مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

لوئیدا عالمِ‌سکوت سے نکل آئی

لوئیدا عالمِ‌سکوت سے نکل آئی

لوئیدا عالمِ‌سکوت سے نکل آئی

لوئیدا کی ماں کی زبانی

ہر حاملہ عورت کی طرح،‏ مجھے بھی فکر تھی کہ کہیں میرا ہونے والا بچہ کسی قسم کے نقص میں مبتلا نہ ہو۔‏ پھربھی،‏ جب میری تیسری بچی،‏ لوئیدا دُنیا میں آئی تو مَیں اُسکی دلخراش چیخوں کیلئے تیار نہیں تھی۔‏ ڈاکٹر نے نادانستہ طور پر اپنی جراحی چمٹی سے لوئیدا کی ہنسلی کی ہڈی توڑ دی تھی۔‏ معالجاتی سرجری کے چند ہفتوں بعد،‏ لوئیدا کو گھر بھیج دیا گیا۔‏ تاہم،‏ ہماری خوشی بہت ہی تھوڑی دیر قائم رہی۔‏

اگلے چند مہینوں کے دوران،‏ یہ بات ظاہر ہونے لگی کہ کچھ نہ کچھ خرابی ضرور ہے۔‏ لوئیدا جو ادویات استعمال کرتی تھی اُن سے اُسے بخار اور اسہال کے علاوہ دَورے بھی پڑنے لگے اور جب ان علامات کا علاج کرنے کی کوشش کی گئی تو بظاہر اُسکی حالت اَور زیادہ بگڑ گئی۔‏ جلد ہی لوئیدا اپنی جسمانی حرکات‌وسکنات پر قابو کھو بیٹھی۔‏ بالآخر ڈاکٹروں نے ہمیں بتایا کہ لوئیدا کو دماغی فالج ہے۔‏ انہوں نے کہا کہ اب وہ کبھی بھی چل‌پھر یا بول نہیں سکے گی حتیٰ‌کہ ہماری باتوں کو بھی سمجھ نہیں پائیگی۔‏

رابطے کی ابتدائی کوششیں

ڈاکٹروں کی اس غم‌انگیز پیشگوئی کے باوجود،‏ مَیں نے محسوس کِیا کہ لوئیدا بہت ساری باتیں سمجھ سکتی ہے۔‏ پس مَیں اُسے آسان آسان کتابیں پڑھ کر سناتی اور اُسے حروفِ‌تہجی سکھانے کی کوشش کرتی۔‏ تاہم لوئیدا نہ تو بول سکتی تھی اور نہ ہی کوئی اشارہ کر سکتی تھی کہ وہ میری بات سمجھ رہی ہے۔‏ یہ جاننے کا کوئی طریقہ نہیں تھا کہ آیا وہ کوئی بات سمجھ سکتی ہے۔‏

کئی سال گزر گئے مگر لوئیدا کو سکھانے کی میری کوششوں سے کوئی خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی۔‏ پھربھی،‏ مَیں اس کے سامنے کئی کئی گھنٹے پڑھتی رہتی۔‏ ہم نے تو اسے اپنی سب سے چھوٹی بیٹی،‏ نعومی کیساتھ اپنے خاندانی بائبل مطالعہ میں بھی شامل کر لیا جس میں ہم لسننگ ٹو دی گریٹ ٹیچر اور بائبل کہانیوں کی میری کتاب * پڑھا کرتے تھے۔‏ مَیں لوئیدا کو ان کتابوں کے کئی باب بار بار پڑھکر سناتی تھی۔‏

آپ جس شخص سے محبت کرتے ہیں اس سے بات‌چیت کرنے کے قابل نہ ہونا واقعی مایوس‌کُن ہوتا ہے۔‏ جب مَیں لوئیدا کو پارک لیکر جاتی تو وہ پھوٹ‌پھوٹ کر روتی۔‏ کیوں؟‏ مجھے ایسا محسوس ہوتا کہ جیسے اُسے اس حقیقت سے کوفت ہوتی ہے کہ وہ دوسرے بچوں کی طرح کھیل‌کود نہیں سکتی۔‏ ایک مرتبہ جب اس کی بہن نے سکول کی کتاب سے مجھے کچھ پڑھ کر سنایا تو لوئیدا کے آنسو بہنے لگے۔‏ بِلاشُبہ،‏ کسی بات نے اسے پریشان کر دیا تھا لیکن مجھے بالکل پتہ نہیں تھا کہ وہ کیا بات تھی۔‏ لوئیدا کی بات‌چیت چند بےربط آوازوں تک محدود تھی جن سے خوراک،‏ پانی،‏ سونے یا رَفع‌حاجت کے سلسلے میں اسکی بنیادی ضروریات کا پتہ چلتا تھا۔‏

