مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

جینیاتی ردوبدل والی خوراک—‏کیا یہ آپکی صحت کیلئے اچھی ہے؟‏

جینیاتی ردوبدل والی خوراک—‏کیا یہ آپکی صحت کیلئے اچھی ہے؟‏

جینیاتی ردوبدل والی خوراک‏—‏کیا یہ آپکی صحت کیلئے اچھی ہے؟‏

آپ جہاں کہیں بھی رہتے ہوں ممکن ہے کہ آپ نے اپنے ناشتے،‏ دوپہر یا شام کے کھانے میں کچھ جینیاتی ردوبدل ‏[‏جنیٹیکلی موڈیفائیڈ ‏(‎GM‎)]‏ والی خوراک لی ہو۔‏ اس میں ایسے آلو ہو سکتے ہیں جنکو کیڑا نہیں لگتا یا پھر ایسے ٹماٹر ہو سکتے ہیں جو توڑے جانے کے بعد بھی کافی دیر تک تازہ رہتے ہیں۔‏ اگر جینیاتی ردوبدل والی خوراک یا اجزا پر لیبل نہ لگا ہو تو آپکی زبان اس میں اور قدرتی طریقے سے پیدا کی گئی خوراک میں فرق نہیں کر پائیگی۔‏

جب آپ یہ مضمون پڑھ رہے ہیں تو اس وقت بھی ارجنٹینا،‏ برازیل،‏ کینیڈا،‏ چین،‏ میکسیکو اور ریاستہائےمتحدہ میں جینیاتی ردوبدل والے سویابین،‏ مکئی،‏ توریے کے بیج اور آلو وغیرہ کاشت ہو رہے ہیں۔‏ ایک رپورٹ کے مطابق،‏ ”‏سن ۱۹۹۸ تک،‏ ریاستہائےمتحدہ میں پیدا ہونے والی ۲۵ فیصد مکئی،‏ ۳۸ فیصد سویابین اور ۴۵ فیصد کپاس کے اندر جڑی‌بوٹیوں کو ختم کرنے والی چیزوں یا پھر خود جراثیم‌کش مادہ پیدا کرنے کیلئے جینیاتی ردوبدل کِیا گیا تھا۔‏“‏ سن ۱۹۹۹ تک عالمی پیمانے پر تجارتی کاشت والے اندازاً ۱۰۰ ملین ایکڑ رقبے کو جینیاتی ردوبدل والی فصلوں سے بھر دیا گیا تھا اگرچہ یہ سب کی سب خوراک فراہم کرنے والی فصلیں نہیں تھیں۔‏

کیا جینیاتی ردوبدل والی خوراک آپکی صحت کیلئے اچھی ہے؟‏ کیا جینیاتی ردوبدل والی فصلیں پیدا کرنے کیلئے استعمال کی جانے والی سائنسی تکنیکیں ماحول کیلئے کسی طرح سے خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں؟‏ یورپ میں جینیاتی ردوبدل والی خوراک کی بابت بحث شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔‏ انگلینڈ سے ایک احتجاجی نے کہا:‏ ”‏جینیاتی ردوبدل والی خوراک کے سلسلے میں مجھے صرف ایک ہی اعتراض ہے کہ یہ غیرمحفوظ،‏ غیرمقبول اور غیرضروری ہے۔‏“‏

