پاک کلام کی تعلیم زندگی سنوارتی ہے
”اب مَیں دوسروں کی مدد کر رہا ہوں“
-
پیدائش: 1981ء
-
پیدائش کا ملک: گواٹیمالا
-
ماضی: دردناک بچپن
میرا ماضی:
مَیں اکول نامی قصبے میں پیدا ہوا جو گواٹیمالا کے ایک پہاڑی علاقے میں واقع ہے۔ میرے گھرانے کا تعلق اِکسل قبیلے سے ہے۔ مَیں ہسپانوی زبان کے ساتھ ساتھ اپنی قبائلی زبان بھی بول سکتا ہوں۔ جب مَیں پیدا ہوا تو ملک میں خانہجنگی ہو رہی تھی جو کُل 36 سال تک جاری رہی۔ اِس دوران میرے قبیلے کے بہت سے لوگ مارے گئے۔
جب مَیں چار سال کا تھا اور میرا بھائی سات سال کا تھا تو میری زندگی میں ایک المناک واقعہ ہوا۔ میرا بھائی ایک دستی بم سے کھیل رہا تھا جو اچانک سے پھٹ گیا۔ اِس حادثے کے نتیجے میں میرا بھائی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا اور میری بینائی چلی گئی۔ اِس کے بعد میرا بچپن گواٹیمالا کے دارالحکومت میں واقع نابینا بچوں کے ایک اِدارے میں گزرا۔ وہاں مَیں نے بریل سیکھی جو نابینا لوگوں کے لیے ایک طرزِتحریر ہے۔ اِدارے کا عملہ مجھے دوسرے بچوں سے بات نہیں کرنے دیتا تھا اور میرے ہمجماعت مجھ سے دُور دُور رہتے تھے۔ مَیں بہت تنہا محسوس کرتا تھا اور سال کے اُن دو مہینوں کا بڑی شدت سے اِنتظار کرتا تھا جب مَیں گھر جا کر اپنی امی سے ملتا تھا جو مجھ سے بہت پیار کرتی تھیں۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ جب مَیں دس سال کا تھا تو وہ فوت ہو گئیں۔ اِس کی وجہ سے مَیں بہت ٹوٹ گیا کیونکہ مجھے لگا کہ اب دُنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں رہا جو مجھ سے پیار کرتا ہے۔
جب مَیں 11 سال کا ہوا تو مَیں اپنے آبائی قصبے میں واپس آ گیا اور اپنے سوتیلے بھائی کے گھر رہنے لگا۔ وہ میری جسمانی ضروریات کا خیال تو رکھتے تھے لیکن کوئی بھی شخص یہ نہیں سمجھ پاتا تھا کہ مَیں کس کرب سے گزر رہا ہوں۔ کبھی کبھار مَیں رو رو کر خدا سے پوچھتا تھا کہ ”میری امی کیوں مر گئیں؟ مَیں اندھا کیوں ہو گیا ہوں؟“ لوگ مجھ سے کہتے تھے کہ یہ سب خدا کی مرضی ہے۔ اِس پر مَیں یہ سوچنے لگا کہ خدا بےحس اور بےاِنصاف ہے۔ مَیں خودکُشی کرنا چاہتا تھا لیکن مجھے سمجھ نہیں آتا تھا کہ کیسے کروں۔
چونکہ مَیں اندھا تھا اِس لیے لوگ مجھ سے ناجائز فائدہ اُٹھاتے تھے۔ مجھے کئی بار جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ لیکن مَیں نے کبھی کسی کو اِس کے بارے میں نہیں بتایا کیونکہ مجھے لگتا تھا کہ کسی کو میری فکر ہی نہیں ہے۔ لوگ شاذونادر ہی مجھ سے بات کرتے تھے اور مَیں بھی کسی سے بات نہیں کرتا تھا۔ مَیں لوگوں سے کنارہ کرتا تھا، کسی پر بھروسا نہیں کرتا تھا اور افسردگی میں مبتلا رہتا تھا۔
