دُنیا کا نظارہ کرنا
دُنیا کا نظارہ کرنا
سمندر میں کوڑاکرکٹ
سمندر میں پھینکی گئی ایک شیشے کی بوتل کو تحلیل ہو کر ختم ہونے میں ایک ہزار سال لگیں گے۔ ٹشو پیپر کو تحلیل ہونے میں تین مہینے اور دیاسلائی کو چھ مہینے لگتے ہیں۔ سمندر کو سگریٹ کے ٹکڑے ایک سے ۵ سال تک؛ پلاسٹک بیگ ۱۰ سے ۲۰ سال تک؛ نائلون کی چیزیں ۳۰ سے ۴۰ سال تک؛ ٹینڈبے ۵۰۰ سال تک اور پولیسٹرین ۰۰۰،۱ سال تک آلودہ کرتے رہیں گے۔ یہ تخمینہجات اٹلی کی ماحولیاتی ایسوسیایشن، لیگایمبینٹ کی طرف سے فراہمکردہ معلومات پر مبنی ہیں جو ساحل پر نہانے کے شائقین کی حوصلہافزائی کیلئے ہیں تاکہ وہ ماحولیاتی صفائی کو ذہن میں رکھیں۔ اخبار کورئیر ڈیلا سیرا سوال کرتا ہے، ”کیا یہ تجاویز غیرضروری نہیں ہیں؟“ یہ جواب دیتا ہے: ”اگر سن ۱۹۹۰ سے لیکر آج تک ساحلوں کی صفائی کرنے والے رضاکاروں کے ذریعے اٹلی کے ساحلوں سے جمع کئے جانے والے ۶۰۵ ٹن کوڑےکرکٹ کو دیکھا جائے تو واقعی ایسی تجاویز غیرضروری نہیں ہیں۔“
بچے اور جادو
لندن کے اخبار دی انڈیپینڈنٹ کے مطابق انجمنِاساتذہ کا کہنا ہے کہ ”انٹرنیٹ پر پیش کِیا جانے والا شیطانی جادو بچوں کے لئے خطرناک ہے۔“ ایسوسیایشن آف ٹیچرز اینڈ لیکچررز (اےٹیایل) کے ایک برطانوی سروے نے آشکارا کِیا کہ ۱۱ اور ۱۶ سال کی عمر کے نصف سے زیادہ بچے ”جادو اور مافوقاُلفطرت چیزوں میں سرسری سی دلچسپی رکھتے تھے،“ تقریباً ایک چوتھائی ”بہت زیادہ دلچسپی رکھتے تھے“ جبکہ ۶ میں سے ۱ کا دعویٰ تھا کہ جادو دیکھ کر وہ ”خوفزدہ“ ہو گئے تھے۔ اےٹیایل کا جنرل سیکرٹری، پیٹر سمتھ آگاہ کرتا ہے: ”نوجوان بڑی آسانی کیساتھ جادوگری، بدروحیں نکالنے اور فصد کھولنے سے متعلق سینکڑوں ویبسائٹس میں جا سکتے ہیں جسکا بڑوں کو کوئی علم نہیں ہوتا کہ بچے کس قسم کا مواد پڑھتے ہیں۔ . . . اس سے نوجوانوں کے اندر پائے جانے والے ایک انتہائی پریشانکُن میلان کی نشاندہی ہوتی ہے۔ اس سے پیشتر کہ وہ جادو کے ساتھ دل بہلانے لگیں والدین اور اساتذہ دونوں کو بچوں اور نوجوانوں کو اسکے استعمال کے خطرات کی بابت آگاہ کرنا چاہئے۔“
کھانے کو فریج میں رکھنے سے پہلے اس کے ٹھنڈا ہونے کا انتظار نہ کریں
یو.ایس. میں ڈپارٹمنٹ آف ایگریکلچر میٹ اینڈ پولٹری ہاٹلائن کے منتظم بیسی بیری کا کہنا ہے کہ گرم کھانے کو فریج میں رکھنے سے پہلے اسکے ٹھنڈا ہونے کا انتظار کرنا ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ ”اوون سے نکلے اور چولہے سے اُتارے گئے کھانوں“ کو بھی اگر فوراً نہیں کھانا تو اُنہیں فریج میں رکھا جانا چاہئے۔ جیسے کہ ٹفٹس یونیورسٹی ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن لیٹر نے بیان کِیا، ”جتنی جلدی آپ پکے ہوئے کھانے کو فریج میں رکھتے ہیں اُتنی ہی جلدی اُس میں مُضر بیکٹریا کی افزائش رُک جائیگی۔“ مگر کیا یہ ریفریجریٹر کے لئے نقصاندہ نہیں ہوگا یا اُسکی موٹر کو بہت زیادہ کام نہیں کرنا پڑیگا؟ مسز بیری کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ جدید ریفریجریٹر اسطرح تیار کئے جاتے ہیں کہ اُن میں گرم کھانا رکھا جا سکتا ہے۔ یہ نظریہ شاید آئسبکس کے زمانے کا ہے جب حرارت سے برف پگھل جانے کا خدشہ ہوتا تھا۔ تاہم دو احتیاطیں لازمی ہیں: اگر آپ سالم مرغی، سوپ کی ایک دیگچی یا بھری ہوئی کڑھائی جیسی کوئی چیز فریج میں رکھ رہے ہیں تو انہیں پہلے چھوٹے برتنوں میں منتقل کِیا جانا چاہئے ورنہ یہ بیکٹریا کی افزائش کو روکنے کیلئے جلدی ٹھنڈے نہیں ہونگے۔ اس کے علاوہ فریج میں رکھے جانے والے گرم کھانوں اور پہلے سے موجود دیگر کھانوں کے درمیان وقفہ ہونا چاہئے تاکہ ہوا آسانی سے گھوم سکے اور چیزوں کو جلدی ٹھنڈا کر سکے۔
