ایناکونڈاز—انکے راز کیا ہیں؟
ایناکونڈاز—انکے راز کیا ہیں؟
منجانب ”جاگو!“ سٹاف رائٹر
آپ کے بارے میں تو مَیں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن مجھے دوسرے جانوروں کی نسبت بڑے بڑے سانپ بہت اچھے لگتے ہیں۔ بڑے سانپوں سے ہماری مُراد دراصل ایناکونڈاز سے ہے جو جانوروں کے بوئڈے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ تاہم، عجیب بات ہے کہ اس مخلوق کی اتنی بھاریبھرکم جسامت کے باوجود اس کی بابت تاحال زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔
سن ۱۹۹۲ میں، ماہرِحیاتیات کاسس اے. رائباس اور نیو یارک کی وائلڈلائف کنزرویشن سوسائٹی (ڈبلیوسیایس) کے ماہرین نے پہلی مرتبہ جنگل کی اس جسیم مخلوق پر تحقیق کا آغاز کِیا۔ * جب مَیں نے یہ پڑھا کہ وینزویلا کے دلدلی علاقے میں کی جانے والی چھسالہ تحقیق نے بعض نئے حقائق پر روشنی ڈالی ہے تو مَیں اسکی بابت جاننے کیلئے بیقرار ہو گیا۔ آج مَیں یہ معلوم کرنے کی کوشش کرونگا۔
نام اور اقسام
ایک روز مَیں دوپہر کے وقت، بروکلن میں اپنے دفتر سے نکل کر نیو یارک سٹی کے برونکس چڑیا گھر میں واقع ڈبلیوسیایس کے ہیڈکوارٹرز کی طرف روانہ ہوا۔ مَیں نے ایناکونڈاز سے متعلق چند حقائق جاننے کیلئے پہلے ہی کافی تحقیق کر لی تھی۔
عجیب بات ہے کہ نام ایناکونڈا کا ماخذ جنوبی امریکہ میں واقع اس جانور کے گھر سے کوسوں دُور ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ یہ تامل لفظ ینائی بمعنی ”ہاتھی“ اور کولرا بمعنی ”قاتل“ سے مشتق ہے۔ تاہم دیگر کا خیال ہے کہ یہ سنہالا لفظ ہناکندیا سے مشتق ہے (ہنا کا مطلب ہے ”بجلی“ اور کندا کا مطلب ہے ”تنا“)۔ غالباً سنہالا الفاظ—جو دراصل سری لنکا میں پائیتھون نسل کے سانپوں کیلئے استعمال ہوتے تھے—پُرتگالی تاجر ایشیا سے جنوبی امریکہ لے آئے تھے۔
جہاں تک بات غلط نام رکھنے کی ہے تو ایناکونڈا کا باضابطہ نام، یونیکٹیز مورینس بھی صحیح نہیں ہے۔ یونیکٹیز کا مطلب ہے ”اچھا پیراک“—جو یہ حقیقت میں ہے۔ مگر مورینس کا مطلب ہے ”چوہے کی رنگت والا۔“ ایک کتاب بیان کرتی ہے کہ زیتونی سبز جِلد والے سانپ کیلئے یہ نام ”دراصل موزوں دکھائی نہیں دیتا۔“
اس جانور کے سائنسی نام اور درجہبندی کے حوالے سے ایک اَور بات بھی قابلِذکر ہے۔ ایناکونڈاز کی بابت کتابیں عام طور پر اس کی دو قسمیں (ای۔ نوٹائس) ہے جو کہ پیراگوئے، جنوبی برازیل اور شمالی ارجنٹینا میں پایا جاتا ہے۔
بتاتی ہیں۔ ایک قسم پر تو زیرِنظر مضمون بات کرتا ہے—سبز ایناکونڈا یا آبی مارِعظیم جو بالخصوص ایمیزن اور اورینوکو کے دلدلی علاقہجات اور گیایناز میں پایا جاتا ہے۔ دوسرا چھوٹا زرد ایناکونڈاایک ماہر سے ملاقات
