مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

جنگ ہماری منادی کو نہ روک سکی

جنگ ہماری منادی کو نہ روک سکی

جنگ ہماری منادی کو نہ روک سکی

از لیوڈیگاریو بارلان

دوسری عالمی جنگ کے دوران،‏ ۱۹۴۲ میں جاپان اور ریاستہائےمتحدہ میرے وطن فلپائن پر قابض ہونے کیلئے آپس میں لڑ رہے تھے۔‏ مَیں اُس وقت ٹابونان کے پہاڑی علاقے میں جاپانیوں سے لڑنے والے مقامی گوریلوں کی قید میں تھا۔‏ مجھے ماراپیٹا گیا،‏ مجھ پر جاسوس ہونے کا الزام لگایا گیا اور مجھے سزائےموت کی دھمکی دی گئی۔‏ مَیں اس کی وضاحت کرنا چاہونگا کہ مَیں اس صورتحال میں کیسے پھنسا اور کیسے بچا۔‏

مَیں جنوری ۲۴،‏ ۱۹۱۴ میں سان کارلوس کے شہر،‏ پانگاسینان میں پیدا ہوا۔‏ میرے والد نے مجھے ۱۹۳۰ میں زراعت کی تعلیم کیلئے سکول بھیجا۔‏ مَیں اتوار کے روز عبادت کیلئے چرچ جایا کرتا تھا جہاں پادری متی،‏ مرقس،‏ لوقا اور یوحنا کی اناجیل پر بات‌چیت کرتا تھا۔‏ نتیجتاً،‏ میرے اندر انہیں پڑھنے کی خواہش پیدا ہوئی۔‏

ایک دن،‏ مَیں سبزیاں بیچ کر حاصل‌کردہ پیسوں کے ساتھ اناجیل کی ایک کاپی خریدنے کیلئے کانوینٹ گیا۔‏ اسکی بجائے،‏ مجھے ایک کتابچہ دیا گیا جسکا عنوان تھا دی وے ٹو ہیون اور اس میں اناجیل کی کوئی بات نہیں تھی۔‏ مجھے بڑی مایوسی ہوئی۔‏ بعدازاں،‏ اناجیل حاصل کرنے کی میری خواہش مجھے منیلا لے آئی۔‏ منیلا میں میرے انکل نے جو یہوواہ کے گواہ تھے،‏ مجھے مکمل بائبل کی ایک کاپی دی۔‏

منیلا میں میری کئی گواہوں سے ملاقات ہوئی جنکی صحائف کا حوالہ دینے کی صلاحیت نے مجھے متاثر کِیا۔‏ مَیں نے ان سے اپنے کئی سوالوں کے تسلی‌بخش جواب حاصل کئے۔‏ انجام‌کار،‏ میرے انکل ریکارڈو یوسن مجھے یہوواہ کے گواہوں کے برانچ آفس میں ایک اجلاس پر لے گئے۔‏ جب ہم اس مقام کے قریب پہنچے تو مَیں نے سگریٹ جلائی۔‏ ”‏اسے پھینک دو،‏“‏ میرے انکل نے کہا۔‏ ”‏یہوواہ کے گواہ سگریٹ‌نوشی نہیں کرتے۔‏“‏ لہٰذا،‏ مَیں نے سگریٹ پھینکی اور دوبارہ کبھی سگریٹ‌نوشی نہیں کی۔‏ برانچ اوورسیئر جوزف ڈوس سانٹوس کے علاوہ میری کچھ اَور گواہوں سے بھی ملاقات ہوئی۔‏ آج،‏ عشروں بعد،‏ مجھے وہ عمدہ مسیحی بھائی ابھی تک یاد ہیں۔‏

خدا کی خدمت کرنے کی خواہش

اکتوبر ۱۹۳۷ میں،‏ جب مَیں لاس بانیوس ایگریکلچرل کالج میں زیرِتعلیم تھا تو مَیں نے چرچ جانا چھوڑ دیا تھا۔‏ اس کی بجائے مَیں صرف بائبل اور وہ مطبوعات پڑھتا رہا جو میرے انکل نے مجھے دی تھیں۔‏ یہوواہ کے گواہوں کا ایک گروپ ہمارے کالج آیا اور ان میں سے ایک گواہ ایلویرا ایلن‌سوڈ کے ساتھ بات‌چیت کے نتیجے میں یہوواہ خدا کی خدمت کرنے کی میری خواہش بہت مضبوط ہوئی۔‏

