مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

محبت کیوں ماند پڑ جاتی ہے؟‏

محبت کیوں ماند پڑ جاتی ہے؟‏

محبت کیوں ماند پڑ جاتی ہے؟‏

‏”‏محبت میں گرفتار ہو جانا محبت میں قائم رہنے سے زیادہ آسان ہے۔‏“‏ —‏ڈاکٹر کرن قیصر۔‏

محبت سے عاری شادیوں میں اضافہ شاید کوئی حیران‌کُن بات نہیں ہے۔‏ شادی ایک پیچیدہ انسانی رشتہ ہے اور بیشتر اس رشتے میں کسی تیاری کے بغیر ہی بندھ جاتے ہیں۔‏ ”‏ڈرائیور کے طور پر لائسنس حاصل کرنے کے لئے ہمیں کسی حد تک اپنی لیاقت کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے،‏“‏ ڈاکٹر ڈین ایس.‏ ایڈل بیان کرتا ہے،‏ ”‏مگر شادی کے اجازت‌نامے دستخط کے ذریعے حاصل کئے جا سکتے ہیں۔‏“‏

بیشتر شادیوں کے کامیاب اور خوشحال ہونے کے باوجود کافی شادیاں شدید تناؤ کا شکار رہتی ہیں۔‏ شاید ایک یا دونوں بیاہتا ساتھیوں نے بڑی بڑی توقعات کے ساتھ شادی کی تھی مگر شاید دیر تک رشتے کو قائم رکھنے کے لئے ضروری مہارتوں سے محروم تھے۔‏ ”‏شروع شروع میں جب لوگ ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں،‏“‏ ڈاکٹر ہیری ریز بیان کرتا ہے،‏ ”‏تو اُنہیں ایک دوسرے کی پُرزور حمایت اور مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔‏“‏ وہ محسوس کرتے ہیں کہ اُن کا ساتھی ہی دُنیا کا ”‏وہ واحد شخص ہے جو اُن جیسا اندازِفکر رکھتا ہے۔‏ ایسے جذبات بعض‌اوقات ماند پڑ جاتے ہیں اور جب ایسا ہوتا ہے تو یہ ازدواجی زندگی کے لئے نہایت کٹھن ثابت ہو سکتا ہے۔‏“‏

تاہم بیشتر شادیوں کے سلسلے میں ایسے نہیں ہوتا۔‏ مگر آئیے چند ایسے عناصر کا مختصراً جائزہ لیں جو بعض صورتوں میں محبت کے ماند پڑنے کا سبب بن سکتے ہیں۔‏

فریبِ‌نظر—‏”‏یہ میرے وہم‌وگمان میں بھی نہ تھا“‏

‏”‏جب مَیں نے جم سے شادی کی،‏“‏ روز کہتی ہے،‏ ”‏تو میرا خیال تھا کہ ہم دونوں حسن‌وعشق کی مثال ہونگے—‏وہ میرے خوابوں کا شہزادہ ہوگا اور مَیں اُسکے خوابوں کی شہزادی ہونگی۔‏“‏ تاہم،‏ کچھ ہی عرصے کے بعد،‏ وہ روز کا ”‏خوابوں کا شہزادہ“‏ نہ رہا۔‏ وہ کہتی ہے ”‏اُس نے مجھے بہت مایوس کِیا۔‏“‏

بیشتر فلمیں،‏ کُتب اور مقبول گیت محبت کی ایک غیرحقیقی تصویر پیش کرتے ہیں۔‏ شاید معاشقے کے دوران،‏ ایک مرد اور عورت یہ محسوس کریں کہ اُنکا خواب پورا ہونے والا ہے؛‏ مگر شادی کے چند ہی سال بعد وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اُنہوں نے واقعی ایک خواب دیکھا تھا!‏ کتابی عشق‌ومحبت ایک کامیاب شادی کو بھی بالکل ناکام ظاہر کر سکتا ہے۔‏