اب مَیں برونکس چڑیاگھر میں پہنچ گیا ہوں۔ یہ وائلڈلائف پارک ۲۶۵ ایکڑ جنگل کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے جس میں ۰۰۰،۴ سے زیادہ جانور بسیرا کرتے ہیں جن میں ایک درجن کے لگبھگ ایناکونڈاز بھی شامل ہیں۔ یہاں چڑیاگھر کے مدخل پر میرا استقبال کرنے کے لئے ڈبلیوسیایس کے ڈیپارٹمنٹ آف ہرپیٹالوجی (ہوامیات) کا خاکی وردی میں ملبّس ولیم ہولمسٹروم موجود ہے۔ مسٹر ہولمسٹروم ۵۱سالہ ایک ہنسمکھ انسان اور نیویارک کا رہنے والا ہے۔ وہ چڑیاگھر کے رپٹائل (رینگنے والے جانور) ڈیپارٹمنٹ کا کولیکشن مینیجر ہے اور ونیزویلا میں ایناکونڈاز پر کی جانے والی تحقیق میں بھی حصہ لے چکا ہے۔ اُس کے مطابق اس وقت سائنسدان شمال مشرقی برازیل اور ساحلی فرانسیسی گیآنا میں پائی جانے والی ایناکونڈا کی ایک تیسری قسم (ای۔ ڈیسچاؤنسی) کی بات کر رہے ہیں۔ * آج بعدازدوپہر مسٹر ہولمسٹروم میرے ماہر گائیڈ ہونگے۔
مجھے جلد ہی یہ احساس ہو گیا کہ میرا گائیڈ سانپوں سے اُتنا ہی پیار کرتا ہے جتنا کہ دوسرے لوگ پلوں یا چھوٹے طوطوں سے کرتے ہیں۔ اُس نے مجھے بتایا کہ جب وہ چھوٹا تھا تو اُس وقت اُسکے والدین سلامنڈرز، مینڈک اور اسی طرح کے دیگر جانور پالتے تھے۔ ”والد کو یہ بہت پسند تھے۔ جبکہ ماں اِنہیں برداشت کرتی تھی۔“ بِلاشُبہ، مسٹر ہولمسٹروم اپنے باپ پر ہی گیا ہے۔
حیرانکُن جسامت اور بڑا فرق
سو سال پُرانے خزندہ گھر میں ہم دونوں ایک ایسی جگہ کے سامنے آ کر رُک گئے ہیں جہاں ایناکونڈا رکھا گیا ہے۔ اگرچہ میرے سامنے اب وہی جانور ہے جسے دیکھنے کا مجھے بہت اشتیاق تھا توبھی میرے لئے اپنی حیرانی پر قابو پانا مشکل ہو رہا ہے۔ مَیں اُس کی غیرمعمولی جسامت پر دنگ ہوں۔ اسکا چپٹے ناک والا سر انسانی ہاتھ سے بھی بڑا ہے جس کیساتھ ایک بھاریبھرکم جسم جڑا ہوا ہے۔ میرا گائیڈ مجھے بتاتا ہے کہ یہ خوبصورت سانپ ۱۶ فٹ لمبی مادہ ہے جسکا وزن تقریباً ۸۰ کلو ہے۔ اگرچہ اُسکا جسم ٹیلیفون کے کھمبے جتنا موٹا ہے توبھی مجھے پتہ چلا کہ یہ عالمی ریکارڈ رکھنی والی تقریباً ۲۲۷ کلو کی گولمٹول ایناکونڈا کے مقابلے میں ”ہیچ“ ہے جسے ۱۹۶۰ میں پکڑا گیا تھا!
نر ایناکونڈا تو اتنی حیرانکُن جسامت تک پہنچنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اگرچہ ہرپیٹالوجسٹ یہ جانتے تھے کہ نر ایناکونڈاز مادہ ایناکونڈاز سے عموماً چھوٹے ہوتے ہیں لیکن تحقیق سے انکشاف ہوا کہ نر ایناکونڈاز اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ یہ مادہ کا بچپن معلوم ہوتے ہیں۔ درحقیقت، تحقیق نے ظاہر کِیا ہے کہ نر کی نسبت مادہ اوسطاً پانچ گُنا بڑی ہوتی ہیں۔ دونوں کی
جسامت میں اتنا بڑا فرق مغالطہآمیز بھی ہو سکتا ہے جسکا ماہرِحیاتیات کاسس رائباس کو تجربہ ہوا۔ اُس نے ایک چھوٹا ایناکونڈا پالا ہوا تھا مگر وہ ہمیشہ یہ سوچتا تھا کہ یہ اتنا چھوٹا ہونے کے باوجود بھی کاٹتا کیوں رہتا ہے۔ تحقیق کے دوران ہی اُس پر یہ ظاہر ہوا کہ دراصل اُس نے تو ایک جوان اور غصیلے نر ایناکونڈا کو پالا ہوا تھا!لائیں اور انعام پائیں!
