مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

بانسوں کا باغ—‏ایک خواب جو شرمندۂتعبیر ہوا

بانسوں کا باغ—‏ایک خواب جو شرمندۂتعبیر ہوا

بانسوں کا باغ‏—‏ایک خواب جو شرمندۂتعبیر ہوا

فرانس میں ‏”‏جاگو!‏“‏ کے مراسلہ‌نگار سے

تقریباً ۱۵۰ سال پہلے فرانس کے جنوب میں،‏ ایشیا سے مسالے درآمد کرنے والے،‏ اوژان مزل نے دُنیا کی سب سے بڑی بانسوں کی نرسری تیار کرنے کا منصوبہ بنایا،‏ جس میں تیزی سے بڑھنے والے،‏ لچکدار پودے کی کم‌ازکم ۲۰۰ اقسام ہونگی۔‏ تاہم،‏ ۱۸۵۵ تک مزل کے اس مقصد کی راہ میں حائل ایک بڑی رکاوٹ تھی:‏ یورپ میں بانس کی کاشت نہیں ہوتی تھی۔‏

ایشیا سے پودا درآمد کرنے کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔‏ اگرچہ بانس اپنی جائے روئیدگی میں ایک سخت جان پودا ہے،‏ (‏اِس کی بعض اقسام ۱۱ ڈگری فارن ہیٹ سے بھی کم درجہ‌ءحرارت کو برداشت کر لیتی ہیں اور ۰۰۰،‏۱۶ فٹ کی بلندی پر بھی اُگ سکتی ہیں)‏ مگر برِاعظموں کے پار طویل سفر کے دوران اسکی جڑوں کو زندہ رکھنا ناممکن تھا۔‏ تاہم،‏ تیزرفتار بحری جہازوں کی آمد کیساتھ ۱۸۲۷ میں بانس کی اقسام کامیابی کیساتھ انگلینڈ اور بعدازاں فرانس درآمد کی جانے لگیں۔‏ مزل کا خواب پورا ہونے والا تھا!‏

مزل کا اگلا مسئلہ نرسری بنانے کیلئے موزوں جگہ تلاش کرنا تھا۔‏ اُس نے ۱۸۵۵ میں فرانس کے جنوب میں،‏ انڈوز کے قریب ۸۴ ایکٹر زمین خرید لی جس کے لئے بحیرۂروم کی آب‌وہوا نہایت مفید تھی اور اسکی مٹی بھی بہت زرخیز تھی۔‏ ایک قریبی دریا سے پانی حاصل کرنے کیلئے بہت زیادہ کام درکار تھا۔‏ تاہم،‏ مزل کی انتھک کوششیں واقعی رنگ لائیں۔‏

افسوس کی بات ہے کہ ۱۸۹۰ تک مزل دیوالیہ ہو گیا اور اُسے اپنا بیش‌قیمت باغ فروخت کرنا پڑا۔‏ تاہم،‏ خوشی کی بات ہے کہ اُس نے جہاں سے یہ کام چھوڑا وہاں سے دوسروں نے شروع کر دیا اور یوں اب ہر سال اندازاً ۰۰۰،‏۵۰،‏۳ لوگ بانسوں کے باغ کو دیکھنے کیلئے آتے ہیں—‏مزل کا خواب بالآخر شرمندۂتعبیر ہو گیا۔‏

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویر کا حوالہ]‏

All pictures: La Bambouseraie de Prafrance