مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

آپ کی صحت کے محافظ

آپ کی صحت کے محافظ

آپ کی صحت کے محافظ

بلڈ ٹیسٹ کے نتائج کا معائنہ کرتے ہوئے ڈاکٹر نے کہا:‏ ”‏محترمہ آپکا مدافعتی نظام بہت کمزور ہے۔‏“‏ کافی دنوں سے وی‌رونیکا کی طبیعت ناساز تھی۔‏ برونکائٹس کے پےدرپے حملوں نے اُسے کمزور کر دیا تھا اور حال ہی میں اُسے کان کا انفیکشن اور تکلیف‌دہ سائی‌نس بھی ہو گیا تھا۔‏

مدافعتی نظام کیا ہے اور یہ اسقدر اہم کیوں ہے؟‏ یہ کسطرح کام کرتا ہے؟‏

حملے سے محفوظ

مدافعتی نظام سالموں (‏مالیکیولز)‏ اور مخصوص خلیوں کے ایسے پیچیدہ نیٹ‌ورک پر مشتمل ہوتا ہے جو انفیکشن کا مقابلہ کرنے کیلئے باہمی تعاون سے کام کرتے ہیں۔‏ ہم بیکٹیریا یا وائرس جیسے بیرونی حملہ‌آوروں سے بچنے کیلئے اپنے مدافعتی نظام پر انحصار کرتے ہیں۔‏

اسکی مثال کیلئے،‏ ہم اپنے جسم کو ایک قدیم شہر سے تشبِیہ دے سکتے ہیں۔‏ شاید ایک علامتی شہر ایک اُونچی جگہ پر واقع ہے تاکہ دُشمن فوجیں دُور ہی سے نظر آ جائیں۔‏ نیز شہر کی حفاظت کیلئے دیواریں اور پھاٹک بنائے گئے ہیں جن پر پہرےدار اور نگہبان تعینات ہیں۔‏ ایسے دفاعی انتظام کے باعث یہ شہر ایک پُرسکون رہائش‌گاہ ہے۔‏ اگر ہم اپنے جسم کو ایک ایسے ہی شہر سے تشبِیہ دیں تو ہم بہتر طور پر یہ سمجھ سکتے ہیں کہ اسے حملے سے بچانے کیلئے کیا کچھ درکار ہے۔‏

ہمارے جسموں پر جراثیم کے حملے سے بچاؤ کیلئے پہلی ڈھال ہماری جِلد اور لعابی جھلی (‏یعنی ناک اور گلے کو محفوظ رکھنے والی جھلی)‏ ہے۔‏ ہماری جِلد اہم جسمانی رکاوٹ کا کام دیتی ہے۔‏ کروڑہا جراثیم جو ہماری جِلد کی اُوپری سطح پر ہوتے ہیں وہ جِلد کی بیرونی تہہ کے اُترنے کیساتھ ہی ختم ہو جاتے ہیں۔‏

لعابی جھلی جِلد کی مانند سخت نہیں ہوتی اسلئے اسے زیادہ خطرہ لاحق ہوتا ہے۔‏ تاہم،‏ اس کے اندر بہت سے ایسے قدرتی مادے ہوتے ہیں جو جراثیم کا مقابلہ کرتے ہیں۔‏ ایک ایسا ہی مادہ جسے لائسوزائم کہتے ہیں،‏ آنسوؤں،‏ لعاب اور پسینے میں پایا جاتا ہے۔‏ اگرچہ پسینے میں موجود تیزابیت بہت سے جراثیم کی افزائش کو روکنے کیلئے کافی ہوتی ہے توبھی لائسوزائم اُنکی خلوی دیواروں کو تباہ کرنے سے اُنہیں ہلاک کرتا ہے۔‏ اسی وجہ سے،‏ جانور اپنے زخم چاٹنے سے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔‏

بنیادی محافظ—‏خون کے سفید خلیے

ذرا تصور کریں کہ بیماری پھیلانے والا بیکٹیریا کسی زخم یا وبا کے ذریعے ہمارے ”‏شہر“‏ میں داخل ہو جاتا ہے۔‏ خلیوں کی کثیر تعداد ایک ہی مقصد کے تحت یعنی حملہ‌آور جراثیم کے خاتمے اور نتیجتاً بیماری سے شفا کیلئے فوراً حرکت میں آ جاتی ہے۔‏ جو خلیے جسم کے دفاع کیلئے لڑتے ہیں اُنہیں لیوکوسائٹس یا خون کے سفید خلیے کہتے ہیں۔‏ مقابلے کے اس مرحلے میں خون کی تین اہم اقسام کے سفید خلیے مونوسائٹس،‏ نیوٹروفلز اور لِمفوسائٹس سرگرمِ‌عمل ہوتے ہیں۔‏

