ٹیولپس نے اُنہیں بچا لیا
ٹیولپس نے اُنہیں بچا لیا
یورپ میں دوسری عالمی جنگ کے آخری مہینوں کے دوران، نازی محاصرے نے نیدرلینڈز کے مغرب میں واقع بڑے شہروں میں خوراک کی تمام بحری رسد کو بند کر دیا۔ اُس وقت کے دوران رہنے والے بیشتر لوگ تصدیق کرتے ہیں کہ اس کے نتائج تباہکُن تھے۔
عام طور پر ایک شخص کو روزانہ تقریباً ۶۰۰،۱ سے ۸۰۰،۲ کیلوریز (حرارے) درکار ہوتی ہیں۔ مگر اپریل ۱۹۴۵ تک، ایمسٹرڈیم، ڈلفٹ، دی ہیو، لیڈن، روٹرڈیم اور یوٹرچٹ میں رہنے والے کچھ لوگ مقررشُدہ خوراک پر بسراوقات کر رہے تھے جسکی مقدار ۵۰۰ اور ۶۰۰ کیلوریز روزانہ تھی۔ ایک اندازے کے مطابق ۱۹۴۴/۱۹۴۵ کے موسمِسرما کے قحط کے دوران غذا کی کمی کمازکم ۰۰۰،۱۰ شہریوں کی ہلاکت پر منتج ہوئی۔
زندہ بچ نکلنے والی سوزن مونکمین کے مطابق، اُسکے خاندان نے ٹیولپ کی جڑیں کھانے کا فیصلہ کِیا۔ ”ٹیولپ کی جڑوں کے سرے بہت ہی تیز تھے،“ مونکمین کہتی ہے۔ ”اُنہیں جتنا چاہے اُبال لیں وہ نرم نہیں ہوتے تھے۔ بہرکیف ہم اُنہیں آہستہآہستہ بڑی احتیاط کیساتھ چباتے تھے۔ اسی وجہ سے کئی دنوں تک ہمارے گلے خراب رہے۔“ خراش کو کم کرنے کیلئے اگر ممکن ہوتا تو اِن جڑوں کیساتھ چند گاجریں یا ایک آدھ چقندر ملا لیا کرتے تھے۔
چار اونس ٹیولپ کی جڑوں میں کوئی ۱۴۸ کیلوریز، ۳ گرام پروٹین، ۲.۰ گرام روغن اور ۳۲ گرام نشاستہ ہوتا ہے۔ لہٰذا، ٹیولپ کی جڑوں کے بدمزہ کھانے نے نیدرلینڈز کے بہت سے لوگوں کو فاقہکشی کا شکار ہونے سے بچا لیا تھا۔
انسان کا انسانیتسوز برتاؤ جسکی اَمٹ مثالیں بہتیروں کے ذہنوں پر نقش ہیں، اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ نوعِانسان کو بائبل کے اس وعدے کی تکمیل کا کتنی شدت سے انتظار ہے: ”اُس [خدا] کے وعدہ کے موافق ہم نئے آسمان اور نئی زمین کا انتظار کرتے ہیں جن میں راستبازی بسی رہیگی۔“—۲-پطرس ۳:۱۳۔
[صفحہ ۱۶ پر تصویر کا حوالہ]
Internationaal Bloembollen Centrum, Holland