بِلاشُبہ شادی میں بعض توقعات بالکل واجب ہوتی ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ ساتھی کی طرف سے محبت،‏ توجہ اور حمایت کی توقع کرنا معقول ہے۔‏ تاہم،‏ ایسی خواہشات بھی تِشنہ رہ سکتی ہیں۔‏ ”‏مجھے تو یوں لگتا ہے جیسے میری شادی ہی نہیں ہوئی،‏“‏ انڈیا میں ایک نوجوان دُلہن مینا کہتی ہے۔‏ ”‏مَیں تنہائی اور بےتوجہی کا شکار ہوں۔‏“‏

ناموافقت—‏”‏ہماری کوئی بھی قدر مشترک نہیں“‏

‏”‏مَیں اور میرا شوہر ہر بات میں ایک دوسرے سے بالکل ہی مختلف ہیں،‏“‏ ایک خاتون کہتی ہے۔‏ ”‏کوئی بھی دن ایسا نہیں گزرتا جب مَیں اُس کیساتھ شادی کرنے کے اپنے فیصلے پر پشیمان نہیں ہوتی۔‏ ہمارا کوئی جوڑ ہی نہیں۔‏“‏

عموماً ایک شادی‌شُدہ جوڑے کو یہ جاننے میں زیادہ وقت نہیں لگتا کہ اُن میں اتنی زیادہ ہم‌آہنگی نہیں جتنی کہ معاشقے کے دوران دکھائی دیتی تھی۔‏ ”‏شادی اکثر ایسی عادات کو نمایاں کر دیتی ہے جو اُس شخص نے اپنی تمام زندگی کے دوران شاید اپنے آپ سے بھی چھپا رکھی تھیں،‏“‏ ڈاکٹر نینا ایس.‏ فیلڈز لکھتی ہے۔‏

نتیجتاً،‏ شادی کے بعد بعض جوڑے یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے لئے بالکل موزوں نہیں ہیں۔‏ ڈاکٹر ایرون ٹی.‏ بیک کہتا ہے،‏ ”‏کسی حد تک مزاج اور شخصیات میں مطابقت کے باوجود،‏ بیشتر لوگ آداب‌واطوار،‏ عادات‌ورُجحانات میں بڑے فرق کیساتھ ازدواجی رشتے میں بندھ جاتے ہیں۔‏“‏ بیشتر جوڑے تو یہ بھی نہیں جانتے کہ اِن اختلافات پر کیسے مفاہمت کی جا سکتی ہے۔‏

جھگڑا—‏”‏ہم میں ہمیشہ تکرار رہتی ہے“‏

اپنی شادی کے ابتدائی دنوں کو یاد کرتے ہوئے سینڈی کہتی ہے،‏ ”‏یہ جان کر ہمیں بڑی حیرت ہوئی کہ ہم دونوں کتنا لڑتے تھے—‏شور مچاتے تھے اور اِس سے بھی بدترین بات یہ تھی کہ ہم کئی کئی دن ایک دوسرے سے بات بھی نہیں کرتے تھے۔‏

ازدواجی زندگی میں نااتفاقیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔‏ مگر اُن سے کیسے نپٹا جا سکتا ہے؟‏ ”‏خوشگوار شادی میں،‏“‏ ڈاکٹر ڈینئل گولمین لکھتا ہے،‏ ”‏شوہر اور بیوی آزادانہ طور پر ایک دوسرے سے شکایت کرتے ہیں۔‏ مگر اکثراوقات غصے میں شکایات کا اظہار بیاہتا ساتھی کے کردار کو نشانہ بنا کر کِیا جاتا ہے۔‏“‏

