ایک اَور ثبوت
کیا آثارِقدیمہ کی دریافتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاک کلام میں درج باتیں تاریخی لحاظ سے درست ہیں؟ 2014ء میں رسالے ”ببلیکل آرکیولوجی ریویو“ کے ایک مضمون میں یہ سوال اُٹھایا گیا: ”آثارِقدیمہ کی دریافتوں سے ایسے کتنے لوگوں کی تصدیق ہو چُکی ہے جن کا ذکر بائبل کے عبرانی صحیفوں میں ہوا ہے؟“ اِس سوال کا جواب یوں دیا گیا: ”کم از کم 50 لوگوں کی۔“ لیکن اِس مضمون میں جن 50 لوگوں کا ذکر کِیا گیا، اُن میں تتنی کا نام نہیں تھا۔ مگر تتنی کون تھے؟ آئیں، دیکھیں کہ پاک کلام میں اُن کے بارے میں کیا بتایا گیا ہے۔
ایک وقت تھا جب شہر یروشلیم فارس کی سلطنت کا حصہ تھا۔ یہ شہر جس علاقے میں تھا، فارسی اُسے دریا پار کا علاقہ کہتے تھے۔ یہ علاقہ دریائےفرات کے مغرب میں واقع تھا۔ بابل کو فتح کرنے کے بعد فارسیوں نے بابل کی اسیری میں موجود یہودیوں کو رِہا کر دیا اور اُنہیں یروشلیم جا کر یہوواہ خدا کا گھر (یعنی ہیکل) بنانے کا حکم دیا۔ (عزرا 1:1-4) لیکن یہودیوں کے دُشمنوں کو یہ بات بالکل پسند نہیں آئی اِس لیے اُنہوں نے اِس کام کی مخالفت کی اور اُن پر اِلزام لگایا کہ وہ فارس کے خلاف بغاوت کر رہے ہیں۔ (عزرا 4:4-16) بادشاہ دارا کے دَورِحکومت (522-486 قبلازمسیح) میں ایک فارسی حاکم نے جس کا نام تتنی تھا، اِس معاملے کی تفتیش کی۔ پاک کلام میں اُسے ”دریا پار کا حاکم“ کہا گیا ہے۔—عزرا 5:3-7۔
آثارِقدیمہ کی دریافتوں میں کئی ایسی تختیاں ملی ہیں جن پر تتنی کا نام لکھا ہے۔ اِن تختیوں پر تننی کے خاندان اور اُن کے نوکروں کے کاروباری لیندین کے متعلق بتایا گیا ہے۔ اِن میں سے ایک تختی پر ایک کاروباری معاہدہ ہے جو بادشاہ دارا کی حکومت کے 20ویں سال یعنی 502 قبلازمسیح میں کِیا گیا تھا۔ اِس معاہدے کے ایک گواہ کا ذکر ”دریا پار کے حاکم، تاتانو“ کے نوکر کے طور پر کِیا گیا ہے۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تاتانو دراصل تتنی ہیں جن کا ذکر بائبل میں عزرا کی کتاب میں کِیا گیا ہے۔
تتنی کن علاقوں کے حاکم تھے؟ 535 قبلازمسیح میں بادشاہ خورس (کورشِاعظم) نے اپنی سلطنت کو دوبارہ سے صوبوں میں تقسیم کِیا۔ اِن میں سے ایک صوبے کو ”بابل اور دریا پار کا علاقہ“ کہا جاتا تھا۔ بعد میں اِس صوبے کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا اور اِن میں سے ایک کو دریا پار کا علاقہ کہا جانے لگا۔ اِس میں کول سِریا (کول ارام)، فینیکے، سامریہ اور یہوداہ کے علاقے شامل تھے جن پر غالباً دمشق سے حکمرانی کی جاتی تھی۔ تتنی نے دریا پار کے اِس علاقے پر تقریباً 520 قبلازمسیح سے لے کر 502 قبلازمسیح تک حکومت کی۔
تتنی یہودیوں پر لگے بغاوت کے اِلزام کی تفتیش کرنے کے لیے یروشلیم گئے۔ معاملے کی چھانبین کرنے کے بعد اُنہوں نے بادشاہ دارا کو لکھا کہ یہودیوں کا کہنا ہے کہ بادشاہ خورس نے اُنہیں یہوواہ کی ہیکل کو دوبارہ بنانے کی اِجازت دی تھی۔ جب بادشاہ دارا کے کہنے پر شاہی کُتبخانے کو کھنگالا گیا تو وہ طومار مل گیا جس میں بادشاہ خورس نے ہیکل کی دوبارہ تعمیر کا حکم دیا تھا۔ (عزرا 5:6، 7، 11-13؛ 6:1-3) اِس پر تتنی کو اِس معاملے سے دُور رہنے کے لیے کہا گیا اور اُنہوں نے ایسا ہی کِیا۔—عزرا 6:6، 7، 13۔
یہ سچ ہے کہ ”دریا پار کے حاکم تتنیؔ“ نے تاریخ میں کوئی بڑا کام تو نہیں کِیا۔ لیکن ذرا غور کریں کہ پاک کلام میں اُن کا ذکر کِیا گیا ہے اور اُن کے عہدے کے بارے میں بھی بالکل صحیح صحیح بتایا گیا ہے۔ بےشک آثارِقدیمہ کی دریافتوں سے ایک بار پھر یہ ثبوت ملتا ہے کہ پاک کلام میں درج باتیں تاریخی لحاظ سے درست ہیں۔