مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

دائمی مرض—‏ایک خاندانی مسئلہ

دائمی مرض—‏ایک خاندانی مسئلہ

دائمی مرض‏—‏ایک خاندانی مسئلہ

دائمی مرض کیا ہے؟‏ سادہ زبان میں یہ ایک طویل‌اُلمدت مرض ہے۔‏ اس کے علاوہ،‏ ایک پروفیسر دائمی مرض کی وضاحت کرتے ہوئے بیان کرتا ہے کہ ”‏یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کا علاج سادہ جراحی یا کچھ عرصہ تک طبّی علاج‌معالجے سے ممکن نہیں ہوتا۔‏“‏ دائمی مرض یا اس کے اثرات محض بیماری اور علاج کی نوعیت کی بجائے طویل مدت تک مشکل سے دوچار رہنے کی وجہ سے زیادہ چیلنج‌خیز ثابت ہوتے ہیں۔‏

مزیدبرآں،‏ دائمی مرض کے اثرات صرف مریض تک ہی محدود نہیں رہتے۔‏ ”‏بیشتر لوگ ایک خاندان کا حصہ ہوتے ہیں،‏“‏ کتاب موٹر نیورون ڈیزیز—‏اے فیملی افیئر بیان کرتی ہے،‏ ”‏لہٰذا مریض کے تجربے میں آنے والا صدمہ اور پریشانی اُسکے قریبی لوگوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔‏“‏ ایک کینسر کی مریضہ کی ماں اس کی تصدیق کرتی ہے۔‏ وہ بیان کرتی ہے کہ ”‏خاندان کا ہر فرد اس سے متاثر ہوتا ہے خواہ وہ اس کا اظہار کرے یا نہ کرے خواہ وہ اس سے آگاہ ہو یا نہ ہو۔‏“‏

بِلاشُبہ،‏ ہر ایک پر اسکا یکساں اثر تو نہیں ہوگا۔‏ تاہم،‏ اگر خاندان کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دائمی مرض عمومی طور پر کیسے لوگوں پر اثرانداز ہوتا ہے تو وہ درپیش صورتحال کے مخصوص چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لئے بہتر حالت میں ہونگے۔‏ علاوہ‌ازیں،‏ اگر خاندانی حلقے سے باہر کے لوگ—‏ساتھی کارکُن،‏ ہم‌مکتب،‏ پڑوسی،‏ دوست‌احباب—‏دائمی مرض کے اثرات کو سمجھتے ہیں تو وہ مفید اور ہمدردانہ حمایت پیش کرنے کے قابل ہونگے۔‏ اس بات کے پیشِ‌نظر،‏ آئیے بعض ایسے طریقوں پر غور کریں جن سے خاندان دائمی مرض سے متاثر ہو سکتے ہیں۔‏

ایک اجنبی ملک کا سفر

دائمی مرض کے سلسلے میں کسی خاندان کے تجربے کو ایک اجنبی ملک کا سفر کرنے سے تشبِیہ دی جا سکتی ہے۔‏ بعض چیزیں تو آبائی ملک جیسی ہی ہونگی مگر دیگر غیرمانوس یا پھر یکسر فرق ہونگی۔‏ جب دائمی مرض خاندان کے کسی فرد پر حملہ‌آور ہوتا ہے تو خاندان کے طرزِزندگی میں کوئی نمایاں تبدیلی تو نہیں آئیگی۔‏ تاہم،‏ کچھ تبدیلیاں ضرور رُونما ہونگی۔‏

پہلی بات تو یہ ہے کہ مرض خاندان کے روزمرّہ کے معمول پر اثرانداز ہونے کے علاوہ ہر فرد کو اس سے نپٹنے کیلئے ردوبدل کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔‏ اسکی تصدیق ۱۴ سالہ ہیلن کرتی ہے جسکی والدہ شدید دائمی ڈیپریشن کا شکار ہے۔‏ وہ بیان کرتی ہے،‏ ”‏ہم اپنے شیڈول کو ہر روز امی کی ضروریات کے مطابق ترتیب دیتے ہیں۔‏“‏

