آپ کی شادی بچ سکتی ہے!
آپ کی شادی بچ سکتی ہے!
بائبل ایسی عملی مشورت سے بھری پڑی ہے جس سے شوہر اور بیویاں مستفید ہو سکتے ہیں۔ یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کیونکہ بائبل کا الہام بخشنے والا ہی شادی کا بانی بھی ہے۔
بائبل شادی کی حقیقی تصویر پیش کرتی ہے۔ یہ بیان کرتی ہے کہ شوہر اور بیوی ”جسمانی تکلیف“ یا جیسے نیو انگلش بائبل بیان کرتی ہے ”دُکھ تکلیف“ اُٹھائینگے۔ (۱-کرنتھیوں ۷:۲۸) تاہم بائبل یہ بھی بیان کرتی ہے کہ شادی کو خوشی اور آسودگی کا باعث بننا چاہئے۔ (امثال ۵:۱۸، ۱۹) یہ دونوں نظریات ایک دوسرے کی نفی نہیں کرتے۔ اِن سے محض یہ ثابت ہوتا ہے کہ سنگین مسائل کے باوجود ایک جوڑا پُرمحبت اور قریبی رشتہ قائم رکھ سکتا ہے۔
کیا آپکی شادی میں اس بات کی کمی ہے؟ کیا تکلیف اور مایوسی اُس قربت اور خوشی پر غالب آ گئی ہے جو کبھی آپ کے رشتے کی پہچان ہوا کرتی تھی؟ اگرچہ آپکی شادی کئی سال سے محبت سے محروم ہے توبھی محبت کو پیدا کِیا جا سکتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ آپ کو حقیقتپسند بننے کی ضرورت ہے۔ کوئی بھی ناکامل مرد اور عورت شادی کو کامل بنانے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ بہرصورت، آپ منفی رُجحانات کے اثر کو کم کرنے کیلئے کچھ اقدام اُٹھا سکتے ہیں۔
مندرجہذیل مواد کو پڑھتے ہوئے ایسے نکات کی نشاندہی کرنے کی کوشش کریں جنکا اطلاق بالخصوص آپکی شادی پر ہوتا ہے۔ اپنے ساتھی کی خامیوں پر توجہ دینے کی بجائے، چند ایسی تجاویز کا انتخاب کریں جن پر آپ عمل کرنے سے صحیفائی مشورت کا اطلاق کر سکتے ہیں۔ لہذا، آپکو یہ محسوس ہوگا کہ آپکی شادی کے سلسلے میں آپکی توقعات سے بڑھ کر اُمید باقی ہے۔
آیئے سب سے پہلے طرزِعمل پر گفتگو کریں کیونکہ عہدوپیماں کے سلسلے میں آپکا نقطۂنظر اور اپنے بیاہتا ساتھی کے سلسلے میں آپکے احساسات بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔
عہدوپیماں کی بابت آپکا نقطۂنظر
اگر آپ اپنی شادی کو بہتر بنانے کے خواہاں ہیں تو طویلاُلمدت نقطۂنظر اہم ہے۔ بہرصورت، ازدواجی رشتے کا بندوبست خدا کی طرف سے ترتیب دیا گیا تھا تاکہ دو انسانوں کو ہمیشہہمیشہ کیلئے ایک کر دیا جائے۔ (پیدایش ۲:۲۴؛ متی ۱۹:۴، ۵) لہٰذا بیاہتا ساتھی کیساتھ آپکا رشتہ کوئی ملازمت نہیں جسے آپ چھوڑ سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی اپارٹمنٹ ہے جس سے آپ معاہدہ ختم کرنے کے بعد جا سکتے ہیں۔ اسکی بجائے، شادی کے وقت آپ نے یہ سنجیدہ عہد کِیا تھا کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے آپ ہر حال میں اپنے ساتھی کیساتھ رہینگے۔ اس وعدے کی سنجیدگی کا اندازہ تقریباً ۲۰۰۰ سال پہلے بیانکردہ یسوع مسیح کے ان الفاظ سے ہوتا ہے: ”جسے خدا نے جوڑا ہے اُسے آدمی جُدا نہ کرے۔“—متی ۱۹:۶۔
