واسا تباہی سے دلکشی
واسا تباہی سے دلکشی
سویڈن سے ”جاگو!“ کا مراسلہنگار
سویڈن کے دارالحکومت، سٹاکہوم میں اگست ۱۰، ۱۶۲۸ موسمِگرما کا ایک خوشگوار دن تھا۔ لوگوں کا بڑا ہجوم بندرگاہ کی گودی پر عالیشان شاہی جہاز واسا کو دیکھنے کیلئے جمع تھے جو تین سال کی تیاری کے بعد اب سویڈش بحری بیڑے میں شامل ہونے کیلئے اپنے پہلے سفر پر روانہ ہونے والا تھا۔
واسا کوئی معمولی جنگی جہاز نہیں تھا۔ شاہ گسٹیوس دوم آڈولفس واسا اُسے دُنیا کا عظیمترین جہاز بنانا چاہتا تھا۔ بعض کا کہنا ہے کہ جب اُسے خبر ملی کہ ڈنمارک والے دو توپبردار عرشے والا جہاز بنا رہے ہیں تو اُس نے بھی دوسرے توپبردار عرشے کی تعمیر کا حکم دے دیا۔ وہ چاہتا تھا کہ اُس کے خاندانی نام سے منسوب جہاز کسی سے کم نہ ہو۔
اُسے روانگی کے لئے سمندر میں اُتارنے کے ساتھ اُس کی شاہانہ جاہوجلال اور نمودونمائش وابستہ تھی۔ اسے ۶۴ توپوں سے مسلح اور ۷۰۰ سے زائد مجسّموں اور نوادرات سے مرصع کِیا گیا تھا۔ اسکی لاگت سویڈن کی مجموعی قومی پیداوار کے ۵ فیصد سے بھی زیادہ تھی۔ یہ طاقتور مشین اور تیرنے والا فنی شاہکار غالباً اُس زمانے کا سب سے زیادہ پُرشکوہ جہاز تھا۔ کچھ عجب نہیں کہ جہاز کے سٹاکہوم کی بندرگاہ سے نکلتے وقت لوگ بڑے فخر کیساتھ تالیوں اور نعروں کی گونج میں اسے الوداع کہہ رہے تھے!
تباہی اور رُسوائی
تاہم، ابھی واسا نے ایک میل سے بھی کم سفر طے کِیا تھا کہ ہوا کے زوردار جھونکے نے اسے الٹا دیا۔ توپوں کے کھلے دریچوں سے پانی داخل ہو جانے سے وہ غرقاب ہو گیا۔ بحری تاریخ کا یہ شاید سب سے پہلا قلیل سفر تھا!
تماشائیوں پر سکتہ طاری ہو گیا تھا۔ سویڈن بحریہ کا جاہوجلال کسی جنگ یا گہرے سمندر میں کسی شدید طوفان کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی ہی بندرگاہ کی حدود میں ہوا کے ایک جھونکے سے غرقاب ہو گیا تھا۔ جہاز میں سوار ۵۰ لوگوں کی موت نے لوگوں کی سراسیمگی میں اَور بھی اضافہ کر دیا تھا۔ قومی فخر کی بجائے، واسا مایوسی اور ذلت کی علامت بن گیا۔
اس تذلیلکُن تباہی کے ذمہدار کی تلاش کیلئے ججوں کی ایک مجلس کو طلب کِیا گیا۔ تاہم، کسی کو بھی ذمہدار نہ ٹھہرایا گیا کیونکہ حقائق نے ظاہر کر دیا تھا کہ بادشاہ اور اُس سے دوسرے درجے پر سویڈش بحریہ کا کمانڈر، وائس ایڈمرل کلاس فلےمنگ ہی اسکے ذمہدار تھے۔
بادشاہ کے مطالبوں نے جہازسازوں کو ایسے ڈیزائن بنانے پر مجبور کر دیا تھا جن سے وہ ناواقف تھے۔ لہٰذا، واسا بُری طرح سے عدمِتوازن کا شکار ہو گیا تھا۔ جہاز کے اُلٹنے سے کچھ عرصہ پہلے، ایڈمرل فلےمنگ نے اسکی مضبوطی کو پرکھنے کا اہتمام کِیا۔ تیس آدمیوں نے کندھے سے کندھا ملا کر جہاز کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک دوڑ لگائی۔ تیسرے چکر کے بعد ایڈمرل نے محسوس کر لیا تھا کہ اگر وہ اسی طرح بھاگتے رہے تو جہاز اُسی وقت اُلٹ جائیگا۔ لہٰذا اُس نے اُنہیں تو روک دیا مگر پہلے سفر کو نہ روکا۔ بادشاہ اور ایڈمرل جیسی ممتاز شخصیات کے اُلجھاؤ کی وجہ سے الزامات واپس لے لئے گئے۔
