مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

حد سے زیادہ کام کا انجام

حد سے زیادہ کام کا انجام

حد سے زیادہ کام کا انجام

آج کی مغربی دُنیا تیزرفتاری اور آرام‌وآسائش کی دیوانی ہے۔‏

باورچی‌خانے میں ڈش‌واشر کی بدولت وقت بچتا ہے۔‏ اسی طرح کپڑے دھونے کیلئے واشنگ‌مشین نے زندگی کو سہل بنا دیا ہے۔‏ لاکھوں لوگ اَب خریدوفروخت کیلئے اپنے گھروں سے بھی نہیں نکلتے اور نہ ہی بینک جاتے ہیں—‏وہ صرف کمپیوٹر آن کر کے انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔‏

جی‌ہاں،‏ دُنیا میں کسی حد تک وقت اور محنت بچانے والی ہر طرح کی ایجاد کی بھرمار ہے۔‏ لہٰذا،‏ آپ سوچیں گے کہ لوگوں کے پاس اپنے خاندانوں اور تفریح کیلئے بہت زیادہ وقت ہوگا۔‏ اس کے باوجود،‏ بیشتر لوگ کہتے ہیں کہ وہ پہلے کی نسبت زیادہ تھکے ہوئے اور دباؤ کا شکار ہیں۔‏ اسکی بہت سی مختلف اور پیچیدہ وجوہات ہیں۔‏

اس میں معاشی دباؤ سرِفہرست ہے۔‏ آسٹریلین سینٹر فار انڈسٹریل ریلیشنز ریسرچ اینڈ ٹریننگ نے اُن گھنٹوں کا تجزیہ کِیا جو اس مُلک میں لوگ کام کرنے میں صرف کرتے ہیں اور یہ دریافت کِیا کہ ”‏لوگوں کی اکثریت باقاعدگی سے ہفتے میں ۴۹ گھنٹے سے زیادہ کام کرتی ہے،‏“‏ نیز ”‏کام کے گھنٹوں میں اضافہ یقیناً خاندانی اور معاشرتی زندگی پر ناموافق اثر ڈالتا ہے۔‏“‏ بیشتر کارکُن سرسبز اور پُرسکون مضافات میں رہنے کا انتخاب کرتے ہیں۔‏ اسکا مطلب ہر ہفتے یا ہر روز کھچاکھچ بھری ہوئی ریل گاڑیوں اور بسوں میں یا پھر پُرہجوم سڑکوں پر کئی گھنٹے سفر کرنا ہے۔‏ درحقیقت،‏ یہ دن‌بھر کے کام اور اس سے وابستہ دباؤ میں اضافہ کرتا ہے۔‏

کیا آپ نیند کی کمی کا شکار ہیں؟‏

حالیہ برسوں میں نیند کے مسائل اِسقدر عام ہو گئے ہیں کہ دُنیا کے بیشتر ممالک میں نیند کے کلینک کُھل گئے ہیں۔‏ محققین نے دریافت کِیا ہے کہ جب لوگوں کی نیند پوری نہیں ہوتی تو وہ نیند کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔‏ قدرتی بات ہے کہ اُن کا جسم اس کمی کو پورا کرنا چاہتا ہے اور اسلئے اُنہیں تھکن کا احساس دِلاتا ہے۔‏ مگر آجکل بیشتر لوگ نیند کی کمی سے متاثر طرزِزندگی کی وجہ سے مسلسل تھکاوٹ میں مبتلا رہتے ہیں۔‏

ایک مغربی مُلک میں،‏ گزشتہ صدی کی نسبت نیند میں ۲۰ فیصد کمی واقع ہوئی ہے یعنی ہر رات نو گھنٹے کی اوسط نیند اب سات گھنٹے ہو گئی ہے۔‏ محققین کے پاس اس کے بہت زیادہ ثبوت ہیں کہ نیند کی کمی سیکھنے اور یاد رکھنے کے مسائل کے علاوہ اعصابی اور مدافعتی کمزوری کا باعث بنتی ہے۔‏ ہم میں سے بہت سے لوگ یہ جانتے ہیں کہ ایک تھکا ہوا دماغ زیادہ غلطیاں کرتا ہے۔‏ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ غلطیاں نہ صرف سنگین ہوتی ہیں بلکہ مہنگی بھی پڑ سکتی ہیں۔‏

