مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا اخلاقیات پہلے سے بدتر ہیں؟‏

کیا اخلاقیات پہلے سے بدتر ہیں؟‏

کیا اخلاقیات پہلے سے بدتر ہیں؟‏

اگر آپ مؤرخین سے یہ دریافت کریں کہ ”‏کیا آجکل لوگوں کی اخلاقیات پہلے کی نسبت بہتر ہیں یا بدتر ہیں؟‏“‏ تو بعض شاید یہ جواب دیں کہ مختلف اَدوار کی اخلاقیات کا موازنہ کرنا مشکل ہے۔‏ شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہر دور کا جائزہ اُس کے اپنے حقائق کے مطابق لیا جانا چاہئے۔‏

مثال کے طور پر،‏ ایک حلقہ جس میں بعض مؤرخین نے موازنہ کرنے کی کوشش کی ہے وہ ۱۶ویں صدی کے بعد سے یورپ میں متشدّد جرائم میں اضافہ ہے۔‏ پُرانے وقتوں میں قتل‌وغارت کوئی غیرمعمولی بات نہیں تھی۔‏ لوگ قانون کو اکثر اپنے ہاتھوں میں لے لیتے تھے اور خاندانی عداوتیں بڑی عام تھیں۔‏

تاہم،‏ مؤرخ آرنی یارک اور یوحان سؤڈربر کتاب مینس‌کووارڈت اوک مکٹن ‏(‏انسانی وقار اور طاقت)‏ میں لکھتے ہیں کہ بعض جگہوں پر ۱۶۰۰ اور ۱۸۵۰ کا درمیانی عرصہ ”‏حقیقی مہذب معاشرتی زندگی کی تصویرکشی کرتا تھا۔‏“‏ اس سے اُنکی مُراد یہ ہے کہ اُس وقت لوگ دوسروں کی ضروریات کا خیال رکھتے تھے—‏وہ زیادہ ہمدرد تھے۔‏ مثال کے طور پر،‏ دیگر مؤرخین بیان کرتے ہیں کہ کسی کی جائداد سے متعلق چوری‌چکاری جیسے واقعات اور جرائم آج کی نسبت ۱۶ویں صدی کے دوران بہت کم تھے۔‏ بالخصوص دیہی آبادی میں تو چوری کرنے والے منظم گروہوں کی کاروائیاں بہت کم نظر آتی تھیں۔‏

بِلاشُبہ،‏ غلامی کا رواج تھا جو کہ تاریخ کے چند انتہائی سنگین جرائم پر منتج ہؤا تھا—‏یورپی تاجر افریقہ سے لوگوں کو اغوا کر کے اپنے ساتھ مختلف ممالک میں لے جاتے تھے جہاں اِن لاکھوں غلاموں کیساتھ وحشیانہ برتاؤ کِیا جاتا تھا۔‏

پس اگر ہم گزشتہ صدیوں پر نگاہ ڈالیں تو ہم غالباً یہ دیکھیں گے کہ جب تاریخی پس‌منظر میں اس کا تجزیہ کِیا جائے تو بعض حالتیں بہتر تھیں جبکہ دیگر بدتر تھیں۔‏ تاہم،‏ ۲۰ویں صدی کے دوران اور ابھی تک—‏کچھ بہت مختلف اور بہت سنگین—‏بِلاشُبہ ایک منفرد صورتحال کا سامنا ہے۔‏

بیسویں صدی—‏ایک نقطۂ‌انقلاب

مؤرخ یارک اور سؤڈربر نے بیان کِیا:‏ ”‏۱۹۳۰ کے عشرے میں قتل اور مردم‌کُشی میں ایک بار پھر اضافہ ہو گیا اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اُس وقت سے لیکر اس میلان کی موجودگی کو نصف صدی سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے۔‏“‏