اگرچہ ایناکونڈا کا وزن اُسکی نمایاں خوبی ہے تاہم اُسکی لمبائی بھی اُتنی ہی متاثرکُن ہوتی ہے۔ سچ ہے کہ ایناکونڈاز اِتنے بھی بڑے نہیں ہوتے جتنا کہ ہالیوڈ اُنہیں دکھاتا ہے—ایک فلم نے ۴۰ فٹ لمبا ایناکونڈا دکھایا جسکا جسم ایک زمیندوز سُرنگ جتنا چوڑا تھا—توبھی اُنکی ۳۰ فٹ کی انتہائی لمبائی کی بابت سوچنے سے ہی اوسان خطا ہو جاتے ہیں۔
ایسی جسامت والے ایناکونڈاز کی تعداد بہت کم ہے۔ تحقیق کے دوران پکڑی جانی والی مادہ ایناکونڈاز کا وزن ۹۰ کلوگرام اور لمبائی تقریباً ۱۷ فٹ تھی۔ درحقیقت، بڑے ایناکونڈاز کو تلاش کرنا اتنا مشکل ہے کہ کوئی ۹۰ سال قبل نیو یارک زولاجیکل سوسائٹی (ڈبلیوسیایس کی پیشرو) نے ۳۰ فٹ سے لمبا زندہ سانپ پکڑنے والے کیلئے ۰۰۰،۱ ڈالر کے انعام کی پیشکش کی جسے آج تک کوئی بھی حاصل نہیں کر سکا۔ مسٹر ہولمسٹروم کا کہنا ہے کہ ”جنوبی امریکہ سے ہمیں ہر سال دو یا تین لوگوں کیطرف سے فون آتے ہیں جو اس انعام کو حاصل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر جب ہم اُن سے اسکا ثبوت مانگتے ہیں تاکہ ہم وہاں جا کر چھانبین کر سکیں تو کوئی بھی ثبوت نہیں آتا۔“ بہرصورت، اس وقت ۳۰ فٹ لمبے سانپ پر انعام ۰۰۰،۵۰ ڈالر ہے!
آمناسامنا
اپنے گائیڈ کے پیچھےپیچھے چلتے ہوئے ہم خزندہ گھر کی دوسری منزل پر پہنچ گئے جہاں انہیں نسلکشی کے لئے رکھا جاتا ہے۔ یہ جگہ کافی گرممرطوب ہے۔ میری دلچسپی کی چیز مجھے آمنےسامنے دکھانے کے لئے، مسٹر ہولمسٹروم ایک ایسی جگہ کا دروازہ کھولتا ہے جہاں ایک موٹیتازی ایناکونڈا رکھی گئی ہے۔
اس وقت ہمارے اور اس جانور کے درمیان تقریباً آٹھ فٹ کے فاصلے کے علاوہ اَور کچھ نہیں ہے۔ اب، ایناکونڈا کا سر اُوپر اُٹھتا ہوا آہستہآہستہ ہماری طرف بڑھ رہا ہے۔ ایناکونڈا کے سر اور ہمارے سروں کے درمیان صرف تین فٹ کا فاصلہ رہ گیا ہے۔
”اچھا ہوگا کہ ہم واپس چلے جائیں،“ مسٹر ہولمسٹروم کہتا ہے کیونکہ ”شاید وہ خوراک کی تلاش میں ہے۔“ مَیں نے فوراً کہا کہ ٹھیک ہے۔ وہ دروازہ بند کرتا ہے اور ایناکونڈا کا سر آہستہآہستہ پیچھے سرکتا ہوا اُسکے کنڈلدار جسم کے وسط میں جاکر رُک جاتا ہے۔
اگر آپ ایناکونڈا کی غضبناک آنکھوں کو نظرانداز کر کے اُسکے سُرخ دھاریدار سر کو بغور دیکھ سکیں تو آپ دیکھیں گے کہ اسکا ناکنقشہ بہت ہی خوبصورت ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، ایناکونڈا کی آنکھیں اور نتھنے سر کے بالکل اُوپر ہوتے ہیں۔ مگرمچھ کی طرح یہ سانپ اپنے سر اور سارے جسم کو زیرِآب لیجانے اور صرف آنکھیں اور نتھنے پانی کے اوپر رکھنے کے قابل ہوتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ کیسے یہ سانپ چھپ کر اپنے شکار پر وار کرتا ہے۔
سخت کنڈل اور ڈھیلے جبڑے