تھکن کی بھاری قیمت

طویل گھنٹوں تک کام کرنے اور عملے میں کمی کے باعث پیدا ہونے والی تھکاوٹ کی بابت کہا جاتا ہے کہ یہ ۲۰ ویں صدی کے چند بدترین حادثات کا باعث بنی ہے۔‏ اِن میں چرنوبل،‏ یوکرائن میں نیوکلیائی تباہی؛‏ خلائی شٹل چیلنجر کا دھماکا اور پرنس ولیم ساؤنڈ،‏ ایلاسکا میں ایکس‌زون والڈز ٹینکر کے ایک پتھریلے ساحل سے ٹکرانے کی وجہ سے تیل کا بہہ جانا شامل ہے۔‏

چرنوبل میں دھماکا پاوَر سٹیشن میں ایک خاص ٹیسٹ کے دوران ہوا تھا۔‏ اپنی کتاب دی ۲۴ آور سوسائٹی میں،‏ مارٹن موریڈ کہتا ہے کہ یہ ٹیسٹ ”‏الیکٹریکل انجینیئرز کی ایک تھکی ہوئی ٹیم کی نگرانی میں کِیا جا رہا تھا جو اس ٹیسٹ کا آغاز کرنے کی اجازت ملنے میں دس گھنٹے کی تاخیر کی وجہ سے تقریباً تیرہ یا اس سے بھی زیادہ گھنٹوں سے اس پلانٹ پر کام کر رہی تھی۔‏“‏ معاملہ خواہ کچھ بھی تھا،‏ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق،‏ تابکاری کے طویل اثرات کے باعث ۱۹۸۶ سے لیکر یوکرائن کے بچوں میں تھائی‌روائڈ کینسر میں دس گُنا اضافہ ہو گیا ہے۔‏

خلائی شٹل چیلنجر کے دھماکے کی مکمل تفتیش کرنے کے بعد،‏ صدارتی کمیشن کی طرف سے رپورٹ نے بیان کِیا کہ ٹھیکے پر کام کرنے والے ایک گروپ نے ۲۰ گھنٹے تک کے اوورٹائم کو ۴۸۰ گُنا زیادہ کر دیا تھا اور ایک دوسرے گروپ نے ۵۱۲،‏۲ گُنا زیادہ کر دیا تھا۔‏ رپورٹ نے مزید بیان کِیا کہ ”‏کئی دنوں سے کام کے اوقات میں بےقاعدگی اور نیند کی کمی“‏ کے باعث منتظمین میں تھکاوٹ بھی شٹل کو نامناسب طور پر اُڑانے میں ایک اہم عنصر تھی۔‏ رپورٹ نے یہ بھی بیان کِیا کہ ”‏جب بہت زیادہ اوورٹائم کِیا جاتا ہے تو کام کرنے والے شخص کی کارکردگی کم ہو جاتی ہے اور غلطی کرنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔‏“‏

یونین افسران کے مطابق،‏ ایکس‌زون والڈز کے اخراجات کو کم کرنے کی غرض سے عملے کی تعداد میں کمی کر دی گئی تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ اب باقی عملے کو نہ صرف زیادہ دیر تک بلکہ اضافی کام بھی کرنا پڑیگا۔‏ اس تباہی کی بابت ایک رپورٹ بیان کرتی ہے کہ جب یہ جہاز آدھی رات کے بعد پتھریلے ساحل سے ٹکرایا تو جہاز کے کپتان کا مددگار جو اس وقت جہاز کا انچارج تھا صبح‌سویرے جاگ رہا تھا۔‏ تقریباً ۱۱ ملین گیلن تیل—‏یو.‏ایس.‏ کی تاریخ میں تیل بہہ جانے کا سب سے بڑا حادثہ—‏سے ساحلوں اور حیوانی زندگی کو بہت زیادہ نقصان پہنچا اور اسکی صفائی پر بھی ۲ بلین ڈالر سے زیادہ خرچ ہوا۔‏

