مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

انتقالِ‌خون—‏ایک طویل متنازع داستان

انتقالِ‌خون—‏ایک طویل متنازع داستان

انتقالِ‌خون‏—‏ایک طویل متنازع داستان

‏”‏اگر خون کے سُرخ خلیے کوئی جدید دوا ہوتے تو اسکا لائسنس حاصل کرنا بہت مشکل ہوتا۔‏“‏ —‏ڈاکٹر جیفری میکلاؤ۔‏

اینٹونی مورے نامی ایک پاگل شخص کو ۱۶۶۷ کے موسمِ‌سرما میں فرانس کے بادشاہ لوئس XIV کے مشہور طبیب جین بپٹسٹ ڈینس کے پاس لایا گیا۔‏ ڈینس کے پاس مورے کے پاگل‌پن کا مؤثر ”‏علاج“‏ بچھڑے کا خون منتقل کرنا تھا جو اُسکے خیال میں اُس کے مریض کو صحتیاب کر دیگا۔‏ تاہم مورے کے معاملے میں ایسا نہ ہو سکا۔‏ سچ ہے کہ دوسری مرتبہ انتقالِ‌خون کے بعد اُسکی حالت بہتر ہو گئی۔‏ تاہم جلد ہی پاگل‌پن نے اُس فرانسیسی آدمی کو دوبارہ اپنی گرفت میں لے لیا اور تھوڑے ہی عرصہ بعد وہ وفات پا گیا۔‏

اگرچہ بعد میں یہ معلوم ہوا کہ مورے کی موت دراصل آرسینک زہر سے ہوئی تھی توبھی جانوروں کے خون سے متعلق ڈینس کے تجربات نے فرانس میں سخت تنازع برپا کر دیا۔‏ انجام‌کار،‏ ۱۶۷۰ میں اس طریقۂ‌کار پر پابندی لگا دی گئی۔‏ اسی اثنا میں،‏ انگلش پارلیمنٹ اور پوپ نے بھی ایسا ہی کِیا۔‏ اگلے ۱۵۰ سال تک انتقالِ‌خون قریباً معدوم ہو گیا۔‏

ابتدائی رکاوٹیں

انتقالِ‌خون نے ۱۹ ویں صدی میں ایک بار پھر مقبولیت حاصل کر لی۔‏ اسے ازسرِنو شروع کرنے والا جیمز بلن‌ڈیل نامی ایک اُمورِزچگی کا ماہر انگریز ڈاکٹر تھا۔‏ اپنی بہتر مہارتوں اور جدید آلات—‏نیز صرف انسانی خون کے استعمال پر اصرار—‏کیساتھ بلن‌ڈیل نے ایک بار پھر انتقالِ‌خون کو لوگوں کی دلچسپی کا مرکز بنا دیا۔‏

تاہم،‏ ۱۸۷۳ میں،‏ پولینڈ کے ایک ڈاکٹر،‏ ایف.‏ جیسی‌لیس نے خوفناک دریافت کے ساتھ انتقالِ‌خون کے عمل کو سُست کر دیا:‏ نصف سے زائد انتقالِ‌خون کا انجام موت ہؤا۔‏ یہ جاننے کے بعد،‏ مشہور ڈاکٹروں نے اس طریقۂ‌کار کی مذمت کرنا شروع کر دی۔‏ ایک بار پھر انتقالِ‌خون کی مقبولیت میں کمی واقع ہو گئی۔‏

اس کے بعد،‏ ۱۸۷۸ میں،‏ فرنچ فزیشن جارجز ہیم نے ایک نمکین ادویاتی محلول تیار کِیا جسکی بابت اُس نے دعویٰ کِیا کہ یہ خون کے متبادل کے طور پر استعمال کِیا جا سکتا ہے۔‏ خون کے برعکس،‏ اس محلول کے کوئی مُضر اثرات نہیں تھے،‏ یہ منجمد بھی نہیں ہوتا تھا اور اُسکی نقل‌وحمل آسان تھی۔‏ قابلِ‌فہم بات ہے کہ ہیم کا بنایا ہوا یہ محلول وسیع پیمانے پر استعمال ہونے لگا۔‏ تاہم،‏ بڑی حیرانی کی بات ہے کہ جلد ہی ایک بار پھر خون کی حمایت کی جانے لگی۔‏ کیوں؟‏

آسڑیا کے پیتھالوجسٹ (‏ماہرِامراضیات)‏ کارل لینڈسٹےنر نے ۱۹۰۰ میں خون کی مختلف اقسام دریافت کیں اور اس بات کو آشکارا کِیا کہ خون کی ایک قسم ہمیشہ کسی دوسری قسم سے موافقت نہیں رکھتی۔‏ اسی وجہ سے ماضی میں بیشتر انتقالِ‌خون موت پر منتج ہوئے تھے!‏ اب اس بات کا یقین کر لینے سے صورتحال کو بدلا جا سکتا تھا کہ خون دینے والے کا گروپ خون لینے والے کے گروپ سے ملتا ہے۔‏ یہ معلوم ہو جانے کے بعد پہلی عالمی جنگ کے دوران ڈاکٹروں نے ایک بار پھر انتقالِ‌خون میں اپنے اعتماد کو بحال کر لیا۔‏