خوراک میں جینیاتی ردوبدل کیسے کِیا جاتا ہے؟‏

جینیاتی ردوبدل والی خوراک تیار کرنے کیلئے استعمال ہونے والے طریقۂ‌کار کو فوڈ بائیوٹیکنالوجی (‏غذائی حیاتیاتی تکنیک)‏—‏خوراک کی پیداوار کیلئے پودوں،‏ جانوروں اور نامیاتی اجسام کو بہتر بنانے کیلئے جدید جینیات کا استعمال—‏کہتے ہیں۔‏ بِلاشُبہ،‏ جاندار چیزوں میں ایسے ردوبدل کا تصور اُتنا ہی پُرانا ہے جتنی کہ خود زراعت۔‏ جانوروں کی بِلاامتیاز نسل‌کشی کی بجائے اپنے گلّے کو بہتر بنانے کیلئے بہترین بیل اور بہترین گائے سے نسل پیدا کرنے والے کسان نے درحقیقت حیاتیاتی تکنیک کا ابتدائی طریقہ ہی استعمال کِیا تھا۔‏ اسی طرح روٹی کو پھلانے کیلئے خمیر استعمال کرنے والے سب سے پہلے بیکر نے بھی ایک بہتر مصنوعہ تیار کرنے کیلئے ایک جاندار چیز کو ہی استعمال کِیا تھا۔‏ ان روایتی تکنیکوں کا ایک مشترکہ عنصر خوراک میں تبدیلی لانے کیلئے قدرتی طریقوں کا استعمال تھا۔‏

اسی طرح جدید حیاتیاتی تکنیک مصنوعات میں ردوبدل کیلئے جاندار نامیاتی اجسام کو استعمال کرتی ہے۔‏ تاہم روایتی طریقوں کے برعکس،‏ جدید حیاتیاتی تکنیک نامیاتی اجسام کے حیاتیاتی مادے میں براہِ‌راست اور درست تبدیلی کرنا ممکن بناتی ہے۔‏ علاوہ‌ازیں یہ بالکل فرق نامیاتی اجسام میں جینز کی باہمی منتقلی کو ممکن بناتی ہے جس سے ایسی مختلف انواع پیدا ہوتی ہیں جو عام روایتی طریقوں سے پیدا نہیں کی جا سکتیں۔‏ نسل‌افزائی کے ماہرین اب تو نامیاتی اجسام سے مختلف خواص—‏مثلاً،‏ مچھلی سے یخ‌بستگی کو برداشت کرنے،‏ وائرس سے بیماری کی مزاحمت کرنے اور حشرات سے مٹی کے بیکٹریا کی مزاحمت کرنے کی خصوصیات—‏کو لیکر کسی پودے کے لونی مادے میں ڈال سکتے ہیں۔‏

فرض کریں کہ ایک کسان یہ نہیں چاہتا کہ اُسکے سیب یا آلو کٹنے یا چھلنے کے بعد کالے ہو جائیں۔‏ ماہرین اس میں یوں مدد کرتے ہیں کہ وہ اُس جین کو ہی ختم کر دیتے ہیں جو کالا ہونے کا باعث بنتی ہے اور اسکی جگہ کالےپن کو روکنے والی ایک مختلف جین ڈال دیتے ہیں۔‏ یاپھر یہ فرض کر لیں کہ چقندر کی کاشت کرنے والا شخص اچھی فصل حاصل کرنے کیلئے قبل‌ازوقت بویائی کا خواہاں ہے۔‏ عام طور پر وہ ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ چقندر سرد موسم میں منجمد ہو جائینگے۔‏ اس صورت میں حیاتیاتی تکنیک سے مدد لی جاتی ہے اور کسی ایسی مچھلی کے کچھ جینز کو جو آسانی سے سرد پانی میں زندہ رہ سکتی ہے چقندر میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔‏ اس جینیاتی ردوبدل کے نتیجے میں ایسے چقندر پیدا ہوتے ہیں جو ۵.‏۶- ڈگری سینٹی‌گریڈ سے بھی کم درجۂ‌حرارت میں صحیح‌سلامت رہ سکتے ہیں حالانکہ یہ عام طور پر ان کیلئے کم سے کم درجۂ‌حرارت سے بھی دو گُنا زیادہ ہے۔‏

تاہم ایک جین کی منتقلی کے نتیجے میں سامنے آنے والی خصوصیات کی تاثیر بہت محدود ہوتی ہے۔‏ البتہ،‏ پیداوار کی شرح یا قحط‌سالی کی مزاحمت جیسی مزید پیچیدہ خصوصیات کو تبدیل کرنا ایک بالکل مختلف مسئلہ ہے۔‏ جدید سائنس ابھی تک جینز کے مکمل گروپوں کو تبدیل کرنے کے قابل نہیں ہے۔‏ بہرحال،‏ ان میں سے بیشتر جینز تو ابھی تک دریافت بھی نہیں ہوئے ہیں۔‏