کمپیوٹر کی جذباتی آوازیں
کمپیوٹر کی آوازوں کو دوستانہ تاثر دینے کی کوشش میں سائنسدان اِن آوازوں میں جذبات کا رنگ پیدا کرنے کے طریقے تلاش کر رہے ہیں۔ جرمن اخبار گیبینر آلگیمینی کے مطابق، برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی میں تحقیق کرنے والی ایک ٹیم نے اس بات کا تجزیہ کِیا کہ کیسے مختلف جذبات کے تحت آوازیں بدل جاتی ہیں۔ اداکاروں نے غیرجذباتی جملوں کو غصے، اُداسی، مایوسی، خوشی، خوف یا نفرت جیسے مختلف جذبات کیساتھ پڑھا۔ اس کے بعد زیروبم، رفتار، بنیادی تعدد، آواز کی شدت اور واضح تلفظ کیلئے اِن جملوں کا حرفبہحرف تجزیہ کِیا گیا۔ نتائج نے ثابت کِیا کہ خوشی یا غصے کے جذبے سے آواز کی شدت اور رفتار میں اضافہ ہوتا ہے۔ حروف پر زور دیا گیا اور تلفظ اچھا رہا۔ اُکتاہٹ، خوف یا اُداسی کی حالت میں آواز نہ صرف دھیمی اور غیرواضح تھی بلکہ اس کے زیروبم میں بھی تبدیلی آئی تھی۔ خوف کی وجہ سے آواز میں ایک سرگم کا اضافہ ہوا تھا۔ غم کی صورت میں، وترصوتی میں ہلکا سا ارتعاش پیدا ہوا اور آواز کے زیروبم میں مزید کمی واقع ہوئی جسکے باعث یہ بھاری ہو گئی۔ اِن خصوصیات کا اطلاق مصنوعی آوازوں پر بھی کِیا گیا تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ آیا سامعین ”درست جذباتی حالت کو پہچان“ سکتے ہیں یا نہیں۔ اس مہم میں بالخصوص اُن لوگوں نے دلچسپی دکھائی ہے جو گویائی ترکیب اور خودکار گویائی کی شناخت کے سلسلے میں کام کرتے ہیں۔
بربادی کے ۵۰۰ سال
ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر (ڈبلیوڈبلیوایف) کا ایک حالیہ سروے ظاہر کرتا ہے کہ برازیل تقریباً ۵۰۰ سال پہلے استعماریت کے وقت سے لیکر اب تک اپنے تین بنیادی ماحولیاتی نظاموں کا ۳۷ فیصد حصہ ضائع کر چکا ہے۔ اخبار ایسٹاڈو دے ایس. پاولو بیان کرتا ہے کہ تاحال، ”۹۳ فیصد اوقیانوسی جنگلات، ۵۰ فیصد سبزہزار اور ۱۵ فیصد ایمزون کا علاقہ—مجموعی طور پر ۷۵۰،۲ ملین مربع کلومیٹر رقبہ—تباہ ہو چکا ہے۔“ ڈبلیوڈبلیوایف برازیل کا ایگزیکٹو ڈائریکٹر گارو بیٹمانئین کہتا ہے: ”جب پرتگالی یہاں پہنچے تو اُنہیں یہاں سرسبزوشاداب جنگلات اور اتنا زیادہ پانی ملا جو شاید اُنہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس چیز نے اس نظریے کو فروغ دیا کہ یہاں سب کچھ اُگتا ہے اسلئے یورپی ٹیکنالوجی کو مقامی طور پر استعمال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔“ اُس کے مطابق یہی چیز برازیل کے اوقیانوسی جنگلات کی بربادی کا باعث بنی۔
مستقبل کے لئے صافستھری سواری
