مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مذہبی تعصب جسکا اب اعتراف کِیا جاتا ہے

مذہبی تعصب جسکا اب اعتراف کِیا جاتا ہے

مذہبی تعصب جسکا اب اعتراف کِیا جاتا ہے

برطانیہ سے ‏”‏جاگو!‏“‏ کا مراسلہ‌نگار

‏”‏بشپ صاحبان کوئین میری کے ’‏ہولناک جرائم‘‏ پر اظہارِافسوس کرتے ہیں،‏“‏ برطانیہ میں دسمبر ۱۱،‏ ۱۹۹۸ کے کیتھولک ہیرلڈ نے شہ‌سرخی لگائی۔‏ انگلینڈ اور ویلز کے رومن کیتھولک بشپ صاحبان یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ”‏برطانیہ‌عظمیٰ میں اصلاحِ‌کلیسیا کے وقت کیتھولک مذہب کے نام پر،‏ پروٹسٹنٹوں کے سلسلے میں ہولناک جرائم کا ارتکاب کِیا گیا تھا۔‏“‏ کوئین میری کون تھی؟‏ اس نے کن جرائم کا ارتکاب کِیا جو اس اعتراف کا باعث بنے؟‏ نیز انگلینڈ اور ویلز کے بشپ صاحبان نے اپنا بیان اب کیوں جاری کِیا ہے؟‏

میری ٹیوڈر ۱۵۱۶ میں رومن کیتھولک انگلینڈ میں پیدا ہوئی۔‏ وہ شاہ ہنری ہشتم کی پہلی بیوی،‏ کیتھرین آف ایراگان کی زندہ بچنے والی واحد اولاد تھی۔‏ میری کی ماں نے اُس کی پرورش ایک عقیدتمند کیتھولک کے طور پر کی تھی۔‏ اس کا باپ ایک وارث چاہتا تھا جسے کیتھرین جنم نہ دے سکی۔‏ چونکہ پوپ نے کیتھرین کے ساتھ اس کی شادی کو ختم کرنے سے انکار کر دیا تھا اس لئے ہنری نے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور یوں انگلینڈ میں پروٹسٹنٹ اصلاحِ‌کلیسیا کی راہ ہموار ہو گئی۔‏ ہنری نے ۱۵۳۳ میں اپنی پہلی شادی کے آرچ‌بشپ آف کنٹربری،‏ تھامس کرانمر کی طرف سے غیرقانونی قرار دئے جانے سے چار ماہ پہلے ہی اینی بولین سے شادی کر لی تھی۔‏

اس کے اگلے سال سرکش ہنری رومن کیتھولک سے ہر ناطہ توڑ کر چرچ آف انگلینڈ کا اعلیٰ سربراہ بن گیا۔‏ میری جسے اب ناجائز اولاد سمجھا جانے لگا تھا،‏ اس نے اپنی ماں کو پھر کبھی نہ دیکھا کیونکہ کیتھرین کو مجبور کِیا گیا کہ وہ اپنی باقی زندگی گوشہ‌نشینی میں گزارے۔‏

پروٹسٹنٹ تعصب

اگلے ۱۳ سالوں میں،‏ ہنری کو چرچ کے سربراہ کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کرنے والوں یا ابھی تک پوپ کے اختیار کو تسلیم کرنے والوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔‏ ہنری کی ۱۵۴۷ میں وفات کے بعد ۹ سالہ ایڈورڈ اس کا جانشین ہوا جو اس کی چھ بیویوں میں سے تیسری بیوی سے اُس کی واحد جائز اولاد تھا۔‏ ایڈورڈ اور اس کے مشیروں نے انگلینڈ کو پروٹسٹنٹ بنانے کی کوشش کی۔‏ رومن کیتھولکس کو اپنے مذہب پر چلنے کی پاداش میں اذیت دی گئی اور گرجاگھروں سے مجسّموں اور قربانگاہوں (‏آلٹرز)‏ کو اکھاڑ کر پھینک دیا گیا تھا۔‏

جلد ہی انگریزی میں بائبل کی پڑھائی اور چھپائی سے پابندیاں اُٹھا لی گئیں اور چرچ عبادات کے دوران لاطینی کی بجائے انگریزی بائبل پڑھی جانے لگی۔‏ لیکن ۱۵۵۳ میں ایڈورڈ صرف ۱۵ برس کی عمر میں تپِ‌دِق (‏ٹی‌بی)‏ کی بیماری کے باعث وفات پا گیا۔‏ میری کو جائز جانشین خیال کِیا گیا اور یوں وہ انگلینڈ کی ملکہ بن گئی۔‏