ایک نیا زرعی انقلاب؟‏

فصلوں میں محدود جینیاتی ردوبدل بھی حیاتیاتی تکنیک کے حامیوں کو رجائیت‌پسندی سے معمور کر دیتا ہے۔‏ اُنکا کہنا ہے کہ جینیاتی ردوبدل والی فصلیں نئے زرعی انقلاب کا پیش‌خیمہ ہیں۔‏ حیاتیاتی تکنیک کی صنعت کا ایک لیڈر بیان کرتا ہے کہ ہر روز تقریباً ۰۰۰،‏۳۰،‏۲ کی شرح سے بڑھنے والی عالمی آبادی کے لئے ”‏زیادہ خوراک فراہم کرنے کے سلسلے میں“‏ جینی انجینیئری ”‏اُمید کی ایک کرن ہے۔‏“‏

ان فصلوں سے خوراک کی پیداوار کی قیمت میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔‏ فصلوں کو قدرتی جراثیم‌کش کے طور پر کام کرنے والے جین سے مستحکم کِیا گیا ہے جس کی بدولت کئی ایکڑ فصلوں پر زہریلی ادویات سپرے کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔‏ جن فصلوں میں ردوبدل کا عمل جاری ہے اُن میں بہت زیادہ لحمیات والی دالیں اور اناج شامل ہیں جو کہ دُنیا کے غریب ممالک کیلئے زیادہ فائدہ‌مند ہیں۔‏ ایسے ”‏طاقتور پودے“‏ اپنے مفید نئے جینز اور خصوصیات کو آئندہ نسلوں میں منتقل کر سکتے ہیں جس کے نتیجے میں غریب اور زیادہ آبادی والے ممالک کی مختتم اراضی پر کثیر فصل پیدا ہوتی ہے۔‏

حیاتیاتی تکنیک کی ایک بہت بڑی فرم کے صدر نے کہا کہ ”‏دُنیا کے کسانوں کے مستقبل کو سنوارنے کے دعوئے تو بہت کئے جاتے ہیں مگر ہم سالمی اور یک‌جینی ردوبدل کے سلسلے میں حیاتیاتی تکنیک کو استعمال کرنے سے ایسا کرکے بھی دکھائینگے کیونکہ کئی صدیوں سے نسل‌افزائی کرنے والے لوگ مختلف انواع کی نباتیات کی افزائش کیلئے ایسا ہی کرتے آئے ہیں۔‏ ہم پہلے کی نسبت کم وقت میں اچھی فصلیں پیدا کرینگے جو ہماری ضروریات کو پورا کرنے کے قابل ہونگی۔‏“‏

تاہم،‏ زرعی سائنسدانوں کے مطابق،‏ دُنیا میں خوراک کی کمی کو پورا کرنے کیلئے جینی انجینیئری کو ترقی دینے میں جلدبازی فصلوں پر جدید تحقیق کی اہمیت کو کم کر رہی ہے۔‏ اگرچہ یہ تحقیق زیادہ غیرمعمولی تو نہیں ہے مگر یہ زیادہ مؤثر ضرور ہے اور دُنیا کے غریب‌ترین ممالک کو بہت فائدہ پہنچا سکتی ہے۔‏ فصلوں کی بیماریوں کی روک‌تھام میں ماہر،‏ ہینز ہیرن بیان کرتا ہے کہ ”‏جب خوراک کے مسائل کے دیگر مؤثر حل موجود ہیں تو پھر ہمیں اس غیرمصدقہ تکنیک کی طرف مائل ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‏“‏

