قلانچیں بھرنے والا ایک کیسہدار جانور
قلانچیں بھرنے والا ایک کیسہدار جانور
آسٹریلیا سے جاگو! کا مراسلہنگار
”ہر روز جب مَیں سکول سے گھر واپس آتا تو میرا پالتو کینگرو، جوی مجھے گیٹ پر بیٹھا ہؤا ملتا تھا،“ جان بیان کرتا ہے۔ ”گیٹ کے اندر داخل ہونے کیساتھ ہی وہ بھاگ کر میری ٹانگوں سے لپٹ جاتا اور مَیں اُسے اپنے ساتھ چمٹا لیتا۔ ہم مخصوص زبان میں ایک دوسرے سے کہتے ’تمہیں دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی!‘ اس کے بعد گھر کے اندر داخل ہونے تک جوی ایک پُرجوش کتے کی طرح اُچھل اُچھل کر پورے راستے میرے آگے آگے بھاگتا اور چھلانگیں لگاتا تھا۔“
جان کے خاندان کی طرح، آسٹریلیا کے دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگوںکو قانونی طور پر پالتو کینگرو رکھنے کی اجازت ہے۔ عموماً یہ کینگرو یتیم ہوتے ہیں جنہیں اُنکی ماؤں کے سڑک پار کرنے کے دوران یا کسی اَور وجہ سے ہلاک ہو جانے کے بعد بچا لیا جاتا ہے۔ اگرچہ جان نے اپنے پالتو کینگرو کا نام ”جوی“ رکھا تھا دراصل، کینگرو کے بچے کیلئے عام طور پر یہی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔
قدرتی طور پر، جوی کو لیکر پالنے والا خاندان چاہتا ہے کہ جلدازجلد وہ اس جگہ سے مانوس ہو جائے۔ لہٰذا سب سے پہلا کام جو وہ کرتے ہیں وہ اسے ایک تھیلی بنا کر دینا ہے۔ وہ ایک الگتھلگ جگہ کا انتخاب کرتے ہیں جہاں کا ماحول خاطرخواہ حد تک گرم ہوتا ہے اور وہاں وہ کپڑے کی ایک مضبوط تھیلی باندھ دیتے ہیں جو کہ مادہ کینگرو کی تھیلی سے مشابہت رکھتی ہے۔ اس کے بعد وہ
خاص طور پر تیارکردہ نیمگرم دُودھ کی بوتل اور جوی کو اس میں ڈال دیتے ہیں۔ اس طرح سے کئی جویز بچ جاتے ہیں۔ جلد ہی وہ اپنی نئی تھیلی سے مانوس ہو جاتے ہیں اور اس میں سر کے بل داخل ہوتے ہیں گویا یہ اُنکی ماں کی تھیلی ہے۔آپ کینگرو کی تصویرکشی کیسے کرینگے؟
وہ جانور جو اپنے بچوں کو ایک تھیلی یا کیسے میں رکھتے ہیں اُنہیں کیسہدار جانور کہا جاتا ہے۔ کوئی ۲۶۰ انواع پر مشتمل کیسہدار جانوروں میں صرف شمالی امریکہ میں پائے جانے والے کینگرو، کوالہ، وُمبیٹ، بندیکوٹ اور موشِکیسہدار شامل ہیں۔ واضح طور پر، ابتدائی محققین نے ان غیرمعمولی جانوروں کو دریافت کِیا تھا، بالخصوص کینگرو جسکی بابت اُس وقت کے لوگوں کو سمجھانا کافی مشکل تھا۔ ”کینگرو“ کو پہلی دفعہ انگریزی میں تحریر کر کے متعارف کرانے والا شخص برطانوی محقق کیپٹن جیمز کک تھا۔ اُس نے اس جانور کو ’شکاری کتے‘ سے تشبِیہ دی ’جو ایک خرگوش یا ہرن کی مانند چھلانگیں لگاتا ہے۔‘ بعدازاں جب ایک کینگرو کو لندن میں نمائش کیلئے پیش کِیا گیا تو اس جانور نے بہت زیادہ اشتیاق پیدا کر دیا۔