جب مَیں نے سکول چھوڑنے کے ارادے کی بابت اپنے اساتذہ کو مطلع کِیا تو انہوں نے پوچھا:‏ ”‏آپکی کفالت کون کریگا؟‏“‏ مَیں نے وضاحت کی کہ مجھے اعتماد ہے کہ اگر مَیں خدا کی خدمت کروں تو وہ مجھے سنبھالے گا۔‏ سکول چھوڑنے کے بعد،‏ مَیں نے واچ ٹاور سوسائٹی کے دفتر جا کر خود کو رضاکار کارکُن کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏مَیں نے مطبوعات لوئلٹی،‏ ریچز اور ویئر آر دی ڈیڈ؟‏ پڑھ لی ہیں۔‏ اب مَیں یہوواہ کی کُل‌وقتی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔‏“‏ مجھے مشورہ دیا گیا کہ مَیں سیبو کے صوبے میں تین پائنیروں کیساتھ کام کروں،‏ جیساکہ یہوواہ کے گواہوں کے کُل‌وقتی خادم کہلاتے ہیں۔‏

میری منادی کا آغاز

جب مَیں جولائی ۱۵،‏ ۱۹۳۸ میں سیبو کے جزیرے پر پہنچا تو وہاں پر میری ملاقات سالویڈور لیواگ سے ہوئی۔‏ اگلے دن مَیں نے گھرباگھر کی منادی شروع کر دی۔‏ مجھے کسی نے کوئی تربیت نہیں دی تھی۔‏ مَیں صاحبِ‌خانہ کو صرف اپنے کام کی وضاحت کرنے والا تصدیقی کارڈ پیش کرتا تھا۔‏ درحقیقت،‏ مَیں وہاں کی مقامی زبان سیبوانو کے صرف دو لفظ جانتا تھا۔‏ اس طرح میری منادی کے پہلے دن کا آغاز ہوا۔‏

کسی نئے شہر میں منادی شروع کرتے وقت ہم حسبِ‌دستور پہلے میونسپل بلڈنگ میں جاتے تھے۔‏ وہاں بھائی لیواگ میئر کو،‏ پابلو باوٹسٹا پولیس چیف کو اور کونراڈو ڈاکلان جج کو گواہی دیتے تھے۔‏ مَیں پوسٹ‌ماسٹر سے بات‌چیت کرتا تھا۔‏ پھر ہم بس ٹرمینل،‏ پولیس بیرکس،‏ سٹورز اور سکولوں میں جاتے تھے۔‏ اسکے علاوہ،‏ ہم لوگوں سے انکے گھروں پر بھی ملاقات کرتے تھے۔‏ ہم بائبل مطالعے کی امدادی کتاب اینیمیز پیش کرتے تھے۔‏ جب مَیں اپنے ساتھیوں کے گواہی دینے کے طریقوں کی نقل کِیا کرتا تھا تو مَیں نے آہستہ آہستہ سیبوانو زبان بولنا سیکھ لی اور کتابیں پیش کرنا شروع کر دیں۔‏ ہم نے تین مہینوں کے اندر اندر پورے سیبو کے صوبے کے ۵۴ شہروں کا احاطہ کر لیا۔‏ پھر مَیں نے بھائی لیواگ سے پوچھا:‏ ”‏کیا مَیں اب بپتسمہ لے سکتا ہوں؟‏“‏

‏”‏بھائی،‏ ابھی نہیں،‏“‏ اس نے جواب دیا۔‏ لہٰذا ہم ایک اَور جزیرے بوہول منتقل ہو گئے اور وہاں ڈیڑھ مہینے میں ہم نے مزید ۳۶ شہروں کا احاطہ کِیا۔‏ مَیں نے ایک بار پھر بپتسمے کی درخواست کی۔‏ مجھ سے کہا گیا،‏ ”‏بھائی بارلان،‏ ابھی نہیں۔‏“‏ لہٰذا،‏ پہلے بوہول اور پھر کیم‌یگوئن کے جزائر کا احاطہ کر کے ہم منڈاناؤ کے بڑے جزیرے پر پہنچ گئے اور کاگایان دا اورو کے شہر میں منادی شروع کر دی۔‏

