مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ہمارا خاندان دوبارہ کیسے متحد ہوا

ہمارا خاندان دوبارہ کیسے متحد ہوا

ہمارا خاندان دوبارہ کیسے متحد ہوا

لارز اور جوڈِتھ ویسٹرگار کی زبانی

اُنکے گھر کا ماحول ڈنمارک میں تقریباً سب خوشحال خاندانوں جیسا ہی ہے۔‏ ایک خوشنما باغ والا آرام‌دہ گھر جو ایک پُرسکون گاؤں میں واقع ہے۔‏ گھر کے اندر،‏ دیوار پر خاندان کے صحتمند اور مسکراتے بچوں کی ایک بڑی تصویر آویزاں ہے۔‏

والد،‏ لارز یہوواہ کے گواہوں کی کلیسیا میں ایک بزرگ ہے۔‏ اس کی بیوی،‏ جوڈِتھ،‏ ایک پائنیر (‏ایک کُل‌وقتی مبشر)‏ ہے۔‏ اگرچہ اب وہ ایک خوشحال جوڑا ہیں مگر پہلے ایسا نہیں تھا۔‏ لارز اور جوڈِتھ نے بہت زیادہ مصیبت اور تلخی کا سامنا کِیا ہے جو آخرکار طلاق اور خاندان میں جدائی پر منتج ہوا۔‏ تاہم،‏ اب انکا خاندان پھر سے متحد ہو گیا ہے۔‏ کیوں؟‏ اُنکا حال اُنہی کی زبانی سنیں۔‏

لارز اور جوڈِتھ یہ بتانے میں عار محسوس نہیں کرتے کہ انکی شادی کیوں ناکام ہوئی اور وہ کیسے پھر سے متحد ہو گئے۔‏ وہ محسوس کرتے ہیں کہ اُنکا تجربہ دوسروں کیلئے مدد کا باعث ثابت ہو سکتا ہے۔‏

عمدہ آغاز

لارز:‏ اپریل ۱۹۷۳ میں جب ہماری شادی ہوئی تو زندگی کا ایک سہانا سفر شروع ہوا۔‏ ایسا لگتا تھا جیسے ہمیں سارے جہان کی خوشیاں مِل گئی ہوں۔‏ ہم بائبل اور یہوواہ کے گواہوں کی بابت کچھ نہیں جانتے تھے لیکن ہمیں پورا یقین تھا کہ اگر تمام لوگ ملکر جدوجہد کریں تو ہم دُنیا کو زندہ رہنے کے لائق بنا سکتے ہیں۔‏ پس ہم بہتیری سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رہنے لگے۔‏ جب ہمارے آنگن میں تین صحتمند اور ہنس‌مکھ بچے—‏مارٹن،‏ ٹامس اور یوناز—‏کھیلنے لگے تو ہماری خوشی دوبالا ہو گئی۔‏

جوڈِتھ:‏ مَیں سول سروس کی ایک برانچ میں،‏ ایگزیکٹو کے عہدے پر فائز تھی۔‏ اسکے علاوہ،‏ مَیں سیاسی اور مزدور یونین کی سرگرمیوں میں بھی شامل تھی۔‏ رفتہ‌رفتہ مجھے اعلیٰ منصب ملنے لگے۔‏

لارز:‏ مَیں بھی،‏ ایک بہت بڑی مزدور یونین میں کام کرتا تھا اور ایک اعلیٰ عہدے تک پہنچ چکا تھا۔‏ ہمارا ذریعۂ‌معاش بڑھتا جا رہا تھا اور کسی قسم کا خوف‌وخطرہ نہیں تھا۔‏