کیتھولک تعصب

شروع شروع میں تو لوگوں نے ۳۷ سالہ میری کو بہت پسند کِیا گیا مگر جلد ہی وہ لوگوں کے دل سے اتر گئی۔‏ اُس کی رعایا پروٹسٹنٹ مذہب کی عادی ہو چکی تھی جبکہ میری سارے ملک کو پھر سے رومن کیتھولک بنانے کا عزم کئے بیٹھی تھی۔‏ کچھ ہی عرصہ میں،‏ ایڈورڈ کے تمام مذہبی ضابطوں کو منسوخ کر دیا گیا۔‏ میری نے قوم کی طرف سے پوپ سے معافی مانگی۔‏ انگلینڈ ایک بار پھر رومن کیتھولک بن گیا۔‏

اس طرح،‏ روم کیساتھ الحاق کے باعث ایک بار پھر پروٹسٹنٹوں کے خلاف اذیت کی نئی لہر دوڑ گئی۔‏ اُنہیں ایک ناسور سے تشبِیہ دی گئی جسے سارے بدن میں پھیل جانے سے پہلے ہی کاٹ دینے کی ضرورت ہے۔‏ رومن کیتھولک چرچ کی تعلیمات کو ماننے سے انکار کرنے والے بہتیرے لوگوں کو سولی پر زندہ جلا دیا گیا تھا۔‏

عقائد سے منحرف ہو جانے والوں کی سزا

میری کے دورِحکومت میں پہلا مرنے والا شخص جان روجرز تھا۔‏ اُس نے میتھیو نام کی بائبل کو تالیف کِیا تھا جو کہ کنگ جیمز ورشن کی بنیاد بنی تھی۔‏ رومن کیتھولک عقائد کے خلاف واعظ دینے کے بعد جو کہ ”‏پاپائی وبا،‏ بُت‌پرستی اور توہم‌پرستی“‏ کے خلاف آگاہی تھی،‏ اُسے ایک سال تک قید میں رکھا گیا اور فروری ۱۵۵۵ میں اُسے عقائد سے منحرف ہو جانے کی وجہ سے زندہ جلا دیا گیا۔‏

گلوسسٹر اور وارسسٹر کے بشپ جان ہوپر کو بھی بدعتی قرار دیا گیا تھا۔‏ اُس نے کہا تھا کہ پادریوں کیلئے شادی کرنا جائز ہے اور زناکاری کی بنیاد پر طلاق حاصل کی جا سکتی ہے۔‏ اُس نے ماس میں مسیح کے جسمانی طور پر موجود ہونے سے بھی انکار کِیا۔‏ ہوپر کو زندہ جلا دیا گیا،‏ اُس کی تکلیف‌دہ موت کا عمل تقریباً پون گھنٹے جاری رہا۔‏ جب ۷۰ سالہ پروٹسٹنٹ مناد ہیو لاٹی‌مر کی باری آئی تو اُس نے اِن الفاظ کیساتھ سولی پر لٹکے ہوئے ساتھی اور مصلح‌کلیسیا نیکولس ریڈلی کی حوصلہ‌افزائی کی:‏ ”‏جناب ریڈلی،‏ تسلی رکھو اور مرد بنو۔‏ ہم آج انگلینڈ میں خدا کے فضل‌وکرم سے ایک ایسی مشعل روشن کریں گے جس کی بابت مجھے یقین ہے کہ وہ کبھی نہیں بُجھے گی۔‏“‏

شہنشاہ ہنری اور ایڈورڈ کے تحت کنٹربری کے پہلے پروٹسٹنٹ آرچ‌بشپ تھامس کرانمر کی بھی ایک بدعتی کے طور پر مذمت کی گئی۔‏ اُس نے پروٹسٹنٹ عقائد کا استرداد کرنے کے باوجود،‏ آخری لمحے عوام کے سامنے اپنا بیان بدل دیا،‏ علانیہ طور پر پوپ کو مسیح کا دُشمن کہا اور اپنا دایاں ہاتھ پہلے آگ میں جلا دیا کیونکہ یہ استرداد پر دستخط کرنے کا مجرم تھا۔‏