بیشترتبصرہ‌نگاروں کے مطابق،‏ ۲۰ویں صدی کے دوران اخلاقیات وسیع پیمانے پر تنزلی کا شکار رہی ہے۔‏ اخلاقی فلسفے کی بابت ایک مضمون بیان کرتا ہے:‏ ”‏کوئی ۳۰ سے ۴۰ سال پہلے معاشرہ قوانین کے ذریعے یہ وضع کرتا تھا کہ اخلاقی طور پر کیا صحیح ہے،‏ اب جنس اور اخلاقیات کی بابت معاشرے کے نظریے میں واضح تبدیلی دیکھی جا سکتی ہے جس سے معاشرے کے اندر ایک آزاد اور انفرادیت‌پسند نظریہ سرایت کر گیا ہے۔‏“‏

اسکا مطلب ہے کہ جنسی تعلقات اور اخلاقیات کے دیگر پہلوؤں کی بابت بیشتر لوگ اب یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ اپنے لئے خود فیصلہ کر سکتے ہیں۔‏ اسکی وضاحت کرنے کیلئے،‏ یہ مضمون کچھ اعدادوشمار پیش کرتا ہے جو ظاہر کرتے ہیں کہ ۱۹۶۰ میں ریاستہائے متحدہ میں ازدواجی بندھن کے بغیر پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد ۳.‏۵ فیصد تھی۔‏ یہ تعداد ۱۹۹۰ میں ۲۸ فیصد ہو گئی تھی۔‏

نوٹر ڈیم یونیورسٹی،‏ یو.‏ایس.‏ میں ایک لیکچر کے دوران،‏ سینیٹر جَو لیبرمین نے ہمارے زمانے کی اخلاقیات کو ”‏کھوکھلی قدروں“‏ کے طور پر بیان کِیا،‏ ”‏جہاں غلط اور صحیح کی بابت روایاتی نظریات بتدریج ختم ہو گئے ہیں۔‏“‏ لیبرمین کے مطابق،‏ یہ عجیب‌وغریب سلسلہ ”‏تقریباً دو پُشتوں سے جاری ہے۔‏“‏

سیکولرائزیشن

اس ۲۰ویں صدی کے دوران واقع ہونے والی غیرمعمولی تبدیلی کی بابت مؤرخ اور دیگر تجزیہ‌نگار کیا بیان کرتے ہیں؟‏ کتاب منیس‌کووارڈت اوک مکٹن کرتی ہے،‏ ”‏گزشتہ دو صدیوں کے دوران معاشرے میں آنے والی سب سے بڑی تبدیلی سیکولرائزیشن ہے۔‏“‏ سیکولرائزیشن کا مطلب تھا کہ ”‏لوگوں کو مختلف نظریات کی بابت اپنا ذاتی مؤقف اختیار کرنے کا موقع دیا جائے گا۔‏ اس نظریے.‏ .‏ .‏ کی ابتدا ۱۸ویں صدی کے نام‌نہاد روشن‌خیال فلسفہ‌دانوں کی ایک تنظیم سے ہوئی جنہوں نے .‏ .‏ .‏ بائبل کو سچائی کا واحد ماخذ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔‏“‏ لہٰذا،‏ مذاہب،‏ بالخصوص دُنیائے مسیحیت کے مذاہب کو اخلاقی راہنمائی حاصل کرنے کے سلسلے میں اُتنی اہمیت نہیں دی جاتی جتنی کبھی ماضی میں دی جاتی تھی۔‏

تاہم ۱۸ویں صدی میں ترتیب دئے جانے والے ایک فلسفے کو مقبولیت حاصل کرنے میں تقریباً ۲۰۰ سال سے زیادہ عرصہ کیوں لگا ہے؟‏ مذکورہ‌بالا کتاب بیان کرتی ہے،‏ ”‏اِن نظریات کو لوگوں میں عام کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔‏ سیکولرائزیشن کی تحریک بہت سُست‌رفتار تھی۔‏“‏