ایناکونڈا زہریلا نہیں ہوتا۔ وہ اپنے شکار کے گرد اپنی کنڈلی کا گھیرا سخت کرنے سے اُسے ہلاک کرتا ہے۔ یہ اپنے شکار کو بھینچ کر ہلاک نہیں کرتا بلکہ ہر مرتبہ جب شکار سانس لیتا ہے تو یہ اُس کے گرد گھیرے کو تنگ کرتا جاتا ہے جس سے بالآخر شکار بےدم ہو جاتا۔ بطخ سے لیکر ہرن تک تقریباً ہر چیز اسکا نشانہ بنتی ہے۔ تاہم، ایناکونڈاز کے انسانوں کو کھا جانے کی رپورٹیں بہت کم سننے کو ملتی ہیں۔
چونکہ سانپ اپنی خوراک کو نہ تو چباتے اور نہ ہی اُسے چیرپھاڑ سکتے ہیں اسلئے ایناکونڈا کے پاس اپنے مُردہ شکار کو نگلنے کے سوا اَور کوئی چارہ نہیں ہوتا خواہ شکار سانپ سے بھی کافی بڑا ہی کیوں نہ ہو۔ درحقیقت، اگر آپ خوراک کو ایناکونڈا کی طرح کھانے کے قابل ہوتے تو آپ ثابت ناریل کو اپنے ہونٹوں میں لپیٹ کر مونگپھلی کی طرح آسانی سے نگل سکتے تھے۔ ایناکونڈا یہ کیسے کرتا ہے؟
مسٹر ہولمسٹروم بیان کرتا ہے، ”یہ اپنا سر شکار کے اُوپر پھیرتا ہے۔“ وہ وضاحت کرتا ہے کہ ایناکونڈا کے جبڑے اُسکے سر کیساتھ تھوڑے ڈھیلے جڑے ہوتے ہیں۔ بھاریبھرکم شکار میں اپنے دانت گاڑنے سے پہلے، اسکا نچلا جبڑا نیچے جھک کر پھیل جاتا ہے۔ اِسکے بعد ایناکونڈا اپنے نچلے جبڑے کو ایک طرف سے آگے لاتا ہے، اپنے خمدار دانتوں کو شکار میں گاڑ دیتا ہے اور جبڑے کے اُس حصے اور شکار کو اپنے مُنہ کے اندر کی طرف کھینچتا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنے نچلے جبڑے کے دوسرے حصے کیساتھ بھی ایسا ہی کرتا ہے۔ کسی حد تک اُوپر والا جبڑا بھی ایسا کام کر سکتا ہے۔ آگے پیچھے حرکت کرنے کے اس عمل کیساتھ اس جانور کا جبڑا ایسے نظر آتا ہے گویا وہ شکار کے اُوپر چل رہا ہے۔ ایک بار جب وہ شکار کو نگل لیتا ہے جس میں شاید کئی گھنٹے لگ سکتے ہیں تو سانپ چند جمائیاں لیتا ہے جس سے اُسکے لچکدار سر کے مختلف حصے اپنی اصلی حالت میں آ جاتے ہیں۔
کونسی چیز ایناکونڈا کو دم گھٹنے سے بچاتی ہے؟ اُسکے مُنہ کے نیچے لگی ہوئی ہوا کی ایک نالی جو اندر باہر حرکت کر سکتی ہے۔ جب ایناکونڈا خوراک اندر لے جا رہا ہوتا ہے تو وہ اپنی ہوا کی نالی کو اپنے مُنہ میں آگے کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ اس طرح سے، دمنینما ہوا کی نالی ایناکونڈا کو کھانے کے دوران سانس لینے کے قابل بناتی ہے۔
کون کیا ہے؟
اب میرا گائیڈ مصنوعی طور پر تیار کئے گئے ایک جانور گھر (ٹرریریم) کا ڈھکن اُٹھاتا ہے اور ہمیں نیچے دو چھوٹے ایناکونڈاز نظر آتے ہیں۔ اُنکی ایک جیسی شکلیں مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں کہ محققین اُن سینکڑوں جنگلی ایناکونڈاز میں فرق کیسے کر سکتے تھے جن پر اُنہوں نے وینزویلا میں اپنے پراجیکٹ کے دوران تحقیق کی تھی۔