جب مونوسائٹس کسی حصے میں تکلیف کی بابت کیمیاوی سگنلز ”‏سنتے“‏ ہیں تو وہ خون کے گردشی نظام کو چھوڑ کر متاثرہ نسیج میں داخل ہو جاتے ہیں جہاں وہ میکروفیج یعنی ”‏کلاں‌خور“‏ بن جاتے ہیں۔‏ وہاں وہ نامیاتی اجسام سے غیرمتعلقہ ہر چیز کو کھا جاتے ہیں۔‏ اس کے علاوہ،‏ وہ ایک خاص مواد خارج کرتے ہیں جسے سائٹوکائنز کہتے ہیں جو جسم کو انفیکشن کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار کرتے ہیں۔‏ اپنی کارکردگی کے دوران سائٹوکائنز بخار کو تیز کر دیتے ہیں۔‏ بخار ایک مفید عمل ہے کیونکہ یہ اس بات کی علامت ہے کہ دفاعی نظام نے اپنا کام شروع کر دیا ہے۔‏ یہ شفا کے عمل کو تیز اور ایک مفید تشخیصی مظہر کے طور پر بھی کام کر سکتا ہے۔‏

اس کے بعد،‏ نیوٹروفلز متاثرہ حصے کی بابت کیمیاوی سگنلز ”‏سنتے“‏ ہیں اور میکروفیج کی مدد کیلئے فوری ردِعمل دکھاتے ہیں۔‏ یہ بھی بیکٹیریا کے گرد گھیرا ڈال دیتے ہیں یا اُسے کھا جاتے ہیں۔‏ جب نیوٹروفلز مر جاتے ہیں تو یہ ریشے کی صورت میں جسم سے خارج ہو جاتے ہیں۔‏ لہٰذا،‏ ریشہ پیدا ہونا دفاع کی ایک اَور قسم ہے۔‏ اس سلسلے میں ڈاکٹر صدیوں سے پس بونم ایٹ لاؤڈابائل کی لاطینی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔‏ اسکا مطلب ہے ”‏اچھا اور مفید ریشہ۔‏“‏ اسکی تشکیل انفیکشن ختم کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔‏ جراثیم کو کھا جانے کے بعد،‏ میکروفیج جراثیم کے کچھ حصے لِمفوسائٹس کی ”‏خدمت میں پیش“‏ کر کے اُنہیں حملہ‌آوروں سے آگاہ کرتے ہیں۔‏

لِمفوسائٹس انفیکشن کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک خاص گروہ کو تشکیل دیتے ہیں۔‏ وہ اینٹی‌باڈیز پیدا کرتے ہیں جو جراثیم کے کسی خاص حصے کو قابو میں کر لیتی ہیں۔‏ لِمفوسائٹس کی دو مخصوص ٹیمز ہوتی ہیں جنکے اوصاف بھی مختلف ہوتے ہیں۔‏ پہلی بی سیلز (‏خلیے)‏ ہیں جو پیداکردہ اینٹی‌باڈیز کو خون کے گردشی نظام میں خارج کرتے ہیں۔‏ اِن بی سیلز کو مدافعتی ردِعمل کا مسلح دستہ کہا جاتا ہے جو اپنے تیر یعنی اینٹی‌باڈیز کو انتہائی مخصوص انداز میں چلاتا ہے۔‏ یہ اینٹی‌باڈیز اُس جراثیم کو ”‏تلاش“‏ کرتی ہیں جسے وہ پہچانتی ہیں اور پھر جراثیم کے کسی خاص حصے پر حملہ کرتی ہیں۔‏ لِمفوسائٹس کی دوسری خاص ٹیم ٹی سیلز ہیں جو اُن اینٹی‌باڈیز کو جنہیں وہ پیدا کرتے ہیں اپنی سطح کیساتھ چپکائے رکھتے ہیں۔‏ یوں کہہ لیں کہ وہ انہیں دُشمن کیساتھ دست‌بدست لڑائی کیلئے استعمال کرتے ہیں۔‏