جدائی

لارز:‏ ہم اپنی الگ الگ سرگرمیوں میں اسقدر کھو چکے تھے کہ ہمیں اکٹھے وقت گزارنے کا بہت ہی کم موقع ملتا تھا۔‏ ہماری سیاسی پارٹی تو ایک ہی تھی مگر ہم اس کے مختلف شعبوں میں کام کرتے تھے۔‏ ہمارے تین لڑکوں کی دیکھ‌بھال گھر میں یا ڈےکئیر انسٹیٹیوشنز میں دوسرے لوگ ہی کرتے تھے۔‏ چونکہ ہم دونوں اپنے اپنے کام میں ہی مگن رہتے تھے اسلئے ہماری خاندانی زندگی درہم‌برہم ہو گئی۔‏ اگر ہم دونوں کبھی گھر پر ہوتے بھی تو اکثر جھگڑا ہونے لگتا۔‏ اس کی وجہ سے مَیں نے اپنے آرام‌وسکون کیلئے شراب پینا شروع کر دی۔‏

جوڈِتھ:‏ بیشک،‏ ہم آپس میں اور اپنے بچوں سے محبت تو کرتے تھے مگر یہ محبت بڑھنے کی بجائے روزبروز کم ہوتی جا رہی تھی۔‏ ہمارا رشتہ کافی ناخوشگوار ہو گیا جسکا تکلیف‌دہ انجام ہمارے بچوں کو بھگتنا پڑا۔‏

لارز:‏ مَیں نے اپنے خاندان کو واپس راہِ‌راست پر لانے کی دیوانہ‌وار کوشش میں اپنی ملازمت چھوڑ دینے کا فیصلہ کر لیا۔‏ ہم ۱۹۸۵ میں شہر سے نقل‌مکانی کرکے گاؤں چلے آئے جہاں ہم ابھی تک رہتے ہیں۔‏ کچھ وقت کیلئے تو حالات بہتر ہو گئے لیکن میری اور میری بیوی کی دلچسپیاں الگ الگ ہی رہیں۔‏ آخرکار،‏ فروری ۱۹۸۹ میں،‏ ہماری ۱۶سالہ شادی طلاق پر ختم ہو گئی۔‏ ہمارا آشیانہ اُجڑ گیا۔‏

جوڈِتھ:‏ اپنے خاندان کو ٹکڑےٹکڑے ہوتے اور بچوں کو تکلیف اُٹھاتے ہوئے دیکھنا بڑے دُکھ کی بات تھی۔‏ ہم ایک دوسرے سے اتنی نفرت کرنے لگے تھے کہ لڑکوں کی مشترکہ نگرانی کیلئے بھی آمادہ نہیں تھے اسلئے تینوں لڑکوں کی نگرانی مجھے دے دی گئی۔‏

لارز:‏ مَیں نے اور جوڈِتھ نے اپنے خاندان کو ٹوٹنے سے بچانے کیلئے کچھ کوشش تو ضرور کی۔‏ یہانتک کہ دُعا میں خدا سے مدد بھی مانگی مگر خدا سے ہماری واقفیت نہ ہونے کے برابر تھی۔‏

جوڈِتھ:‏ ہماری دُعاؤں سے ہمیں یہ تاثر ملا کہ خدا دُعائیں سنتا ہی نہیں۔‏ تاہم،‏ ہم شکرگزار ہیں کہ اس وقت سے ہم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ خدا واقعی دُعاؤں کو سنتا ہے۔‏

لارز:‏ ہمیں اس بات کا کوئی احساس نہیں تھا کہ ہمیں اپنے اندر تبدیلیاں لانے کے لئے کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔‏ لہٰذا،‏ طلاق یقینی ہوگئی اگرچہ یہ نہایت غم‌انگیز تھی۔‏

لارز میں غیرمتوقع تبدیلی

لارز:‏ جب مَیں اکیلا رہ گیا تو حالات میں ایک بالکل غیرمتوقع تبدیلی آئی۔‏ ایک روز مَیں نے یہوواہ کے گواہوں سے دو رسالے لئے۔‏ اِس سے پہلے مَیں گواہوں کو فوراً چلتا کر دیتا تھا۔‏ لیکن جب مَیں نے ان رسالوں کا جائزہ لیا تو مَیں نے دیکھا کہ گواہ خدا اور یسوع مسیح دونوں پر ایمان رکھتے ہیں۔‏ یہ میرے لئے بڑی حیرانی کی بات تھی۔‏ مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ مسیحی ہیں۔‏