تھکاوٹ کے مزید پوشیدہ نقصانات

ایک اندازے کے مطابق،‏ ہر سال دُنیا کو تھکاوٹ اور مشقت کی کم‌ازکم ۳۷۷ بلین ڈالر قیمت چکانی پڑتی ہے!‏ لیکن روپیہ‌پیسہ انسانی زندگی اور صحت کا نعم‌اُلبدل نہیں ہو سکتا جو اکثر زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ سڑکوں پر ہونے والے حادثات کو ہی لے لیں۔‏ سڈنی،‏ آسٹریلیا میں نیند کے اختلال کے ایک کلینک کے مطابق،‏ اس مُلک میں سڑکوں پر ۲۰ سے ۳۰ فیصد حادثات ڈرائیور کے گاڑی چلاتے وقت سو جانے کے باعث ہوتے ہیں۔‏ یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ ریاستہائےمتحدہ میں،‏ غنودگی ہر سال کم‌ازکم ۰۰۰،‏۰۰،‏۱ ٹریفک حادثات کا سبب بنتی ہے۔‏

تاہم،‏ تھکاوٹ کے نتائج یہیں ختم نہیں ہو جاتے۔‏ حادثے سے متاثرہ جس شخص کو جلدازجلد سرجری کیلئے ہسپتال لایا جاتا ہے اُسکے خیال میں اُسکا ڈاکٹر انتہائی پھرتیلا اور چوکنا ہوتا ہے۔‏ لیکن متعدد مصروفیات اور دیر تک کام کرنے کی وجہ سے ڈاکٹر بھی پھرتیلا اور چوکنا نہیں ہوتا!‏ آسٹریلین انسٹی‌ٹیوٹ آف ہیلتھ اینڈ ویلفیئر کی ایک رپورٹ نے ظاہر کِیا کہ تقریباً ۱۰ فیصد ڈاکٹر ہفتے میں ۶۵ گھنٹے سے زیادہ کام کرتے تھے،‏ ۱۷ فیصد سپیشلسٹ اس سے بھی زیادہ گھنٹے کام کرتے تھے اور ۵ فیصد ”‏جونیئر ڈاکٹر“‏ ہر ہفتے ۸۰ گھنٹے سے زیادہ کام کرتے تھے!‏

مارٹن موریڈ بیان کرتا ہے کہ ”‏مشینوں کی حفاظت آپریشن مینولز،‏ وارننگ لیبلز اور ٹریننگ کورسز کے ذریعے کی جاتی ہے۔‏ لیکن انسان ایسے حفاظتی انتظامات کے بغیر اس دُنیا میں آتے ہیں۔‏ .‏ .‏ .‏ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم جتنا انسان کے استعمال میں آنے والے سوفٹ‌وئیر یا ہارڈویئر کے بارے میں جانتے ہیں اُتنا ہم خود انسان کی ساخت کی بابت نہیں جانتے۔‏“‏

ہمارے جسم پر کوئی سُرخ بتیاں نہیں لگی ہوئیں جو ہمیں آگاہ کریں کہ کب رُکنا یا آہستہ ہونا ہے۔‏ پھربھی،‏ یہ ہمیں انتباہی اشارے دیتا ہے۔‏ اِن میں شاید تھکن،‏ مزاج میں تبدیلی،‏ افسردگی اور ہر قسم کی بیماری اُٹھانے کی کیفیت شامل ہے۔‏ اگر آپ کے اندر یہ علامات موجود ہیں اور آپ کا خیال ہے کہ آپکو کوئی اَور جسمانی یا طبّی مسئلہ درپیش نہیں ہے تو شاید یہ اپنے طرزِزندگی کو دوبارہ جانچنے کا وقت ہے۔‏

بیحد مصروف رہنے کے معاشرتی نقصان

دباؤ کا شکار،‏ نیند سے عاری طرزِزندگی انسانی رشتوں کے لئے بھی مُضر ہے۔‏ نئے بیاہتا جوڑے جان اور ماریا کو ہی لے لیں۔‏ * دیگر نئے بیاہتا جوڑوں کی طرح وہ بھی ایک آرام‌دہ گھر اور مالی تحفظ کے خواہاں تھے۔‏ لہٰذا اُن دونوں نے سخت محنت شروع کر دی۔‏ مگر فرق فرق شفٹوں میں کام کرنے کی وجہ سے وہ بہت کم وقت اکٹھے گزارتے تھے۔‏ جلد ہی اُنکا رشتہ اس سے متاثر ہونے لگا۔‏ تاہم،‏ علامات کو نظرانداز کرتے ہوئے وہ اپنے متقاضی شیڈول پر کاربند رہے تاوقتیکہ اُنکی شادی جسکا ابھی آغاز ہی ہوا تھا ٹوٹ نہ گئی۔‏

