مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

سُست‌رَو موت سے خوشحال زندگی

سُست‌رَو موت سے خوشحال زندگی

سُست‌رَو موت سے خوشحال زندگی

دیامندی دازری کی زبانی

‏’‏میری زندگی پر موت کی مہر لگ چکی ہے۔‏‘‏ ہسپتال کے بستر پر جب خون کا ایک‌ایک قطرہ میری رگوں میں اُتر رہا تھا تو یہ خیال مسلسل میرے ذہن میں گردش کر رہا تھا۔‏ مَیں ۲۰ سال سے یہی سنتی آ رہی تھی کہ میرے زندہ رہنے کا بس یہی ایک طریقہ ہے—‏یہ بھی کوئی زندگی تھی۔‏

یونان کے جزیرے،‏ کریتے میں ایراپطرا کے مقام پر ۱۹۶۹ میں میری پیدائش کے فوراً بعد میرے والدین کو بہت ہی بُری خبر سنائی گئی۔‏ ڈاکٹروں نے اُنہیں بتایا کہ اُن کی نوزائیدہ بچی کو بیٹا تھیلسمیا یا کولی انیمیا کا مرض لاحق ہے۔‏ بیٹا تھیلسمیا خون کی موروثی بیماری ہے جو یونان،‏ اٹلی،‏ مشرقِ‌وسطیٰ،‏ جنوبی ایشیا یا افریقہ کے لوگوں میں بہت عام ہے۔‏

ڈاکٹروں نے میرے والدین کو بتایا کہ اس بیماری میں جسم کے سرخ خلیے کافی مقدار میں ہیموگلوبن یعنی ایک لحمیاتی مواد نہیں بناتے جسکا کام خلیوں تک آکسیجن پہنچانا ہے۔‏ اسی وجہ سے میرے خلیوں تک کافی مقدار میں آکسیجن نہیں پہنچتی۔‏ میرے خون میں سرخ خلیے زیادہ دیر تک نہیں ٹھہر سکتے کیونکہ میرا جگر اور تلی انہیں تلف کر کے خارج کر دیتے ہیں۔‏ اِن اعضا کا کام خراب اور ناکارہ سرخ خلیوں کو ٹھکانے لگانا ہے۔‏

میرے والدین کو بتایا گیا کہ تھیلسمیا کا واحد علاج باقاعدہ انتقالِ‌خون اور اضافی فولاد کا اخراج ہے۔‏ لہٰذا،‏ ڈاکٹروں کی وضاحت کے مطابق انتقالِ‌خون کے علاج کیساتھ ساتھ دل اور جگر میں فولاد جمع ہونے کا عمل بھی جاری رہنا تھا جو جان‌لیوا ثابت ہو سکتا تھا۔‏ انتقالِ‌خون—‏مریض کی زندگی کے پہلے دس سالوں میں موت کو روکنے کا طریقۂ‌علاج—‏میں عموماً تسمِ‌فولاد کے بنیادی اجزا شامل ہوتے ہیں جو بعدازاں نہایت مُہلک ثابت ہوتے ہیں۔‏ میری طرح،‏ تھیلسمیا کے جن مریضوں کو طویل مدت تک خون دیا جاتا ہے وہ اکثر ۳۰ سال کی عمر سے پہلے ہی عارضۂ‌قلب کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔‏

زندگی پر ”‏موت“‏ کی مہر

بچپن ہی سے موت میرے سر پر منڈلاتی رہی۔‏ ایسے ہولناک انجام والی زندگی کی رُوداد بیان کرنا واقعی بہت مشکل ہے۔‏ میرا اپنے مستقبل کیلئے نہ تو کوئی منصوبہ تھا اور نہ ہی کوئی حسین خواب تھے۔‏ مجھے تو اپنا تھیلسمیا پھٹنے والے ٹائم بم کی طرح لگتا تھا۔‏

میرے والدین میری صحت کی بابت نہایت فکرمند اور حد سے زیادہ محتاط ہو گئے تھے۔‏ میری پرورش غیرمختتم ”‏ممانعتوں“‏ اور دیگر قواعدوضوابط کے تحت ہوئی جیسےکہ:‏ ”‏دوڑنا نہیں!‏“‏ ”‏زیادہ جوش میں نہیں آنا!‏“‏ ”‏احتیاط کرنا!‏“‏