انتقالِ‌خون اور جنگ

پہلی عالمی جنگ کے دوران،‏ زخمی سپاہیوں کو آزادانہ طور پر خون دیا گیا تھا۔‏ بِلاشُبہ،‏ خون بہت جلد منجمد ہو جاتا ہے اور ماضی میں اسے میدانِ‌جنگ تک لیجانا تقریباً ناممکن تھا۔‏ تاہم ۲۰ویں صدی کے اوائل میں،‏ نیو یارک سٹی کے ہسپتال ماؤنٹ سینائے کے ڈاکٹر رچرڈ لیوسن نے کامیابی کیساتھ ایک مانع‌انجماد تیار کِیا جو سوڈیم سائٹریٹ کہلاتا ہے۔‏ بعض ڈاکٹروں نے اس دلچسپ دریافت کو ایک معجزہ خیال کِیا۔‏ اپنے زمانے کے ایک ممتاز معالج،‏ ڈاکٹر برٹرم ایم.‏ برن‌ہیم نے لکھا:‏ ”‏یہ سورج کو ساکن کر دینے کے مترادف تھا۔‏“‏

دوسری عالمی جنگ کے دوران خون کی مانگ بڑھ گئی۔‏ عوام کیلئے ایسے بیشمار پوسٹرز کی بھرمار تھی جن پر ”‏اب خون دیں،‏“‏ ”‏آپکا خون اُسکی جان بچا سکتا ہے،‏“‏ اور ”‏اُس نے اپنا خون دے دیا۔‏ کیا آپ بھی اپنا خون دینگے؟‏“‏ جیسے نعرے لکھے ہوئے تھے۔‏ خون کیلئے اس استدعا کو خوب پذیرائی حاصل ہوئی۔‏ دوسری عالمی جنگ کے دوران،‏ ریاستہائے متحدہ میں تقریباً ۰۰۰،‏۰۰،‏۳۰،‏۱ یونٹ کا عطیہ دیا گیا تھا۔‏ اندازہ ہے کہ لندن میں ۰۰۰،‏۶۰،‏۲ لیٹر خون جمع اور تقسیم کِیا گیا تھا۔‏ بیشک،‏ انتقالِ‌خون میں صحت سے متعلق بیشمار خطرات موجود تھے جو جلد ظاہر ہو گئے۔‏

خون سے لگنے والی بیماری

دوسری عالمی جنگ کے بعد،‏ طب میں بڑی بڑی پیش‌قدمیوں نے ایسی جراحی کو بھی ممکن بنا دیا جو کبھی ناقابلِ‌تصور خیال کی جاتی تھی۔‏ نتیجتاً،‏ انتقالِ‌خون کیلئے جسے ماہرینِ‌طب آپریشن کرنے کا ایک معیاری طریقۂ‌کار خیال کرنے لگے تھے،‏ خون فراہم کرنا کروڑوں ڈالر سالانہ کمانے والی ایک نفع‌بخش تجارت بن گئی۔‏

تاہم،‏ جلد ہی،‏ انتقالِ‌خون سے متعلق بیماری کی بابت تشویش نے سر اُٹھایا۔‏ مثال کے طور پر،‏ کوریا میں ہونے والی جنگ کے دوران،‏ جن لوگوں کو پلازمہ دیا گیا اُن میں سے تقریباً ۲۲ فیصد—‏دوسری جنگِ‌عظیم کی نسبت تقریباً تین گُنا زیادہ—‏ہیپاٹائٹس کے مرض میں مبتلا ہو گئے۔‏ ۱۹۷۰ کے عشرے میں یو.‏ ایس.‏ سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول نے تخمینہ لگایا کہ انتقالِ‌خون سے متعلق ہیپاٹائٹس کے باعث مرنے والوں کی سالانہ تعداد ۵۰۰،‏۳ ہے۔‏ دیگر ان اعدادوشمار کو دس گُنا زیادہ بتاتے ہیں۔‏

بہتر سکریننگ اور خون دینے والوں کے محتاط انتخاب کے باعث ہیپاٹائٹس-‏بی سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔‏ تاہم اس کے بعد ایک نئے اور بعض صورتوں میں جان‌لیوا قسم کے وائرس ہیپاٹائٹس-‏سی نے بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔‏ یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ چار ملین امریکی اس وائرس کا شکار ہوئے جن میں سے لاکھوں انتقالِ‌خون کی وجہ سے متاثر ہوئے تھے۔‏ سچ ہے کہ محتاط معائنوں نے انجام‌کار ہیپاٹائٹس-‏ سی کے پھیلاؤ کو روکا ہے۔‏ اس کے باوجود،‏ بعض لوگ ڈرتے ہیں کہ کوئی نئے خطرات نمودار ہو جائیں گے اور جب تک اُنکی سمجھ آئیگی تو بہت دیر ہو چکی ہوگی۔‏

