ایک قاتل پر قابو پانا
ایک قاتل پر قابو پانا
کینیڈا سے ”جاگو!“ کا مراسلہنگار
یہ جنگل میں جوانوں کو چھوڑ کر بوڑھوں پر حملہآور ہوتا ہے۔ اپنے شکار کے مقابلے میں قاتل بہت چھوٹا ہے۔ یہ بڑی تیزی سے حرکت کرتا ہے اور مکمل طور پر تباہ کر دینے تک چین سے نہیں بیٹھتا۔ جب حملے کا شکار ہونے والے اس حملہآور کی مزاحمت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو زندگی اور موت کا کھیل شروع ہو جاتا ہے۔ بالآخر جیت حملہآور کی ہوتی ہے۔
یہ دُشمن کون ہے؟ یہ حملہآور شمالی امریکہ کے مغرب میں، چھوٹا پہاڑی انناس کا ٹڈا ہے۔ اس کا شکار کینیڈا میں، برٹش کولمبیا کے صوبے کے اندر عام طور پر پایا جانے والا پُرشکوہ لاجپول پائن ہوتا ہے۔
صوبے کا تقریباً ۳۵ فیصد جنگلاتی علاقہ لاجپول پائن پر مشتمل ہے—یہ سلنڈری پہاڑی پائن ٹڈوں کی افزائش کیلئے نہایت موزوں ہے جو صرف ۳ تا ۸ ملیمیٹر کے ہوتے ہیں۔ شروع میں یہ پائن کے کمزور اور پرانے درختوں کو نشانہ بناتا ہے۔ تاہم، ٹڈوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ جوان درخت بھی حملے کی زد میں آ جاتے ہیں۔ (دیکھیں بکس ”پہاڑی پائن ٹڈے کا دورِحیات۔“) برٹش کولمبیا میں حالیہ وبائیں صرف ایک سال کے اندر اندر ۳۰ ملین پائن کے درختوں کے خاتمے پر منتج ہوئی ہیں۔ یہ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ ایک آلودہ درخت سے اتنے زیادہ ٹڈے نکل سکتے ہیں جو کہ آئندہ سال میں اُتنے ہی بڑے دو درختوں کو تباہ کر سکتے ہیں۔
پہاڑی پائن ٹڈے قدرتی ماحولیات کا ایک جُز ہیں اور جراثیم پر مشتمل ایک تباہکُن بیماری کے ساتھ ٹڈے ہی لاجپول پائن کے جوان درختوں سے بھرے جنگلات کو ازسرِنو زندگی کا آغاز کرنے کے قابل بناتے ہیں۔ آگ کے ذریعے سراغ لگانے اور استبداد کی انسانی مداخلت لکڑی کے جوان اور پرانے درختوں کے وسیعوعریض علاقہجات کو محفوظ رکھنے کا باعث بنی ہے۔ اگرچہ اس سے جانوروں کے مسکن اور نقلمکانی کرنے کے راستے محفوظ کر لئے گئے ہیں توبھی جنگلات کو تفریحی اور صنعتی اغراضومقاصد کے لئے استعمال کِیا گیا ہے نیز اس نے پہاڑی پائن ٹڈوں پر قابو پانے کی ضرورت بھی پیدا کر دی ہے۔ تاہم، بڑے بڑے جنگلات میں اِن چھوٹے چھوٹے کیڑےمکوڑوں کو کیسے ڈھونڈا اور تلاش کِیا جاتا ہے؟ کیا اُن کے ذریعے ہونے والی تباہی کو روکنے کیلئے کچھ کِیا جا سکتا ہے؟
تحقیق کرنا اور کھوج لگانا
پہاڑی پائن ٹڈوں پر قابو پانے کے عمل کا آغاز تحقیق کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے۔ جن درختوں کے سر سُرخ ہو گئے ہیں اُن کی تلاش میں پورے جنگل کا فضائی معائنہ کِیا جاتا ہے۔ ایسے درخت ان کی بہتات کو ظاہر کرتے ہیں اور سبز چھتری کے درمیان ان کی نشاندہی کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ گلوبل پوزیشننگ سسٹم (GPS) کے ذریعے انکی موجودگی کے مقام اور سُرخ ہونے والے درختوں کی تعداد معلوم کی جاتی ہے۔ ان