بعض‌اوقات بیماری کے لئے تجویزکردہ علاج بھی فائدے کی بجائے خاندان کے نئے معمول میں مزید خلل پیدا کر سکتا ہے۔‏ پچھلے مضمون میں متذکرہ برام اور این کی مثال پر غور کریں۔‏ برام کہتا ہے کہ ”‏ہمیں اپنے بچوں کے علاج کی وجہ سے اپنے روزانہ کے معمول میں کافی زیادہ ردوبدل کرنا پڑا۔‏“‏ این بیان کرتی ہے:‏ ”‏ہمیں ہر روز ہسپتال کے چکر لگانے پڑتے تھے۔‏ اسکے علاوہ،‏ ڈاکٹر نے تجویز کِیا کہ بچوں کے اندر بیماری کی وجہ سے پیدا ہونے والی غذائی کمزوریوں کو پورا کرنے کے لئے ہم اُنہیں دن میں چھ مرتبہ کھانا کھلائیں۔‏ اب مجھے بالکل نئے طریقے سے کھانا پکانا پڑتا تھا۔‏“‏ اس کے علاوہ عضلات کو مضبوط بنانے والی مجوزہ ورزشیں کرنے میں بچوں کی مدد کرنا اس سے بھی بڑا چیلنج تھا۔‏ ”‏اس کیلئے،‏“‏ این یاد کرتی ہے،‏ ”‏ہر روز اپنی خواہشات کو مارنا پڑتا تھا۔‏“‏

جب مریض علاج‌معالجے اور طبّی عملے کے معائنے سے پیدا ہونے والی پریشانی—‏اور بعض حالات میں تکلیف—‏کا عادی ہو جاتا ہے تو وہ عملی مدد اور جذباتی معاونت کے لئے خاندان پر زیادہ انحصار کرنے لگتا ہے۔‏ نتیجتاً،‏ نہ صرف خاندان کے افراد کو مریض کی جسمانی دیکھ‌بھال کے سلسلے میں نئی مہارتیں سیکھنی پڑتی ہیں بلکہ اُن سب کو مجبوراً اپنے رویے،‏ جذبات،‏ طرزِزندگی اور معمول میں بھی ردوبدل کرنا پڑتا ہے۔‏

یہ سچ ہے کہ اسطرح کے تمام تقاضے خاندان کی برداشت کا امتحان لیتے ہیں۔‏ ایک ماں جسکی بیٹی کینسر کے علاج کی غرض سے ہسپتال میں تھی اسکی تصدیق کرتی ہے کہ ”‏یہ ساری باتیں آپکی سوچ سے بھی بڑھکر تھکا دینے والی ثابت ہو سکتی ہیں۔‏“‏

مسلسل غیریقینی کا احساس

ایک کتاب کوپنگ وِد کرونک اِلنس—‏اوورکمنگ پاورلِسنس بیان کرتی ہے کہ ”‏دائمی مرض کے نشیب‌وفراز غیریقینی کے شدید احساس کو جنم دیتے ہیں۔‏“‏ جب خاندان کے تمام افراد موجودہ حالات سے موافقت پیدا کرنے کیلئے کوشاں ہوتے ہیں تو اُنہیں یکدم مختلف اور ممکنہ طور پر زیادہ مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‏ ممکن ہے کہ بیماری کی علامات بےضابطہ یا شاید اچانک ہی بدتر ہو جائیں جس سے علاج متوقع بہتری لانے میں ناکام ثابت ہو سکتا ہے۔‏ علاج میں وقتاًفوقتاً تبدیلی لانے کی ضرورت پڑ سکتی ہے یا پھر یہ غیرمتوقع پیچیدگیوں پر بھی منتج ہو سکتا ہے۔‏ جب مریض پریشان‌حال خاندان کی سخت کوشش سے فراہم‌کردہ مدد کا دستِ‌نگر ہو جاتا ہے تو جو جذبات پہلے قابو میں ہوتے تھے اب وہی اچانک شدت اختیار کرنے لگتے ہیں۔‏

