مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

اذیت کا نشانہ بننے والے لوگوں کیلئے مدد

اذیت کا نشانہ بننے والے لوگوں کیلئے مدد

اذیت کا نشانہ بننے والے لوگوں کیلئے مدد

ڈنمارک میں ‏”‏جاگو!‏“‏ کے مراسلہ‌نگار سے

‏”‏ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کو ٹوٹے ہوئے دل کی نسبت جوڑنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔‏“‏—‏ڈاکٹر آئنی جینفکی۔‏

ایک نوجوان شخص یورپ کے ایک شہر کی کسی پُرسکون سٹرک پر چلتے چلتے ایک دُکان کی کھڑکی میں رکھی ہوئی چیزوں کو دیکھنے کیلئے رُک جاتا ہے۔‏ اچانک،‏ اُس کے ہاتھ کاپنے لگتے ہیں۔‏ اُس کے گھٹنے بجنے لگتے ہیں۔‏ وہ اپنی گردن کو گویا دبانے کیلئے مضبوطی سے گرفت میں لے لیتا ہے۔‏ کھڑکی میں اُس نے ابھی ابھی،‏ دو باوردی سپاہیوں کا عکس دیکھا ہے۔‏ اُس نوجوان شخص نے نہ تو قانون‌شکنی کی ہے اور نہ ہی اُسے خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت ہے۔‏ اس کے باوجود،‏ باوردی آدمیوں کی ایک جھلک ہی اُسے ہزاروں میل دُور واقع ایک جگہ اور کئی برس پہلے کے اُس وقت میں لے جاتی ہے جب وہ اذیت کا نشانہ بنا تھا۔‏

دیگر لاکھوں مردوزن اور بچوں کی بھی یہی داستان ہو سکتی ہے۔‏ یہ کسی ایسے شخص کی داستان بھی ہو سکتی ہے جسے آپ جانتے ہیں۔‏ ظالمانہ بدسلوکی کا نشانہ بننے والا شخص ایک پناہ‌گزین یا مہاجر بھی ہو سکتا ہے جو اب آپ کے علاقے میں رہتا ہے۔‏ اُس کے بچے شاید آپکے بچوں کے ساتھ سکول میں پڑھتے ہیں۔‏ آپ شاید اُسے ایک ایسے خاموش،‏ پُرسکون،‏ مہذب پڑوسی کے طور پر جانتے ہوں جو کہ عموماً الگ‌تھلگ رہتا ہے۔‏ تاہم ظاہری وضع‌قطع پُرفریب ہو سکتی ہیں؛‏ وہ اُس اندرونی اضطراب پر پردہ ڈال سکتی ہیں جسے ماضی کی جسمانی اور ذہنی تکلیف کی یادوں سے نبردآزما ہونے کی صورت میں اذیت کا نشانہ بننے والا شخص محسوس کرتا ہے۔‏ کوئی منظر—‏یا آواز—‏اُس کے اندر ماضی کی تکلیفوں کی یاد تازہ کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔‏ ایک ایسا ہی متاثرہ شخص بیان کرتا ہے:‏ ”‏جب بھی مَیں کسی بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو مجھے وہ لوگ یاد آ جاتے ہیں جنہیں مَیں نے قیدخانہ میں روتے سنا تھا۔‏ جب کبھی مجھے ہوا میں ساں ساں کی آواز سنائی دیتی ہے تو مجھے وہ لہراتی ہوئی چھڑی یاد آ جاتی ہے جو مجھے لگنے سے پہلے ایسی ہی آواز پیدا کرتی تھی۔‏“‏

اذیت صرف سیاسی انتہاپسندوں اور دہشت‌گردوں کا دائرہ اختیار نہیں ہے۔‏ کئی ایک ممالک میں پولیس اور فوج بھی یہی طریقہ استعمال کرتی ہے۔‏ کیوں؟‏ اذیت معلومات حاصل کرنے،‏ اعتراف کروانے،‏ ملزم ثابت کرنے اور انتقام لینے کا فوری اور مؤثر طریقہ ہے۔‏ اذیت پر تحقیق کے ماہر،‏ ڈنمارک کی ڈاکٹر آئنی جینفکی کے مطابق بعض صورتوں میں حکومتیں ”‏اذیت پہنچانے کا لائحۂ‌عمل اختیار کرنے سے برسرِاقتدار آ کر اپنے مرتبے کو قائم رکھتی ہیں۔‏“‏ اس کا شکار ہونے والا ایک شخص اسے یوں بیان کرتا ہے:‏ ‏”‏وہ میرے حوصلے پست کر دینا چاہتے تھے تاکہ دوسرے یہ دیکھ سکیں کہ حکومت پر تنقید کرنے والوں کا کیا انجام ہوتا ہے۔‏“‏