جب ایسا ہوتا ہے تو گفتگو محاذِجنگ بن جاتی ہے جس میں بڑی مستقل‌مزاجی سے نظریات کا دفاع کِیا جاتا ہے اور الفاظ رابطے کے آلۂ‌کار کی بجائے جنگی اسلحے کا روپ دھار لیتے ہیں۔‏ ماہرین کی ایک ٹیم کہتی ہے:‏ ”‏بےقابو بحث‌وتکرار کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ بعض‌اوقات بیاہتا ساتھی ایسی باتیں کہہ دیتے ہیں جو اُنکی ازدواجی زندگی کو مشکلات سے دوچار کر دیتی ہیں۔‏“‏

سردمہری—‏”‏ہم ہار گئے ہیں“‏

‏”‏مَیں نے اپنی شادی کو کامیاب بنانے کی کوشش ترک کر دی ہے،‏“‏ شادی کے پانچ سال بعد ایک خاتون نے اعتراف کِیا۔‏ ”‏مجھے پتا ہے کہ یہ کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔‏ تاہم مَیں اپنے بچوں کیلئے ضرور فکرمند ہوں۔‏“‏

ایک رائے کے مطابق محبت کی ضد نفرت کی بجائے سردمہری ہے۔‏ بِلاشُبہ،‏ اختلاف بھی شادی کیلئے اُتنا ہی تباہ‌کُن ہے جتنی کہ رقابت۔‏

تاہم،‏ افسوسناک بات یہ ہے کہ بعض بیاہتا ساتھی محبت سے عاری شادی کے اتنے عادی ہو جاتے ہیں کہ وہ کسی بھی قسم کی تبدیلی کی اُمید چھوڑ دیتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ ایک شوہر نے کہا ۲۳ سال سے ازدواجی رشتے میں بندھے رہنا ”‏ایک ایسی ملازمت کی مانند ہے جو آپکو پسند نہیں ہے۔‏“‏ اُس نے مزید کہا:‏ ”‏ایسی صورت میں آپ اپنی سی کوشش کریں۔‏“‏ اسی طرح،‏ وینڈی نامی ایک خاتون سات سال بعد اپنے شوہر سے بالکل نااُمید ہو چکی ہے۔‏ ”‏مَیں نے کئی مرتبہ کوشش کی،‏“‏ وہ کہتی ہے،‏ ”‏مگر اُس نے ہمیشہ میری تحقیر کی۔‏ انجام‌کار مَیں افسردگی کا شکار ہو گئی۔‏ مَیں دوبارہ اس حالت سے نہیں گزرنا چاہتی۔‏ اگر مَیں کوئی آس رکھوں بھی تو مجھے دُکھ کے سوا کچھ نہیں ملیگا۔‏ اس کے بعد میری تمام توقعات ختم ہو جائینگی—‏مجھے کوئی چیز اچھی نہیں لگے گی مگر مَیں افسردگی کا شکار تو نہیں ہونگی۔‏“‏

فریب‌نظر،‏ ناموافقت،‏ جھگڑا اور سردمہری جیسے عناصر محبت سے عاری شادی کا باعث بن سکتے ہیں۔‏ صاف ظاہر ہے کہ کئی دوسرے عناصر بھی ہیں جن میں سے چند ایک کا ذکر صفحہ ۵ پر دیئے گئے بکس میں کِیا گیا ہے۔‏ اسباب سے قطع‌نظر،‏ کیا محبت سے عاری شادی کا شکار بیاہتا ساتھیوں کیلئے کوئی اُمید ہے؟‏

‏[‏صفحہ ۵ پر بکس/‏تصویر]‏

محبت سے عاری شادی—‏چند دیگر عناصر

‏• روپیہ‌پیسہ:‏ ‏”‏ایک شخص سوچ سکتا ہے کہ روپےپیسے کا حساب‌کتاب ایک جوڑے کو کام کرنے کی ضرورت کیلئے متحد کریگا اور گزربسر کرنے کیلئے اپنے وسائل کو بروئےکار لاتے ہوئے اپنی محنت کے ثمر سے خوش ہونے کا موقع فراہم کریگا۔‏ مگر ایک بار پھر جو چیز ایک بیاہتا جوڑے کو قریب لا سکتی ہے وہی اکثر اُنکی جدائی کا باعث بنتی ہے۔‏“‏—‏ڈاکٹر ایرون ٹی.‏ بیک۔‏

