جب دائمی مرض خاندان پر حملہآور ہوتا ہے
جب دائمی مرض خاندان پر حملہآور ہوتا ہے
دیتوئی خاندان کی خوشی دوسروں کیلئے نہایت متاثرکُن ہے۔ اُنکی پُرتپاک باہمی محبت قابلِدید ہے۔ اُن سے ملکر آپکو کبھی بھی یہ محسوس نہیں ہوگا کہ وہ کس کرب سے گزرے ہیں۔
اُن پر مصیبتوں کے پہاڑ اُس وقت ٹوٹنا شروع ہوئے جب برام اور این کو یہ پتہ چلا کہ اُنکی پہلی بچی، دوسالہ مشعل، عضلات کو کمزور کر دینے والی موروثی دائمی بیماری میں مبتلا ہے۔
”اچانک ہی،“ اُسکی ماں این بیان کرتی ہے، ”آپکو معذور کر دینے والے دائمی مرض کیساتھ نپٹنے کی بابت سیکھنے کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ آپکو اس بات کا احساس ہو جاتا ہے کہ خاندانی زندگی اب پہلے جیسی نہیں رہیگی۔“
بعدازاں، جب ایک اَور بیٹی اور بیٹا پیدا ہوئے تو یہ خاندان ایک دوسرے المیے کا شکار ہو گیا۔ ایک دن جب تینوں بچے باہر کھیل رہے تھے تو دونوں لڑکیاں شور مچاتی ہوئی گھر آئیں۔ ”ماں! ماں! جلدی آؤ۔ دیکھو نیل کو کیا ہو گیا ہے!“
جب این بھاگتی ہوئی باہر آئی تو اُس نے دیکھا کہ تینسالہ نیل بےبس پڑا ہے اور اُس کا سر ایک طرف لٹکا ہوا ہے۔ وہ اپنا سر سیدھا نہیں کر پا رہا تھا۔
این یاد کرتی ہے کہ ”یہ ایک ہولناک صدمہ تھا اور یہ سب کچھ آناًفاناً ہو گیا تھا۔ مَیں اس بات سے نہایت دلشکستہ ہو گئی کہ اب اس صحتمند بچے کو بھی عضلات کو کمزور کر دینے والی اُسی بیماری کیساتھ زندگی گزارنے کے چیلنج کا سامنا کرنا پڑیگا جس میں اُسکی بڑی بہن مبتلا ہے۔“
اُنکا باپ برام کہتا ہے، ”ہمارے تجربے میں آنے والے ان بڑے مسائل کی وجہ سے صحتمند گھرانے کیساتھ زندگی کا آغاز کرنے کی خوشی جلد ہی ماند پڑ گئی۔“
بالآخر، مشعل ہسپتال میں بہترین علاج کے باوجود، اپنی بیماری کی پیچیدگیوں کے باعث وفات پا گئی۔ اُس وقت وہ صرف ۱۴ برس کی تھی۔ نیل ابھی تک اپنی بیماری کا مقابلہ کر رہا ہے۔
اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دیتوئی جیسے خاندان دائمی مرض میں مبتلا فرد کی دیکھبھال کے چیلنج کیساتھ کیسے نپٹ سکتے ہیں؟ اس سوال کے جواب کیلئے، آئیے چند ایسے طریقوں کا جائزہ لیں جن سے خاندان دائمی مرض سے متاثر ہوتے ہیں۔