ایسی بیشتر بیماریوں اور علاج‌معالجوں سے جن کی بابت قبل‌ازوقت وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا اس طرح کے سوالات پیدا ہوتے ہیں:‏ یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا؟‏ یہ بیماری کس حد تک بگڑ سکتی ہے؟‏ ہم اسے کہاں تک برداشت کر سکتے ہیں؟‏ جان‌لیوا مرض سب سے زیادہ غیریقینی کا احساس پیدا کرتا ہے—‏”‏موت واقع ہونے میں کتنا وقت رہ گیا ہے؟‏“‏

مرض،‏ علاج کے مخصوص طریقۂ‌کار،‏ تھکن اور غیریقینی کی کیفیت کا ایک اَور غیرمتوقع نتیجہ بھی نکلتا ہے۔‏

سماجی زندگی پر اثرات

کیتھلین جس کا شوہر دائمی ڈیپریشن کا شکار تھا بیان کرتی ہے کہ ”‏مجھے تنہائی اور پابندی کے شدید احساسات پر قابو پانے کی ضرورت تھی۔‏ ہماری حالت انتہائی قابلِ‌رحم تھی کیونکہ ہمارے لئے دوستانہ میل‌جول کے لئے کسی کے پاس جانا یا کسی کو مدعو کرنا ممکن نہیں تھا جس کی وجہ سے ہمارے سماجی تعلقات بالکل ختم ہو گئے۔‏“‏ کیتھلین کی طرح،‏ بیشتر لوگوں کو مہمان‌نوازی دکھانے اور مہمان‌نوازی قبول کرنے سے قاصر رہنے کے باعث ندامت کا احساس ہوتا ہے۔‏ ایسا کیوں ہوتا ہے؟‏

بیماری یا علاج کے ضمنی اثرات سماجی تقریبات میں شرکت کو مشکل یا ناممکن بنا سکتے ہیں۔‏ خاندان اور مریض شاید یہ محسوس کریں کہ یہ مرض ایک معاشرتی داغ ہے یا پھر اُنہیں یہ ڈر ہو سکتا ہے کہ یہ نہایت شرمندگی کا باعث بنیگا۔‏ ڈیپریشن کی وجہ سے مریض یہ محسوس کر سکتا ہے کہ اب وہ ماضی کے دوستوں سے رفاقت رکھنے کے لائق نہیں ہے یا شاید خاندان میں دوسروں سے ملنےجلنے کی سکت ہی باقی نہ رہے۔‏ مختلف وجوہات کی بِنا پر،‏ دائمی مرض بڑی آسانی سے پورے خاندان کیلئے علیٰحدگی اور تنہائی پر منتج ہو سکتا ہے۔‏

مزیدبرآں،‏ ہر شخص یہ نہیں جانتا کہ کسی معذور شخص کیساتھ کسطرح سے بات‌چیت کرنی چاہئے اور اُسکے پاس جا کر کیسا ردِعمل ظاہر کرنا چاہئے۔‏ (‏صفحہ ۱۱ پر بکس ”‏آپ کیسے مددگار ثابت ہو سکتے ہیں“‏ کو دیکھیں۔‏)‏ این بیان کرتی ہے کہ ”‏جب آپکا بچہ دوسرے بچوں سے مختلف ہوتا ہے تو بیشتر لوگ اُسے گھورتے اور بغیر سوچےسمجھے جملے کستے ہیں۔‏ آپ چونکہ پہلے ہی خود کو بیماری کا ذمہ‌دار سمجھ رہے ہوتے ہیں اسلئے اُن کے تبصرے آپ کے احساسِ‌خطا میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔‏“‏ این کا یہ بیان خاندانوں کے تجربے میں آنے والی ایک اَور حالت کی نشاندہی کرتا ہے۔‏