مسٹر ہولمسٹروم بیان کرتا ہے کہ اُنہوں نے پیپر کلپ سے چھوٹے چھوٹے آلات تیار کرنے سے شناخت کے اس مسئلے پر قابو پانے کی کوشش کی تھی۔ اُنہوں نے ان ”آلات“ کو گرم کر کے ایناکونڈاز کے سروں پر چھوٹےچھوٹے نمبر داغ دئے تھے۔ یہ طریقہ اُس وقت تک کارگر ثابت ہوا جبتک سانپوں نے اپنی کینچلی بدلنے کیساتھ ساتھ اپنا نمبر بھی بدل دیا! تاہم، ماہرین نے مشاہدہ کِیا کہ ہر ایناکونڈا پر پہلے ہی سے اُسکا اپنا شناختی نشان ہوتا ہے۔ ہر سانپ کی دُم کے نچلے زرد حصے پر کالے دھبوں کا ایک نمونہ بنا ہوتا ہے جوکہ انسانوں کی انگلیوں کے نشانات کی مانند ہر سانپ کے سلسلے میں منفرد ہوتے ہیں۔ ”ہمیں صرف جِلد پر بنے ہوئے اس نمونے کا ایک ۱۵ سکیل کی لمبائی کا ڈائیگرام تیار کرنا پڑا جس سے ہم زیرِتحقیق ۸۰۰ مختلف سانپوں میں فرق کر سکتے تھے۔“
تیزرفتار، کثیرالتخم یا زورآور؟
مسٹر ہولمسٹروم کے دفتر میں انٹرویو کے اختتام پر، وہ مجھے وینزویلا میں نر ایناکونڈاز کی اُتاری گئی ایک تصویر دکھاتا ہے جس میں وہ سب ایک دوسرے کے گرد لپٹے ہوئے تھے۔ یہ نہایت مسحورکُن منظر ہے۔ اُس نے وضاحت کی کہ ایک دوسرے میں اُلجھے ہوئے یہ ایناکونڈاز دراصل نسلکشی کر رہے ہیں۔ (صفحہ ۲۶ کی تصویر دیکھیں۔) ”ان کے بیچ کہیں نہ کہیں ایک مادہ ایناکونڈا موجود ہے۔ ایک مرتبہ ہم نے دیکھا کہ ایک مادہ کے اِردگرد ۱۳ نر ایناکونڈا لپٹے ہوئے تھے—ابھی تک اسطرح کا کوئی اَور منظر دیکھنے میں نہیں آیا۔“
کیا نر آپس میں لڑتے ہیں؟ کسی حد تک یہ سُست رفتار کشتی ہوتی ہے۔ مقابلہ کرنے والا ہر نر دوسروں کو پیچھے دھکیل کر خود کو مادہ کیساتھ جفتی حالت میں لانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ مقابلہ دو تا چار ہفتے بھی جاری رہ سکتا ہے۔ جیت کس کی ہوتی ہے؟ تیزرفتار (سب سے پہلے مادہ تک پہنچنے والا نر)، کثیرالتخم (سب سے زیادہ تولیدی مادہ خارج کرنے والا نر) یاپھر زورآور (مقابلے میں دوسروں پر غالب آنے والا نر) کی؟ ماہرین کو اُمید ہے کہ وہ جلد ہی اسکا جواب تلاش کر لینگے۔
اس سہپہر کے اختتام پر، مَیں نے اس دلچسپ دورے کیلئے اپنے گائیڈ کا شکریہ ادا کِیا۔ جب مَیں اپنے دفتر واپس آ رہا تھا تو مَیں اس سوچ میں ڈوبا ہوا تھا کہ مَیں کیا کچھ سیکھ کر آیا ہوں۔ سچ ہے کہ مَیں ابھی بھی ماہرِحیاتیات کاسس رائباس کی اس رائے سے اتفاق نہیں کرتا کہ ”ایناکونڈاز اچھی تفریح فراہم کرتے ہیں،“ البتہ یہ ضرور تسلیم کرتا ہوں کہ ایناکونڈاز واقعی میری توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔ ماہرین کی جنگل میں ایناکونڈاز پر جاری تحقیق کیساتھ ساتھ یہ دیکھنا ہے کہ یہ جسیم سانپ مزید کونسے دلکش راز آشکارا کرتے ہیں۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 4 ونیزویلا کے وائلڈلائف ڈیپارٹمنٹ اور کنونشن آن انٹرنیشنل ٹریڈ اِن اینڈینجرڈ سپیشیز آف وائلڈ فلورا اینڈ فونا کے شرکاء نے اس تحقیق کی مالی معاونت کی تھی۔
^ پیراگراف 11 جلتھلیوں اور خزندوں پر تحقیق کرنے والی سوسائٹی کا شائعکردہ جرنل آف ہرپیٹالوجی، نمبر ۴، ۱۹۹۷، صفحہ ۶۰۷-۶۰۹۔
[صفحہ ۲۴ پر تصویر]
ولیم ہولمسٹروم
[صفحہ ۲۵ پر تصویر]
وینزویلا میں ایناکونڈا پر تحقیق
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
ایناکونڈا کی نسلکشی