اخلاقیاتی تفکرات

صحتِ‌عامہ اور ماحولیاتی خطرات کے علاوہ بعض لوگ محسوس کرتے ہیں کہ فصلوں اور دیگر جاندار نامیاتی اجسام میں جینیاتی ردوبدل اخلاقی اور نسلیاتی چیلنج پیش کرتا ہے۔‏ سائنسدان اور فعالیت‌پسند ڈگلس پار نے مشاہدہ کِیا:‏ ”‏جینی انجینیئری اس کرۂارض کی چیزوں کے استعمال کے سلسلے میں انسان کیلئے مقررہ حد کو پار کرکے زندگی کی اصلی صورت کو ہی بدل دیتی ہے۔‏“‏ کتاب دی بائیوٹیک سنچری کا مصنف جرمی رفکن اسے یوں بیان کرتا ہے:‏ ”‏ایک مرتبہ جب آپ تمام حیاتیاتی حدود کو پار کر لیتے ہیں تو پھر زندگی کی مختلف اقسام آپکو محض جینیاتی معلومات فراہم کرنے کا ذریعہ دکھائی دیتی ہیں جنہیں بآسانی تبدیلی کِیا جا سکتا ہے۔‏ اس سے نہ صرف فطرت کیساتھ ہمارا تعلق بلکہ اس کے طرزِاستعمال کی بابت ہمارا نقطۂ‌نظر بھی بالکل بدل جاتا ہے۔‏“‏ لہٰذا اُس نے استفسار کِیا:‏ ”‏زندگی کی گوناگوں اقسام کا کوئی خاص مقصد بھی ہے یا یہ محض نوعِ‌انسان کے لطف‌وآرام کیلئے ہیں؟‏ آئندہ نسلوں کے سلسلے میں ہماری کیا ذمہ‌داری ہے؟‏ جن مخلوقات کیساتھ ہم رہتے ہیں اُن کیلئے ہماری کیا ذمہ‌داری ہے؟‏“‏

انگلینڈ کے پرنس چارلس سمیت دیگر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ ایک دوسرے سے بالکل فرق انواع میں جینز منتقل کرنے سے ہم ”‏خدا کے دائرۂاختیار میں مداخلت کرتے ہیں۔‏“‏ بائبل کے طالبعلم قطعی طور پر یہ ایمان رکھتے ہیں کہ ”‏زندگی کا چشمہ“‏ خدا ہی ہے۔‏ (‏زبور ۳۶:‏۹‏)‏ تاہم،‏ اس بات کا کوئی واضح ثبوت نہیں ہے کہ خدا جانوروں اور پودوں میں منتخبہ افزائشِ‌نسل کو پسند نہیں کرتا ہے کیونکہ انکی وجہ سے تو اربوں لوگوں کی زندگی قائم‌ودائم رکھنے میں ہمارے سیارے کی مدد ہوئی ہے۔‏ وقت ہی بتائے گا کہ آیا جدید حیاتیاتی تکنیک انسانوں اور ماحول کو نقصان پہنچاتی ہے یا نہیں۔‏ اگر حیاتیاتی تکنیک واقعی ”‏خدا کے دائرۂاختیار میں مداخلت“‏ کرتی ہے تو انسانوں کیلئے محبت اور فکرمندی کے باعث وہ اسکے اثرات کو زائل کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۱۷ پر بکس]‏

امکانی خطرات؟‏

حیاتیاتی تکنیک نے اتنی تیزی سے ترقی کی ہے کہ قانون اور مقنّنہ اس کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کے قابل نہیں ہیں۔‏ تحقیق شاید ہی غیرمتوقع نتائج کو برپا ہونے سے روک سکے۔‏ ناقدین کی بڑی تعداد ایسے غیرارادی نتائج سے آگاہ کرتی ہے جو دُنیابھر کے کسانوں کیلئے شدید معاشی بدنظمی سے لیکر ماحولیاتی بربادی اور انسانی صحت کیلئے خطرے پر منتج ہو سکتے ہیں۔‏ محققین آگاہ کرتے ہیں کہ بڑے پیمانے پر کوئی ایسے طویل‌المیعاد تجربات نہیں کئے جا سکتے جو جینیاتی ردوبدل والی خوراک کے محفوظ ہونے کی ضمانت دے سکیں۔‏ وہ کئی امکانی خطرات کی نشاندہی کرتے ہیں۔‏