اسی دوران میری ملاقات ایک عورت سے ہوئی جس کے ساتھ میں نے رہنا شروع کر دیا۔‏ بعدازاں مجھے پتہ چلا کہ وہ پہلے یہوواہ کی گواہ تھی۔‏ جب مَیں نے سوال پوچھنا شروع کئے تو اس نے مجھے بائبل سے دکھایا کہ خدا کا نام یہوواہ ہے۔‏ لہٰذا ”‏یہوواہ کے گواہ“‏ کا مطلب ‏”‏خدا کے گواہ“‏ ہے!‏

اس خاتون نے میرے لئے یہوواہ کے گواہوں کے ایک اسمبلی ہال میں عوامی تقریر پر حاضر ہونے کا بندوبست کِیا۔‏ مَیں نے جو کچھ وہاں دیکھا اس نے واقعی میری دلچسپی کو اُبھارا۔‏ مَیں مزید معلومات کیلئے مقامی کنگڈم ہال گیا اور ایک بائبل مطالعہ شروع ہو گیا۔‏ مجھے جلد ہی احساس ہو گیا کہ میرا طرزِزندگی غلط ہے پس مَیں نے اپنی آشنا کو چھوڑ دیا اور اپنے آبائی شہر جاکر تنہا رہنے لگا۔‏ کچھ ہچکچاہٹ کے بعد مَیں نے وہاں یہوواہ کے گواہوں سے رابطہ کِیا اور اپنا بائبل مطالعہ جاری رکھا۔‏

تاہم،‏ مَیں ابھی بھی کچھ شکوک‌وشبہات میں مبتلا تھا۔‏ کیا یہوواہ کے گواہ واقعی خدا کے لوگ ہیں؟‏ ان تمام باتوں کی بابت کیا ہے جو مَیں نے بچپن میں سیکھی تھیں؟‏ میری پرورش سیونتھ ڈے ایڈونٹسٹ کے طور پر ہوئی تھی اس لئے مَیں نے ایک ایڈونٹسٹ پادری سے رابطہ کِیا۔‏ وہ مجھ سے ہر بدھ مطالعہ کرنے کے لئے رضامند ہو گیا جبکہ یہوواہ کے گواہ میرے ساتھ سوموار کو مطالعہ کرتے تھے۔‏ مَیں ان دونوں گروپوں سے چار مخصوص معاملات پر واضح جواب چاہتا تھا:‏ مسیح کی واپسی،‏ قیامت،‏ عقیدۂتثلیث اور منظم کلیسیائی کارگزاری۔‏ چند ہی مہینوں میں میرے تمام شکوک‌وشبہات ختم ہو گئے۔‏ نہ صرف اِن چاروں حلقوں میں بلکہ دیگر باتوں میں بھی صرف یہوواہ کے گواہوں کے عقائد کو بائبل کی حمایت حاصل تھی۔‏ نتیجتاً،‏ مَیں نے خوشی کیساتھ تمام کلیسیائی کارگزاریوں میں حصہ لینا شروع کر دیا اور جلد ہی خود کو یہوواہ کیلئے مخصوص بھی کر دیا۔‏ مَیں نے مئی ۱۹۹۰ میں بپتسمہ لے لیا۔‏

جوڈِتھ کا کیا ہوا؟‏

جوڈِتھ:‏ ازدواجی بحران کے نتیجے میں علیٰحدہ ہونے کے بعد مَیں نے چرچ جانا شروع کر دیا۔‏ جب مَیں نے سنا کہ لارز یہوواہ کا گواہ بن گیا ہے تو مجھے کوئی خوشی نہ ہوئی۔‏ ہمارا سب سے چھوٹا بیٹا،‏ یوناز کبھی‌کبھار اپنے باپ سے ملتا تھا لیکن مَیں نے لارز کو منع کر دیا کہ یوناز کو گواہوں کے کسی اجلاس پر نہ لیکر جائے۔‏ لارز نے اربابِ‌اختیار سے اپیل کی لیکن وہ میرے حق میں تھے۔‏

مَیں ایک دوسرے آدمی سے مل چکی تھی۔‏ نیز،‏ مَیں سیاست اور ہر طرح کے سماجی کاموں میں اَور زیادہ مشغول ہوگئی تھی۔‏ پس اس وقت اگر کسی شخص نے ممکنہ طور پر دوبارہ ملاپ کی کوشش کی بھی ہوتی تو یہ بالکل ناممکن ہوتا۔‏