پاک کلام کی تعلیم کا اثر:
جب مَیں 13 سال کا تھا تو ایک شادیشُدہ جوڑا سکول کی بریک کے دوران مجھ سے ملنے آیا۔ وہ دونوں میاں بیوی یہوواہ کے گواہ تھے۔ میری ایک ٹیچر نے اُنہیں مجھ سے ملنے کو کہا تھا کیونکہ اُس ٹیچر کو مجھ سے ہمدردی تھی۔ اُس جوڑے نے مجھے پاک کلام سے بتایا کہ خدا نے وعدہ کِیا ہے کہ یسعیاہ 35:5؛ یوحنا 5:28، 29) مجھے اُن کی باتیں بہت اچھی لگتی تھیں لیکن مجھے اُن سے بات کرنا مشکل لگتا تھا کیونکہ مَیں بولنے کا عادی نہیں تھا۔ حالانکہ مَیں بہت کمگو تھا پھر بھی وہ جوڑا مجھ سے ملنے آتا رہا اور بڑے پیار سے مجھے پاک کلام کی تعلیم دیتا رہا۔ وہ دونوں دس کلومیٹر (چھ میل) پیدل چل کر اور ایک پہاڑ کو عبور کر کے میرے پاس آتے تھے۔
وہ مُردوں کو زندہ کرے گا اور نابینا لوگوں کی بینائی بحال کرے گا۔ (میرے سوتیلے بھائی نے مجھے اُس جوڑے کے بارے میں یوں بتایا کہ اُنہوں نے صاف ستھرا لباس پہنا ہوتا ہے حالانکہ وہ غریب ہیں۔ اِس کے باوجود وہ دونوں میرے لیے چھوٹے چھوٹے تحفے لاتے تھے۔ مَیں سوچتا تھا کہ صرف سچے مسیحی ہی اِتنی بےلوث محبت ظاہر کر سکتے ہیں۔
مَیں نے بریل کتابوں اور رسالوں کے ذریعے پاک کلام کا کورس کِیا۔ اگرچہ مَیں اُن باتوں کو سمجھ جاتا تھا جو مَیں سیکھ رہا تھا لیکن مَیں کچھ باتوں کو قبول نہیں کر پا رہا تھا۔ مثال کے طور پر مجھے یہ ماننا مشکل لگتا تھا کہ خدا مجھ سے پیار کرتا ہے اور کچھ لوگ ہیں جو مجھ سے پیار کرتے ہیں۔ مَیں یہ سمجھ گیا تھا کہ خدا اِنسانوں کو دُکھ اور تکلیف کیوں سہنے دیتا ہے لیکن مجھے یہ ماننا مشکل لگتا تھا کہ خدا ایک شفیق باپ کی طرح ہے۔ *
مَیں پاک کلام سے جو باتیں سیکھ رہا تھا، اُن کی وجہ سے آہستہ آہستہ میری سوچ بدل گئی۔ مثال کے طور پر مَیں نے سیکھا کہ خدا کو اُن لوگوں سے بہت ہمدردی ہے جو تکلیفیں سہتے ہیں۔ ایک بار جب خدا کے بندوں کو اذیت کا نشانہ بنایا گیا تو اُس نے کہا: ”مَیں نے اپنے لوگوں کی تکلیف جو مصرؔ میں ہیں خوب دیکھی . . . اور مَیں اُن کے دُکھوں کو جانتا ہوں۔“ (خروج 3:7) جب مَیں سمجھ گیا کہ خدا کتنا مہربان، شفیق اور رحیم ہے تو مَیں نے اپنی زندگی اُس کے لیے وقف کر دی اور 1998ء میں بپتسمہ لے کر یہوواہ کا گواہ بن گیا۔
