سرِورق کا موضوع: جنگ کے بارے میں خدا کا نظریہ کیا ہے؟
جنگ کے بارے میں خدا کا نظریہ—مسیحیت کے آغاز میں
بنیاِسرائیل ایک بار پھر ظلموستم کا شکار تھے۔ لیکن اِس بار وہ رومی حکومت کے شکنجے میں تھے۔ اپنے باپدادا کی طرح وہ بھی خدا کے حضور چھٹکارے کے لیے فریاد کر رہے تھے۔ پھر اُنہوں نے یسوع مسیح کے بڑے بڑے کاموں کے بارے میں سنا۔ بہت سے لوگوں کو اُمید تھی کہ یسوع مسیح رومی حکومت کے ظلم سے ”اِسرائیل کو مخلصی“ دِلائیں گے۔ (لُوقا 24:21) لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اِس کی بجائے 70ء میں رومی فوج نے اُن کی مرکزی عبادتگاہ اور یروشلیم کو تباہ کر دیا۔
لیکن پہلے کی طرح اِس بار خدا نے بنیاِسرائیل کی خاطر جنگ کیوں نہیں کی یا اُنہیں ظلم سے چھٹکارا پانے کے لیے جنگ کرنے کا حکم کیوں نہیں دیا؟ کیا جنگ کے بارے میں خدا کا نظریہ بدل گیا تھا؟ جی نہیں۔ دراصل خدا نے یسوع کو مسیح کے طور پر بھیجا تھا لیکن بنیاِسرائیل نے اُنہیں قبول نہیں کِیا۔ (اعمال 2:36) اِس لیے خدا نے اُنہیں ایک قوم کے طور پر رد کر دیا۔—متی 23:37، 38۔
اب خدا بنیاِسرائیل اور اُن کے ملک کی حفاظت نہیں کر رہا تھا۔ بنیاِسرائیل اب یہ دعویٰ نہیں کر سکتے تھے کہ وہ خدا کی طرف سے جنگ لڑتے ہیں یا جنگ میں خدا اُن کا ساتھ دیتا ہے۔ یسوع مسیح کی پیشگوئی کے مطابق خدا کی خوشنودی بنیاِسرائیل کو نہیں بلکہ ایک نئی قوم کو حاصل تھی جسے پاک کلام میں ’خدا کا اِسرائیل‘ کہا گیا ہے۔ (گلتیوں 6:16؛ متی 21:43) یہ قوم اُن مسیحیوں پر مشتمل تھی جسے خدا نے اپنی پاک روح سے مسح کِیا تھا۔ اِنہی مسیحیوں سے کہا گیا کہ ”اب [تُم] خدا کی اُمت ہو۔“—1-پطرس 2:9، 10۔
چونکہ اب مسیحی ”خدا کی اُمت“ تھے تو کیا خدا نے اُن کی خاطر جنگ کی تاکہ اُنہیں رومی حکومت کے شکنجے سے چھڑائے؟ یا کیا خدا نے مسیحیوں کو اُن لوگوں سے جنگ کرنے کا حکم دیا جو اُن پر ظلم کر رہے تھے؟ جی نہیں۔ لیکن اُس نے ایسا کیوں نہیں کِیا؟ جیسا کہ ہم نے پچھلے مضمون میں دیکھا، جو جنگیں خدا کی طرف سے ہوتی ہیں، اُن کے بارے میں خدا ہی فیصلہ کرتا ہے کہ یہ کب لڑی جائیں گی۔ مسیحیت کے آغاز میں خدا نے اپنے بندوں کے لیے جنگیں نہیں لڑیں اور نہ ہی اُنہیں جنگ کرنے کا حکم دیا۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب وہ وقت نہیں تھا جب خدا جنگ کے ذریعے بُرائی اور ظلموستم کا خاتمہ کرتا۔
لہٰذا بنیاِسرائیل کی طرح مسیحیوں کو بھی اِنتظار کرنا تھا کہ خدا بُرائی اور ظلموستم کو ختم کرنے کا وقت طے کرے۔ لیکن اِس دوران خدا نے اُنہیں اپنے دُشمنوں سے جنگ کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ اور اِس بات کو یسوع مسیح نے اپنی تعلیمات کے ذریعے واضح کر دیا تھا۔ مثال کے طور پر اپنے شاگردوں کو جنگ کرنے کا حکم دینے کی بجائے اُنہوں نے اُن سے کہا: ”اپنے دُشمنوں سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کے لئے دُعا کرو۔“ (متی 5:44) یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ جب رومی حکومت یروشلیم پر حملہ کرے گی تو وہ اُن کے خلاف لڑنے کی بجائے وہاں سے بھاگ جائیں۔ اور شاگردوں نے ایسا ہی کِیا۔—لُوقا 21:20، 21۔
اِس کے علاوہ یسوع مسیح کے پیروکار پولُس نے خدا کے اِلہام سے لکھا: ”اپنا اِنتقام نہ لو . . . کیونکہ یہ لکھا ہے کہ [یہوواہ] فرماتا ہے اِنتقام لینا میرا کام ہے۔ بدلہ مَیں ہی دوں گا۔“ (رومیوں 12:19) پولُس دراصل اُس بات کا حوالہ دے رہے تھے جو صدیوں پہلے خدا نے اپنے بندے موسیٰ سے کہی تھی۔ (احبار 19:18؛ اِستثنا 32:35) جیسا کہ پچھلے مضمون سے ظاہر ہوتا ہے، کبھی کبھار خدا اپنے بندوں کا بدلہ لینے کے لیے جنگ میں اُن کا ساتھ دیتا تھا۔ پولُس کی بات سے پتہ چلتا ہے کہ مسیحیت کے آغاز میں بھی جنگ کے بارے میں خدا کا نظریہ نہیں بدلا تھا۔ خدا کی نظر میں اپنے بندوں کا بدلہ لینے اور بُرائی اور ظلموستم کو ختم کرنے کا ایک ذریعہ جنگ تھا۔ لیکن ہر بار اِس بات کا فیصلہ خدا نے ہی کِیا کہ جنگ کب ہوگی اور اِسے کون لڑے گا۔
اِس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ مسیحیت کے آغاز میں خدا نے اپنے بندوں کو جنگ کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ لیکن کیا آج خدا نے کسی قوم یا گروہ کو اپنے دُشمنوں کے خلاف لڑنے کا حکم دیا ہے؟ یا کیا اب وہ وقت آ گیا ہے کہ خدا اپنے بندوں کی خاطر جنگ لڑے؟ آج جنگ کے بارے میں خدا کا نظریہ کیا ہے؟ اِن سوالوں پر اگلے مضمون میں بات کی جائے گی۔