اِس دُنیا کی تیزرفتاری
اِس دُنیا کی تیزرفتاری
کیا کبھیکبھار زندگی کی تیزرفتاری آپ پر حاوی ہو جاتی ہے؟ کیا یہ آپکو پریشان کرنے کے علاوہ تھکا دیتی ہے کہ آپ اسکا مقابلہ نہیں کر پاتے؟ اگر ایسا ہے تو آپ تنہا نہیں ہیں۔
لاکھوں لوگ، بالخصوص شہروں کے لوگ محسوس کرتے ہیں کہ زندگی حواسباختہ کرنے اور تھکا دینے والی تیزرفتاری کا شکار ہو گئی ہے۔ مغربی ممالک کے سلسلے میں یہ بات خاص طور پر سچ ہے۔ ریاستہائےمتحدہ کے ایک حالیہ مذہبی اجتماع میں، ایک مقرر نے اپنے سامعین سے کہا کہ اگر وہ اکثر تھکن محسوس کرتے ہیں تو اپنے ہاتھ اُٹھائیں۔ فوراً ہی بہت سے ہاتھ کھڑے ہو گئے۔
کتاب وائے ایم آئی سو ٹائرڈ؟ [مَیں اِس قدر تھکن کا شکار کیوں ہوں؟] بیان کرتی ہے: ”جدید طرزِزندگی ایسے دباؤ کا شکار ہے جس کی مثال نہیں ملتی—مقررہ وقت پر جہاز میں سوار ہونا، وقت پر کام پورا کرنا، بچوں کو سکول چھوڑنا اور لانا—یہ فہرست بہت طویل ہے۔“ یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ تھکن کو ہمارے زمانے کیلئے ایک لعنت کا نام دیا گیا ہے۔ *
ماضی کی زندگی بہت سادہ تھی اور اس کی رفتار بھی خاصی کم تھی۔ لوگ قدرتی عوامل کی مطابقت میں زندگی بسر کرتے تھے—دن کام کیلئے ہوا کرتا تھا اور رات خاندان کیلئے اور آرام کیلئے ہوا کرتی تھی۔ آجکل مختلف وجوہات کی بِنا پر لوگ زیادہ تھکاوٹ محسوس کرتے ہیں۔
دنوں کا اچانک طویل ہو جانا
ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ لوگ سوتے کم ہیں۔ اس کے علاوہ ایک انتہائی اہم ترقی یعنی بجلی کی دریافت نے بھی سونے کے وقت کو کم کر دیا ہے۔ لوگ ایک سویچ کی مدد سے ”دن“ کی طوالت کو کنٹرول کرنے لگے اور یوں انہوں نے دیر تک جاگنا شروع کر دیا۔ سچ تو یہ ہے کہ بیشتر کے پاس کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں تھا کیونکہ کارخانے چوبیس گھنٹے چلنے لگے اور عام شہریوں کی ضروریات پوری کرنے والی صنعتوں نے اپنے اوقات طویل کر دئے۔ ایک رائٹر نے کہا: ”چوبیس گھنٹے کام کرنے والا معاشرہ وجود میں آ گیا۔“
ریڈیو، ٹیوی اور ذاتی کمپیوٹر جیسی دیگر تکنیکی ترقیوں نے بھی لوگوں کو ضروری نیند سے محروم کر دیا ہے۔ بیشتر ممالک میں، ٹیوی
پروگرام ۲۴ گھنٹے چلتے ہیں۔ اسلئے فلموں کے دیوانوں یا کھیلوں کے شائقین کیلئے رات گئے تک پروگرام دیکھنے کے بعد تھکےہارے اور اُونگھتے ہوئے کام پر پہنچنا کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے۔ گھریلو کمپیوٹرز بھی انتشارِخیال میں ڈالنے والے بیشمار پروگرام پیش کرتے ہیں جو لاکھوں لوگوں کو رات دیر تک جگائے رکھتے ہیں۔ بِلاشُبہ، یہ مصنوعات بذاتِخود تو غلط نہیں ہیں۔ تاہم، یہ بعض لوگوں کو آرام کی ضرورت کو نظرانداز کرنے کا محرک پیش کرتی ہیں۔تیزرفتار زندگی
نہ صرف ہمارے دن ہی طویل ہو گئے ہیں بلکہ زندگی کی رفتار بھی تیز نظر آتی ہے—یہ بھی ٹیکنالوجی کی بدولت ہے۔ آجکل کی تیزرفتار کاروں، ریل گاڑیوں اور جیٹ ہوائی جہازوں نے تقریباً ایک صدی پُرانی گھوڑا گاڑی کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ درحقیقت، جدید زمانے کا بزنسمین جسکا دادا یا تو پیدل یا پھر گھوڑے یا سائیکل پر کام کیلئے جایا کرتا تھا وہ اب ہوائی جہاز کے باعث اتنی تیزی سے سفر کر سکتا ہے کہ اگر اُس نے دوپہر کا کھانا بحرِاوقیانوس کے ایک کنارے پر کھایا ہے تو شام کا کھانا اسکے دوسرے کنارے پر جا کر کھا سکتا ہے!
دفاتر میں بھی رفتار اور پیداوار کے اعتبار سے بہت بڑا انقلاب آ گیا ہے۔ ٹائپرائٹر اور معیاری ڈاک کی جگہ کمپیوٹرز، فیکس مشین اور ایمیل نے لے لی ہے۔ نوٹبُک کمپیوٹرز، موبائل فونز اور پیجر نے گھر اور دفتر کے مابین فرق کو مٹا دیا ہے۔
بِلاشُبہ، ہم میں سے کوئی بھی دُنیا کی بڑھتی ہوئی رفتار کو کم نہیں کر سکتا۔ تاہم، ذاتی طور پر، ہم ایسے ردوبدل کر سکتے ہیں جو ہمیں زیادہ پُرسکون اور متوازن زندگی بسر کرنے کے قابل بنا سکتے ہیں۔ مگر اس پر غور کرنے سے پہلے، آئیے چند ایسے اثرات کا جائزہ لیں جو آج کی بےقابو رفتار ہمارے علاوہ تمام معاشرے پر مرتب کر سکتی ہے۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 4 روزمرّہ کے دباؤ کے علاوہ دیگر کئی عناصر بھی دائمی تھکاوٹ میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس کی وجوہات میں صحت کے مسائل، ناقص غذا، منشیات، کیمیاوی آلودگی، ذہنی اور جذباتی مسائل، بڑھاپا یا مجموعی طور پر اِن میں سے متعدد چیزیں بھی اس کا سبب بن سکتی ہیں۔