میری حالت نے میری گریک آرتھوڈکس ماں کو بہت ہی مذہبی بنا دیا تھا۔‏ وہ بڑی خلوصدلی کیساتھ بُتوں سے دُعائیں کرتی تھی۔‏ میری شفایابی کیلئے وہ مجھے ایمانی شفا کیلئے مشہور دُوراُفتادہ خانقاہوں میں لیکر جاتی تھی اور میرے لئے بہت سے تعویذگنڈے کراتی تھی۔‏ ان سب کاموں کیلئے پانی کی طرح پیسہ بہایا گیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔‏

میرا خدا پر ایمان تھا اور مَیں اُس سے محبت بھی کرتی تھی مگر اُسکی پرستش کے طریقے سے بےبہرہ تھی۔‏ مَیں اکثر مایوسی کے عالم میں آنسو بہابہا کر دُعا کِیا کرتی تھی کہ ”‏اَے میرے خدا اگر تُو موجود ہے اور مجھے عزیز رکھتا ہے تو میری مدد کر۔‏“‏

اطمینان کی جستجو

عمر بڑھنے کیساتھ ساتھ،‏ میرے خون میں فولاد کی زیادتی کی وجہ سے میری صحت بھی تیزی سے خراب ہونے لگی۔‏ مَیں اپنے علاج کیلئے خون میں فولاد کی مقدار کم کرنے والا آلہ استعمال کرتی تھی۔‏ مجھے ہر رات جوفِ‌شکم کی جِلد میں ایک سوئی لگا کر رکھنی پڑتی تھی جس سے فولاد کو کم کرنے والا ایک سیال مادہ ایک پتلی دھار کی صورت میں میرے جسم میں داخل ہوتا رہتا تھا۔‏ ہر رات مَیں اس کرب سے گزرتی تھی۔‏ مَیں اکثر اُن راتوں کی بےخوابی میں موت کی آرزو کرتی تھی۔‏ مجھے ایسے لگتا تھا جیسے خدا نے میری فریاد اَن‌سنی کر دی ہے۔‏

مَیں ۱۶ سال کی عمر میں ہیوی میٹل میوزک کے ایک گروپ میں شامل ہو گئی جس میں سارے نوجوان ہی تھے۔‏ اطمینان کی جستجو میں،‏ مجھے سفاکی،‏ تشدد اور شیطانیت کی بڑائی کرنے والی اس موسیقی سے قدرے تسکین حاصل ہوئی۔‏ میرے اِردگِرد بدی ہی بدی تھی اسلئے مَیں اس خیال سے متفق ہو گئی کہ کوئی بُری قوت ہی یہ نظامِ‌کائنات چلا رہی ہے۔‏ لیکن جلد ہی منشیات اور شیطانیت کے نتائج سامنے آنے لگے۔‏ میرے ساتھی ہمیشہ پولیس سے بھاگتے رہتے تھے۔‏

انتقالِ‌خون کے لئے باربار لگنے والی سوئیوں سے میرا جسم چھلنی ہو چکا تھا۔‏ فولاد کی زیادتی سے میری آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے پڑ گئے تھے اور میری جِلد زرد ہو گئی تھی۔‏ میرے لباس—‏گل‌میخی اور ہڈیوں سے مزین سیاہ کپڑے اور چمڑے کی جیکٹ جو میرے گروہ کی پہچان تھی—‏سے بھی میری وضع‌قطع میں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔‏ خوشی کی بات ہے کہ مَیں نے کبھی منشیات کا استعمال نہیں کِیا تھا۔‏

موت،‏ منشیات،‏ ارواح‌پرستی،‏ شیطانیت اور خون کی بابت ہیوی میٹل میوزک سن سن کر مجھے ایسا لگنے لگا جیسے مَیں شیطان کے چنگل میں پھنس گئی ہوں۔‏ رات کو مَیں اکثر عالمِ‌نراس میں آنسو بہاتی رہتی تھی۔‏ میری زندگی کے اسی نازک لمحے پر مجھے اُمید کی ایک کرن دکھائی دی۔‏