نو سال کی عمر میں لوئیدا نے معذور بچوں کے سکول میں جانا شروع کر دیا۔‏ تاہم،‏ اگلے تین سالوں کے دوران،‏ اس کی حالت اَور بگڑ گئی۔‏ وہ مدد کے بغیر چند قدم چلنے سے بھی ڈرتی تھی اور اُس نے آواز نکالنا تقریباً بند کر دیا تھا۔‏ میرے شوہر اور مَیں نے طے کِیا کہ لوئیدا کو گھر پر تعلیم دینا بہتر ہوگا۔‏

اگلے چھ سال تک،‏ مَیں نے لوئیدا کو حتی‌الوسع زیادہ سے زیادہ سکھانے کی کوشش کی۔‏ مَیں اس اُمید پر بلیک‌بورڈ پر حروف لکھتی کہ لوئیدا انہیں نقل کر سکے۔‏ میری کوششیں بیکار ثابت ہوئیں۔‏ کیا مسئلہ سمجھ کی کمی کا تھا یا کیا لوئیدا اپنے ہاتھوں کی حرکات کو قابو میں نہیں رکھ پاتی تھی؟‏

جب لوئیدا ۱۸ سال کی ہوئی تو اُسے سنبھالنا اس قدر مشکل ہو گیا کہ مَیں نے خلوصدلی کیساتھ یہوواہ سے دُعا میں منت کی کہ وہ اپنی بیٹی کیساتھ بات‌چیت کرنے کیلئے میری مدد کرے۔‏ مجھے میری دُعا کا جواب بڑے ہی غیرمعمولی طریقے سے ملا۔‏

خاموشی توڑنا

جب میری بیٹیاں ہمارے کمرے کو ازسرِنو آراستہ کر رہی تھیں تو یہ ساری صورتحال یک‌لخت بدل گئی۔‏ پُرانے وال‌پیپر کو اُتارنے سے پہلے نعومی نے دیوار پر کچھ بائبل کے اور کچھ دوستوں اور خاندانی افراد کے نام لکھے۔‏ تجسّس کے باعث میری بیٹی روت نے لوئیدا سے پوچھا کہ آیا وہ جانتی ہے کہ ”‏یہوواہ“‏ کہاں لکھا ہے۔‏ خلافِ‌توقع،‏ لوئیدا دیوار کے پاس گئی اور اپنا سر وہاں رکھ دیا جہاں خدا کا نام لکھا ہوا تھا۔‏ روت نے سوچا کہ ہو سکتا ہے کہ لوئیدا دیگر نام پہچان سکے،‏ پس اس نے اس سے مزید پوچھا۔‏ روت یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ لوئیدا نے اُن سب ناموں کو پہچان لیا حتیٰ‌کہ وہ نام بھی جو اُس نے پہلے کبھی دیکھے یا سنے نہیں تھے!‏ روت نے سارے خاندان کو اکٹھا کر لیا تاکہ سب خود دیکھ سکیں۔‏ لوئیدا پڑھ سکتی تھی!‏

پھر ہمیں ایک ایسا طریقہ سُوجھا جس سے لوئیدا کو ہم سے بات‌چیت کرنے میں مدد مل سکتی تھی۔‏ ہم نے اپنی لمبی ڈیوڑھی میں دیوار پر حروفِ‌تہجی آویزاں کر دئے۔‏ ہاتھ میں اُٹھانے والی تختی پر حروف لکھنا کارگر ثابت نہیں ہوا تھا کیونکہ ہر حرف کی طرف اشارہ کرنے کے لئے لوئیدا اپنے ہاتھوں کو قابو میں نہیں رکھ پاتی تھی۔‏ پس جب لوئیدا بات کرنا چاہتی تو وہ دیوار پر ہر حرف تک جانے سے اپنی بات کے ہجے کرکے دکھاتی۔‏ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ یہ بہت تھکا دینے والا معاملہ تھا۔‏ درحقیقت،‏ محض ایک صفحے کی بات‌چیت ترتیب دینے کیلئے لوئیدا کو نہ صرف میلوں چلنا پڑتا بلکہ اسے مکمل کرنے کیلئے کئی گھنٹے بھی لگ جاتے!‏

