مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

خاندان دائمی مرض سے کیسے نپٹتے ہیں

خاندان دائمی مرض سے کیسے نپٹتے ہیں

خاندان دائمی مرض سے کیسے نپٹتے ہیں

نپٹنے کی تعریف ”‏درپیش مسائل یا دباؤ کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کرنے کی صلاحیت“‏ کے طور پر کی جا سکتی ہے۔‏ ‏(‏ٹیبرز سائیکلوپیڈک میڈیکل ڈکشنری)‏ اس میں دائمی مرض کا اس طریقے سے مقابلہ کرنا شامل ہے کہ آپ کسی حد تک اس پر قابو پاکر ذہنی سکون برقرار رکھنے کے قابل ہو سکیں۔‏ علاوہ‌ازیں،‏ اس حقیقت کے پیشِ‌نظر کے دائمی مرض ایک خاندانی مسئلہ ہوتا ہے،‏ کامیابی کیساتھ اس سے نپٹنے کیلئے خاندان کے ہر فرد کی طرف سے مشفقانہ اور وفادارانہ حمایت درکار ہوتی ہے۔‏ آئیے بعض ایسے طریقوں پر غور کریں جن سے خاندان دائمی مرض کیساتھ نپٹنے کے قابل ہوئے ہیں۔‏

علم کی اہمیت

بیماری کا تدارک تو شاید ممکن نہ ہو مگر بیماری کیساتھ نپٹنے کے طریقے سے آگاہ ہونا اسکے دماغی اور جذباتی اثر کو کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔‏ ایک قدیم مثل اس بات کی حمایت میں یوں بیان کرتی ہے:‏ ’‏صاحبِ‌علم زورآور ہے۔‏‘‏ (‏امثال ۲۴:‏۵‏)‏ ایک خاندان بیماری سے نپٹنے کے طریقے کی بابت کیسے علم حاصل کر سکتا ہے؟‏

سب سے پہلے تو ایسے ڈاکٹر سے رُجوع کرنا ضروری ہے جو باہمی گفتگو اور مدد کرنے پر آمادہ ہو یعنی جس کے پاس مریض اور خاندان کو بڑی احتیاط کیساتھ تمام حالات سے آگاہ کرنے کا وقت ہو۔‏ کتاب اے سپیشل چائلڈ اِن دی فیملی بیان کرتی ہے کہ ”‏ایک موزوں ڈاکٹر میں درکار طبّی مہارتوں کے علاوہ پورے خاندان کیلئے فکرمندی کا جذبہ بھی ہوتا ہے۔‏“‏

اگلا قدم یہ ہے کہ آپ اُس وقت تک واضح اور اہم سوالات پوچھتے رہیں جب تک کہ آپ تمام صورتحال سے بخوبی واقف نہیں ہو جاتے۔‏ تاہم،‏ یاد رکھیں کہ جب آپ ڈاکٹر کے پاس ہوتے ہیں تو گھبراہٹ کے باعث آپ بڑی آسانی سے وہ ساری باتیں بھول جاتے ہیں جو آپ پوچھنا چاہتے تھے۔‏ ایک معاون تجویز یہ ہے کہ آپ پیش‌ازوقت سوالات کی فہرست تیار کر لیں۔‏ خاص طور پر آپ شاید یہ جاننا چاہیں کہ بیماری اور علاج سے کیا توقع کی جا سکتی ہے اور اسکی بابت کیا کِیا جا سکتا ہے۔‏—‏دیکھیں بکس ”‏ایک خاندان ڈاکٹر سے مندرجہ‌ذیل سوال پوچھ سکتا ہے۔‏“‏

دائمی مرض میں مبتلا بچے کے بہن بھائیوں کو معقول معلومات فراہم کرنا نہایت ضروری ہے۔‏ ”‏وضاحت کریں کہ شروع ہی سے کیا مسئلہ ہے،‏“‏ ایک ماں سفارش کرتی ہے۔‏ ”‏اگر وہ صورتحال کو سمجھ نہیں پاتے تو اُنہیں یہ احساس ہونے لگے گا کہ وہ شاید خاندان کا حصہ نہیں ہیں۔‏“‏