میری زندگی میں تبدیلی

جب مَیں ۲۰ سال کی تھی تو ایک دن میری کسی سہیلی نے مجھے ایک کتاب دی جو اُس نے یہوواہ کے گواہوں سے حاصل کی تھی۔‏ اس کا عنوان تھا دی بائبل—‏گاڈز ورڈ آر مینز؟‏ * وہ اس کتاب کو پڑھنا نہیں چاہتی تھی لیکن جب مَیں نے اس کی ورق‌گردانی کی تو مَیں اس سے بہت متاثر ہوئی۔‏ اس میں وضاحت کی گئی تھی کہ بائبل اُصول کسی شخص کی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔‏ مَیں ابتدائی مسیحیوں کی اذیت اور اپنے ایمان کے لئے اپنی جان تک قربان کر دینے کے سلسلے میں اُن کی رضامندی کی بابت پڑھ کر بھی بہت متاثر ہوئی۔‏ پوری کتاب پڑھ لینے کے بعد،‏ مَیں یہ باتیں دوسروں کو بتانا چاہتی تھی۔‏ اِس وقت میری ملاقات مانولز سے ہوئی جو اپنے کچھ یہوواہ کے گواہ رشتہ‌داروں کی بدولت یہوواہ اور بائبل کے پیغام سے واقف تھا۔‏ وہ مجھے مقامی یہوواہ کے گواہوں کے اجلاس پر لے گیا اور مَیں نے ۱۹۹۰ کے موسمِ‌گرما ہی میں اُن کے ساتھ بائبل مطالعہ شروع کر دیا۔‏

اپنے بائبل مطالعہ سے مَیں نے سیکھا کہ ہمارا خالق ہماری بڑی پرواہ کرتا ہے اور وہ بیشتر لوگوں کے تجربے میں آنے والی بیماری اور تکلیف کا ذمہ‌دار نہیں ہے۔‏ (‏۱-‏پطرس ۵:‏۷‏)‏ مَیں نے سیکھا کہ گناہ اور موت شیطان کی وجہ سے دُنیا میں وارد ہوئے تھے،‏ لہٰذا یہوواہ جلد ہی اس فرسودہ نظام کی جگہ کامل نئی دُنیا قائم کرنے سے شیطان کے کاموں کو مٹا دے گا۔‏ (‏عبرانیوں ۲:‏۱۴‏)‏ فردوسی ماحول میں،‏ خداترس لوگ کاملیت حاصل کریں گے۔‏ پھر کوئی بھی نہیں کہے گا کہ ”‏مَیں بیمار ہوں۔‏“‏—‏یسعیاہ ۳۳:‏۲۴‏۔‏

اِسی دوران مَیں نے یہ بھی سیکھا کہ بائبل ’‏خون سے پرہیز‘‏ کرنے کا حکم دیتی ہے۔‏ (‏اعمال ۱۵:‏۲۰،‏ ۲۹؛‏ پیدایش ۹:‏۴‏)‏ بائبل کے بلند معیاروں اور اُصولوں کے مطابق اپنے ضمیر کی تعلیم‌وتربیت کرنے سے مَیں نے انتقالِ‌خون کے سلسلے میں ذاتی فیصلہ کرنے کی تحریک پائی۔‏ مَیں نے فیصلہ کِیا کہ اب مَیں خون نہیں لونگی۔‏

مجھے ۲۰ سال سے زیادہ عرصے سے یہی بتایا گیا تھا کہ باقاعدہ انتقالِ‌خون میرے زندہ رہنے کا واحد طریقہ ہے۔‏ کیا بائبل کے حکم کی پابندی کرنے سے مَیں خود اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے پروانۂ‌اجل پر دستخط کر رہی تھی؟‏ میرے والدین خون لینے سے انکار کی بابت کیا سوچیں گے؟‏ کیا ڈاکٹر اور باقی طبّی عملہ مجھ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کریگا؟‏

نازک فیصلے کرنا

مَیں نے مخلصانہ دُعا میں اپنی ساری فکر یہوواہ پر ڈال دی۔‏ (‏زبور ۵۵:‏۲۲‏)‏ مَیں نے دیگر طبّی علاج ڈھونڈنے کا تہیہ بھی کر لیا۔‏ کافی تحقیق کے بعد مجھے پتہ چلا کہ مَیں انتقالِ‌خون کی بجائے فولاد اور حیاتین پر مشتمل متوازن غذا استعمال کر سکتی ہوں۔‏ سب سے بڑھکر مَیں بائبل میں وضع‌کردہ خدائی شرع کی پابندی کرنے کیلئے پُرعزم تھی۔‏