مَیں یہوواہ کے گواہوں کے خلاف مواد کی تلاش میں،‏ ایک مقامی پیرش کے پادری کے پاس گئی جس نے فوراً تسلیم کِیا کہ وہ یہوواہ کے گواہوں کی بابت کچھ نہیں جانتا اور اس کے پاس انکی بابت کوئی لٹریچر بھی نہیں ہے۔‏ اُس نے صرف اتنا کہا کہ اُن سے تو دُور ہی رہنا اچھا ہے۔‏ یقیناً اس بات سے یہوواہ کے گواہوں کی بابت میرے منفی نظریے میں کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔‏ لیکن مجھے مجبوراً ان سے ملنا پڑا جس کی مجھے کبھی توقع نہیں تھی۔‏

سویڈن میں رہنے والا میرا بھائی یہوواہ کا گواہ بن گیا تھا اور مجھے کنگڈم ہال میں اس کی شادی پر حاضر ہونے کی دعوت دی گئی تھی!‏ اس تجربے نے گواہوں کی بابت میرے نظریے میں بڑی زبردست تبدیلی پیدا کی۔‏ مَیں انہیں ہمیشہ ہی سے نہایت غیردلچسپ قسم کے لوگ سمجھتی تھی مگر مجھے یہ دیکھ کر بڑی حیرانی ہوئی کہ درحقیقت ایسا بالکل نہیں تھا۔‏ وہ مہربان اور نہایت خوش‌طبع لوگ تھے اور اچھا مذاق بھی کر لیتے تھے۔‏

اسی دوران،‏ میرا سابقہ شوہر،‏ لارز بالکل بدل چکا تھا۔‏ اب وہ زیادہ ذمہ‌دار شخص بن گیا اور بچوں کے ساتھ وقت گزارنے لگا،‏ اُس کی گفتگو میں شفقت اور ضبط کی خوبی عیاں تھی نیز وہ پہلے کی طرح بےاعتدالی سے شراب بھی نہیں پیتا تھا۔‏ اس کی شخصیت بہت ہی جاذبِ‌توجہ تھی!‏ اب وہ بالکل ویسا ہی شخص بن گیا تھا جس کی مجھے حسرت تھی۔‏ یہ نہایت ہی مایوس‌کُن خیال تھا کہ اب مَیں اُس کی بیوی نہیں تھی اور شاید کسی دن کوئی دوسری عورت اُس کی بیوی بن جائے گی!‏

پھر مَیں نے ایک خفیہ ”‏حملے“‏ کا منصوبہ بنایا۔‏ ایک مرتبہ یوناز اپنے باپ کے پاس قیام‌پذیر تھا تو مَیں نے اس بہانے کیساتھ اپنی دو بہنوں سمیت یوناز اور لارز سے ملاقات کرنے کا بندوبست بنایا کہ دو خالاؤں کو اپنے بھانجے کو دیکھنے کا موقع ملنا چاہئے۔‏ ہم ایک تفریحی پارک میں ملے۔‏ جب دونوں خالائیں لڑکے کو ادھراُدھر گھمانے کیلئے لے گئیں تو لارز اور مَیں ایک بینچ پر بیٹھ گئے۔‏

مَیں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ جیسے ہی مَیں نے اپنے مستقبل کا موضوع چھیڑا تو لارز نے اپنی جیب سے ایک کتاب نکال لی۔‏ اس کتاب کا نام تھا اپنی خاندانی زندگی کو خوشحال بنانا۔‏ * اس نے مجھے کتاب تھمائی اور مشورہ دیا کہ مَیں خاندان میں شوہر اور بیوی کے کردار پر تحریر کئے گئے ابواب کو پڑھوں۔‏ اس نے مجھے صحائف کو خاص طور پر پڑھنے کا مشورہ دیا۔‏