اعدادوشمار کو بڑی احتیاط کے ساتھ ایک دستی کمپیوٹر میں محفوظ اور ریکارڈ کر لیا جاتا ہے۔ بعدازاں انہیں آفس کمپیوٹرز اور ایک انتہائی طاقتور جغرافیائی معلوماتی نظام کے ذریعے سرسبز جنگلات کے مفصل نقشہجات میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد حملے کا شکار ہونے والے ہر درخت کو ایک نمبر تفویض کر دیا جاتا ہے اور ایک فہرست جاری کر دی جاتی ہے جو ہر علاقے کی ترتیب پیش کرتی ہے۔ یہ زمین کا سروے کرنے والی ٹیم کیلئے جو حملے کی شدت کی تصدیق کرنے کے لئے بھیجی جاتی ہے نہایت ضروری ہے۔تاہم، جنگل کے لئے اصل خطرہ سُرخ ہو جانے والے درختوں کی بجائے وہ سبز درخت ہیں جن پر حملہ ہو رہا ہے۔ عام طور پر اِن کی شناخت اُس سوراخ کے گرد جمع ہو جانے والی رال یا گوند سے ہو جاتی ہے جہاں سے ٹڈے داخل ہوئے تھے اور جہاں درخت کے نیچے بُرادہ پڑا ہوتا ہے۔ حملے کا شکار تمام درختوں کے گرد پلاسٹک کے رِبن باندھ دئے جاتے ہیں اور پینٹ سے نمبر لکھ دئے جاتے ہیں۔ اُس قطعۂزمین کی خصوصیات اور حملے کا شکار درختوں کی تعداد لکھ لی جاتی ہے نیز اس کی دیکھبھال کرنے والی ایجنسیوں کے لئے مطلوبہ معلومات بھی درج کر لی جاتی ہیں تاکہ وہ اس بات کا فیصلہ کر سکیں کہ اس حملے کو روکنے کے لئے کیا کِیا جا سکتا ہے۔
قابو پانے کے طریقے
اگر حملے کا شکار علاقہ کٹائی کے لئے کافی بڑا ہے تو اُس علاقے کو صاف کرنے کے لئے اَور لوگ بھیج دئے جاتے ہیں۔ کٹائی کا منصوبہ تیار کر کے منظوری کے لئے وزارتِجنگلات کو پیش کِیا جاتا ہے۔ کٹائی کرنے والی کمپنی اُس علاقے میں جنگل کو دوبارہ تشکیل دینے اور اُس وقت تک پودوں کی دیکھبھال کرنے کی ذمہدار ہوتی ہے جبتک وہ خود بڑھنے کے قابل نہیں ہو جاتے۔ یہ طریقۂکار نہ صرف درختوں کو کام میں لانے کا باعث بنتا ہے بلکہ کیڑوں کے حملے کو روکنے اور نئی افزائش کو فروغ دینے کا باعث بھی بنتا ہے۔
تاہم، اگر کٹائی ممکن نہ ہو تو انفرادی طور پر درخت کے علاج کی سفارش کی جاتی ہے۔ اس میں درخت کے متاثرہ حصے کے اندر کیڑےمار دوا ڈالنا یا پھر اسے کاٹنا اور جلانا شامل ہو سکتا ہے۔ قابو پانے کے موخرالذکر طریقے کو موسمِسرما کے آخر میں یا موسمِبہار کے اوائل میں ٹڈوں کے حملہآور ہونے سے پہلے استعمال کِیا جاتا ہے، یہ طریقہ نہایت مؤثر ہونے کے علاوہ محنت طلب بھی ہے۔ کیڑوں کے حملے کا سراغ لگانے اور اس پر قابو پانے کا ماہر ڈیل، جاگو! کیلئے کام کے ایک دِن کے مثالی معمول کے بارے میں بیان کرتا ہے۔
”پہلے مرحلے میں اُن یکطرفہ سڑکوں کی باقاعدہ نقلوحرکت کو ترتیب دینا شامل ہے جنہیں لکڑیوں سے بھرے ہوئے وزنی ٹرک چلانے کیلئے استعمال کِیا جاتا ہے۔ احتیاط کی خاطر ہم سڑک کی آمدورفت کو کنٹرول کرنے کیلئے دو طرفہ ریڈیو استعمال کرتے ہیں۔ جہاں سڑک ختم ہو جاتی ہے وہاں ہم اپنی برفانی گاڑیوں اور ریڑھیوں سے سامان اُتار کر جنگل میں کافی آگے تک سفر کرتے ہیں۔ ہم اپنے GPS اور قُطبنما، برقی آریاں، گیس، تیل، آریاں، کلہاڑیاں، برفانی جوتے اور ہنگامی طبّی امداد کی چیزیں احتیاط سے ساتھ رکھتے ہیں۔ ہم کئی میل دُور تک دلدل، سیمزدہ علاقوں، ازخود بن جانے والی پگڈنڈیوں اور جھاڑیوں میں سے گزرتے ہیں۔ جب ہماری برفانی گاڑیاں مزید آگے نہیں جا سکتیں تو ہم برفانی جوتے پہن لیتے ہیں جو ہمیں چلنے کے قابل بناتے ہیں اگرچہ بعض جگہوں پر ۵۰ انچ گہری برف میں سے گزرنا کسی حد تک دشوار ہوتا ہے۔