قابلِ‌فہم طور پر،‏ میرے والدین اس بات پر برہم تھے۔‏ میرے بچپن سے اُنہوں نے مجھے زندہ رکھنے کی سرتوڑ کوشش کی تھی اور اب مَیں انتقالِ‌خون سے انکار کر رہی تھی!‏ تاہم،‏ بالآخر وہ اس بات پر راضی ہو گئے کہ وہ اس معاملے میں میرے ذاتی فیصلے کی حمایت کرینگے۔‏

پھر مَیں نے ہسپتال کے طبّی عملے کو اپنا مذہبی مؤقف سمجھایا اور اُنہیں انتقالِ‌خون کے متبادلات کو سنجیدگی سے استعمال کرنے کی یقین‌دہانی کرائی۔‏ ڈاکٹر بادلِ‌نخواستہ میری خواہشات کا احترام کرنے پر آمادہ ہو گئے۔‏

ماضی میں جب مَیں انتقالِ‌خون کیلئے جایا کرتی تھی تو تھیلسمیا کے دیگر نوجوان مریضوں سے میری دوستی ہو گئی تھی۔‏ اب وہ خون کی بابت میرے فیصلے سے پریشان تھے۔‏ اُن میں سے ایک نے تو طنزاً کہا کہ جلد ہی مجھے ”‏چار کندھوں کا سہارا“‏ لینا پڑیگا۔‏ افسوس کی بات ہے کہ میری یہ سہیلی آلودہ انتقالِ‌خون کی وجہ سے ہلاک ہونے والے پانچ مریضوں میں سے ایک تھی!‏

اگست ۱۹۹۱ سے مَیں نے خون نہیں لیا۔‏ تمام پیشگوئیوں کے برعکس،‏ مَیں زندہ اور نسبتاً تندرست ہوں۔‏ موقتی پیچیدگیوں اور تھیلسمیا کے باعث پیدا ہونے والی دائمی کمزوری کے باوجود،‏ حیاتین اور فولاد والی خوراک کھانے سے میری صحت اچھی ہو گئی ہے۔‏

سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ اب میری زندگی بامقصد ہے جس سے مَیں اپنے خالق،‏ یہوواہ خدا کیساتھ قریبی رشتے سے محظوظ ہو رہی ہوں۔‏ مَیں نے جولائی ۱۹۹۲ میں یہوواہ کیلئے اپنی مخصوصیت کے اظہار میں پانی کا بپتسمہ لیا۔‏ مجھے نہایت اہم مدد فراہم کرنے والی یہوواہ کے گواہوں کی مسیحی کلیسیا سے متعارف کرانے والے میرے عزیز دوست مانولز کا بپتسمہ بھی اُسی دن ہوا۔‏ تقریباً ۱۸ ماہ بعد ہماری شادی ہو گئی۔‏ بعدازاں،‏ مجھے اپنی ماں اور بہن کو بھی یہوواہ کی بپتسمہ‌یافتہ گواہ بنتے ہوئے دیکھنے کی خوشی حاصل ہوئی۔‏ یہوواہ کے گواہوں کی بابت میرے والد کی رائے اب بدل گئی ہے اور وہ کبھی‌کبھار کلیسیائی اجلاسوں پر حاضر ہوتا ہے۔‏

مَیں نے یہ سیکھ لیا ہے کہ موت ہماری دُشمن تو ہے مگر اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔‏ (‏زبور ۲۳:‏۴‏)‏ ہمارا جینا مرنا یہوواہ خدا کیلئے ہی ہونا چاہئے۔‏ ہماری زندگی اُسی کے ہاتھوں میں ہے۔‏ (‏رومیوں ۱۴:‏۸‏)‏ مَیں ہمیشہ اُس کی شکرگزار رہونگی کہ اُس نے مجھے ایسی زندگی سے بچا لیا ہے جس کا انجام صرف سُست‌رَو موت تھا۔‏ واقعی،‏ اُسی نے مجھے ابدی زندگی کی اُمید بخشی ہے!‏—‏مکاشفہ ۲۱:‏۱-‏۴‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 18 واچ‌ٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیو یارک،‏ انکارپوریٹڈ کی شائع‌کردہ۔‏

‏[‏صفحہ ۲۱ پر تصویر]‏

مَیں اطمینان کی جستجو کر رہی تھی

‏[‏صفحہ ۲۲ پر تصویر]‏

اپنے شوہر مانولز کیساتھ