بعض شاید یہ کہیں، ’ہم تو ابھی تک اکٹھے رہتے ہیں۔ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہمیں اپنے وعدے کا پاس ہے؟‘ ممکن ہے ایسا ہو۔ تاہم، جسطرح ان مضامین کے شروع میں بیان کِیا گیا ہے، بعض اکٹھے رہنے والے جوڑے بھی دراصل بھنور میں پھنسے ہوئے اور محبت سے عاری شادی کا شکار ہوتے ہیں۔ آپ کا نصباُلعین اپنی شادی کو محض قابلِبرداشت بنانے کی بجائے خوشحال بنانا ہے۔ عہدوپیماں کو شادی کے بندوبست کیلئے وفاداری ظاہر کرنے کی بجائے اُس شخص کیلئے بھی وفاداری دکھانی چاہئے جسکے ساتھ محبت کرنے اور عزیز رکھنے کا آپ نے وعدہ کِیا ہے۔—افسیوں ۵:۳۳۔
اپنے ساتھی کیساتھ باتچیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کا وعدہ کتنا پکا ہے۔ مثال کے طور پر، گرماگرم بحث کے دوران، بعض شوہر اور بیویاں ایک دوسرے کو اس قسم کی سخت باتیں کہہ جاتے ہیں ”مَیں تمہیں چھوڑ رہا ہوں!“ یا ”مَیں کوئی ایسا شخص تلاش کرونگا جو میری قدر کرتا ہو!“ اگرچہ ایسی باتوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا توبھی وہ اُن کے وعدے کی اہمیت کو کم کر دیتے ہیں کیونکہ ایسی باتیں کہنے والا یہ تاثر دیتا ہے کہ دروازہ ہمیشہ کھلا ہے اور وہ کسی بھی وقت ایسا کر سکتا ہے۔
اپنی شادی میں محبت کو قائم رکھنے کیلئے ایسی دھمکیوں کو اپنی گفتگو کا حصہ بنانے سے گریز کریں۔ علاوہازیں، اگر آپ یہ جانتے ہیں کہ آپ ایک اپارٹمنٹ کو کبھی بھی چھوڑ کر جا سکتے ہیں تو کیا آپ اُسکی صفائی ستھرائی کرائینگے؟ توپھر آپ اپنے ساتھی سے ایک ایسی شادی کو کامیاب بنانے کی توقع کیوں کرتے ہیں جو کبھی بھی ختم ہو سکتی ہے؟ آپ اسکا حل تلاش کرنے کی بھرپور کوشش کرنے کا عزم کریں۔
اپنے شوہر کیساتھ کٹھن وقت گزارنے کے بعد ایک بیوی نے یہی کام کِیا تھا۔ ”اگرچہ مَیں اُسے بالکل بھی پسند نہیں کرتی تھی توبھی مَیں نے اُسکے ساتھ رشتہ ختم کرنے کی بابت کبھی نہیں سوچا تھا،“ وہ کہتی ہے۔ ”ہم نے ہر طرح کے بگاڑ کو کسی نہ کسی طرح دُرست کرنے کی ٹھان لی۔ لہٰذا اب، دو انتہائی مشکل سالوں کے بعد مَیں دیانتداری سے یہ کہہ سکتی ہوں کہ ہم دونوں ایک بار پھر بہت خوش ہیں۔“
جیہاں، عہدوپیماں سے مُراد ایک باہمی عمل ہے—محض اکٹھے رہنے کی بجائے مشترکہ نصباُلعین کیساتھ کام کرنے کا نام ہے۔ تاہم، ممکن ہے کہ آپ یہ سوچیں اس وقت تو صرف احساسِذمہداری ہی آپکی شادی کو بچائے ہوئے ہے۔ اگر ایسا ہے تو پریشان نہ ہوں۔ محبت کو ازسرِنو جِلا بخشی جا سکتی ہے۔ کیسے؟