● الرجی۔‏ مثال کے طور پر اگر الرجی کا باعث بننے والے پروٹین کو پیدا کرنے والا کوئی جین مکئی میں منتقل کر دیا جائے تو جن لوگوں کو مختلف غذاؤں سے الرجی ہوتی ہے اُن کیلئے یہ بہت زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔‏ محکمۂ‌خوراک کمپنیوں سے تقاضا کرتا ہے کہ اُنہیں غذا میں کسی قسم کے مُضر پروٹین شامل ہونے کی صورت میں رپورٹ کرنی چاہئے کیونکہ بعض محققین اس اندیشے کا اظہار کرتے ہیں کہ بصورتِ‌دیگر نامعلوم الرجینز ہماری نظر سے بچ کر آگے جا سکتے ہیں۔‏

● اضافی زہرآلودگی۔‏ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ جینیاتی ردوبدل غیرمتوقع طریقوں سے پودوں کے قدرتی ٹاکسن میں اضافہ کر سکتا ہے۔‏ جب کسی جین کو فعال بنایا جاتا ہے تو خاطرخواہ اثر پیدا کرنے کیساتھ ساتھ یہ قدرتی ٹاکسن بھی پیدا کر سکتا ہے۔‏

● جراثیم‌کُش ادویات کی مزاحمت۔‏ پودوں کے اندر جینیاتی ردوبدل کے دوران سائنسدان مارکر جینز استعمال کرتے ہیں جن سے یہ طے کِیا جاتا ہے کہ آیا حسبِ‌منشا جین کامیابی سے داخل ہو گیا ہے یا نہیں۔‏ بیشتر مارکر جینز جراثیم‌کش ادویات کی مزاحمت کرتے ہیں اسلئے ناقدین کو اس بات کا خدشہ ہے کہ یہ جراثیم‌کش ادویات کی مزاحمت کے بڑھتے ہوئے مسئلے میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔‏ تاہم،‏ دیگر سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ان مارکر جینز میں استعمال سے پہلے جینیاتی انتشار پیدا کِیا جاتا ہے جو اس خطرے کو خارج‌ازامکان بنا دیتا ہے۔‏

● ”‏طاقتور جڑی‌بوٹیوں“‏ میں اضافہ۔‏ سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ جب ردوبدل والی فصلوں کی بویائی ہو جاتی ہے تو پھر جینز بیجوں اور زرگل کے ذریعے آس‌پاس کی جڑی‌بوٹیوں میں داخل ہو جائینگے جس سے مُضر نباتات کو ختم کرنے والے کیمیائی مادوں کی مزاحمت کرنے والی ”‏طاقتور جڑی‌بوٹیاں“‏ پیدا ہو سکتی ہیں۔‏

● دیگر نامیاتی اجسام کیلئے نقصان۔‏ مئی ۱۹۹۹ میں،‏ کارنل یونیورسٹی کے محققین نے رپورٹ پیش کی کہ جن شاہ‌تِتلی سنڈیوں نے جینیاتی ردوبدل والی مکئی کے زرگل والے پتے کھائے وہ بیمار ہو کر مر گئیں۔‏ اگرچہ بعض اس تحقیق کی صداقت پر شک کرتے ہیں توبھی اس کی بابت کسی حد تک تشویش کا اظہار کِیا جا رہا ہے کہ جو انواع جراثیم‌کش ادویات کا نشانہ نہیں ہوتیں اُنہیں بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔‏

● محفوظ کیڑےمار ادویات کا خاتمہ۔‏ جینیاتی ردوبدل والی انتہائی کامیاب فصلوں میں سے بعض ایسی ہیں جن میں کیڑےمکوڑوں کو مارنے کیلئے زہریلی پروٹین والی جین ہوتی ہے۔‏ تاہم،‏ ماہرینِ‌حیاتیات آگاہ کرتے ہیں کہ کیڑےمکوڑوں کو اس جنین سے پیدا ہونے والی ٹاکسن کے زیرِاثر لانا اُنہیں قوتِ‌مزاحمت پیدا کرنے میں مدد دیگا اور یوں کیڑےمار ادویات کو بالکل ناکارہ بنا دیگا۔‏