ایک اَور سنگین مسئلہ—‏ایچ‌آئی‌وی سے آلودہ خون

یہ حقیقت ۱۹۸۰ کے عشرے میں واضح ہو گئی کہ خون ایچ‌آئی‌وی کے وائرس سے بھی آلودہ ہو سکتا ہے جو کہ ایڈز کا باعث بنتا ہے۔‏ شروع میں،‏ بلڈ بنکوں کے مالکان نے کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ اُنکے پاس موجود خون آلودہ ہو سکتا ہے۔‏ اُن میں سے بیشتر نے شروع میں ایچ‌آئی‌وی کے خطرے کو شکوک کیساتھ قبول کِیا تھا۔‏ ڈاکٹر بروس ایواٹ کے مطابق،‏ ”‏یہ ایسے تھا گویا ایک شخص کسی صحرا سے آیا ہے اور کہتا ہے کہ ’‏مَیں نے کسی خلائی مخلوق کو دیکھا ہے۔‏‘‏ اُنہوں نے اس بات کو سنا مگر اسکا یقین نہ کِیا۔‏“‏

تاہم،‏ یکےبعددیگرے مختلف ممالک سے ایچ‌آئی‌وی سے آلودہ خون سے متعلق رپورٹیں سامنے آئی ہیں۔‏ یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ فرانس میں،‏ ۱۹۸۲ اور ۱۹۸۵ کے دوران انتقالِ‌خون سے ۶۰۰۰ تا ۸۰۰۰ کے قریب لوگ ایچ‌آئی‌وی سے متاثر ہوئے تھے۔‏ انتقالِ‌خون کو پورے افریقہ میں ۱۰ فیصد ایچ‌آئی‌وی انفیکشن اور پاکستان میں ۴۰ فیصد ایڈز کے مریضوں کے ذمہ‌دار قرار دیا گیا ہے۔‏ آجکل،‏ بہتر سکریننگ کی بدولت،‏ ترقی‌یافتہ ممالک میں انتقالِ‌خون کے ذریعے ایچ‌آئی‌وی کی منتقلی کا امکان بہت کم ہے۔‏ تاہم،‏ ترقی‌پذیر ممالک میں جہاں سکریننگ کے وسائل کی کمی ہے وہاں ابھی تک ایسے انتقالِ‌خون کا مسئلہ موجود ہے۔‏

قابلِ‌فہم طور پر،‏ حالیہ برسوں میں خون کے بغیر طب‌وجراحی میں کافی زیادہ دلچسپی لی جا رہی ہے۔‏ لیکن کیا یہ ایک محفوظ متبادل ہے؟‏

‏[‏صفحہ ۶ پر بکس]‏

انتقالِ‌خون—‏کوئی طبّی معیار نہیں

ہر سال صرف ریاستہائے متحدہ میں ۰۰۰،‏۰۰،‏۳۰ مریضوں میں خون کے سُرخ خلیوں کے ۰۰۰،‏۰۰،‏۱۰،‏۱ یونٹ منتقل کئے جاتے ہیں۔‏ اتنی بڑی تعداد کے پیشِ‌نظر،‏ ایک شخص یہ سوچ سکتا ہے کہ انتقالِ‌خون کے سلسلے میں ڈاکٹروں نے کوئی سخت معیار قائم کر رکھے ہیں۔‏ تاہم،‏ ”‏دی نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن“‏ بیان کرتا ہے کہ ”‏انتقالِ‌خون کی بابت فیصلے کرنے میں راہنمائی کیلئے“‏ حیران‌کُن طور پر بہت کم معلومات پائی جاتی ہیں۔‏ بِلاشُبہ،‏ نہ صرف انتقالِ‌خون بلکہ اسکی مقدار اور حتمی ضرورت کے سلسلے میں بھی مختلف آراء پر عمل کِیا جا رہا ہے۔‏ ”‏انتقالِ‌خون کا انحصار مریض کی بجائے ڈاکٹر پر ہوتا ہے،‏“‏ میڈیکل جرنل ”‏ایکٹا اینستھیزیالوجیکا بلجیکا“‏ بیان کرتا ہے۔‏ مذکورہ‌بالا حقیقت کے پیشِ‌نظر،‏ یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ ”‏دی نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن“‏ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ”‏اندازاً ۶۶ فیصد انتقالِ‌خون غیرضروری ہوتے ہیں۔‏“‏

‏[‏صفحہ ۵ پر تصویر]‏

دوسری عالمی جنگ کے دوران خون کی مانگ بڑھ گئی

‏[‏تصویروں کے حوالہ‌جات]‏

Imperial War Museum, London

U.S. National Archives photos