اس وقت تک،‏ ورجنیو کروس ہمارے گروپ میں شامل ہوگیا۔‏ وہ پبلک سکول ٹیچر تھا مگر اپنی نوکری چھوڑ کر پائنیر بن گیا۔‏ ہم دوسرے شہروں میں جاتے رہے اور بالآخر لیک لاناؤ آ گئے۔‏ وہاں مَیں نے بپتسمے کے لئے دوبارہ درخواست کی۔‏ آخرکار،‏ دسمبر ۲۸،‏ ۱۹۳۸ میں تقریباً چھ مہینے پائنیر خدمت کرنے کے بعد،‏ بھائی کروس نے لمباٹن کے شہر،‏ لیک لاناؤ کے پانی میں مجھے بپتسمہ دیا۔‏

خدا پر بھروسا رکھنے کا اجر

کچھ دیر بعد،‏ مَیں نے نیگروس اوکسی‌ڈینٹل میں تین پائنیروں کیساتھ کام کرنا شروع کر دیا۔‏ انکے نام یہ تھے فل‌جن‌شیو دا ھی‌سس،‏ ایس‌پرانزا دا ھی‌سس اور ناٹیویڈاڈ سانٹوس جسے ہم ناٹی کہتے تھے۔‏ ہم نے اس صوبے کے کئی شہروں میں منادی کی۔‏ ہمیں واقعی یہوواہ پر پورا بھروسا رکھنے کی ضرورت تھی کیونکہ بعض‌اوقات ہمارے پیسے بالکل ختم ہو جاتے تھے۔‏ ایک بار ہم چاول کیساتھ مچھلی کھانا چاہتے تھے۔‏ جب مَیں نے ساحل پر ایک شخص سے مچھلی خریدنا چاہی تو پتہ چلا کہ وہ انہیں مارکیٹ بھیج چکا تھا۔‏ تاہم،‏ اس نے مجھے ایک مچھلی دی جو اس نے اپنے لئے رکھی تھی۔‏ مَیں نے قیمت پوچھی۔‏ اس نے کہا:‏ ”‏کوئی بات نہیں۔‏ آپ اسے ایسے ہی رکھ سکتے ہیں۔‏“‏

مَیں نے اُسکا شکریہ ادا کِیا۔‏ لیکن واپسی پر مَیں نے سوچا کہ ایک مچھلی چار لوگوں کیلئے کافی نہیں ہوگی۔‏ ایک چھوٹی سی کھاڑی کے پاس سے گزرتے ہوئے،‏ مَیں ایک پتھر پر ایک تربتر مچھلی کو پڑے ہوئے دیکھکر حیران رہ گیا۔‏ مَیں نے سوچا،‏ ’‏شاید یہ مری ہوئی ہے۔‏‘‏ مَیں اُسے اُٹھانے کیلئے آگے بڑھا تو اُسے زندہ پا کر حیران ہوا۔‏ مَیں نے جلدی سے اُسے مضبوطی کیساتھ اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیا اور فوراً مجھے یسوع کا یہ وعدہ یاد آیا:‏ ”‏تم پہلے اُسکی بادشاہی اور اُسکی راستبازی کی تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تمکو مل جائینگی۔‏“‏—‏متی ۶:‏۳۳‏۔‏

جنگ کے دوران منادی کرنا

جب ہم نو پائنیر ہو گئے تو ہم نے دو گروپ بنا لئے۔‏ میرے گروپ کی تفویض سیبو میں تھی۔‏ یہ دسمبر ۱۹۴۱ کا وقت تھا اور فلپائن میں دوسری عالمی جنگ جاری تھی۔‏ جب ہم ٹوبوران کے شہر میں تھے تو فلپائن کا ایک فوجی افسر آدھی رات کو ہمارے کمرے میں آیا۔‏ اُس نے کہا ”‏بچہ،‏ اُٹھ جاؤ،‏ فوجی تمہاری تلاش میں ہیں۔‏“‏ ہم پر جاپانی جاسوس ہونے کا شک تھا اور اسلئے پوری رات تفتیش جاری رہی۔‏