‏• والدین بننا:‏ ‏”‏ہم نے دیکھا ہے کہ پہلے بچے کی پیدائش کے بعد ۶۷ فیصد جوڑے ازدواجی رشتے سے لطف‌اندوز ہونا کم کر دیتے ہیں اور لڑائی‌جھگڑوں میں آٹھ گُنا اضافہ ہو جاتا ہے۔‏ اسکی ایک وجہ تو یہ ہوتی ہے کہ والدین بہت زیادہ تھک جاتے ہیں اور اُنکے پاس اپنے لئے زیادہ وقت نہیں ہوتا۔‏“‏—‏ڈاکٹر جان گوٹ‌مین۔‏

‏• دغابازی:‏ ‏”‏بیاہتا ساتھیوں کے درمیان بےوفائی میں عموماً دغابازی کا عنصر شامل ہوتا ہے نیز،‏ صاف اور سادہ الفاظ میں دغابازی کا مطلب اعتماد کو دھوکا دینا ہے۔‏ جب اعتماد ہی طویل عرصے تک قائم رہنے والی کامیاب شادیوں کا بنیادی عنصر ہے تو پھر کیا اس میں حیرانی کی کوئی بات ہے کہ دغابازی ازدواجی بندھن کی تباہی کا سبب بن سکتی ہے؟‏“‏—‏ڈاکٹر نینا ایس.‏ فیلڈز۔‏

‏• جنس:‏ ‏”‏طلاق کیلئے مقدمہ دائر کرنے سے کئی سال پہلے ہی لوگوں میں جنسی تعلقات ختم ہو چکے ہوتے ہیں۔‏ بعض صورتوں میں تو جنسی تعلقات کبھی قائم ہی نہیں ہوئے تھے اور دیگر میں جنس کو میکانیکی انداز میں جسمانی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے استعمال کِیا گیا تھا۔‏“‏—‏کلینیکل سائیکالوجسٹ،‏ جوڈتھ ایس.‏ والرسٹن۔‏

‏[‏صفحہ ۶ پر بکس/‏تصویر]‏

بچے کیسے متاثر ہوتے ہیں؟‏

کیا آپ کی بیاہتا زندگی آپ کے بچوں کو متاثر کر سکتی ہے؟‏ ڈاکٹر جان گوٹ‌مین شادی‌شُدہ جوڑوں پر ۲۰ سالہ تحقیق کے بعد مثبت جواب دیتا ہے۔‏ ”‏دس دس سالہ دو مطالعوں میں،‏“‏ وہ کہتا ہے،‏ ”‏ہمارے مشاہدے کے مطابق ایسے والدین جو نااتفاقی کی وجہ سے ناخوش ہوتے ہیں،‏ کھیل کے دوران اُنکے بچوں کے دل کی دھڑکن بہت تیز ہو جاتی ہے اور وہ جلدی سے اس پر قابو پانے کے قابل نہیں ہوتے۔‏ زیادہ دیر تک ازدواجی ناچاقی بچے کی ذہانت سے قطع‌نظر سکول میں معمولی کارکردگی کا باعث بنتی ہے۔‏“‏ اسکے برعکس،‏ ڈاکٹر گوٹ‌مین کے مطابق کامیاب شادی‌شُدہ جوڑوں کے بچے ”‏تعلیمی اور سماجی اعتبار سے اچھی کارکردگی کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ اُنکے والدین نے اُنہیں دوسرے لوگوں کے ساتھ عزت‌واحترام سے پیش آنے اور جذباتی پریشانیوں پر غالب آنے کی تعلیم دی ہوتی ہے۔‏“‏