اخبار دی اسٹریلین بیان کرتا ہے کہ ”فیوئلسیل ٹیکنالوجی جو کار کے عالمی بزنس میں انقلاب لانے کا دعویٰ کرتی ہے اب مارکیٹ میں آنے والی ہے۔“ فیوئلسیل ٹیکنالوجی بالخصوص شہری بسوں کیلئے کارآمد ہے کیونکہ اس سے نہ صرف شور کم ہوگا بلکہ اس سے آلودگی کا سبب بننے والے مادوں کا اخراج بھی نہیں ہوگا۔ بسیں ۸۰ کلومیٹر فی گھنٹہ کی انتہائی رفتار سے ۳۰۰ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرینگی اور اس میں ۷۰ مسافروں کے بیٹھنے کی گنجائش ہوگی۔ یہ یورپ میں تمام ٹرانسپورٹ کمپنیوں کو ۱ ملین یو.ایس. ڈالر فیکس کی قیمت کے حساب سے فروخت کی جائینگی اور توقع ہے کہ یہ سن ۲۰۰۲ کے آخر تک کام کرنا شروع کر دینگی۔ ممکن ہے کہ مستقبل میں کاریں بھی فیوئلسیل کی مدد سے چلنے لگیں مگر ابھی تک وہ تیاری کے مرحلے تک نہیں پہنچیں۔ پروفیسر فرڈینڈ پینک کہتا ہے، ”اندرونی احتراقی انجنوں کیساتھ مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں فیوئلسیل سسٹم کی قیمت، حجم اور وزن کو کم کرنا ہوگا۔“
”نمائشی ٹکٹ“
”کینیڈا میں نمائشی ٹکٹ کا آغاز ہوا ہے جو خودپسندی کے اس دَور کیلئے ایک جدیدترین ایجاد،“ دی نیو یارک ٹائمز بیان کرتا ہے۔ اب لوگ اپنی ڈاک ”کسی بچے، نئے گریجویٹ، خوشحال جوڑے یا وفادار کتے کی تصویر“ کیساتھ بھیج سکتے ہیں۔ درخواستدہندہ فوٹو اور پیسوں کیساتھ ایک فارم بھیجتے ہیں۔ اس کے عوض اُنہیں ازخود چپکنے والے، چھپے ہوئے ۲۵ سنہری فریموں کی ایک شیٹ ملتی ہے جس پر لفظ ”کینیڈا“ لکھا ہوتا ہے، اس کے علاوہ دوبارہ سے بنائی گئی تصویر اور پوسٹیج کی ایک دوسری شیٹ بھی ملتی ہے جسے سنہری فریموں کے اندر چسپاں کِیا جا سکتا ہے۔ تاہم، اس کی قیمت عام ٹکٹوں سے دو گُنا زیادہ ہے۔ علاوہازیں، پیغامِتہنیت والے سٹیکرز بھی پیش کئے جا رہے ہیں جو ”صارفین کو اپنے مزاج یا پیغام کے مطابق اپنے خطوط کو ترتیب دینے میں مدد دینگے،“ کینیڈا پوسٹ کیلئے ٹکٹ تیار کرنے کا ڈائریکٹر مشیلین مونٹرول کہتا ہے۔ آسٹریلیا، برطانیہ، سنگاپور اور سوئٹزرلینڈ بھی پیچھے نہیں رہا بلکہ اُنہوں نے بھی اپنے نمائشی ٹکٹ تیار کر لئے ہیں۔ اب ٹکٹوں کا غیرمختتم تنوع ٹکٹ جمع کرنے کے شائقین کیلئے ایک چیلنج ثابت ہو سکتا ہے۔
بیماریاں بمقابلہ تباہکاریاں
اگرچہ سیلاب اور زلزلوں جیسی تباہکاریوں کی بڑی تشہیر ہوتی ہے تاہم، متعدی بیماریاں ان سے کہیں زیادہ جانیں لیتی ہیں، ریڈکراس کی رپورٹ بیان کرتی ہے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے، دی نیو یارک ٹائمز بیان کرتا ہے: ”گزشتہ سال ایڈز، تپِدق اور ملیریا جیسی متعدی بیماریوں سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد، ترکی میں زلزلوں، انڈیا میں طوفانوں اور وینزویلا میں سیلاب کے باعث ہلاک ہونے والوں سے ۱۶۰ گُنا زیادہ ہے۔ . . . ۱۹۴۵ سے لیکر تخمیناً ۱۵۰ ملین لوگ اِن تین بیماریوں کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں جبکہ اسی عرصہ کے دوران جنگوں میں ۲۳ ملین لوگ ہلاک ہوئے۔“ رپورٹ کے مصنف پیٹر واکر کے مطابق، اس مسئلے کی اصل وجہ لوگوں کی ناقص صحت ہے۔ اُس نے کہا: ”تقریباً ہر ملک میں صحت کا نظام بڑا مصنوعی ہے لیکن اگر آپ شہروں سے دُور چلے جائیں تو وہاں ایسا نہیں ہے۔“ صحت کی دیکھبھال کے سلسلے میں فیکس پانچ ڈالر خرچ کرنے سے گزشتہ سال متعدی امراض سے واقع ہونے والی ۱۳ ملین اموات کو روکا جا سکتا تھا۔ اس مضمون کے اختتام میں یہ کہا گیا ہے: ”لوگوں کے طرزِزندگی اور رُجحان کو تبدیل کرنے پر خرچ کِیا جانے والا پیسہ ہسپتالوں اور جدید آلات جیسی مہنگی سہولیات پر خرچ ہونے والے پیسے کی نسبت زیادہ زندگیاں بچا سکتا ہے۔“