بیشتر لوگوں کیلئے ساتھی انسانوں کو اذیت کا نشانہ بنانا قطعی طور پر قرونِ‌مظلمہ کی یاد ہے۔‏ بہرحال،‏ ۱۹۴۸ میں یونائیٹڈ نیشنز نے ایک یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس ترتیب دیا جو بیان کرتا ہے:‏ ”‏کسی بھی شخص کو اذیت یا ظلم،‏ غیرانسانی یا ذلت‌آمیز سلوک یا سزا کا نشانہ نہیں بنایا جا سکتا۔‏“‏ (‏دفعہ ۵)‏ تاہم،‏ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ دُنیا بھر کے تقریباً ۳۵ فیصد پناہ‌گزینوں کو اذیت کا نشانہ بنایا گیا ہے۔‏ اذیت اسقدر عام کیوں ہے؟‏ اِس کا نشانہ بننے والے لوگ کیسے متاثر ہوتے ہیں اور اُنکی مدد کرنے کیلئے کیا کِیا جا سکتا ہے؟‏

اسکے نتائج

یہ کوئی خلافِ‌توقع بات نہیں ہے کہ اذیت کا نشانہ بننے والے بیشتر لوگ اپنے مُلک سے فرار ہو جاتے ہیں اور کسی دوسری جگہ نئے سرے سے اپنی زندگی کا آغاز کرتے ہیں۔‏ تاہم جگہ تبدیل کر لینے کے باوجود جسمانی اور نفسیاتی اذیت جاری رہتی ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ اذیت کا نشانہ بننے والا شخص احساسِ‌ندامت کا شکار ہو سکتا ہے کیونکہ وہ اپنے دوست‌احباب اور رشتےداروں کو اس بدسلوکی سے نہیں بچا سکا تھا۔‏ اس اندیشے کے پیشِ‌نظر کہ اُس سے ملنے والا ہر شخص جاسوس ہو سکتا ہے،‏ وہ دوسروں کے بارے میں انتہائی بدگمانی کا شکار بھی ہو سکتا ہے۔‏ ”‏اذیت کا نشانہ بننے والا شخص ہمیشہ اجنبی ہی رہتا ہے،‏“‏ مصنف کارسٹن جین‌سن بیان کرتا ہے۔‏ ”‏وہ ہمیشہ کیلئے دُنیا پر اپنا اعتماد کھو بیٹھتا ہے۔‏“‏

یہ جسمانی اور ذہنی طور پر مجروح ہونے پر منتج ہوتا ہے جس سے متاثرہ شخص اور اُسکی مدد کرنے والا ہر شخص مایوس ہو سکتا ہے۔‏ بعض‌اوقات جسمانی مسائل تو فوری طور پر حل کئے جا سکتے ہیں تاہم نفسیاتی مسائل جلدی حل نہیں ہوتے۔‏ ”‏شروع میں تو ہم نے یہ سوچا کہ ’‏کوئی بات نہیں،‏ ہم اُنکا علاج کرینگے اور پھر وہ اپنی روزمرّہ کی زندگی کا آغاز کر سکیں گے،‏“‏ ڈاکٹر جینفکی تسلیم کرتی ہے۔‏ ”‏تاہم جلد ہی ہمیں معلوم ہو گیا کہ یہ اُنکا دلی صدمہ تھا جو اُنہیں اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا۔‏“‏ تاہم،‏ ڈاکٹر جینفکی بیان کرتی ہے:‏ ”‏مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی ہے کہ ایسے متاثرہ اشخاص کو صحتمند بنانا اور اُنکی مدد کرنا ممکن ہے،‏ خواہ کئی سال ہی کیوں نہ گزر گئے ہوں۔‏“‏

سن ۱۹۸۲ میں،‏ کوپن‌ہیگن کے نیشنل ہسپتال میں،‏ ڈاکٹر جینفکی نے ڈنمارک کے دیگر ڈاکٹروں کیساتھ ملکر اذیت کے شکار پناہ‌گزینوں کے علاج کیلئے ایک چھوٹا یونٹ قائم کِیا۔‏ اس چھوٹی سی شروعات سے انٹرنیشنل ری‌ہیبلی‌ٹیشن کونسل فار ٹارچر وکٹمز (‏آئی‌آرسی‌ٹی)‏ کے نام سے ایک عالمی ادارہ قائم ہو گیا۔‏ کوپن‌ہیگن میں اپنے ہیڈکوارٹرز سے یہ کونسل عالمی سطح پر ۱۰۰ سے زیادہ مراکز کے ذریعے علاج کا کام انجام دے رہی ہے۔‏ سالوں کے دوران،‏ کونسل نے اذیت کا نشانہ بننے والوں کے علاج کی بابت بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔‏

مدد کیسے کی جائے

متاثرہ اشخاص کیلئے اپنے تجربات کی بابت گفتگو کرنا اکثر مفید ہوتا ہے۔‏ آئی‌آرسی‌ٹی کی طرف سے ایک معلوماتی شیٹ بیان کرتی ہے،‏ ”‏تقریباً ۲۰ سال پہلے،‏ اذیت کا نشانہ بننے والے لوگ ایک طرح سے دوہری مشکل کا شکار ہوتے تھے۔‏ ایک تو جسمانی/‏نفسیاتی اذیت کا اور دوسرا اس کی بابت گفتگو نہ کر پانے کی مشکل میں مبتلا ہوتے تھے۔‏“‏

سچ ہے کہ اذیت جیسے آزردہ‌خاطر موضوع پر گفتگو کرنا کوئی خوشگوار بات نہیں ہے۔‏ تاہم اگر متاثرہ شخص کسی دوست کو ہم‌راز بنانا چاہتا ہے اور وہ دوست سننے سے انکار کرتا ہے تو ایسی صورت میں متاثرہ شخص بہت زیادہ مایوسی کا شکار ہو سکتا ہے۔‏ اسلئے،‏ متاثرہ شخص کو یہ یقین دلانا نہایت ضروری ہے کہ کسی کو اُسکی پرواہ ہے۔‏ بِلاشُبہ،‏ کسی کو بھی دوسرے شخص کے نجی معاملات میں دخل‌اندازی نہیں کرنی چاہئے۔‏ بنیادی طور پر،‏ یہ متاثرہ شخص کا فیصلہ ہے کہ وہ کس کو اپنا ہم‌راز بنانا چاہتا ہے یا چاہتی ہے۔‏—‏امثال ۱۷:‏۱۷؛‏ ۱-‏تھسلنیکیوں ۵:‏۱۴‏۔‏

بیشتر ماہرین اذیت کے جسمانی اور ذہنی دونوں پہلوؤں پر غور کرنے کی سفارش کرتے ہیں۔‏ بعض متاثرین کیلئے بحالی پیشہ‌ورانہ مدد کا تقاضا کرتی ہے۔‏ علاج کی کوششوں میں سانس لینے اور بات‌چیت کرنے کی ورزشیں شامل ہیں۔‏ * عموماً سب سے پہلے احساسِ‌ندامت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‏ ایک تھراپسٹ نے بارہا زنابالجبر اور مارپیٹ کا نشانہ بننے والی ایک خاتون سے کہا:‏ ”‏آپ جو شرمندگی محسوس کرتی ہیں وہ نارمل اور قابلِ‌سمجھ بات ہے۔‏ تاہم یاد رکھیں شرم آپ کو نہیں بلکہ اُن لوگوں کو آنی چاہئے جنہوں نے ایسا کِیا ہے۔‏“‏

مرکزِاسیران سے بچنے والے

دوسری عالمی جنگ کے دوران،‏ لاکھوں لوگوں نے ہٹلر کے مراکزِاسیران میں ہولناک ذلتوں کا سامنا کِیا۔‏ ان میں ہزاروں یہوواہ کے گواہ بھی شامل تھے جنہیں اپنے مذہبی عقائد سے انکار نہ کرنے کی وجہ سے اذیت دی گئی تھی۔‏ اُن کے ایمان نے بِلاتردید اُنہیں ایسے کٹھن حالات کو برداشت کرنے میں مدد دی تھی۔‏ کیسے؟‏

قید میں ڈالے جانے سے بہت پہلے ہی یہ مسیحی خدا کے کلام کے مستعد طالبعلم تھے۔‏ لہٰذا،‏ جب مشکلات نے سر اُٹھایا تو نہ تو وہ پریشان ہوئے اور نہ ہی اُنہوں نے خدا پر یہ الزام لگایا کہ اُس نے کیوں فوری طور پر تکلیف کو بند نہیں کِیا۔‏ بائبل مطالعے کے ذریعے،‏ گواہ یہ سیکھ چکے تھے کہ خدا نے بدکاری کی اجازت کیوں دے رکھی ہے اور کیسے وہ اپنے مقررہ وقت پر اس کا خاتمہ کریگا۔‏ بائبل مطالعے نے اُنہیں سکھا دیا تھا کہ یہوواہ ”‏انصاف کو پسند کرتا ہے“‏ اور جب انسان اپنے ساتھی انسانوں سے بُری طرح سے پیش آتے ہیں تو وہ ناراض ہوتا ہے۔‏—‏زبور ۳۷:‏۲۸؛‏ زکریاہ ۲:‏۸،‏ ۹‏۔‏