اپنے ساتھی کی عزت کرنا
بائبل بیان کرتی ہے: ”بیاہ کرنا سب میں عزت کی بات سمجھی جائے۔“ (عبرانیوں ۱۳:۴؛ رومیوں ۱۲:۱۰) یہاں جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”عزت کی بات“ کِیا گیا ہے اُسے بائبل میں دوسری جگہ پر ”عزیز،“ ”قابلِاحترام“ اور ”گراںبہا“ کے طور پر پیش کِیا گیا ہے۔ جب ہم کسی چیز کی بہت قدر کرتے ہیں تو ہم اُس کی حفاظت کرنے کیلئے سردھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں۔ شاید آپ نے اس بات کو ایک ایسے شخص کے سلسلے میں سچ پایا ہو جس نے ایک نئی اور قیمتی کار خریدی ہے۔ وہ اپنی کار کو خوب چمکا کر اچھی حالت میں رکھتا ہے۔ اُس کیلئے معمولی سی خراش بھی قیامتخیز ہوتی ہے! بعض اپنی صحت کے سلسلے میں ایسی ہی فکرمندی دکھاتے ہیں۔ کیوں؟ اسلئے کہ اُنہیں اپنی تندرستی عزیز ہوتی ہے لہٰذا وہ اسکی حفاظت کرنا چاہتے ہیں۔
۱-کرنتھیوں ۱۳:۷) شکستخوردہ سوچ سے مغلوب ہونے اور بہتری کے ہر امکان کو بعیدازقیاس سمجھتے ہوئے یہ کہنے کی بجائے کہ ”ہمیں کبھی ایک دوسرے سے محبت نہیں تھی،“ ”ہم نے بہت چھوٹی عمر میں شادی کر لی تھی،“ یا ”ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ہم کیا کر رہے ہیں“ کیوں نہ مثبت نتائج کے منتظر رہتے ہوئے تحمل کے ساتھ حالات کے بہتر ہو جانے کی اُمید رکھیں؟ ”مَیں نے اپنے بیشتر مؤکلوں کو دبے لفظوں میں یہ کہتے سنا ہے، ’اب میرے لئے گزارا کرنا مشکل ہے!‘“ ایک میرج کونسلر کہتا ہے۔ ”اپنے رشتے کا اس خیال سے جائزہ لینے کی بجائے کہ اس میں کہاں بہتری لائی جا سکتی ہے، وہ جلدبازی سے اپنی تمامتر کوششیں مشترکہ قدروں اور اُن یادوں سے پیچھا چھڑانے کے لئے صرف کر دیتے ہیں نیز وہ مستقبل میں آنے والی کسی بھی بہتری کو بعیدازقیاس سمجھنے لگتے ہیں۔“
اپنی شادی کے تحفظ کے لئے بھی اسی طرح کی فکرمندی دکھائیں۔ بائبل بیان کرتی ہے کہ محبت ”سب باتوں کی اُمید رکھتی ہے۔“ (آپ اپنے ساتھی کو کن یادوں میں شریک کرتے ہیں؟ اپنے رشتے میں آنے والی مشکلات کو ایک طرف رکھتے ہوئے آپ یقیناً اُن خوشگوار واقعات، کامرانیوں اور چیلنجوں کی بابت سوچ سکتے ہیں جنکا آپ نے اکٹھے سامنا کِیا تھا۔ ان خاص اوقات کی بابت سوچیں اور اپنے رشتے کو بہتر بنانے کیلئے سنجیدگی سے کوشش کرتے ہوئے یہ ثابت کریں کہ آپ اپنی شادی اور اپنے بیاہتا ساتھی کی عزت کرتے ہیں۔ بائبل ظاہر کرتی ہے کہ یہوواہ خدا اس بات میں گہری دلچسپی رکھتا ہے کہ بیاہتا ساتھی ایک دوسرے کیساتھ کیسا برتاؤ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ملاکی نبی کے ایّام میں، یہوواہ نے اُن اسرائیلی شوہروں کی مذمت کی جنہوں نے اپنی بیویوں کو بِلاوجہ طلاق دیکر اُنکے ساتھ بےوفائی کی تھی۔ (ملاکی ۲:۱۳-۱۶) مسیحی چاہتے ہیں کہ اُنکی شادی یہوواہ خدا کیلئے جلال کا باعث ہو۔