یوں معاملہ کچھ اَور پیچیدہ ہو جاتا ہے۔‏ ٹی سیلز کا ذیلی گروپ،‏ جسے معاون ٹی سیلز کہتے ہیں اپنے ساتھی بی سیلز کی بڑی تعداد میں اینٹی‌باڈیز خارج کرنے میں مدد کرتے ہیں۔‏ معاون ٹی سیلز حملہ کرنے سے پہلے ایک دوسرے سے صلاح‌مشورہ بھی کرتے ہیں۔‏ حالیہ تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ کیمیاوی سگنلز کے ذریعے،‏ یہ سیلز جوش‌وخروش کیساتھ آپس میں ”‏گفتگو“‏ کرتے اور خارجی ایجنٹ کی بابت تبادلۂ‌خیال بھی کرتے ہیں۔‏

ایک دوسرا اہم گروپ،‏ قدرتی قاتل خلیے بھی خاطرخواہ مدد فراہم کرتے ہیں۔‏ یہ اینٹی‌باڈیز تو پیدا نہیں کرتے مگر وہ ایسے خلیوں کو ہلاک کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں جو انفیکشن کی وجہ سے ”‏خارجی“‏ بن گئے ہیں۔‏ لہٰذا قدرتی قاتل خلیے بھی بدن کی سالمیت کے تحفظ میں معاونت کرتے ہیں۔‏

انجام‌کار،‏ اپنی مدافعتی یادداشت کی بدولت،‏ لِمفوسائٹس کسی بھی جراثیم کی خصوصیات یاد رکھنے کے قابل ہوتے ہیں گویا اُنہوں نے اپنے پاس ان تمام کا ریکارڈ رکھا ہوتا ہے۔‏ اسلئے جب بھی اس قسم کا کوئی جراثیم دوبارہ نمودار ہوتا ہے تو اِن لِمفوسائٹس کے پاس اسے فوری طور پر ختم کرنے کیلئے مخصوص اینٹی‌باڈیز ہوتی ہیں۔‏

مدافعتی ردِعمل کو تحریک دینے والے خلیے،‏ میکروفیج سوزش کو ختم کرنے کیلئے وہیں موجود رہنے سے معاون ثابت ہوتے ہیں۔‏ یوں ”‏شہر“‏ کے امن‌وسکون اور نظم‌ونسق کو بحال رکھنے کیلئے وہ لڑائی کے بعد متاثرہ حصے کو ”‏میدانِ‌جنگ“‏ میں رہ جانے والے تمام مُردہ خلیوں سے پاک‌صاف کر دیتے ہیں۔‏

جب دفاعی نظام کمزور ہوتا ہے

مدافعتی نظام کی بابت مذکورہ‌بالا بحث محض ایک بنیادی خاکہ ہے کہ اسے کیسے کام کرنا چاہئے۔‏ مگر کئی وجوہات کی بِنا پر دفاعی نظام کمزور بھی پڑ سکتا ہے:‏ پیدائشی طور پر دفاعی نظام میں بنیادی نقص ہو سکتے ہیں اور بیماریوں کی وجہ سے ایک شخص کی زندگی میں کئی ثانوی نقائص بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔‏

اِن بیماریوں میں سے ایک انتہائی خطرناک بیماری ایڈز ہے جو ۱۹۸۰ کے دہے میں اچانک منظرِعام پر آئی۔‏ ہیومن ایمونوڈیفیشنسی وائرس ‏(‏ایچ‌آئی‌وی)‏ اسکا سبب بنتا ہے جو دفاعی نظام کے اہم حصے پر حملہ‌آور ہوتا ہے اور پھر بتدریج لِمفوسائٹس کے ایک مخصوص گروہ کو تباہ کر دیتا ہے۔‏ اسطرح،‏ ایک شخص کے دفاعی نظام کا انتہائی ضروری حصہ ناکارہ ہو جاتا ہے۔‏ اس کے بعد یکےبعددیگرے انفیکشن ہوتے رہتے ہیں اور کبھی بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوتے۔‏ درحقیقت،‏ یہ خراب ہوتے جاتے ہیں اور آخرکار جسم کا دفاعی نظام بالکل ختم ہو جاتا ہے۔‏ یہ ایک بےفصیل تباہ‌شُدہ شہر کی مانند بن جاتا ہے جسے کوئی بھی فتح کر سکتا ہے۔‏