بِلاشُبہ،‏ مراکزِاسیران سے بچنے والوں میں سے بیشتر لوگوں کو اپنی اذیت کے بعد صدمہ‌خیز اثرات سے نپٹنا پڑا۔‏ ایسا کرنے کیلئے انہوں نے پولس رسول کی مشورت پر عمل کرنے سے بھی بہت زیادہ تقویت حاصل کی ہے۔‏ جب پولس رومی قید میں ناخوشگوار حالات کے تحت زندگی بسر کر رہا تھا،‏ ایک ایسی حالت جو اُس کیلئے کافی زیادہ پریشانی کا باعث رہی ہوگی تو اُس نے ساتھی مسیحیوں کو لکھا:‏ ”‏کسی بات کی فکر نہ کرو بلکہ ہر ایک بات میں تمہاری درخواستیں دُعا اور منت کے وسیلہ سے شکرگذاری کے ساتھ خدا کے سامنے پیش کی جائیں۔‏ تو خدا کا اطمینان جو سمجھ سے بالکل باہر ہے تمہارے دلوں اور خیالوں کو مسیح یسوؔع میں محفوظ رکھیگا۔‏“‏—‏فلپیوں ۱:‏۱۳؛‏ ۴:‏۶،‏ ۷‏۔‏

بائبل مطالعے کے ذریعے،‏ راستی برقرار رکھنے والے ان لوگوں نے سیکھ لیا ہے کہ خدا نے اس زمین کو فردوس بنانے کا وعدہ کِیا ہے،‏ جہاں اذیت جیسی ذلت کے تکلیف‌دہ اثرات ہمیشہ کیلئے ختم کر دئے جائینگے۔‏

یہوواہ کے گواہ ۲۳۰ سے زائد ممالک میں بائبل پر مبنی اس اُمید میں دوسروں کو شریک کر رہے ہیں۔‏ دُنیا کی پُرآشوب حالتیں اُنکے ایسے لوگوں سے ملنے کا باعث بنتی ہیں جو انسانوں کی طرف سے انسانیت‌سوز سلوک کی وجہ سے تکلیف اُٹھا چکے ہیں۔‏ جب وہ اذیت کا نشانہ بننے والے لوگوں سے ملتے ہیں تو گواہ ان اشخاص کو روشن مستقبل کی بابت بائبل کے وعدے سے تقویت دینے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ وہ مستقبل میں ایک ایسے وقت کی خوشخبری سنا کر کتنے خوش ہیں جب اذیت گئی گزری بات ہوگی!‏—‏یسعیاہ ۶۵:‏۱۷؛‏ مکاشفہ ۲۱:‏۴‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 15 جاگو!‏ کوئی خاص علاج تجویز نہیں کرتا۔‏ تاہم مسیحیوں کو اس بات کا یقین کر لینا چاہئے کہ جو بھی علاج وہ کروا رہے ہیں وہ بائبل اُصولوں کے برعکس نہیں ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

‏”‏کسی بھی شخص کو اذیت یا ظلم،‏ غیرانسانی یا ذلت‌آمیز سلوک یا سزا کا نشانہ نہیں بنایا جا سکتا۔‏“‏—‏دفعہ ۵،‏ یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس

‏[‏صفحہ ۲۵ پر بکس]‏

آپ کیسے مدد کر سکتے ہیں

اگر آپ کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جو اذیت کے بعد صحت‌یاب ہو رہا ہے تو ذیل میں درج تجاویز معاون ثابت ہو سکتی ہیں:‏

● ہمدردی ظاہر کریں۔‏ آپ کہہ سکتے ہیں:‏ ”‏مَیں جانتا ہوں جس مُلک سے آپ کا تعلق ہے وہاں بہت بدامنی پائی جاتی ہے۔‏ آپ کیسے اسکا مقابلہ کر رہے ہیں؟‏“‏—‏متی ۷:‏۱۲؛‏ رومیوں ۱۵:‏۱‏۔‏

● مدد کرنے کیلئے نہ تو بہت زیادہ اصرار کریں اور نہ ہی اسکی بابت بہت زیادہ متجسس ہوں۔‏ اِسکی بجائے،‏ مہربان اور بامرّوت بنیں۔‏ متاثرہ شخص کو یہ باور کرائیں کہ آپ اُسکی بات سننا چاہتے ہیں۔‏​—‏⁠یعقوب ۱:‏۱۹‏۔‏

● حد سے زیادہ ہمدردی ظاہر کرنے سے گریز کریں۔‏ متاثرہ شخص کو اُسکی عزتِ‌نفس یا اُسکی عزلت سے محروم نہ کریں۔‏ اس تمام کا مقصد متاثرہ شخص کا بوجھ بانٹنا ہے اُسے پورے طور پر اُٹھانے کی کوشش کرنا نہیں ہے۔‏