”ناہموار علاقہ میں ۱۵ کلو وزنی اَوزار اُٹھا کر چلنا کافی مشکل ہوتا ہے۔ تھکن کی وجہ سے ہمارے دل بڑی تیزی سے دھڑکنے لگتے ہیں۔ منزل پر پہنچ کر ہم کتنے خوش ہوتے ہیں! مگر اصل کام تو اب شروع ہوتا ہے۔ نشانہانداز کی صحیح پیمائش کیساتھ تربیتیافتہ اور ماہر کارکن جراثیم سے آلودہ درختوں کو نیچے گراتا ہے۔ اس کے بعد، عملہ آگے بڑھتا ہے اور درختوں کو جلانے کی غرض سے ایسے ٹکڑوں میں کاٹتا ہے جنہیں آسانی سے سنبھالا جا سکتا ہے۔ لاروے کو مکمل طور پر ختم کرنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ چھال کو مکمل طور پر جلایا جائے۔ جب دوپہر کے کھانے کا وقت ہوتا ہے تو منفی ۴ ڈگری فارن ہیٹ کا درجہ حرارت ہمیں اس آگ کی قدر کرنے میں مدد دیتا ہے۔ ہم یہ آگ تاپتے بھی ہیں اور اس پر اپنا کھانا بھی گرم کرتے ہیں۔ اتنے میں پھر کام کا وقت ہو جاتا ہے۔ تاہم، جلد ہی موسمِسرما کا دِن غروب ہونے لگتا ہے جو کہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اب گھر جانے کا وقت ہو گیا ہے۔“
ویران علاقے میں کام کرنا
جنگل میں کام کرنے والوں کی سرگرمیاں چیلنجخیز ہیں۔ جب یہ ماہر اشخاص چیلنجوں کا مقابلہ کرتے ہیں تو وہ اپنے اِردگِرد کی تخلیق سے بھی لطفاندوز ہوتے ہیں۔ اس میں شاندار مناظر اور جنگلی جانوروں کا سامنا کرنا بھی شامل ہے۔ بعض اوقات تو یہ سامنا بالکل بےضرر ہوتا ہے جیسےکہ جب آپکے پاؤں کے نیچے کی برف میں سے کوئی گراؤس شور مچاتا ہؤا نکلتا ہے یا جب اتفاقاً ایک گلہری کسی کارکن کی پتلون پر چڑھ جاتی ہے اور کافی زیادہ پریشانی کا باعث بنتی ہے۔ تاہم، دیگر اوقات پر اسطرح کا سامنا خوفناک ثابت ہو سکتا ہے—کوئی بھورا یا کالا ریچھ آپکے پیچھے پڑ سکتا ہے۔ تاہم، آگہی اور تربیت کے ذریعے اِن خطرات کو کم کِیا جا سکتا ہے اور یوں کارکن بغیر کسی خوف کے جنگلات کے ماحول سے لطف اُٹھا سکتے ہیں۔
زمین کے قیمتی وسائل کو سنبھالنے کیلئے ٹیکنالوجی کے استعمال میں دلچسپ پیشقدمیاں کی جا رہی ہیں۔ بہتیرے بااُصول اشخاص پہاڑی پائن ٹڈوں جیسی چیزوں پر قابو پانے اور قیمتی درختوں کی حفاظت کرنے اور انہیں بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بِلاشُبہ، ہمارے حیرانکُن جنگلات کی بابت ابھی بہت کچھ جاننا باقی ہے۔ ہم اُس وقت کے آرزومند ہیں جب ہم بالکل اُن کے اصل نمونے کی مطابقت میں اُنکی نگہداشت کرنے کے قابل ہونگے۔
[صفحہ ۲۲ پر بکس/ڈائیگرام]
پہاڑی پائن ٹڈوں کا دورِحیات
موسمِگرما کے وسط میں ایک مادہ ٹڈی لاجپول پائن کی چھال میں سے سوراخ کرتی ہوئی کچی لکڑی کے اندر داخل ہو جاتی ہے۔ جفتی کے بعد وہ تقریباً ۷۵ انڈے دیتی ہے۔ درخت سے نکلنے والے مادے کو روکنے کیلئے جو کہ ٹڈیوں کو ہلاک کر سکتا ہے وہ کچی لکڑی میں نیلے رنگ کی پھپھوندی بھی منتقل کر دیتی ہے۔ نتیجتاً انڈوں میں سے لاروے نکلتے ہیں جو کہ درخت کی اندرونی چھال (ایک پیچیدہ نسیج) سے خوراک حاصل کرتے ہیں۔ ٹڈی کے کامیاب حملے کے ایک ہفتے کے اندر اندر، پانی اور غذائی اجزا میں خلل کے باعث درخت سوکھ جاتا ہے۔ لاروے موسمِسرما میں نشوونما پاتے ہیں اور موسمِگرما میں باہر نکلکر نئے درختوں پر حملہ کرتے ہوئے اس عمل کو دہراتے ہیں۔
[ڈائیگرام]
(تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)
پیوپا
بالغ
لاروا
انڈے
[صفحہ ۲۲، ۲۳ پر تصویریں]
سوکھے درخت کی قریبی تصویر
متاثرہ درخت
پچ ٹیوبز