بعض خاندان مقامی لائبریری میں،‏ کتابوں کی دُکان پر یا پھر انٹرنیٹ پر تحقیق کرنے سے بعض بیماریوں کی بابت مفصل اور مفید معلومات حاصل کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔‏

معقول معیارِزندگی برقرار رکھنا

یہ فطری بات ہے کہ خاندان کے افراد مریض کیلئے معقول معیارِزندگی برقرار رکھنے کے خواہاں ہونگے۔‏ مثال کے طور پر،‏ پہلے مضمون میں متذکرہ نیل دیتوئی پر غور کیجئے۔‏ وہ ابھی تک اپنی بیماری کے معذور کر دینے والے اثرات کی وجہ سے مایوس ہو جاتا ہے۔‏ تاہم،‏ وہ ہر مہینے تقریباً ۷۰ گھنٹے اپنے علاقے کے لوگوں سے بائبل پر مبنی اُمید کی بابت گفتگو کرنے میں صرف کرتا ہے جس سے اُسے بےانتہا خوشی حاصل ہوتی ہے۔‏ وہ کہتا ہے کہ ”‏کلیسیا میں بائبل کی تعلیم دینے سے بھی مجھے باطنی اطمینان حاصل ہوتا ہے۔‏“‏

معیاری زندگی میں دوسروں کے لئے محبت دکھانا اور اُن سے محبت حاصل کرنا،‏ مسرت‌بخش سرگرمیوں سے محظوظ ہونا اور اُمید کو قائم رکھنا بھی شامل ہے۔‏ اس کے باوجود بیماری اور علاج مریضوں کو جس حد تک زندگی سے لطف‌اندوز ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں وہ اُس سے بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہیں گے۔‏ ایک والد جس کے خاندان نے تقریباً ۲۵ سال تک بیماری کا مقابلہ کِیا،‏ بیان کرتا ہے:‏ ”‏ہمیں سیروتفریح کا تو بہت شوق ہے مگر اپنے بیٹے کی معذوری کی وجہ سے ہم زیادہ اونچے مقامات پر نہیں جا سکتے۔‏ لہٰذا ہم اسکی بجائے ایسے مقامات پر جاتے ہیں جہاں چلنےپھرنے میں زیادہ مشقت نہیں کرنی پڑتی۔‏“‏

جی‌ہاں،‏ مریضوں میں ایسی صلاحیتیں ہوتی ہیں جو اُنہیں زندگی سے کسی حد تک تسکین حاصل کرنے کے قابل بناتی ہیں۔‏ بیماری کی نوعیت کے مطابق،‏ بیشتر لوگ خوبصورت نظاروں اور آوازوں سے محظوظ ہوتے ہیں۔‏ جتنا زیادہ وہ اپنی زندگی کے مختلف حلقوں پر عبور حاصل کرتے ہیں اُتنا ہی زیادہ وہ معیاری زندگی بسر کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔‏

شدید جذبات کو قابو میں رکھنا

نقصاندہ جذبات پر قابو پانے کا ہنر سیکھنا بیماری سے نپٹنے کا ایک لازمی عنصر ہے۔‏ اِن میں سے ایک غصہ ہے۔‏ بائبل تسلیم کرتی ہے کہ ایک شخص کسی وجہ سے پریشان ہو سکتا ہے۔‏ تاہم،‏ بائبل ہمیں ”‏قہر کرنے میں دھیما“‏ ہونے کی بھی نصیحت کرتی ہے۔‏ (‏امثال ۱۴:‏۲۹‏)‏ ایسا کرنا دانشمندانہ بات کیوں ہے؟‏ ایک حوالہ‌جاتی کتاب کے مطابق،‏ غصہ ”‏آپ کے لئے مُضر ہو سکتا ہے اور آپکے اندر اسقدر تلخی بھر سکتا ہے کہ آپ جذبات کو مجروح کرنے والی ایسی باتیں کہہ گزرینگے جن پر بعد میں آپکو پچھتانا پڑیگا۔‏“‏ محض ایک دفعہ دل کی بھڑاس نکالنے سے واقع ہونے والے نقصان کی تلافی کرنے میں بہت وقت لگ سکتا ہے۔‏