تاہم،‏ لوئیدا ہم سے ”‏بات“‏ کرنے کے قابل ہونے سے بہت خوش ہے۔‏ درحقیقت ہمارے لئے اس کا پہلا پیغام یہ تھا:‏ ”‏مَیں بہت خوش ہوں کہ اب یہوواہ کی بدولت مَیں بات‌چیت کر سکتی ہوں۔‏“‏ ہم نے حیرانی کیساتھ لوئیدا سے پوچھا:‏ ”‏تم سارا دن بیٹھی کیا کِیا کرتی تھیں؟‏“‏ لوئیدا نے ہمیں بتایا کہ وہ ایسی باتیں سوچا کرتی تھی جو وہ ہم سے کہنا چاہتی تھی۔‏ واقعی،‏ لوئیدا نے بتایا کہ ۱۸ سال سے اسکی خواہش تھی کہ وہ بات‌چیت کرے۔‏ ”‏جب روت نے سکول جانا شروع کِیا،‏“‏ اس نے کہا،‏ ”‏تو مَیں سکول کی درسی کتابیں خود سے پڑھتی۔‏“‏ مَیں اپنا مُنہ ہلا کر کچھ آوازیں نکالتی تھی لیکن آپ انہیں سمجھ نہیں پاتے تھے۔‏ اسلئے مَیں اکثر رونے لگتی تھی۔‏“‏

مَیں نے رو کر اُس سے معافی مانگی کہ اسے بہتر طور پر نہ سمجھ پائی۔‏ لوئیدا نے جواب دیا:‏ ”‏آپ ایک اچھی ماں ہیں اور آپ نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔‏ مجھے آپ کے ساتھ رہ کر ہمیشہ خوشی ملی ہے۔‏ مجھے آپ سے بےانتہا محبت ہے۔‏ پس اب رونادھونا بند۔‏ ٹھیک ہے نا؟‏“‏

روحانی ترقی

لوئیدا پہلے ہی سے بائبل علم رکھتی تھی اور اس نے کچھ بائبل آیات بھی یاد کر رکھی تھیں۔‏ تاہم جلد ہی اس نے ہمیں بتایا کہ وہ کلیسیا میں مینارِنگہبانی کے مطالعے—‏ایک ہفتہ‌وار سوالاًجواباً بائبل مباحثہ—‏پر تبصرہ پیش کرنا چاہتی ہے۔‏ وہ یہ کیسے کرے گی؟‏ ہم میں سے کوئی ایک اُسے پورا مضمون پڑھ کر سناتا۔‏ اس کے بعد لوئیدا اس سوال کا انتخاب کرتی جس کا وہ جواب دینا چاہیگی۔‏ جب وہ ہمیں ہجوں میں بتاتی تو ہم اس کے تبصرے کو لکھ لیتے۔‏ پھر،‏ اجلاس پر،‏ ہم میں سے ایک لوئیدا کے تبصرے کو پڑھتا۔‏ لوئیدا نے ہمیں ایک مرتبہ بتایا:‏ ”‏مجھے اجلاسوں میں شرکت کرکے بہت خوشی حاصل ہوتی ہے کیونکہ اس سے مجھے محسوس ہوتا ہے کہ مَیں بھی کلیسیا کا حصہ ہوں۔‏“‏

لوئیدا نے ۲۰ سال کی عمر میں بپتسمہ لینے کی خواہش کا اظہار کِیا۔‏ جب اس سے پوچھا گیا کہ آیا وہ یہوواہ کے لئے خود کو مخصوص کرنے کا مطلب جانتی ہے تو لوئیدا نے جواب دیا کہ وہ سات سال پہلے ہی یہ کر چکی ہے—‏جب وہ صرف ۱۳ سال کی تھی۔‏ اس نے کہا:‏ ”‏مَیں نے دُعا میں یہوواہ کو بتایا کہ مَیں ہمیشہ تک اسکی خدمت کرنا چاہتی ہوں۔‏“‏ اگست ۲،‏ ۱۹۹۷ کو لوئیدا نے اپنی مخصوصیت کی علامت میں پانی کا بپتسمہ لیا۔‏ ”‏یہوواہ کا شکر ہے“‏ لوئیدا نے ہمیں بتایا،‏ ”‏کہ میری سب سے بڑی تمنا پوری ہوگئی!‏“‏