اسے خوش‌بختی سمجھ لیں کہ مدافعتی نظام کے تمام نقائص اسقدر سنگین نوعیت کے نہیں ہوتے۔‏ شروع میں بیان‌کردہ،‏ وی‌رونیکا کے جسم میں ایک قسم کی اینٹی‌باڈیز پیدا کرنے کا نقص تھا جو کہ عموماً لعابی جھلی بالخصوص ہوا کی نالی کیساتھ ساتھ موجود ہوتی ہیں۔‏ اس سے اُن مسلسل اور طویل انفیکشن کی وجہ سمجھ میں آتی ہے جس کا وہ شکار رہی ہے۔‏

وی‌رونیکا اب تندرست ہو گئی ہے۔‏ اپنے ڈاکٹر کی بات کو دھیان سے سننے کے بعد،‏ اُس نے فیصلہ کِیا کہ وہ باقاعدگی کیساتھ ڈاکٹر کا تجویزکردہ علاج کروائیگی۔‏ جب اُسکا سائنوسائٹس بالکل ٹھیک ہو گیا تو وہ ایسے ٹیکے لگوانے کیلئے تیار ہو گئی جو اینٹی‌باڈیز کی افزائش کا باعث بنیں گے۔‏ * اُس نے سگریٹ‌نوشی ترک کر دی اور زیادہ آرام بھی کرنے لگی۔‏ اس کے کچھ ہی عرصہ بعد،‏ اُس کی صحت بہت بہتر ہو گئی۔‏

جی‌ہاں،‏ ہمیں اسی طرح بنایا گیا ہے کہ ہم اچھی صحت کیساتھ زندگی سے لطف اُٹھائیں۔‏ جب ہم مدافعتی نظام کی حیران‌کُن پیچیدگی اور انسانی بدن کے دیگر پیچیدہ نظاموں پر غور کرتے ہیں تو ہم اپنے خالق کی حکمت کی تعریف اور شکرگزاری کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔‏ (‏زبور ۱۳۹:‏۱۴؛‏ مکاشفہ ۱۵:‏۳‏)‏ آجکل،‏ اگرچہ ہم انسانی ناکاملیت کی وجہ سے ہمیشہ اچھی صحت سے لطف‌اندوز نہیں ہو سکتے توبھی،‏ خدا کا الہامی کلام ہمیں یقین‌دہانی کراتا ہے کہ جلد آنے والی نئی دُنیا میں انسانوں کو ذہنی اور جسمانی طور پر کامل کِیا جائیگا اور پھر ”‏وہاں کے باشندوں میں .‏ .‏ .‏ کوئی نہ کہیگا کہ مَیں بیمار ہوں۔‏“‏—‏یسعیاہ ۳۳:‏۲۴‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 22 یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ علاج‌معالجے کا انتخاب ذاتی معاملہ ہے،‏ جاگو!‏ کسی خاص قسم کے علاج کی سفارش نہیں کرتا ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۱۳ پر بکس]‏

دفاعی ترتیب:‏

‏• جِلد اور لعابی جھلی

‏• خون کے سفید خلیے یا لیوکوسائٹس

مونوسائٹس متاثرہ نسیج میں داخل ہو کر حملہ‌آور بیکٹیریا کو کھا جاتے ہیں

نیوٹروفلز بیکٹیریا کو نگل جانے کے بعد ریشے کی صورت میں جسم سے خارج ہو جاتے ہیں

لِمفوسائٹس کے اندر مدافعتی یادداشت ہوتی ہے اسلئے اگر وہی جراثیم دوبارہ پیدا ہو جائیں تو اینٹی‌باڈیز اُسے فوری طور پر ختم کر دینگی

‏• بی سیلز صحیح نشانے پر پھینکے گئے تیروں جیسے اینٹی‌باڈیز خارج کرتے ہیں جو جراثیم کو ”‏تلاش“‏ کر کے اُن پر حملہ کرتی ہیں

‏• ٹی سیلز اینٹی‌باڈیز پیدا کرتے اور جراثیم کیساتھ ”‏دست‌بدست“‏ لڑائی کرتے ہیں

‏— معاون ٹی سیلز بی سیلز کو بڑی مقدار میں اینٹی‌باڈیز خارج کرنے میں مدد دیتے ہیں

‏— قدرتی قاتل خلیے اینٹی‌باڈیز پیدا کئے بغیر ہی براہِ‌راست متاثرہ خلیوں کو ہلاک کرتے ہیں

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویر]‏

خون کے سفید خلیے بیکٹیریا پر حملہ کرتے ہیں

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Lennart Nilsson