اگرچہ ۸۰۰ متموّل پروٹسٹنٹ فرار ہو کر دوسرے ممالک میں محفوظ مقامات پر چلے گئے تو بھی اگلے تین سال اور نو مہینوں کے دوران میری کی موت تک،‏ کم ازکم ۲۷۷ اشخاص کو انگلینڈ میں سولی پر جلا دیا گیا۔‏ اسکا نشانہ بننے والوں میں سے بیشتر عام لوگ تھے جو اپنے ایمان کی بابت ابتری کا شکار ہو گئے تھے کہ اُنہیں کِیا ایمان رکھنا چاہئے۔‏ نوجوان لوگوں نے اپنی پرورش کے دوران یہ سنا تھا کہ پوپ ملزم ہے اور اب اُنہیں اُسکے خلاف بولنے پر سزا دی جا رہی تھی۔‏ دیگر نے ذاتی طور پر بائبل پڑھنا سیکھ لیا تھا اور اپنے ذاتی مذہبی نظریات قائم کر لئے تھے۔‏

سولی پر جلا دئے جانے والے آدمیوں،‏ عورتوں اور بچوں کی اذیت‌ناک موت نے بیشتر کو خوفزدہ کر دیا تھا۔‏ مؤرخہ‌کیرولی ایرک‌سن ایک ایسے ہی منظر کی خاکہ‌کشی کرتی ہے:‏ ”‏آگ میں جلائی جانے والی لکڑی اور گھاس‌پھونس اکثر گیلا ہوتا تھا تاکہ جلدی آگ نہ پکڑ سکے۔‏ متاثرین کی تکلیف کو کم کرنے کیلئے اُنکے ساتھ باندھے گئے بارود کے تھیلے جلنے میں ناکام رہتے یا اُنہیں ہلاک کئے بغیر ہی ٹھنڈے ہو جاتے تھے۔‏“‏ متاثرین کو خاموش رکھنے کیلئے چونکہ کچھ نہیں کِیا جاتا تھا لہٰذا ”‏اُنکی چیخیں اور دُعائیں اکثر موت کے آخری لمحے تک سنائی دیتی تھیں۔‏“‏

لوگوں کی اکثریت کے اندر اس مذہب کی بابت شکوک پیدا ہونے لگے جسے اپنی تعلیمات کو منوانے کیلئے لوگوں کو سولی پر جلانے کی ضرورت تھی۔‏ متاثرین کیلئے پیدا ہونے والی ہمدردی کی لہر نے بالیڈ گیت (‏تین بندوں پر مشتمل نظم)‏ ترتیب دینے والوں کو پروٹسٹنٹ شہدا کی بابت گیت ترتیب دینے کی تحریک دی۔‏ جان فوکس نے اپنی بُک آف مارٹرز کی تدوین کا آغاز کِیا جسے پروٹسٹنٹ مصلح‌کلیسیا کیلئے بائبل کی طرح ہی اثرآفرین ہونا تھا۔‏ میری کے دورِحکومت کے شروع میں بہتیرے لوگ جو رومن کیتھولک تھے اس کی حکمرانی کے اختتام تک پروٹسٹنٹ بن گئے۔‏

میری کا ورثہ

ملکہ بننے کے بعد،‏ میری نے کہا کہ وہ ہسپانوی تخت کے وارث،‏ اپنے کزن فلپ سے شادی کریگی۔‏ وہ ایک غیرملکی بادشاہ اور سرگرم رومن کیتھولک تھا،‏ ایک ایسی چیز جسکے بیشتر انگریز خواہاں تھے۔‏ شادی کے خلاف کِیا جانے والا پروٹسٹنٹ احتجاج ناکام ہو گیا اور ۱۰۰ باغیوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔‏ جولائی ۲۵،‏ ۱۵۵۴ میں فلپ اور میری کی شادی ہو جانے کے باوجود فلپ کبھی تخت کا وارث نہ بن سکا۔‏ تاہم،‏ اولاد کے بغیر اُنکی شادی میری کیلئے تکلیف کا باعث تھی جو کہ ایک رومن کیتھولک وارث کی خواہشمند تھی۔‏

میری کی صحت نے اُس کا ساتھ نہ دیا اور پانچ سال کے قلیل عرصے کی حکمرانی کے بعد اُس نے ۴۲ برس کی عمر میں وفات پائی۔‏ وہ اپنے غموں کیساتھ ہی قبر میں چلی گئی۔‏ اُسکا شوہر اُس سے بیزار تھا اور اُسکی رعایا کے بیشتر لوگ اُس سے نفرت کرتے تھے۔‏ اُسکی وفات پر،‏ لندن کے بیشتر لوگوں نے سڑکوں پر جشن منائے۔‏ رومن کیتھولک مذہب کو ازسرِنو ترقی دینے کی بجائے اپنے مذہبی تعصب کی بدولت اُس نے پروٹسٹنٹ مذہب کو فروغ دیا تھا۔‏ خونی میری:‏ یہ نام ہی اُسکا ورثہ ہے جس سے وہ پہچانی جاتی ہے۔‏