کینگرو کے بڑے بڑے کان ہوتے ہیں جو ہرننما سر پر ادھراُدھر حرکت کرتے ہیں۔ بالخصوص جب کینگرو سیدھے کھڑے ہوتے ہیں تو اُنکی چھوٹی مگر طاقتور اگلی ٹانگیں انسانی بازؤں کی سی نظر آتی ہیں۔ کینگرو کے بڑے عضلاتی کولہے، ایک لمبی، موٹی، بل کھاتی دُم اور بِلاشُبہ بڑے بڑے پاؤں ہوتے ہیں—ایسی خصوصیت جسکی بدولت اُنہیں ”میکروپوڈیڈی“ بمعنی ”لمبے پاؤں“ کا نام دیا گیا ہے۔
تقریباً ۵۵ انواع کے میکروپوڈیڈی کے پاؤں انسان کے پاؤں سے لیکر چوہے کے پاؤں کے برابر ہوتے ہیں۔ تمام میکروپوڈیڈی کی اگلی ٹانگیں چھوٹی اور کودنے پھاندنے کیلئے پچھلی ٹانگیں لمبی ہوتی ہیں۔ سُرخ کینگرو، بھورے کینگرو اور دراز قدوقامت والے کینگرو کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ ایک سُرخ نر کینگرو کے ناک سے لیکر اُسکی دُم تک کی لمبائی سات فٹ سے زیادہ ہوتی ہے اور اُسکا وزن ۷۷ کلو سے زیادہ ہوتا ہے۔ کینگرو کی چھوٹی انواع کو والابیز کہتے ہیں۔
کیا آپ نے کبھی درختوں پر رہنے والے کینگروز کی بابت سنا یا اُنہیں دیکھا ہے؟ پس آپ یقین کریں یا نہ کریں کینگرو کے خاندان میں ”بندر“ بھی ہوتے ہیں—جی ہاں ایسے کینگرو جو درختوں میں رہتے ہیں۔ نیوگنی کے استوائی بارانی جنگلات اور شمالمشرقی آسٹریلیا میں یہ چھوٹی ٹانگوں والے پھرتیلے جانور پائے جاتے ہیں اور درختوں میں بسیرا کرنے والے یہ جانور ایک سے دوسری شاخ یا درخت پر جانے کیلئے تقریباً ۳۰ فٹ کی چھلانگ لگا سکتے ہیں۔ رات کو وہ جنگل میں نیچے اُتر آتے ہیں جہاں وہ جڑیبوٹیوں سے پیٹ بھرتے ہیں۔
پھرتیلے، خوبصورت، چوکس
جب کینگرو آہستہ آہستہ چلتے ہیں تو بےڈول اور بدوضع نظر آتے ہیں۔ اُنکی دُم اور اگلی ٹانگیں ایسا تین پایہ چوکھٹا بن جاتی ہیں جو پچھلی ٹانگیں اُٹھا کر چلنے کی صورت میں اُنہیں اپنے وزن کو سنبھالنے میں مدد دیتا ہے۔ تاہم وہ دوڑتے بڑی خوبصورتی سے ہیں۔ تیس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چوکڑیاں بھرتے وقت وہ اپنا توازن قائم رکھنے کیلئے اپنی مضبوط دُم کو استعمال کرتے ہیں۔ دی ورلڈ بُک انسائیکلوپیڈیا کے مطابق، وہ ”۶۰ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ سکتے ہیں۔“ جہاں تک بڑے کینگرو کا تعلق ہے تو دوڑتے وقت لگائی جانے والی چھلانگ ۳۰ تا ۴۴ فٹ کی بھی ہو سکتی ہے—جیہاں، ایک ایسی چھلانگ جو ایک اُڑان کے برابر ہو سکتی ہے!
کینگروز نہ صرف سبکرفتار بلکہ توانائی کے اپنے استعمال کے سلسلے میں چوکس بھی ہیں۔ ملبورن، آسٹریلیا میں موناش یونیورسٹی کے پروفیسر یووی پروسکی بیان کرتا ہے کہ کینگرو کے کم آکسیجن استعمال کرنے کی وجہ سے اسے کم رفتار کی نسبت زیادہ رفتار سے کودنےپھاندنے کیلئے کم توانائی صرف کرنی پڑتی ہے۔ پروسکی نے یہ بھی حساب لگایا کہ ”۲۰ کلومیٹر فی گھنٹہ یا اس سے تیز رفتار کیساتھ کودنے والے کینگرو کے استعمال میں آنے والی توانائی اسی رفتار سے دوڑنے اور برابر کا وزن رکھنے والے کسی بھی مشیمی چوپائے [مکمل نشوونما کے بعد پیدا ہونے والے ممالیہ جیسے کہ کتا یا ہرن] سے کم تھی۔“ اپنی توانائی اور مؤثر نقلوحرکت کی وجہ سے کینگرو بغیر تھکے طویل سفر طے کر سکتا ہے۔ تاہم ایک کینگرو اتنی کم توانائی خرچ کرنے کے باوجود کیسے دوڑنے کے قابل ہوتا ہے؟