اگرچہ روایتی اخلاقی معیاروں اور مسیحی اقدار کو مسترد کرنے کا رُجحان گزشتہ ۲۰۰ سال سے بتدریج سرایت کر رہا تھا تو بھی ۲۰ویں صدی میں اس نے بڑی تیزی سے ترقی کی۔‏ بالخصوص پچھلے چند عشروں سے صورتحال ایسی ہی رہی ہے۔‏ ایسا کیوں ہے؟‏

خودغرضی اور لالچ

اسکا سب سے بڑا سبب معاشرے کے اندر ۲۰ویں صدی کے دوران واقع ہونے والی تیز رفتار تکنیکی اور معاشی تبدیلی ہے۔‏ ایک جرمن نیوزمیگزین ڈی زِٹ کے ایک مضمون نے بیان کِیا کہ ہم ”‏گزشتہ صدیوں سے ساکن دُنیا کی بجائے ایک حرکیاتی دَور“‏ میں رہتے ہیں۔‏ اس مضمون نے واضح کِیا کہ یہ ایسے آزاد کاروباری نظام کا باعث بنا ہے جو کہ مقابلہ‌بازی پر مبنی ہے اور خودغرضی سے فروغ پاتا ہے۔‏

مضمون مزید بیان کرتا ہے،‏ ”‏اس خودغرضی کو کسی بھی طرح روکا نہیں جا سکتا۔‏ اس کے نتیجے میں،‏ ہماری روزمرّہ زندگی کے اندر وحشیانہ طرزِعمل اور بدعنوانی میں اضافہ ہؤا ہے جو کہ بیشتر ممالک میں حکومت کی سطح تک پہنچ چکا ہے۔‏ لوگ صرف اپنی اور اپنی خواہشات کی تسکین کی فکر میں رہتے ہیں۔‏“‏

پرنسٹن یونیورسٹی کا ماہرِعمرانیات رابرٹ وِتھ‌ناؤ مختلف لوگوں کی رائے معلوم کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ اپنی پچھلی پُشت کی نسبت آجکل امریکی پیسے پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔‏ اس سروے کے مطابق،‏ ”‏بیشتر امریکی اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ پیسہ دوسرے لوگوں کیلئے احترام،‏ کام کی جگہ پر دیانتداری اور سماجی میل‌جول جیسی دیگر اقدار پر حاوی ہو گیا ہے۔‏“‏

معاشرے کے اندر لالچ میں اَور زیادہ اضافہ ہو گیا ہے کیونکہ کاروباری منتظمین نے اپنی تنخواہوں اور نفع‌بخش ریٹائرمنٹ کے وظائف میں بہت زیادہ اضافہ کر لیا ہے جبکہ وہ اپنے ملازمین کو تنخواہوں کے مطالبات میں اعتدال‌پسند رہنے کی تاکید کرتے ہیں۔‏ سویڈن کی کرسچین کونسل کا تھیولاجیکل ڈائریکٹر اور ایتھکس کا ایسوسیٹ پروفیسر شل او نل‌سن بیان کرتا ہے کہ ”‏کاروباری لیڈروں کے اندر نفع کے حصول کے سلسلے میں یہ مسئلہ درپیش ہے کہ اُن کا رویہ دوسروں میں بھی سرایت کرنے والا اور عام لوگوں کے اخلاقی معیاروں کی تنزلی کا سبب بنا ہے۔‏ بلاشُبہ،‏ اس عمل نے معاشرے میں اخلاقیات کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ—‏ذاتی سطح پر بھی اثر کِیا ہے۔‏“‏

میڈیا کلچر

بیسویں صدی کے آخری نصف حصے میں تیزی سے اخلاقی تنزلی کا سبب بننے والا ایک اہم عنصر میڈیا کلچر ہے۔‏ سینیٹر لیبرمین بیان کرتا ہے،‏ ”‏نئی اقدار منتقل کرنے والوں میں ٹیلی‌ویژن کے پروڈیوسرز،‏ فلمی ستارے،‏ فیشن کی تشہیر کرنے والے ادارے،‏ گانستا ریپ میوزک ترتیب دینے والوں اور دیگر کردار پیش کرنے والوں کے علاوہ الیکٹرونک میڈیا کلچرل کمپلیکس شامل ہیں۔‏ ایسے رُجحانات کو فروغ دینے والے یہ لوگ ہماری ثقافت اور بالخصوص ہمارے بچوں کو بہت متاثر کرتے ہیں اور وہ اکثر اِن نقصان‌دہ اقدار کی بابت کوئی احساس نہیں رکھتے جنہیں وہ دوسروں میں منتقل کر رہے ہوتے ہیں۔‏“‏