جھگڑا—کسقدر سنگین؟
محبت سے عاری شادیوں کی سب سے بڑی وجہ شوہر اور بیوی کا جھگڑے کے وقت اپنے اُوپر قابو رکھنے میں ناکامی ہے۔ دو شخصیات کے ایک جیسا نہ ہونے کی وجہ سے کبھیکبھار نااتفاقیاں پیدا ہونا ضروری ہیں۔ تاہم مسلسل لڑائیجھگڑا کرنے والے جوڑوں کو وقت گزرنے کیساتھ ساتھ شاید اس بات کا احساس ہو جاتا ہے کہ اُنکی محبت ٹھنڈی پڑ گئی ہے۔ وہ اس نتیجے پر بھی پہنچ سکتے ہیں، ’ہمارا جوڑ مناسب نہیں ہے۔ ہم ہمیشہ لڑتے رہتے ہیں!‘
تاہم، محض جھگڑے کو شادی کے خاتمے کا باعث نہیں بننا چاہئے۔ سوال یہ ہے کہ جھگڑے کو کیسے نپٹایا جاتا ہے؟ ایک ڈاکٹر کے مطابق ایک کامیاب شادی میں شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے ”حریف“ بنے بغیر اپنے مسائل پر گفتگو کرنا سیکھ سکتے ہیں۔
”زبان کی طاقت“
کیا آپ اور آپکا ساتھی مسائل کی بابت گفتگو کرنا جانتے ہیں؟ دونوں کو باہمی گفتگو کیلئے تیار ہونا چاہئے۔ واقعی، گفتگو ایک فن ہے—ایک ایسا فن جسے سیکھنا چیلنجخیز ہے۔ کیوں؟ ایک بات تو یہ ہے کہ ناکامل ہونے کی وجہ سے ہم سب اکثر ”باتوں میں خطا“ کرتے ہیں۔ (یعقوب ۳:۲) اس کے علاوہ، بعض نے ایسے گھروں میں پرورش پائی ہے جہاں والدین میں سے کوئی ایک ہمیشہ سخت غصے میں رہتا تھا۔ ایک لحاظ سے گویا اُنہیں بچپن ہی سے یہ تربیت دی گئی تھی کہ غصے میں شوروغل اور بدکلامی کرنا معمول کی بات ہے۔ ایسے ماحول میں پروان چڑھنے والا لڑکا ایک ”قہرآلودہ“ اور ”غضبناک“ آدمی بن سکتا ہے۔ (امثال ۲۹:۲۲) اسی طرح، ایسے ماحول میں پرورش پانے والی لڑکی بھی ”جھگڑالو اور چڑچڑی“ عورت بن سکتی ہے۔ (امثال ۲۱:۱۹) ایسی پُختہ سوچ اور ردِعمل کو تبدیل کرنا انتہائی مشکل ہو سکتا ہے۔ *
لہٰذا جھگڑے پر قابو پانے میں اپنے نظریات کا اظہار کرنے کیلئے نئے طریقے تلاش کرنا بھی شامل ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کیونکہ بائبل مثل بیان کرتی ہے: ”موت اور زندگی زبان کے قابو میں ہیں۔“ (امثال ۱۸:۲۱) جیہاں، صاف بات یہ ہے کہ اپنے بیاہتا ساتھی کیساتھ آپکی طرزِگفتگو آپکے رشتے کے ختم ہو جانے یا پھر نئے سرے سے اُسے قائم کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ ”بےتامل بولنے والے کی باتیں تلوار کی طرح چھیدتی ہیں،“ ایک دوسری بائبل مثل بیان کرتی ہے، ”لیکن دانشمند کی زبان صحتبخش ہے۔“—امثال ۱۲:۱۸۔