اسکا راز اس کے طویل آخیلیوتر (نس جو ایڑی اور پنڈلی کے پٹھے کو ملاتی ہے) میں پنہاں ہے۔ پروسکی بیان کرتا ہے، ”یہ ایسے ہے گویا کینگروز اسپرنگوں کے جوڑوں کی مدد سے کود رہے ہوں۔“ انسان کی پنڈلی سے جڑے ہوئے ساقِپا کی طرح کینگرو کا آخیلیوتر زمین پر پاؤں لگنے کی صورت میں پھیلتا اور اُچھلنے کی صورت میں سکڑتا ہے۔ رفتار فرق ہونے کے باوجود کینگروز کی ایک سیکنڈ میں لگائی جانے والی چھلانگوں کی تعداد ایک ہی جتنی ہوتی ہے (جیسے سُرخ کینگرو کے معاملے میں تقریباً دو چھلانگیں فی سیکنڈ ہے۔) رفتار بڑھانے کیلئے، وہ صرف لمبی چھلانگیں لگاتا ہے۔ تاہم، جب کینگرو خوفزدہ ہوتا ہے تو وہ ایسا نہیں کرتا۔ اُس وقت ہو سکتا ہے تیز رفتاری کیلئے وہ شروع میں چند چھوٹے اور تیز تیز ڈگ بھرے۔
کینگرو اچھے پیراک بھی ہوتے ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے طاقتور پاؤں ہی استعمال کرتے ہیں بلکہ اپنی دُم کو دونوں طرف ہلانے سے اضافی زور لگاتے ہیں۔ جب کتے اُن کا پیچھا کرتے ہیں تو کینگرو اپنی آبی صلاحیتوں کو بروئےکار لاتے ہوئے پانی میں کود جانے کے لئے بھی مشہور ہیں۔ اگر کوئی کتا کینگرو کا پیچھا کرنے کی جرأت کرتا ہے تو کینگرو کی اگلی مضبوط ٹانگیں اور پانچ انگلیوں والے نوکیلے پنجے اُسے پانی کے اندر دبوچ لیتے ہیں۔ جان جسکا شروع میں ذکر کِیا گیا ہے اُس کے دو کتے تھے، جنہیں ایک جنگلی کینگرو نے اُن کی خاندانی جاگیر کے اندر واقع ایک چھوٹے سے تالاب پر لے جا کر تقریباً ڈبو دیا۔
کیسوی پیدائش کا کمال
بالغ کینگروز ٹھوس اور مضبوط ہوتے ہیں تاہم پیدائش کے وقت کینگروز نامکمل اور بہت نازک ہوتے ہیں۔ وہ تقریباً ایک انچ لمبے اور بہت ہی کم وزن والے ایک گلابی کیڑے کی طرح گنجے، اندھے اور بہرے پیدا ہوتے ہیں۔ تاہم، اپنی قبلازوقت نشوونما پائی ہوئی اگلی ٹانگوں، پنجوں اور اپنی قوتِشامہ کی بدولت، چھوٹا سا ”کیڑا“ جبلّی طور پر اپنی ماں کی کھال میں سے رینگتا ہؤا تھیلی میں داخل ہو جاتا ہے۔ تھیلی کے اندر وہ چار میں سے کسی ایک تھن کیساتھ چمٹ جاتا ہے۔ تھن کا آخری حصہ بچے کے مُنہ کے اندر فوراً پھول جاتا ہے اور کئی ہفتے تک ایسا ہی رہتا ہے۔ اسکی ماں کے سفر کے مدِنظر مضبوطی سے چمٹے رہنے کی افادیت نظر آتی ہے! درحقیقت، یہ گرفت اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ ابتدائی مشاہدین کا خیال تھا کہ بچے ان تھنوں سے ہی نکلتے ہیں!
