا‌وہ خدا کے کلام میں درج وعدوں کو پڑھنے سے بھی آپ کو تسلی ملے گی۔‏ آپ ایسی آیتوں کی فہرست بنا سکتے ہیں جنہیں پڑھنے سے آپ کو راحت ملتی ہے۔‏ (‏ بکس کو بھی دیکھیں۔‏)‏ آپ اِن میں سے چند ایک کو زبانی یاد بھی کر سکتے ہیں۔‏ آپ خاص طور پر رات کے وقت ایسی آیتوں پر غور کر سکتے ہیں جب آپ اکیلے ہوتے ہیں اور آپ کو نیند نہیں آ رہی ہوتی۔‏—‏یسعیاہ 57:‏15‏۔‏

ذرا ایک 40 سالہ شخص کی مثال پر غور کریں جس کا نام جیک ہے۔‏ حال ہی میں اُن کی بیوی کینسر کی وجہ سے فوت ہو گئی۔‏ جیک بتاتے ہیں کہ کبھی کبھار وہ شدید تنہائی کا شکا‌ر ہو جاتے ہیں۔‏ ایسی صورت میں اُنہیں دُعا کرنے سے بڑی تسلی ملتی ہے۔‏ وہ کہتے ہیں:‏ ”‏جب مَیں یہوواہ خدا سے دُعا کرتا ہوں تو مجھے اکیلا‌پن محسوس نہیں ہوتا۔‏ اکثر رات کو میری آنکھ کُھل جاتی ہے اور پھر مجھے نیند نہیں آتی۔‏ لیکن جب مَیں خدا کے کلام سے کچھ خاص آیتوں کو پڑھتا اور اُن پر غور کرتا ہوں اور دل کی گہرائیوں سے دُعا کرتا ہوں تو مجھے بہت سکون ملتا ہے اور مجھے نیند آ جاتی ہے۔‏“‏

ونیسا نامی عورت کی امی ایک بیماری کی وجہ سے فوت ہو گئیں۔‏ اُنہیں بھی دُعا کرنے سے بہت ہمت ملی۔‏ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏جب مجھے اپنی امی کی بہت زیادہ یاد آتی ہے تو مَیں یہوواہ کے سامنے اپنے غم کا اِظہار کرتی ہوں اور رو پڑتی ہوں۔‏ وہ ہمیشہ میری دُعائیں سنتا ہے اور مجھے اِس صدمے کو سہنے کی طاقت دیتا ہے۔‏“‏

کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ جو لوگ اپنے پیاروں کی موت کے غم سے  دوچار  ہیں،‏ اُنہیں دوسروں کے کام آنے یا کسی طرح کی فلا‌حی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی کوشش کرنی چاہیے۔‏ ایسا کرنے سے اُنہیں خوشی ملے گی اور وہ کسی حد تک اپنے غم کو بُھلا پائیں گے۔‏ (‏اعمال 20:‏35‏)‏ ایسے مسیحی جنہوں نے موت کی وجہ سے اپنے پیاروں کو کھو دیا ہے،‏ اُنہوں نے دیکھا ہے کہ دوسروں کی مدد کرنے سے اُنہیں بہت تسلی ملتی ہے۔‏—‏2-‏کُرنتھیوں 1:‏3،‏ 4‏۔‏

^ پیراگراف 5 خدا کا کلام یہ تعلیم نہیں دیتا۔‏ اِس میں بتایا گیا ہے کہ اِنسان کے مرنے کی وجوہات دراصل کچھ اَور ہیں۔‏—‏واعظ 9:‏11؛‏ یوحنا 8:‏44؛‏ رومیوں 5:‏12‏۔‏