اس سلسلے میں، خواہ آپکا ساتھی بنیادی طور پر قصوروار ہی کیوں نہ دکھائی دے توبھی اُن باتوں پر غور کریں جو آپ بحثوتکرار کے دوران کہتے ہیں۔ کیا آپ کی باتیں تلخ ہیں یا تازگیبخش؟ کیا وہ اشتعالانگیز ہیں یا تسکینبخش؟ بائبل کہتی ہے، ”کرخت باتیں غضبانگیز ہیں۔“ اسکے برعکس، ”نرم جواب قہر کو دُور کر دیتا ہے۔“ (امثال ۱۵:۱) کرخت باتیں—خواہ وہ نرمی سے ہی کہی جائیں—جلتی آگ پر تیل ڈالنے کے مترادف ہونگی۔
بِلاشُبہ، اگر کوئی بات آپکو پریشان کرتی ہے تو آپکو اپنی بات کہنے کا حق حاصل ہے۔ (پیدایش ۲۱:۹-۱۲) مگر آپ طنز، توہین اور تذلیل کئے بغیر بھی ایسا کر سکتے ہیں۔ اپنے لئے حدود مقرر کریں—ایسی باتیں کہنے سے گریز کریں جو آپ اپنے بیاہتا ساتھی سے نہیں کہیں گے جیسے کہ ”مجھے تم سے نفرت ہے“ یا ”کاش ہماری شادی نہ ہوتی۔“ علاوہازیں ایسی باتیں کہنے سے بھی گریز کریں جنہیں مسیحی رسول پولس ”لفظی تکرار“ اور ”جھگڑے“ کا نام دیتا ہے اگرچہ اُسوقت وہ بالخصوص شادی کے موضوع پر گفتگو نہیں کر رہا تھا۔ * (۱-تیمتھیس ۶:۴، ۵) اگر آپکا بیاہتا ساتھی ایسے طریقے استعمال کرتا ہے توبھی یہ ضروری نہیں کہ آپ بھی ویسا ہی جوابیعمل دکھائیں۔ جہاں تک آپ کا تعلق ہے صلح کے طالب ہوں۔—رومیوں ۱۲:۱۷، ۱۸؛ فلپیوں ۲:۱۴۔
سچ ہے کہ آپے سے باہر ہو جانے والے ایک شخص کیلئے زبان پر قابو رکھنا مشکل یعقوب ۳:۶، ۸) پس، جب غصہ آنے لگے تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟ آپ کس طریقے سے اپنے ساتھی سے باتچیت کرینگے جس سے آپ جھگڑا بڑھانے کی بجائے ختم کرنے کے قابل ہونگے؟
ہو جاتا ہے۔ ”زبان بھی ایک آگ ہے،“ بائبل مصنف یعقوب بیان کرتا ہے۔ ”زبان کو کوئی آدمی قابو میں نہیں کر سکتا۔ وہ ایک بلا ہے جو کبھی رُکتی ہی نہیں۔ زہرِقاتل سے بھری ہوئی ہے۔“ (اشتعالانگیز بحثوتکرار کو ختم کرنا
بعض نے یہ محسوس کِیا ہے کہ اگر وہ اپنے ساتھی کے افعال کی بجائے اپنے احساسات پر زور دیتے ہوئے اصل مسئلے پر گفتگو کرتے ہیں تو غصے پر قابو پانا آسان ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، ”آپ نے میرے جذبات مجروح کئے ہیں“ یا ”آپ خود جانتے ہیں مجھے اسکی بابت کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ہے،“ ایسے اظہارات کی بجائے یہ کہنا زیادہ مؤثر ہوگا کہ ”آپ کی بات سے مجھے دُکھ پہنچا ہے۔“ بِلاشُبہ، اپنے احساسات کا اظہار کرتے ہوئے آپکی آواز میں تلخی یا نفرت کا عنصر نہیں ہونا چاہئے۔ آپ کا مقصد دوسرے شخص کو حملے کا نشانہ بنانے کی بجائے مسئلے پر توجہ دلانا ہونا چاہئے۔—پیدایش ۲۷:۴۶–۲۸:۱۔