بائبل نصیحت کرتی ہے:‏ ”‏سورج کے ڈوبنے تک تمہاری خفگی نہ رہے۔‏“‏ (‏افسیوں ۴:‏۲۶‏)‏ صاف ظاہر ہے کہ ہم سورج کو غروب ہونے سے تو نہیں روک سکتے۔‏ مگر ہم اپنی ”‏خفگی“‏ کو دُور کرنے کے لئے فوری اقدام اُٹھا سکتے ہیں تاکہ ہم اپنےآپ اور دوسروں کو نقصان نہ پہنچاتے رہیں۔‏ لہٰذا جب آپ کا غصہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے تو آپ زیادہ بہتر طور پر معاملہ سلجھانے کے قابل ہوتے ہیں۔‏

دوسرے خاندانوں کی طرح،‏ آپ کے خاندان کو بھی نشیب‌وفراز کا سامنا ہوگا۔‏ بہتیرے ایسا محسوس کرتے ہیں کہ جب وہ آپس میں ایک دوسرے کو یا پھر کسی اَور ہمدرد اور مہربان شخص کو اپنا ہمراز بنا لیتے ہیں تو صورتحال سے نپٹنا آسان ہو جاتا ہے۔‏ کیتھلین کو ایسا ہی تجربہ ہوا تھا۔‏ پہلے تو اُس نے کینسر کے مرض میں مبتلا اپنی والدہ کی اور بعدازاں اپنے شوہر کی دیکھ‌بھال کی جو دائمی ڈیپریشن اور انجام‌کار الزیمر کے مرض کا شکار ہو گیا تھا۔‏ وہ تسلیم کرتی ہے:‏ ”‏جب مَیں اسکی بابت ہمدرد ساتھیوں کیساتھ گفتگو کرنے کے قابل ہو گئی تو یہ میرے لئے واقعی تسکین اور اطمینان کا باعث ثابت ہوا۔‏“‏ دو سال تک اپنی والدہ کی دیکھ‌بھال کرنے والی روزمیری بھی اس بات سے متفق ہے۔‏ ”‏ایک سچے دوست کیساتھ گفتگو کرنے سے،‏“‏ وہ کہتی ہے،‏ ”‏مجھے اپنا توازن قائم رکھنے میں مدد ملی۔‏“‏

تاہم،‏ اگر آپ گفتگو کے دوران اپنے آنسو نہیں روک پاتے تو اس سے پریشان نہ ہوں۔‏ ”‏رونا تناؤ اور دُکھ کو کم کرنے کے علاوہ اپنے غم پر قابو پانے میں بھی آپکی مدد کرتا ہے،‏“‏ کتاب اے سپیشل چائلڈ اِن دی فیملی بیان کرتی ہے۔‏ *

مثبت رُجحان رکھیں

دانشمند بادشاہ سلیمان نے لکھا،‏ ”‏جب تُو بیمار ہو تو زندگی کی آرزو تجھے زندہ رکھے گی۔‏“‏ (‏امثال ۱۸:‏۱۴‏،‏ ٹوڈیز انگلش ورشن)‏ جدید محققین نے یہ دریافت کِیا ہے کہ مریض کی توقعات—‏خواہ منفی ہوں یا مثبت—‏اکثر اُسکے علاج کے نتائج پر اثرانداز ہوتی ہیں۔‏ تاہم،‏ طویل‌اُلمدت مرض کی صورت میں ایک خاندان کیسے پُراُمید رہ سکتا ہے؟‏