اس کے بعد جب لارز اور مَیں بینچ سے اُٹھے تو مَیں نے اس کا بازو تھامنا چاہا لیکن اس نے بڑے نرم لہجے میں انکار کر دیا۔‏ لارز اپنے نئے ایمان کی بابت میرا نظریہ جانے بغیر میرے ساتھ کسی قسم کا نیا تعلق استوار کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا تھا۔‏ اس بات سے کسی حد تک مجھے ٹھیس لگی لیکن بعد مَیں مجھے احساس ہوا کہ اس کا رویہ نہایت معقول ہے اور اگر وہ کبھی دوبارہ میرا شوہر بن جاتا ہے تو اس میں میرا ہی فائدہ ہے۔‏

اس بات نے مجھے یہوواہ کے گواہوں کی بابت اَور زیادہ متجسس کر دیا۔‏ اگلے دن،‏ مَیں نے ایک خاتون سے رابطہ کِیا جسے مَیں جانتی تھی کہ وہ گواہ ہے اور ہم نے بندوبست بنایا کہ وہ اور اُسکا شوہر مجھے اپنے مذہب کی بابت درکار معلومات فراہم کریں۔‏ اُنہوں نے میرے سب سوالوں کا بائبل سے جواب دیا۔‏ مَیں یہ سمجھ گئی کہ یہوواہ کے گواہوں کی تعلیم واقعی بائبل کی پُختہ بنیاد پر قائم ہے۔‏ ہر بات میں مجھے سچائی کو تسلیم کرنا پڑا۔‏

اس مدت کے دوران مَیں نے ایونجلیکل لوتھرن چرچ چھوڑ دیا اور اپنی سیاسی سرگرمیاں ختم کر دیں۔‏ مَیں نے تو تمباکونوشی بھی چھوڑ دی۔‏ یہ سب سے مشکل کام تھا۔‏ مَیں نے اگست ۱۹۹۰ میں بائبل مطالعہ شروع کِیا اور اپریل ۱۹۹۱ میں یہوواہ کے گواہوں میں سے ایک کے طور پر بپتسمہ لے لیا۔‏

انکی دوسری شادی

جوڈِتھ:‏ اب ہم دونوں بپتسمہ‌یافتہ گواہ تھے۔‏ الگ راستوں پر چلے جانے کے باوجود،‏ ہم دونوں نے بائبل کا مطالعہ کِیا تھا۔‏ اس کی عمدہ تعلیمات کی بدولت،‏ ہم پہلے سے بہت فرق تھے۔‏ ہمیں ابھی تک ایک دوسرے کی فکر تھی اور شاید پہلے سے بھی کہیں زیادہ۔‏ لہٰذا ہم دوبارہ شادی کرنے کیلئے آزاد تھے اور ہم نے ایسا ہی کِیا۔‏ ہم نے دوسری مرتبہ عہدوپیمان کئے لیکن اس مرتبہ یہوواہ کے گواہوں کے کنگڈم ہال میں۔‏

لارز:‏ انہونی ہونی بن گئی تھی یعنی ہمارا خاندان پھر سے متحد ہو گیا تھا!‏ ہم کتنے خوش‌وخرم تھے!‏

جوڈِتھ:‏ شادی پر ہمارے بیٹے،‏ بہت سے رشتہ‌دار اور بہتیرے نئے اور پُرانے دوست بھی حاضر ہوئے۔‏ یہ ایک شاندار تجربہ تھا۔‏ مہمانوں میں وہ لوگ بھی تھے جو ہماری پہلی شادی سے ہمیں جانتے تھے؛‏ وہ نہ صرف ہمیں پھر سے اکٹھے دیکھکر خوش تھے بلکہ یہوواہ کے گواہوں میں ایسی حقیقی خوشی دیکھکر بھی حیران تھے۔‏

بچے

لارز:‏ ہمارے بپتسمہ سے لیکر ہمیں اپنے دو بیٹوں کو یہوواہ کے لئے اپنی زندگیاں مخصوص کرنے کا انتخاب کرتے ہوئے دیکھنے کی خوشی حاصل ہوئی ہے۔‏