اِسکے علاوہ، یہ بھی ہمیشہ یاد رکھیں کہ ”چپ رہنے کا ایک وقت ہے اور بولنے کا ایک وقت ہے۔“ (واعظ ۳:۷) جب دو اشخاص بیکوقت بولتے ہیں تو دونوں میں سے کوئی بھی سن نہیں رہا ہوتا جسکا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ پس جب آپکی سننے کی باری ہو تو ”سننے میں تیز اور بولنے میں [دھیرے]“ ہوں۔ ”قہر میں دھیما“ ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ (یعقوب ۱:۱۹) اپنے ساتھی کی ہر تلخ بات کا جواب نہ دیں اور بائبل کی اس مشورت کو یاد رکھیں، ”خفا ہونے میں جلدی نہ کر۔“ (واعظ ۷:۹) اِسکے برعکس، اپنے ساتھی کے الفاظ کے درپردہ احساسات کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں۔ ”آدمی کی تمیز [بصیرت] اُسکو قہر کرنے میں دھیما بناتی ہے۔ اور خطا سے درگذر کرنے میں اُسکی شان ہے۔“ (امثال ۱۹:۱۱) بصیرت ایک شوہر یا بیوی کو کسی نااتفاقی کی اصل وجہ جاننے میں مدد دے سکتی ہے۔
مثال کے طور پر، ایک بیوی کی یہ شکایت ہے کہ اُسکا شوہر اُسکے ساتھ وقت نہیں گزارتا یہ محض گھنٹوں یا لمحوں پر مشتمل اوقات کی بات نہیں ہو سکتی۔ شاید اسکا تعلق اُسکے نظرانداز کئے جانے یا اُسکی ناقدری کئے جانے کیساتھ ہے۔ اسی طرح ایک شوہر کا بیوی کی اپنی مرضی سے خریداری کرنے پر ہنگامہ برپا کرنا محض چند اضافی روپوں کی بات نہیں ہے۔ غالباً اِس میں فیصلہ کرنے کے سلسلے میں اُسکی رائے کو نظرانداز کر دئے جانے کی بات زیادہ ہے۔ بصیرت سے کام لینے والے شوہر یا بیوی معاملے کی تہہ تک جا کر مسئلے کی اصل وجہ جاننے کی کوشش کرینگے۔—امثال ۱۶:۲۳۔
کیا یہ کہنا آسان اور کرنا مشکل ہے؟ بالکل دُرست! بعضاوقات، پوری کوشش کے باوجود سخت الفاظ مُنہ سے نکل جاتے ہیں اور غصہ آ جاتا ہے۔ جب آپ دیکھتے ہیں کہ معاملہ ایسی صورت اختیار کرنے والا ہے تو شاید آپکو امثال ۱۷:۱۴ کی نصیحت پر عمل کرنے کی ضرورت ہے: ”لڑائی سے پہلے جھگڑے کو چھوڑ دو۔“ غصہ ٹھنڈا ہونے تک گفتگو کو روک دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر گفتگو کو دوبارہ شروع کرنے سے مسئلے کے بگڑنے کا خطرہ ہے تو یہ اچھا ہوگا کہ کسی پُختہ دوست کو بٹھا کر باتچیت کریں جو آپکو اختلافات ختم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ *
حقیقتپسندانہ نقطۂنظر قائم رکھیں