غلط تحریک پایا ہؤا ضمیر

میری نے اتنے زیادہ لوگوں کو زندہ جلا دینے کا حکم کیوں دیا تھا؟‏ اسلئے کہ اُسے یہ سکھایا گیا تھا کہ بدعتی لوگ خدا کے غدار ہوتے ہیں لہٰذا وہ اسے اپنا فرض سمجھتی تھی کہ اس سے پہلے کہ وہ پوری قوم پر اثرانداز ہوں اُنہیں صفحۂ‌ہستی سے مٹا دینا چاہئے۔‏ اُس نے اپنے ضمیر کی آواز سنکر دوسروں کے حقوق کو نظرانداز کر دیا تھا جنکا ضمیر اُنہیں دوسری راہ اختیار کرنے کی ہدایت دیتا تھا۔‏

تاہم،‏ پروٹسٹنٹ بھی اُتنے ہی متعصّب تھے۔‏ ہنری اور ایڈورڈ کے دورِحکومت میں بھی لوگوں کو اُنکے مذہبی عقائد کی وجہ سے جلا دیا گیا تھا۔‏ میری کی پروٹسٹنٹ جانشین،‏ الزبتھ اوّل نے رومن کیتھولک مذہب کو ایک باغیانہ جرم قرار دیا اور اُسکے دورِحکومت میں ۱۸۰ رومن کیتھولک انگریزوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔‏ اگلی صدی کے دوران سینکڑوں اشخاص کو مذہبی عقائد کی بِنا پر جان سے مار دیا گیا۔‏

اب معافی مانگنے کی کیا ضرورت ہے؟‏

دسمبر ۱۰،‏ ۱۹۹۸ میں یونائیٹڈ نیشنز کے یونیورسل ڈکلریشن آف ہیومن رائٹس کی ۵۰ ویں سالگرہ منائی گئی۔‏ شق ۱۸ ”‏سوچ،‏ ضمیر اور مذہب کی آزادی کے حق کو“‏ تسلیم کرتی ہے،‏ جس میں اپنا مذہب تبدیل کرنا،‏ اسکی تعلیم دینا اور اس پر عمل کرنا شامل ہے۔‏ انگلینڈ اور ویلز کے رومن کیتھولک بشپ صاحبان نے ۵۰ ویں سالگرہ کا انتخاب ”‏ان معاملات کے سلسلے میں اپنے ضمائر کا جائزہ لینے کیلئے ایک موزوں وقت کے طور پر کِیا“‏ نیز اسے اُن ”‏سنگین غلطیوں“‏ کا اعتراف کرنے کا وقت بھی خیال کِیا جو بالخصوص میری ٹیوڈر کے دور میں سرزد ہوئی تھیں۔‏

اگرچہ تقریباً ۴۵۰ سال پہلے کئے جانے والے مذہبی تعصّبات پر اب پچھتایا جا رہا ہے تاہم کیا واقعی کوئی تبدیلی آئی ہے؟‏ آجکل لوگوں کو سولی پر تو نہیں جلایا جاتا تاہم بہت سے نام‌نہاد مسیحی ابھی تک دوسرے مذاہب کے لوگوں کو قتل کرتے اور اُنکے ساتھ جنسی بدفعلی کرتے ہیں۔‏ ایسا تعصب خدا کو پسند نہیں ہے۔‏ درحقیقت،‏ خدا کی ذات کے کامل پرتو یسوع مسیح نے بیان کِیا:‏ ”‏اگر آپس میں محبت رکھو گے تو اس سے سب جانینگے کہ تم میرے شاگرد ہو۔‏“‏—‏یوحنا ۱۳:‏۳۵‏۔‏

‏[‏صفحہ ۲۱ پر تصویر]‏

کوئین میری

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویر]‏

لاٹی‌مر اور ریڈلی کو سولی پر جلایا گیا

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویر]‏

کرانمر نے اس بات کا یقین کر لیا کہ اُسکا دایاں ہاتھ پہلے جلے

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

A Short History of the English People From the book

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Foxe‎’s Book of Martyrs From the book

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

‏(‎Vol. 1‎) The History of England From the book

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویر کا حوالہ]‏

Alexander Nesbitt/Dover/‏200 Decorative Title-Pages ‏:Border

‏.Publications, Inc