جوڈِتھ:‏ بچپن میں جب یوناز اپنے باپ سے ملنے کیلئے جایا کرتا تھا تو اُسی وقت سے اُس نے سچائی کو سمجھنا اور اسکی قدر کرنا شروع کر دیا تھا۔‏ اُس وقت جب اس کی عمر صرف دس برس کی تھی تو اس نے مجھے بتایا کہ وہ اپنے باپ کیساتھ رہنا چاہتا ہے کیونکہ بقول اُسکے ”‏ابو بائبل پر عمل کرتے ہیں۔‏“‏ یوناز نے ۱۴ برس کی عمر میں بپتسمہ لیا۔‏ اس نے اپنی تعلیم مکمل کر لی ہے اور اب وہ ایک کُل‌وقتی خادم ہے۔‏

لارز:‏ مارٹن ہمارا سب سے بڑا بیٹا ہے اور اس وقت وہ ۲۷ سال کا ہے۔‏ ہمارے اندر تبدیلیوں کو دیکھ کر اُس نے بھی بہت کچھ سوچنا شروع کر دیا۔‏ اس نے گھر چھوڑ دیا اور مُلک کے دوسرے حصے میں سکونت اختیار کر لی۔‏ دو سال پہلے اس نے وہاں یہوواہ کے گواہوں کی مقامی کلیسیا کیساتھ بائبل مطالعہ شروع کر دیا تھا۔‏ صرف پانچ ماہ بعد وہ بپتسمہ پانے کیلئے تیار تھا۔‏ ایک مسیحی کے طور پر وہ اپنے مستقبل کیلئے شاندار منصوبے بنا رہا ہے۔‏

ہمارا منجھلا بیٹا،‏ ٹامس،‏ ابھی یہوواہ کا گواہ نہیں ہے۔‏ بیشک،‏ ہم اس سے ابھی تک بہت محبت کرتے ہیں اور اُس کے ساتھ عمدہ رشتہ رکھتے ہیں۔‏ ہمارے خاندان میں رُونما ہونے والی تبدیلیوں سے وہ بھی خوش ہے۔‏ نیز ہم سب متفق ہیں کہ بائبل سے جو اصول ہم والدین نے سیکھے ان کی بدولت ہمارا خاندان پھر سے متحد ہو گیا ہے۔‏ ہمارے لئے یہ کیا ہی شاندار برکت ہے کہ اب ہم بطور والدین اکثراوقات اپنے تینوں بیٹوں کیساتھ ایک ہی چھت کے نیچے باہمی رفاقت سے محظوظ ہو سکتے ہیں!‏

ہماری موجودہ زندگی

لارز:‏ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہم کامل بن گئے ہیں۔‏ لیکن ہم نے یہ ضرور سیکھ لیا ہے کہ محبت اور باہمی احترام کامیاب شادی کے کلیدی پہلو ہیں۔‏ ہماری شادی کی بنیاد اب پہلے سے بالکل فرق ہے۔‏ اب ہم دونوں نے اپنی ذات سے کہیں برتر ہستی کے اختیار کو قبول کر لیا ہے اور یہ سمجھ گئے ہیں کہ ہم یہوواہ کیلئے زندہ ہیں۔‏ جوڈِتھ اور مَیں واقعی متحد محسوس کرتے ہیں اور پُختہ اعتماد کیساتھ مستقبل کے منتظر ہیں۔‏

جوڈِتھ:‏ میرا خیال ہے کہ ہم اس بات کا زندہ ثبوت ہیں کہ شادی اور خاندان کے معاملے میں یہوواہ سب سے بہترین مشیر ہے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 30 ۱۹۷۸ میں واچ‌ٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیو یارک انکارپوریٹڈ کی شائع‌کردہ۔‏ یہ اب شائع نہیں ہوتی۔‏

‏[‏صفحہ ۲۰ پر تصویر]‏

لارز اور جوڈِتھ ۱۹۷۳ میں اپنی پہلی شادی کے موقع پر

‏[‏صفحہ ۲۱ پر تصویر]‏

اپنے متحد خاندان کو ایک بار کھو کر دوبارہ پا لینے والے تین لڑکے

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

لارز اور جوڈِتھ،‏ بائبل اصولوں پر عمل کرنے سے آج پھر متحد ہیں