مثال کے طور پر،‏ لیبرمین کینی‌بال کارپس (‏آدم‌خور لاش)‏ کہلانے والے ہیوی میٹل بینڈ کے ترتیب دئے گئے ایک ریکارڈ کا ذکر کرتا ہے۔‏ گانے کے دوران گلوکار چاقو دکھا کر ایک عورت کے ساتھ زنابالجبر کرنے کا مفصل ذکر کرتے ہیں۔‏ اُس نے اور اُس کے ایک ساتھی نے ریکارڈ کرنے والی کمپنی کی بڑی منتیں کیں کہ اسے ریکارڈ نہ کِیا جائے۔‏ مگر جیسےکہ لیبرمین بیان کرتا ہے،‏ وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔‏

میڈیا کلچر کے ساتھ نبردآزما فرض‌شناس والدین کے لئے لمحہ‌فکریہ ہے کہ کیا چیز اُنکے بچوں پر اثرانداز ہوگی اور کون اُنکی تربیت کریگا۔‏ تاہم ایسے خاندانوں کی بابت کیا ہے جہاں والدین اسقدر اُصول‌پسند نہیں ہیں؟‏ ”‏ایسی صورتحال میں،‏“‏ لیبرمین بیان کرتا ہے،‏ ”‏معیار قائم کرنے والے کے طور پر میڈیا کلچر بالکل آزاد ہوتا ہے اور بچہ بنیادی طور پر ٹیلی‌ویژن،‏ مووی سکرین اور سی‌ڈی پلیئر ہی سے صحیح اور غلط میں امتیاز کرنا اور زندگی میں اولیتیں قائم کرنا سیکھتا ہے۔‏“‏ البتہ آجکل اس فہرست میں انٹرنیٹ کو بھی شامل کِیا جا سکتا ہے۔‏

‏”‏پتھر کے زمانے کا اخلاقی دَور“‏

نوجوان لوگوں پر اِن منفی اثرات کے نتائج کیا ہیں؟‏ پہلی بات تو یہ ہے کہ حالیہ برسوں میں بیشتر بچوں اور نوجوانوں نے بچوں اور بالغوں کیخلاف پُرتشدد کام کئے ہیں۔‏

سویڈن میں ۱۹۹۸ میں ایک خوفناک واقعہ پیش آیا۔‏ پانچ اور سات سال کے دو لڑکوں نے اپنے چار سالہ دوست کو گلا گھونٹ کر موت کے گھاٹ اُتار دیا!‏ بیشتر نے یہ سوال اُٹھایا:‏ کیا بچے جبلّی طور پر یہ نہیں جانتے کہ اُنکی حدود کیا ہیں اور وہ کہاں تک جا سکتے ہیں؟‏ بچوں کی ایک ماہرِنفسیات نے یہ معنی‌خیز تبصرہ کِیا:‏ ”‏اپنی حدود پار نہ کرنے پر قابو پانا ایک ایسا عمل ہے جسے سیکھنا ضروری ہے۔‏ بڑی حد تک اسکا انحصار اس بات پر ہو سکتا ہے کہ بچوں کے سامنے کس طرح کے تقلیدی کردار ہیں اور وہ اپنے اِردگرد کے بالغوں سے کیا سیکھ رہے ہیں۔‏“‏