سویڈش فوج کے ایک سابق آفیسر نے ۱۶۶۴-۱۶۶۵ میں ایک سادہ سے غواص آلے کی مدد سے واسا کی بیشتر توپیں تلاش کر لیں۔ واسا سطحسمندر سے ۱۰۰ فٹ نیچے دلدل میں دھنس جانے سے آہستہ آہستہ عالمِفراموشی میں چلا گیا۔
دلدل سے واپسی
اَثریاتی تحقیق کے ایک شوقین، اینڈرس فرینزن نے اگست ۱۹۵۶ میں تشخیص کیلئے چیزیں اکٹھی کرنے والے ایک آلے کی مدد سے سمندر کی تہہ سے بلوط کی لکڑی کا ایک ٹکڑا نکالا۔ کئی سالوں سے وہ پُرانی دستاویزات کی چھانبین اور سمندر کی تہہ میں واسا کی تلاش کر رہا تھا۔ اب اُس نے بالآخر اِسے ڈھونڈ نکالا تھا۔ تباہشُدہ جہازوں کی بازیافتگی کے نفیس عمل کے ذریعے واسا کو صحیحسالم حالت میں کیچ سے نکالکر بڑی احتیاط کیساتھ بندرگاہ پر لایا گیا۔
واسا کی واپسی سیاحوں اور بحری اَثریات کے ماہرین کیلئے پُرکشش تھی۔ تقریباً ۰۰۰،۲۵ سے زائد چیزوں نے ۱۷ویں صدی کے اس جنگی جہاز کی بابت حیرانکُن تفصیلات کا انکشاف کِیا اور اُس زمانے کی جہازسازی اور مجسّمہسازی کے فن کے حوالے سے بیمثال علم بھی عطا کِیا۔
اپریل ۲۴، ۱۹۶۱ کو سٹاکہوم کی بندرگاہ کی گودی ایک بار پھر پُرجوش تماشائیوں سے بھر گئی۔ سمندر کی تہہ میں ۳۳۳ سال رہنے کے بعدواسا اور اس میں موجود چیزیں اتنی محفوظ کیوں رہیں؟ اسکی کچھ وجوہات تو یہ ہیں کہ یہ ڈوبتے وقت بالکل نیا تھا، کیچ نے بھی تحفظ کا کام دیا تھا اور ویسے بھی کم نمکیات والے پانیوں میں لکڑی کو کھا جانے والے سمندری کیڑوں کی افزائش نہیں ہوتی۔
واسا میں تقریباً ۱۲۰ ٹن کی بھرائی تھی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اسکی مضبوطی کیلئے اسے دُگنی مقدار میں بھرائی کی ضرورت تھی مگر اس میں مزید گنجائش ہی نہیں تھی۔ علاوہازیں، زیادہ وزن کیساتھ توپوں کے دریچے بھی پانی کے قریب آ سکتے تھے۔ پُرشکوہ دکھائی دینے والا جہاز اپنے عدمِتوازن کی وجہ سے غرقاب ہو گیا۔
اب یہ دُنیا کا سب سے قدیم جہاز ہے جسے پوری شناخت کے بعد مکمل حالت میں اسی کے اندر بنائے گئے ایک عجائبگھر میں محفوظ کر لیا گیا ہے۔ یہاں ہر سال ۰۰۰،۵۰،۸ سیاح آکر ۱۷ویں صدی کی شاہی نمودونمائش کا نظارہ کرتے ہیں جو ۱۶۲۸ میں پیش آنے والے حادثے کی وجہ سے تقریباً لاتبدیل رہی ہے۔ یہ ایسے اربابِاختیار کی حماقت کے خلاف آگاہی ہے جو اپنی اَنا اور لاپرواہی کی وجہ سے جہازسازی کے مخصوص طریقۂکار سے غفلت برتتے ہیں۔
[صفحہ ۲۴ پر تصویر]
شاہ گسٹیوس دوم آڈولفس واسا
[تصویر کا حوالہ]
Foto: Nationalmuseum, Stockholm
[صفحہ ۲۴، ۲۵ پر تصویر]
سمندر کی تہہ میں ۳۰۰ سال تک رہنے کے باوجود، ”واسا“ پوری دُنیا کے لئے پُرکشش چیز ہے
[تصویر کا حوالہ]
Genom tillmötesgående från Vasamuseet, Stockholm
[صفحہ ۲۵ پر تصویر کا حوالہ]
Målning av det kapsejsande Vasa, av konstnär Nils Stödberg