بِلاشُبہ، ایک دن آئیگا جب جوی (کینگرو کا بچہ) اتنا بڑا ہو جائیگا کہ اس تھیلی کو چھوڑ دیگا اگرچہ شروع شروع میں یہ محض عارضی ہی ہوگا۔ تاہم، سات سے دس مہینوں کے بعد جب یہ پوری طرح سے دُودھ پی چکتا ہے تو مستقل طور پر تھیلی کو خیرباد کہہ دیتا ہے۔ مگر آئیں واپس اُس وقت پر چلیں جب کینگرو کا بچہ پہلی مرتبہ تھن کیساتھ چمٹا تھا اور کینگرو کی پیدائش کے ایک اَور کمال پر غور کریں۔
نومولود کے اپنی ماں کے تھن کیساتھ چمٹ جانے کے چند دن بعد وہ دوبارہ جفتی کرتی ہے۔ اس جفتی کے نتیجے میں وجود میں آنے والا جنین تقریباً ایک ہفتے تک نشوونما پاتا ہے اور اس کے بعد—یوں کہہ لیں کہ جس وقت اُسکا بڑا بھائی یا بہن تھیلی میں پرورش پا رہا ہوتا ہے وہ سویا رہتا ہے۔ جب بڑے بچے جنکا دُودھ ابھی نہیں چھڑایا گیا تھیلی کو چھوڑ دیتے ہیں تو رحم میں موجود جنین کی نشوونما پھر سے شروع ہو جاتی ہے۔ یہ بھی ۳۰ دن کے حمل کے بعد تھن کیساتھ چمٹ جاتا ہے مگر اُس تھن کیساتھ نہیں جس میں سے بڑے بچے نے دُودھ پیا تھا۔
اِس میں کینگرو کی حیاتیات کا ایک اَور کمال پایا جاتا ہے۔ ماں اپنے چھوٹے بچے کو فرق قسم کا دودھ اور بڑے بچے کو فرق قسم کا دُودھ پلاتی ہے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے، سائنٹیفک امریکن بیان کرتا ہے: ”مختلف تھنوں سے نکلنے والا دودھ مقدار اور اجزائےترکیبی کے لحاظ سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ ایک ہی طرح کے ہارمونز کے تحت ایسا کیسے ممکن ہے یہ ایک دلچسپ سوال ہے۔“
کینگروز کہاں پائے جاتے ہیں
اگر آپ کینگروز کو اُن کے قدرتی ماحول میں دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو شہر چھوڑنے اور آسٹریلیا کے دیہاتوں یا دیہی علاقوں میں جانے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ گھاس اور چھوٹے پودوں کی تلاش میں ادھراُدھر پھرتے ہوئے اِکادُکا کینگرو نیز چھوٹے یا بڑے گروہوں کی صورت میں ریوڑ نظر آتے ہیں جنکی پیشوائی بڑے کینگروز کر رہے ہوتے ہیں۔ کینگروز عموماً رات کو چرتے ہیں اور دن کی گرمی کے دوران سائے میں (جہاں وہ تقریباً چھپے ہوتے ہیں) آرام کرتے ہیں اِس لئے اُنہیں دیکھنے کا بہترین وقت علیالصبح یا غروبِآفتاب کے بعد کے دھندلکے کا وقت ہی ہے۔ مگر سرد موسم میں وہ پورا دن بھی حرکت میں رہتے ہیں۔ صورتحال خواہ کچھ بھی ہو ٹیلیفوٹو لینس اور دُوربین لانا نہ بھولئے گا کیونکہ جنگلی کینگروز نہایت شرمیلے ہوتے ہیں۔
بِلاشُبہ، آپ بیشتر چڑیاگھروں، حیواناتی زندگیوں کو محفوظ رکھنے والے مقامات اور پورے آسٹریلیا میں نیشنل پارکس اور بعض دیگر ممالک میں بھی کینگروز کو دیکھ سکتے ہیں۔ انسانوں کے اکثروبیشتر مشاہدے میں رہنے سے یہ کینگروز کچھ دلیر ہو جاتے ہیں لہٰذا آپ اُنہیں کافی قریب سے، شاید ایک ماں اور تھیلی سے جھانکتے ہوئے بچے دونوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ بڑے بچے جب اپنی پچھلی ٹانگوں کو بھول کر ماں کی تھیلی میں گھسنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ ہمیشہ لوگوں کیلئے ہنسی کا باعث بنتے ہیں کیونکہ اُنکی ٹانگیں مضحکہخیز طور پر نیچے لٹکتی رہتی ہیں گویا کینگرو ماں کے شاپنگ بیگ میں ضرورت سے زیادہ سامان ہے! (چھوٹے بچوں کی تو صرف ٹانگیں ہی نظر آتی ہیں!) ایک بڑا کینگرو تو آپکو سیدھا اور اچھا سا پوز بنائے ہوئے بھی نظر آ سکتا ہے۔ کیا معلوم کہ شاید آپ ایک بڑے کینگرو کو اپنے پورے قد کے ساتھ ٹانگیں سیدھی کئے اپنے حریف کینگرو کے مدِمقابل دیکھ سکیں!
تاہم بہتوں کیلئے، بہترین نظارہ پوری رفتار کیساتھ دوڑتے ہوئے ایک سُرخ یا بھورے رنگ کا کینگرو دیکھنا ہے۔ سچ ہے کہ شاید دوسرے جانور زیادہ تیز دوڑنے یا اُونچی چھلانگ لگانے کے قابل ہوں تاہم خوبصورتی، قوت اور اسپرنگ والی دو مضبوط ٹانگوں کا ایسا امتزاج آپکو کسی دوسرے جانور میں نظر نہیں آئیگا۔
[صفحہ ۱۷ پر تصویر]
اسکی ٹانگوں میں لگے اسپرنگ کا راز اسکا لمبا آخیلیوتر ہے