اسی قسم کے واقعات کا مشاہدہ متشدّد جرائم کے سلسلے میں بھی کِیا جا سکتا ہے۔‏ سویڈن میں نفسیات کے پروفیسر،‏ سٹن لیونڈر کے مطابق،‏ آجکل تمام قیدیوں میں سے ۱۵ سے ۲۰ فیصد نفسیاتی مریض ہوتے ہیں—‏ایسے لوگ جو صرف اپنی ذات میں مگن رہتے ہیں،‏ جن میں ہمدردی کا فقدان ہوتا ہے اور جو صحیح اور غلط کے تصور کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں یا پھر اس کیلئے تیار نہیں ہوتے۔‏ بظاہر نارمل نظر آنے والے بچوں اور نوجوانوں میں بھی مشاہدین نے اخلاقی حس کی کمی دیکھی ہے۔‏ فلسفے کی پروفیسر کرس‌ٹینا ہوف سومرز دعویٰ کرتی ہے،‏ ”‏ہم واپس پتھر کے زمانے کے اخلاقی دَور میں چلے گئے ہیں۔‏“‏ اُس نے لکھا کہ جب میرے نوجوان طالبعلموں کو صحیح اور غلط میں امتیاز کا سامنا ہوتا ہے تو اُن میں سے بیشتر انتہائی عدمِ‌تحفظ کا ردِعمل ظاہر کرتے ہیں۔‏ اس کے بعد وہ یہ جواب دیتے ہیں کہ صحیح اور غلط نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔‏ اُنکا یہ خیال ہے کہ ہر شخص اپنے لئے خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ اُس کیلئے کیا اچھا ہے۔‏

حالیہ برسوں میں،‏ اُس کے بیشتر طالبعلموں نے انفرادی وقار اور انسانی زندگی کی اہمیت کے اُصول کی محالفت کی ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ جب اُن سے یہ پوچھا گیا کہ اگر اُنہیں اپنے پالتو جانور یا ایک اجنبی ساتھی انسان کی زندگی بچانے کا انتخاب کرنا پڑے تو وہ کسے بچائینگے تو بیشتر کا جواب تھا کہ وہ جانور کا انتخاب کرینگے۔‏

پروفیسر سومرز بیان کرتی ہے کہ ”‏مسئلہ یہ نہیں کہ نوجوان لوگ بےبہرہ،‏ بدگمان،‏ ظالم یا باغی ہیں۔‏ سچ تو یہ ہے کہ اُنکے دماغ میں صحیح اور غلط کا کوئی واضح تصور ہی نہیں ہے۔‏“‏ اُس کا کہنا ہے کہ آجکل بیشتر نوجوان درحقیقت یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آیا واقعی کوئی صحیح یا غلط نام کی چیز ہے اور اُس کے خیال میں یہی وہ رُجحان ہے جسکی وجہ سے موجودہ معاشرہ سب سے بڑے خطرے سے دوچار ہے۔‏

لہٰذا ہمارے زمانے میں اخلاقی قدروں کی کمی ایک حقیقت ہے۔‏ بیشتر کو اس بات کا خدشہ ہے کہ اس کے نتائج تباہ‌کُن ہو سکتے ہیں۔‏ ڈی زِٹ کا مضمون جسکا شروع میں حوالہ دیا گیا ہے بیان کرتا ہے کہ موجودہ آزاد کاروباری معیشت حال ہی میں ”‏تباہ‌وبرباد ہونے والے اشتراکی نظام کی طرح بتدریج تنزلی کا شکار ہو سکتی ہے۔‏“‏

درحقیقت اس سب کا کیا مطلب ہے؟‏ نیز ہمیں کس قسم کے مستقبل کی توقع کرنی چاہئے؟‏

‏[‏صفحہ ۶،‏ ۷ پر تصویریں]‏

‏”‏نئی قدریں منتقل کرنے والوں میں ٹیلی‌ویژن پروڈیوسرز،‏ فلمی ستارے،‏ فیشن کی تشہیر کرنے والے ادارے اور گنستا ریپ میوزک ترتیب دینے والے پیش پیش ہیں .‏ .‏ .‏“‏