جب کوئی خاندان بیماری کو نظرانداز کئے بغیر ایسے کاموں پر توجہ دیتا ہے جو اُسکی استطاعت میں ہوتے ہیں تو وہ زیادہ بہتر طور پر اس سے نپٹنے کے قابل ہوتا ہے۔‏ ”‏صورتحال آپکو منفی سوچ میں مبتلا کر سکتی ہے،‏“‏ ایک والد تسلیم کرتا ہے،‏ ‏”‏مگر آپکو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آپ کیلئے ابھی بہت کچھ باقی ہے۔‏ ابھی آپکے پاس زندگی،‏ آپکے عزیز رشتہ‌دار اور دوست‌واحباب‌موجود ہیں۔‏“‏

دائمی مرض کو اگرچہ معمولی خیال نہیں کرنا چاہئے توبھی مزاح کی حس قنوطیت سے بچنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔‏ دیتوئی خاندان کی مزاح کی حس اس نکتے کی وضاحت کرتی ہے۔‏ نیل دیتوئی کی چھوٹی بہن کولٹ بیان کرتی ہے:‏ ”‏چونکہ ہم نے مخصوص حالات پر قابو پانا سیکھ لیا ہے اسلئے جو باتیں دوسرے لوگوں کو نہایت پریشان‌کُن دکھائی دیتی ہیں ہم اُن پر ہنستے ہیں۔‏ مگر ایسا کرنا درحقیقت تناؤ کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔‏“‏ بائبل ہمیں یقین‌دہانی کراتی ہے کہ ”‏شادمان دل شفا بخشتا ہے۔‏“‏—‏امثال ۱۷:‏۲۲‏۔‏

نہایت اہم روحانی اقدار

سچے مسیحیوں کی روحانی فلاح‌وبہبود کا ایک اہم حصہ ’‏اپنی درخواستیں دُعا اور منت کے وسیلہ سے خدا کے حضور پیش کرنا‘‏ ہے۔‏ اس سے حاصل ہونے والے فائدے کی بابت بائبل وعدہ کرتی ہے:‏ ”‏خدا کا اطمینان جو سمجھ سے بالکل باہر ہے تمہارے دلوں اور خیالوں کو مسیح یسوؔع میں محفوظ رکھیگا۔‏“‏ (‏فلپیوں ۴:‏۶،‏ ۷‏)‏ دائمی مرض میں مبتلا دو بچوں کی تقریباً ۳۰ برس تک دیکھ‌بھال کرنے کے بعد ایک ماں بیان کرتی ہے:‏ ”‏ہم نے سیکھ لیا ہے کہ ایسی صورتحال سے نپٹنے کیلئے یہوواہ آپکی مدد ضرور کرتا ہے۔‏ وہ واقعی آپکو سنبھالتا ہے۔‏“‏

مزیدبرآں،‏ بیشتر لوگ بائبل کے دُکھ‌درد سے پاک فردوسی زمین کے وعدوں سے تسلی حاصل کرتے ہیں۔‏ (‏مکاشفہ ۲۱:‏۳،‏ ۴‏)‏ ”‏ہمارے خاندان نے جن دائمی امراض کا سامنا کِیا ہے اُن کی وجہ سے،‏“‏ برام کہتا ہے،‏ ”‏ہم نے خدا کے ایسے وعدوں سے اضافی تسلی حاصل کی ہے کہ ’‏لنگڑے ہرن کی مانند چوکڑیاں بھرینگے اور گونگے کی زبان گائیگی۔‏‘‏“‏ بہتیرے دوسرے لوگوں کی طرح دیتوئی خاندان بھی بڑے اشتیاق سے اُس وقت کا منتظر ہے جب ”‏وہاں کے باشندوں میں بھی کوئی نہ کہے گا کہ مَیں بیمار ہوں۔‏“‏—‏یسعیاہ ۳۳:‏۲۴؛‏ ۳۵:‏۶‏۔‏