بدامنی پیدا کرنے والے جذبات

ایک محقق بیان کرتا ہے کہ ”‏مرض کی تشخیص کے وقت زیادہ‌تر خاندان صدمے،‏ عدمِ‌یقین اور استرداد کا مظاہرہ کرتے ہیں۔‏ اسے برداشت کرنا واقعی مشکل ہوتا ہے۔‏“‏ جی‌ہاں،‏ اس بات کا انکشاف انتہائی تکلیف‌دہ ہوتا ہے کہ کسی عزیز کو جان‌لیوا یا دن‌بدن کمزور کرنے والا مرض لاحق ہے۔‏ خاندان شاید محسوس کرے کہ اُنکی اُمیدیں اور خواب سب چکناچور ہو گئے ہیں اور اب اُنکے مستقبل میں تاریکی اور غم کے سوا کچھ نہیں ہے۔‏

یہ سچ ہے کہ بیشتر خاندانوں کو جب کسی فرد میں طویل اور پریشان‌کُن علامات کی وجہ کا علم نہیں ہوتا تو تشخیص اُن کیلئے کسی حد تک باعثِ‌سکون ثابت ہو سکتی ہے۔‏ تاہم بعض خاندانوں کا تشخیص کیلئے ردِعمل مختلف ہو سکتا ہے۔‏ جنوبی افریقہ سے ایک ماں اس بات کا اعتراف کرتی ہے:‏ ”‏صاف بات تو یہ ہے کہ اپنے بچوں کی بیماری کی بابت سن کر مجھے اتنا دُکھ ہوا کہ مجھے اسکا پتہ نہ ہی چلتا تو اچھا تھا۔‏“‏

کتاب اے سپیشل چائلڈ اِن دی فیملی—‏لِونگ وِد یوئر سک اَور ڈِس‌ایبلڈ چائلڈ بیان کرتی ہے کہ ”‏اپنے معمول کو اس نئی حقیقت کے مطابق ڈھالنے کے عمل میں جذباتی اضطراب سے گزرنا ایک فطری عمل ہوگا۔‏ بعض‌اوقات آپ کے احساسات اسقدر شدت اختیار کر سکتے ہیں کہ شاید آپ یہ محسوس کرنے لگیں کہ ایسے حالات سے نپٹنا آپ کے لئے ناممکن ہے۔‏“‏ اس کتاب کی مصنفہ ڈائنا کم‌پٹن،‏ جس کے دو بیٹے انبانی کیفیت (‏ایک موروثی بیماری جس سے بچپن ہی میں لبلبہ اور پھیپھڑے متاثر ہو جاتے ہیں)‏ میں مبتلا تھے،‏ بیان کرتی ہے:‏ ”‏مَیں اپنے ہی جذبات سے خائف تھی اور مجھے اس بات کی یقین‌دہانی درکار تھی کہ آیا اسقدر پریشان ہونا مناسب ہے۔‏“‏

خاندانوں کیلئے خوف—‏انجانی کیفیت کا خوف،‏ بیماری کا خوف،‏ علاج کا خوف،‏ درد کا خوف اور موت کا خوف—‏محسوس کرنا کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے۔‏ بالخصوص جب بچوں پر یہ واضح نہیں کِیا جاتا کہ اُن کے ساتھ کیا واقع ہو رہا ہے تو ایسی صورتحال میں اُن کے اندر بہت سے ناگفتہ خوف جنم لے سکتے ہیں۔‏