اگر آپکی شادی اُن توقعات پر پوری نہیں اُترتی جسکا تصور آپ نے معاشقے کے دوران کِیا تھا تو اس سے بےحوصلہ نہ ہوں۔ ماہرین کی ایک ٹیم کہتی ہے: ”بیشتر لوگوں کیلئے شادی محض خوشیوں کا گہوارہ نہیں ہے۔ یہ بعضاوقات نہایت مسرتبخش جبکہ دیگر اوقات پر انتہائی کٹھن ثابت ہوتی ہے۔“
جیہاں، ممکن ہے شادی ایک رومانوی افسانہ نہ ہو تاہم اِسے ایک المیہ بھی نہیں ہونا چاہئے۔ ایسے اوقات بھی ہو سکتے ہیں جب آپکو اور آپکے بیاہتا ساتھی کو ایک دوسرے کی برداشت کرنی ہوگی مگر ایسے مواقع بھی ہونگے جب آپ اپنے اختلافات کو بالائےطاق رکھ کر اکٹھے رہنے، تفریح کرنے اور دوستوں کی طرح ایک دوسرے کیساتھ گفتگو کرنے سے خوش ہو سکتے ہیں۔ (افسیوں ۴:۲؛ کلسیوں ۳:۱۳) ایسے اوقات ہی میں آپ اپنی محبت کو جِلا بخش سکتے ہیں۔
یاد رکھیں، دو ناکامل انسان کامل ازدواجی رشتہ نہیں رکھ سکتے۔ مگر وہ کسی حد تک خوشی حاصل کر سکتے ہیں۔ بِلاشُبہ، مشکلات کے باوجود، آپ اور آپکے بیاہتا ساتھی کے مابین رشتہ بڑا تازگیبخش ہو سکتا ہے۔ یہ سچ ہے: اگر آپ اور آپکا ساتھی دونوں ملکر کوشش کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی بہتری کے خواہاں ہیں تو یہ بات یقینی ہے کہ آپکی شادی بچ سکتی ہے۔—۱-کرنتھیوں ۱۰:۲۴۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 22 والدین کا اثر بیاہتا ساتھی کے ساتھ بدکلامی کرنے کا عذر نہیں بن سکتا۔ تاہم، یہ اس چیز کو بیان کرنے میں معاون ثابت ہوگا کہ ایسا میلان کتنا گہرا نقش ہو سکتا ہے نیز یہ کہ اسے نکالنا کسقدر مشکل ہوتا ہے۔
^ پیراگراف 25 اصل یونانی لفظ جسکا ترجمہ ”جھگڑے“ کِیا گیا ہے اُسے ’باہمی تنازعات‘ کے طور پر بھی پیش کِیا جا سکتا ہے۔
^ پیراگراف 31 یہوواہ کے گواہوں کو کلیسیائی بزرگوں کی مدد حاصل ہے۔ وہ شادیشُدہ جوڑوں کے ذاتی معاملات میں عدمِمداخلت کے باوجود مشکل کا سامنا کرنے والے جوڑوں کی مدد کر سکتے ہیں۔—یعقوب ۵:۱۴، ۱۵۔
[صفحہ ۱۲ پر عبارت]
آپکی باتیں تلخ ہیں یا تازگیبخش؟
[صفحہ ۱۰ پر بکس/تصویریں]
گیند آرام سے اُچھالیں
بائبل بیان کرتی ہے: ”تمہارا کلام ہمیشہ ایسا پُرفضل اور نمکین ہو کہ تمہیں ہر شخص کو مناسب جواب دینا آ جائے۔“ (کلسیوں ۴:۶) اس بات کا اطلاق یقیناً شادی پر بھی ہوتا ہے! مثال کے طور پر: آپ گیند کیچ کرنے والے کھیل میں گیند کو ایسے اُچھالتے ہیں کہ اسے آسانی سے پکڑا جا سکے۔ یقیناً آپ اُسے اتنے زور سے نہیں اُچھالتے کہ آپکا ساتھی زخمی ہو جائے۔ اپنے بیاہتا ساتھی کیساتھ گفتگو کے سلسلے میں بھی اِسی اصول کا اطلاق کریں۔ تلخ باتیں محض نقصان پہنچائینگی۔ اسکی بجائے، نرمی اور شفقت کیساتھ بات کریں تاکہ آپکا ساتھی آپکے نقطۂنظر کو سمجھ سکے۔
[صفحہ ۱۱ پر بکس/تصویر]
یادیں تازہ کرنا!