لوئیدا رشتےداروں اور پڑوسیوں سے خدا کی بادشاہت کی بابت بات کرکے خوش ہوتی ہے۔‏ بعض‌اوقات جب ہم گلی‌کوچوں میں لوگوں کو منادی کرتے ہیں تو وہ ہمارے ساتھ جاتی ہے۔‏ اس نے ایک خط بھی تیار کِیا ہے جو ہم کسی شخص کو گھر پر نہ پا کر دروازے پر چھوڑ دیتے ہیں۔‏ لوئیدا عمررسیدہ اور بیمار اشخاص میں خاص دلچسپی رکھتی ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ ہماری کلیسیا میں ایک بہن ہے جس کی ایک ٹانگ کٹی ہوئی ہے۔‏ ”‏مَیں جانتی ہوں کہ چلنےپھرنے کے قابل نہ ہونے کا مطلب کیا ہے،‏“‏ لوئیدا نے ہمیں بتایا لہٰذا اس نے اس بہن کیلئے حوصلہ‌افزائی کا ایک خط لکھا۔‏ پھر،‏ ایک اَور کلیسیا میں ایک نوجوان لڑکا ہائیرو ہے جس کا سر سے نیچے کا حصہ مفلوج ہے۔‏ جب لوئیدا نے اس کی تکلیف کی بابت سنا تو اس نے اُسے بھی ایک خط لکھا۔‏ اس کے کچھ حصے میں اس نے بیان کِیا:‏ ”‏جلد ہی یہوواہ ہمیں ٹھیک کر دے گا۔‏ فردوس میں کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔‏ پھر ہم دونوں دوڑ لگائینگے۔‏ مَیں ہنس رہی ہوں کیونکہ اس وقت بڑا مزہ آئیگا۔‏ ذرا سوچو کہ ہم اُس وقت بالکل ویسے ہی بیماری سے پاک ہونگے جیسے یہوواہ نے ابتدائی انسانوں کو خلق کِیا تھا .‏ .‏ .‏ کیا یہ شاندار بات نہیں ہے؟‏“‏

برداشت کرنے کیلئے مدد پانا

مَیں اب لوئیدا کے سابقہ رویے کی بابت ایسی بہت ساری باتیں سمجھ گئی ہوں جو مجھے مایوس کِیا کرتی تھیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ لوئیدا کہتی ہے کہ جب وہ چھوٹی تھی تو وہ یہ پسند نہیں کرتی تھی کہ کوئی اُسے گلے لگائے کیونکہ وہ بہت مایوس تھی۔‏ ”‏یہ بات بہت ہی غیرمنصفانہ لگتی کہ میری بہنیں بول سکتی اور سیکھ سکتی تھیں جبکہ مَیں ایسا نہیں کر سکتی تھی،‏“‏ اس نے کہا۔‏ ”‏مجھے بہت غصہ آتا تھا۔‏ ایسے بھی لمحات آتے تھے جب میرا مر جانے کو جی چاہتا تھا۔‏“‏

بات‌چیت کرنے کی بخشش کے باوجود،‏ لوئیدا بہت سے چیلنجوں کا سامنا کر رہی ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ تقریباً ہر ماہ اسے دَورے پڑتے ہیں جس کے دوران اس کا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوتا اور اس کے بازو اور ٹانگیں بےقابو ہو جاتی ہیں۔‏ اس کے علاوہ،‏—‏کسی بھی قسم کا انفیکشن—‏حتیٰ‌کہ ہلکا سا نزلہ‌زکام بھی اُسے بہت زیادہ کمزور کر دیتا ہے۔‏ کبھی‌کبھار لوئیدا اپنی حالت پر افسردہ ہو جاتی ہے۔‏ کونسی بات برداشت کرنے میں اسکی مدد کرتی ہے؟‏ آئیے،‏ اُسی کے مُنہ سے سنتے ہیں:‏

‏”‏دُعا میرے لئے ایک بہت بڑی مدد ثابت ہوئی ہے۔‏ مجھے یہوواہ سے بات کرنے میں اتنی خوشی ملتی ہے کہ مَیں خود کو اُس کے قریب محسوس کرتی ہوں۔‏ مَیں کنگڈم ہال میں دوسروں کی طرف سے ملنے والی محبت اور توجہ کی بھی بہت قدر کرتی ہوں۔‏ مَیں خود کو نہایت خوش‌قسمت سمجھتی ہوں کہ اپنی معذوری کے باوجود،‏ مَیں نے نہایت قابلِ‌تعریف والدین کے ہاتھوں پرورش پائی ہے جو مجھ سے اتنی محبت کرتے ہیں۔‏ مَیں اپنی بہنوں کی طرف سے حاصل ہونے والی محبت اور مدد کو بھی کبھی بھول نہیں سکتی۔‏ دیوار پر اُن خوبصورت حروف نے میری جان بچا لی۔‏ یہوواہ اور اپنے خاندان کی محبت کے بغیر میری زندگی بےمعنی ہوتی۔‏“‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 7 واچ‌ٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیو یارک انکارپوریٹڈ کی شائع‌کردہ۔‏ لسننگ ٹو دی گریٹ ٹیچر اب شائع نہیں ہوتی۔‏

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویر]‏

لوئیدا اور اس کا خاندان