خاطرجمع رکھیں۔‏ انسان کا حوصلہ پست کرنے والا دُکھ‌درد بذاتِ‌خود اس بات کا ثبوت ہے کہ بہت جلد حالتیں بہتر ہونے والی ہیں۔‏ (‏لوقا ۲۱:‏۷،‏ ۱۰،‏ ۱۱‏)‏ تاہم،‏ اس اثنا میں،‏ لاکھوں مریض اور اُنکی دیکھ‌بھال کرنے والے اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ بِلاشُبہ،‏ یہوواہ،‏ ”‏رحمتوں کا باپ اور ہر طرح کی تسلی کا خدا ہے۔‏ وہ ہماری سب مصیبتوں میں ہم کو تسلی دیتا ہے۔‏“‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۱:‏۳،‏ ۴‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 17 بیماری کے جذباتی اثر پر قابو پانے کے موضوع پر مفصل معلومات کیلئے مینارِنگہبانی فروری ۸،‏ ۱۹۹۷ کے اویک!‏ صفحہ ۳-‏۱۳ کے مضمون ”‏کیئرگیونگ—‏میٹنگ دی چیلنج“‏ کو دیکھیں۔‏

‏[‏صفحہ ۸ پر بکس/‏تصویر]‏

ایک خاندان ڈاکٹر سے مندرجہ‌ذیل سوال پوچھ سکتا ہے

‏• مرض کیا صورت اختیار کریگا اور اسکا انجام کیا ہوگا؟‏

‏• اسکی علامات کیا ہونگی اور اِن پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے؟‏

‏• علاج کے کون کونسے متبادل موجود ہیں؟‏

‏• مختلف علاج‌معالجے کے ممکنہ ضمنی اثرات،‏ خطرات اور فوائد کیا ہیں؟‏

‏• صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے کیا کِیا جا سکتا ہے اور کس چیز سے گریز کرنا لازمی ہے؟‏

‏[‏صفحہ ۸ پر تصویر]‏

خاندان کے افراد کو معقول معیارِزندگی برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہئے

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

خاندان کیساتھ ملکر دُعا کرنا بیماری سے نپٹنے میں اُنکی مدد کر سکتا ہے

 

آپ کیسے مددگار ثابت ہو سکتے ہیں

بعض لوگ بیماروں کی عیادت کیلئے جانے یا مدد کی پیشکش کرنے سے محض اسلئے ہچکچاتے ہیں کہ اُنہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ جب وہ وہاں جائینگے تو کیا کہینگے یا صورتحال پر کیسے قابو پائینگے۔‏ بعض لوگ اپنی بات منوانے کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں اور وہ خود جس چیز کو مفید خیال کرتے ہیں خاندان پر اُس کے مطابق عمل کرنے کا دباؤ ڈال کر اُن کی تکلیف میں مزید اضافہ کر سکتے ہیں۔‏ پس،‏ کوئی شخص کیسے دائمی مرض میں مبتلا کسی فرد کے خاندان کیلئے اُن کے نجی معاملات میں مداخلت کئے بغیر مددگار ثابت ہو سکتا ہے؟‏