‏”‏تحقیق ثابت کرتی ہے کہ دن کے دوران باقاعدہ کام کرنے والوں کی نسبت شفٹ میں کام کرنے والے خاندانوں میں طلاق کی شرح ۶۰ فیصد سے زیادہ ہے،‏“‏ کتاب دی ۲۴ آور سوسائٹی بیان کرتی ہے۔‏ اس کے باوجود،‏ خواہ وہ شفٹ میں کام کرتے ہیں یا نہیں،‏ بیشتر جوڑے اپنی زندگیوں کو اتنی زیادہ ذمہ‌داریوں سے جکڑ لیتے ہیں کہ درحقیقت،‏ اُنکی شادی بےجان ہو جاتی ہے۔‏ دیگر،‏ دباؤ اور تھکاوٹ کی وجہ سے منشیات،‏ الکحل اور کھانے کی ناقص عادات کا شکار ہو جاتے ہیں—‏ایسے عنصر جو نہ صرف تھکن اور ماندگی میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ بچوں کیساتھ ناروا سلوک کیساتھ ساتھ دیگر کئی مسائل کا باعث بنتے ہیں۔‏

والدین کو متقاضی شیڈولز پر پورا اُترنے میں مدد دینے کیلئے چائلڈ کیئر سینٹرز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جن میں سے بعض ۲۴ گھنٹے کی خدمات پیش کرتے ہیں۔‏ بہت سے بچوں کے لئے ٹی‌وی درحقیقت اُن کی آیا بن جاتا ہے۔‏ بِلاشُبہ،‏ بچوں کو ذمہ‌دار شخص—‏جذباتی طور پر متوازن بالغ—‏بننے کیلئے اپنے والدین کیساتھ بہت زیادہ وقت گزارنے کی ضرورت ہے۔‏ لہٰذا،‏ وہ والدین جو بِلاوجہ بلند معیارِزندگی برقرار رکھنے کی وجہ سے اپنے بچوں کو مناسب وقت دینے سے قاصر رہتے ہیں اُن کیلئے دانشمندانہ روش یہ ہوگی کہ اپنے اور اپنے بچوں کیلئے اس کے مُضر اثرات کو ذہن میں رکھیں۔‏

آجکل کے تیزرفتار حرفیاتی معاشرے میں اکثر عمررسیدہ لوگ بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔‏ روزمرّہ کی تبدیلیاں اور بازار میں متواتر آنے والی نت‌نئی دلچسپ چیزیں بیشتر لوگوں کو پریشان،‏ غیرمحفوظ،‏ خوفزدہ یا ناکارہ بنا دیتی ہیں۔‏ لہٰذا مستقبل میں اُن کیلئے کیا ہے؟‏

کیا ہم سب پیروجواں اس دُنیا کے رحم‌وکرم پر ہیں جو کہ روزبروز تیز سے تیزتر ہوتی جا رہی ہے؟‏ یا کیا ایسے کام ہیں جو ہم اس پر قابو پانے اور اپنی زندگی کو بہتر بنانے کیلئے کر سکتے ہیں؟‏ خوشی کی بات ہے کہ ایسے کام ہیں جنکی بابت ہم اگلے مضمون میں پڑھیں گے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 20 نام تبدیل کر دئے گئے ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۶ پر تصویریں]‏

تھکاوٹ چرنوبل میں نیوکلیائی تباہی،‏ ”‏چیلنجر‏“‏ نامی خلائی شٹل کے دھماکے اور ”‏ایکس‌زون والڈز“‏ سے تیل بہہ جانے کا باعث بنی تھی

‏[‏تصویروں کے حوالہ‌جات]‏

Courtesy U.S. Department of Energy‎’s International Nuclear Safety

Program

NASA photo

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویریں]‏

زندگی کی تیزرفتاری شادیوں میں تناؤ کا سبب بن سکتی ہے

‏[‏صفحہ ۸ پر تصویر]‏

اس پر قابو پانے کی کوشش میں بعض لوگ بہت زیادہ الکحل استعمال کرنے لگتے ہیں