لیکن مجھے مذہبی اِجلاسوں پر جانے کے لیے کافی مشکلوں کا سامنا ہوتا تھا کیونکہ ہمارے علاقے میں جہاں اِجلاس منعقد ہوتے تھے، وہاں تک پہنچنے کے لیے مجھے ایک پہاڑ عبور کرنا پڑتا تھا۔ پھر 1999ء میں مَیں شہر ایسکونتلا گیا جہاں نابینا لوگوں کے لیے ایک کورس منعقد ہو رہا تھا۔ وہاں جب یہوواہ کے گواہوں کی مقامی کلیسیا (یعنی جماعت) کے ایک پیشوا کو پتہ چلا کہ مجھے اپنے آبائی قصبے سے اِجلاسوں پر جانے کے لیے کتنی مشکل ہوتی ہے تو اُنہوں نے ایسکونتلا میں ایک یہوواہ کے گواہ سے بات کی جو مجھے اپنے گھر میں رکھنے اور اِجلاسوں پر لے جانے کے لیے راضی ہو گیا۔ وہ اور اُن کے گھر والے آج تک میرا ایسے خیال رکھتے ہیں جیسے میرا اُن کے ساتھ کوئی خونی رشتہ ہو۔
اُن کے علاوہ کلیسیا کے دوسرے ارکان بھی میری مدد کر کے اپنی محبت کا ثبوت دیتے رہتے ہیں۔ یہ دیکھ کر مجھے پورا یقین ہو گیا ہے کہ یہوواہ کے گواہ واقعی یسوع مسیح کی تعلیم پر عمل کر رہے ہیں۔—یوحنا 13:34، 35۔
میری زندگی سنور گئی:
اب مَیں مایوسی اور احساسِکمتری کا شکار نہیں ہوں۔ مجھے جینے کا مقصد مل گیا ہے۔ مَیں اپنی معذوری پر توجہ دینے کی بجائے کُلوقتی طور پر لوگوں کو پاک کلام کی تعلیم دیتا ہوں۔ اِس کے علاوہ مَیں کلیسیا کا ایک پیشوا ہوں اور مقامی کلیسیاؤں میں عوامی تقریریں پیش کرتا ہوں جو پاک کلام پر مبنی ہوتی ہیں۔ مجھے یہوواہ کے گواہوں کے اِجتماعوں پر ہزاروں لوگوں کے سامنے تقریریں پیش کرنے کا شرف بھی حاصل ہوا ہے۔
سن 2010ء میں مَیں یہوواہ کے گواہوں کے ایک خاص سکول پر گیا جو ملک ایلسلواڈور میں منعقد ہوا۔ (اِس سکول کو اب بادشاہت کے مُنادوں کے لیے سکول کہا جاتا ہے۔) اِس سکول میں مَیں نے کلیسیا میں اپنی ذمےداریوں کو زیادہ بہتر طور پر نبھانا سیکھا۔ یہ تربیت پا کر مجھے احساس ہوا کہ یہوواہ خدا مجھ سے کتنا پیار کرتا ہے اور اُس کی نظر میں میری کتنی قدر ہے۔ مَیں اِس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہوں کہ وہ کسی بھی شخص کو اپنا کام کرنے کے لائق بنا سکتا ہے۔
یسوع مسیح نے کہا کہ لینے کی نسبت دینے میں زیادہ خوشی ہے۔ (اعمال 20:35) اور مَیں واقعی بہت خوش ہوں کیونکہ اب مَیں دوسروں کی مدد کر رہا ہوں حالانکہ ایک زمانے میں مجھے یہ ناممکن لگتا تھا۔
^ پیراگراف 13 یہ دیکھنے کے لیے کہ خدا اِنسانوں کو دُکھ تکلیف کیوں سہنے دیتا ہے، کتاب پاک صحائف کی تعلیم حاصل کریں کے باب نمبر 11 کو دیکھیں۔ (یہ کتاب یہوواہ کے گواہوں نے شائع کی ہے۔)