غصہ بھی بہت عام ہے۔‏ جنوبی افریقہ کا میگزین ٹی‌ایل‌سی بیان کرتا ہے کہ ”‏خاندانی افراد اکثر مریض کے غصے کے لئے قربانی کے بکرے ثابت ہو سکتے ہیں۔‏“‏ اس کے نتیجے میں،‏ خاندان کے افراد کو بھی غصہ آ سکتا ہے—‏شاید وہ بیماری کی جلد تشخیص نہ کرنے کی وجہ سے ڈاکٹر پر غصہ ہوں،‏ اس بیماری کو اپنے بچوں میں منتقل کرنے کی وجہ سے اپنے آپ پر غصہ ہوں،‏ اپنا اچھی طرح خیال نہ رکھنے کی وجہ سے مریض پر غصہ ہوں،‏ ایسے دُکھ‌تکلیف کے لئے شیطان پر غصہ ہوں یا پھر خدا کو اس بیماری کا ذمہ‌دار سمجھتے ہوئے اُس کے ساتھ غصہ ہوں۔‏ دائمی مرض کے سلسلے میں احساسِ‌خطا کا اظہار ایک اَور عام پہلو ہے۔‏ کتاب چلڈرن وِد کینسر—‏اے کمپری‌ہنسیو ریفرنس گائیڈ فار پیرنٹس بیان کرتی ہے،‏ ”‏عملاً کینسر سے متاثرہ بچے کے والدین یا بھائی بہن خود کو خطاوار محسوس کرتے ہیں۔‏“‏

جذبات کی یہ ہلچل کم‌وبیش ڈیپریشن کا باعث بنتی ہے۔‏ ”‏سب سے عام ردِعمل شاید یہی ہے،‏“‏ ایک محقق لکھتی ہے۔‏ ”‏اسے ثابت کرنے کیلئے میرے پاس خطوط کی ایک پوری فائل ہے۔‏“‏

خاندان یقیناً کامیاب ہو سکتے ہیں

ایک روشن پہلو یہ ہے کہ بیشتر خاندانوں کو اس بات کا تجربہ ہوا ہے کہ ایسی صورتحال سے نپٹنا اتنا مشکل نہیں جتنا شروع میں دکھائی دیتا ہے۔‏ ”‏آپکے ذہنی تصورات حقیقت سے کہیں زیادہ بھیانک ہونگے،‏“‏ ڈائنا کم‌پٹن بیان کرتی ہے۔‏ اُس نے ذاتی تجربے سے معلوم کِیا ہے کہ ”‏بیماری کی تشخیص کے وقت مستقبل جتنا تاریک نظر آتا ہے درحقیقت اُتنا ہوتا نہیں ہے۔‏“‏ یاد رکھیں کہ دیگر خاندان دائمی مرض کے اجنبی ملک کا سفر کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور آپ بھی کامیاب ہو سکتے ہیں۔‏ بیشتر لوگوں کیلئے محض اس بات کا علم ہی اطمینان اور اُمید کا باعث بنتا ہے کہ ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے صورتحال پر قابو پایا ہے۔‏

تاہم،‏ کسی بھی خاندان کے لئے یہ سوچنا منطقی بات ہے کہ ’‏ہم اس پر کیسے قابو پا سکتے ہیں؟‏‘‏ اگلا مضمون اُن بعض طریقوں کو نمایاں کرے گا جن سے خاندان دائمی مرض سے نپٹنے کے قابل ہوئے ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۵ پر عبارت]‏

خاندانوں کو مریض کی نگہداشت کے علاوہ اپنے ذاتی رُجحانات،‏ جذبات اور طرزِزندگی میں ردوبدل کرنے کی ضرورت ہے

‏[‏صفحہ ۶ پر عبارت]‏

مریض اور خاندان دونوں کو شدید جذبات کا تجربہ ہوگا

‏[‏صفحہ ۷ پر عبارت]‏

مایوس نہ ہوں۔‏ دیگر خاندان کامیاب ہوئے ہیں تو آپ بھی ہو سکتے ہیں

‏[‏صفحہ ۷ پر بکس]‏

دائمی مرض سے متعلق بعض چیلنج

‏• مرض اور اس سے نپٹنے کے طریقے کی بابت معلومات حاصل کرنا

‏• اپنی طرزِزندگی اور روزانہ کے معمول میں ردوبدل کرنا

‏• سماجی تعلقات میں تبدیلی سے نپٹنا

‏• طبعی حالت اور ضبط کے احساس کو برقرار رکھنا

‏• مرض سے ہونے والے نقصانات پر افسوس کرنا

‏• شدید جذبات پر قابو پانا

‏• مثبت نظریہ برقرار رکھنا