ہمدردی سے سنیں۔‏ ‏”‏سننے میں تیز .‏ .‏ .‏ ہو،‏“‏ یعقوب ۱:‏۱۹ بیان کرتی ہے۔‏ اچھے سامع بننے سے فکرمندی کا اظہار کریں اور اگر خاندان کے افراد کچھ کہنا چاہتے ہیں تو اُنہیں اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے دیں۔‏ اگر وہ محسوس کرتے ہیں کہ آپ اُن کے ”‏ہمدرد“‏ ہیں تو اُن کے لئے آپ سے بات کرنا اَور بھی زیادہ آسان ہوگا۔‏ (‏۱-‏پطرس ۳:‏⁠۸‏)‏ تاہم،‏ یاد رکھیں کہ تمام لوگ یا خاندان دائمی مرض کے سلسلے میں ایک جیسا ردِعمل نہیں دکھاتے۔‏ لہٰذا،‏ اپنی والدہ اور بعدازاں دائمی مرض میں مبتلا اپنے شوہر کی دیکھ‌بھال کرنے والی کیتھلین بیان کرتی ہے کہ ”‏اگر آپ بیماری یا صورتحال سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں تو مشورت پیش کرنے سے گریز کریں۔‏“‏ (‏امثال ۱۰:‏۱۹‏)‏ اس کے علاوہ یاد رکھیں کہ اگر آپ اس موضوع کی بابت کچھ جانتے بھی ہیں تو ہو سکتا ہے کہ مریض اور اُسکا خاندان آپ سے مشورہ لینا یا اسے قبول کرنا نہ چاہتا ہو۔‏

عملی مدد پیش کریں۔‏ اس بات کا خیال رکھیں کہ خاندان کو تنہائی کی بھی ضرورت ہے لیکن جب اُنہیں واقعی آپ کی مدد درکار ہے تو اس کیلئے خود کو دستیاب رکھیں۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۲۴‏)‏ برام،‏ جس کا اِن سلسلہ‌وار مضامین میں بارہا ذکر آیا ہے،‏ بیان کرتا ہے،‏ ”‏ہمارے مسیحی دوستوں نے ہماری بہت زیادہ مدد کی۔‏ مثال کے طور پر،‏ جب مشعل کی تشویشناک حالت کی وجہ سے ہمیں ہسپتال میں سونا پڑتا تھا تو ہمیشہ ہمارے چار سے چھ دوست رات‌بھر ہمارے ساتھ بیٹھے رہتے تھے۔‏ ہمارے لئے بوقتِ‌ضرورت مدد دستیاب رہتی تھی۔‏“‏ برام کی اہلیہ این مزید بیان کرتی ہے:‏ ”‏یہ سخت سردی کا موسم تھا اس لئے دو ہفتوں تک ہمیں اپنے دوستوں کی طرف سے ہر روز مختلف قسم کا سوپ ملتا رہا۔‏ گرم‌گرم سوپ کے علاوہ پُرتپاک محبت سے بھی ہماری دیکھ‌بھال کی گئی۔‏“‏

اُنکے ساتھ ملکر دُعا کریں۔‏ بسااوقات،‏ ممکن ہے کہ آپ اُن کی کوئی عملی مدد نہ کر سکیں۔‏ تاہم،‏ مریضوں اور اُنکے اہلِ‌خانہ کی توجہ کسی حوصلہ‌افزا صحیفے پر دلانا یا اُن کیساتھ ملکر دُعا کرنا کسی بھی دوسری چیز کی نسبت زیادہ تقویت‌بخش ثابت ہو سکتا ہے۔‏ (‏یعقوب ۵:‏۱۶‏)‏ دائمی ڈیپریشن میں مبتلا ایک ماں کا ۱۸ سالہ بیٹا،‏ نیکولس بیان کرتا ہے،‏ ”‏دائمی بیماری کے شکار لوگوں اور اُن کے خاندانوں کیلئے—‏نیز اُن کیساتھ ملکر—‏دُعا کرنے کی اثرآفرینی کو کبھی کم‌اہم خیال نہ کریں۔‏“‏

جی‌ہاں،‏ مناسب حوصلہ‌افزائی خاندانوں کو دائمی مرض کے دباؤ کا مقابلہ کرنے میں مدد دینے کیلئے بہت کچھ سرانجام دے سکتی ہے۔‏ بائبل اسے یوں بیان کرتی ہے:‏ ”‏دوست ہر وقت محبت دکھاتا ہے اور بھائی مصیبت کے دن کے لئے پیدا ہؤا ہے۔‏“‏—‏امثال ۱۷:‏۱۷‏۔‏