پُرانے خطوط اور کارڈز پڑھیں۔ تصاویر دیکھیں۔ خود سے پوچھیں، ’کس چیز نے مجھے اپنے ساتھی کی طرف راغب کِیا تھا؟ کونسی خوبیاں مجھے بہت پسند تھیں؟ ہم کونسے کام ملکر کرتے تھے؟ کن باتوں پر ہم ہنسا کرتے تھے؟‘ اسکے بعد اپنے بیاہتا ساتھی کو اِن یادوں میں شریک کریں۔ اِن الفاظ کیساتھ شروع ہونے والی گفتگو ”یاد ہے . . .؟“ آپ کو اور آپ کے بیاہتا ساتھی کو اُن احساسات کو ازسرِنو تازہ کرنے میں مدد دے سکتی ہے جن میں آپ ماضی میں ایک دوسرے کو شریک کِیا کرتے تھے۔
[صفحہ ۱۲ پر بکس]
ساتھی نیا، مسائل پُرانے
بعض شوہر اور بیویاں جو یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ محبت سے عاری شادی کا شکار ہیں وہ ایک نئے ساتھی کیساتھ دوبارہ سے زندگی کا آغاز کرنے کی آزمائش میں ہوتے ہیں۔ مگر بائبل یہ کہتے ہوئے زناکاری کی مذمت کرتی ہے کہ جو شخص اس گناہ کا مرتکب ہوتا ہے ”وہ بےعقل ہے۔“ اور ”اپنی جان کو ہلاک کرنا چاہتا ہے۔“ (امثال ۶:۳۲) انجامکار غیرتائب زناکار خدا کی مقبولیت کھو دیتا ہے جسے بدترین بربادی کہا جا سکتا ہے۔—عبرانیوں ۱۳:۴۔
زناکاری کی روش ایک بہت بڑی حماقت ہے جسکا اظہار دیگر طریقوں سے بھی ہوتا ہے۔ ایک بات تو یہ ہے کہ جو زناکار نئے بیاہتا ساتھی کا انتخاب کرتا ہے وہ اُنہی مسائل سے ہمکنار ہوگا جنکا اُسے اپنی پہلی شادی میں سامنا تھا۔ ڈاکٹر ڈائن میڈوڈ ایک دوسرا غورطلب پہلو سامنے لاتی ہے: ”پہلی بات جو آپکے نئے ساتھی پر واضح ہو جاتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ بےوفا ثابت ہو سکتے ہیں۔ آپکا ساتھی یہ بخوبی جانتا ہے کہ جس شخص کیساتھ آپ نے عزتواحترام دکھانے کا عہد کِیا تھا آپ اُسے دھوکا دے سکتے ہیں۔ یہ بھی کہ آپ حیلےبہانے بنانے میں ماہر ہیں۔ نیز آپ اپنے عہدوپیماں سے بھی پلٹ سکتے ہیں۔ اِسکے علاوہ آپ شہوانی خواہشات یا اپنی ذاتی تسکین کیلئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ . . . آپکا نیا بیاہتا ساتھی کیسے یقین کریگا کہ آپ دوبارہ کسی کے جھانسے میں نہیں آئیں گے؟“
[صفحہ ۱۴ پر بکس]
بائبل امثال سے حکمت
• امثال ۱۰:۱۹: ”کلام کی کثرت خطا سے خالی نہیں لیکن ہونٹوں کو قابو میں رکھنے والا دانا ہے۔“
پریشانی کی حالت میں ممکن ہے کہ آپ کوئی ایسی بات کہہ دیں جو آپ کہنا نہیں چاہتے تھے اور پھر بعد میں اُس پر پشیمان ہوں۔
• امثال ۱۵:۱۸: ”غضبناک آدمی فتنہ برپا کرتا ہے پر جو قہر میں دھیما ہے جھگڑا مٹاتا ہے۔“
اشتعالانگیز الزامات آپ کے ساتھی کو دفاعی انداز اختیار کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں جب کہ صبر سے سننا آپ دونوں کو کسی نتیجے پر پہنچنے میں مدد دے سکتا ہے۔
• امثال ۱۷:۲۷: ”صاحبِعلم کمگو ہے اور صاحبِفہم متین ہے۔“
جب آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپکو غصہ آ رہا ہے تو جھگڑے سے بچنے کیلئے خاموش رہنا بہتر ہے۔
• امثال ۲۹:۱۱: ”احمق اپنا قہر اُگل دیتا ہے لیکن دانا اُسکو روکتا اور پی جاتا ہے۔“
ضبطِنفس انتہائی ضروری ہے۔ قہرآلودہ تلخ باتیں محض آپ کے ساتھی کو آپ سے دُور لیجائینگی۔