اس کے بعد،‏ ہمیں بلدیاتی جیل میں ڈال دیا گیا۔‏ سیبو شہر میں یو.‏ایس فوجیوں نے ہم سے ہماری ہر کتاب کی ایک کاپی مانگی تاکہ یہ معلوم کر سکیں کہ ہم جاپانی جاسوس ہیں یا نہیں۔‏ بیشتر مقامی لوگ اس تجسّس میں ہم سے قیدخانہ میں ملنے آتے تھے تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ جاپانی جاسوس ہونے کے الزام میں گرفتار قیدی آخر کیسے دکھائی دیتے ہیں۔‏ بعض نے سوال بھی پوچھے اور ہم نے انہیں خدا کی بادشاہت کی بابت گواہی دی۔‏

ہمارے پانچ دن جیل میں رہنے کے بعد،‏ پولیس چیف کو یو.‏ایس فوجی ہیڈکوارٹرز سے ٹیلی‌گرام موصول ہوا جس میں یہوواہ کے گواہوں کو آزاد کرنے کی ہدایات تھیں۔‏ تاہم،‏ اُس نے ہمیں جنگ کی وجہ سے منادی کرنے سے باز رہنے کا مشورہ دیا۔‏ ہم نے وضاحت کی کہ ہم منادی بند نہیں کر سکتے کیونکہ یہ تفویض ہمیں خدا کی طرف سے ملی ہے۔‏ (‏اعمال ۵:‏۲۸،‏ ۲۹‏)‏ چیف کو یہ بات ناگوار گزری اور اُس نے غصے میں آکر کہا:‏ ”‏اگر تم نے منادی جاری رکھی تو مَیں لوگوں کو تمہیں قتل کرنے سے نہیں روک سکوں گا۔‏“‏

اِسکے بعد اس پولیس چیف نے ہمیں دوبارہ گرفتار کرنے کی کوشش کی۔‏ نتیجتاً،‏ ایک یو.‏ایس فوجی دستے نے ہمیں روکا اور سوریانو نامی ایک فوجی افسر نے بہن سانٹوس سے سوال کِیا:‏ ”‏آپ منادی بند کرینگی یا نہیں؟‏“‏

‏”‏جی نہیں،‏“‏ بہن نے جواب دیا۔‏

‏”‏اگر ہم آپکو فائرنگ اسکواڈ کے آگے کھڑا کر دیں تو پھر؟‏“‏ اُس نے سوال کِیا۔‏

‏”‏ہمارا فیصلہ پھر بھی نہیں بدلیگا،‏“‏ بہن نے وضاحت کی۔‏

ہمارا جواب سن کر ہمیں کارگو ٹرک میں سیبو شہر لیجایا گیا جہاں ہم کرنل ایڈمنڈ کے آگے پیش ہوئے۔‏ فوجی افسر سوریانو نے اس سے ہمیں متعارف کراتے ہوئے کہا:‏ ”‏یہ یہوواہ کے گواہ ہیں۔‏ یہ جاپانی جاسوس ہیں!‏“‏

‏”‏یہوواہ کے گواہ؟‏“‏ کرنل نے پوچھا۔‏ ”‏مَیں امریکہ سے یہوواہ کے گواہوں سے بہت اچھی طرح واقف ہوں۔‏ وہ جاسوس نہیں ہیں!‏ وہ تو غیرجانبدار ہیں۔‏“‏ پھر اس نے ہم سے مخاطب ہو کر کہا:‏ ”‏تم غیرجانبدار ہو،‏ اِسلئے تمہیں رہائی نہیں مل سکتی۔‏“‏ بعدازاں،‏ ہمیں سٹوریج روم میں کچھ دیر رکھنے کے بعد،‏ کرنل ایڈمنڈ نے ایک بار پھر ہم سے بات‌چیت کے دوران پوچھا:‏ ”‏کیا تم اب بھی غیرجانبدار رہو گے؟‏“‏

جی‌ہاں،‏ جناب،‏“‏ ہم نے جواب میں کہا۔‏

‏”‏پھر تمہیں رہائی نہیں مل سکتی،‏“‏ اس نے کہا،‏ ”‏کیونکہ اگر چھوڑ دیا گیا تو تم منادی جاری رکھو گے اور تمہاری تعلیم کے معتقد ہو جانے والے لوگ بھی غیرجانبدار بن جائینگے۔‏ چنانچہ اگر سب ایسا کرنے لگے تو پھر اس لڑائی میں کوئی بھی حصہ نہیں لیگا۔‏“‏

دوبارہ منادی کرنے کی آزادی

بعدازاں،‏ ہمیں سیبو شہر کی جیل میں منتقل کر دیا گیا۔‏ اپریل ۱۰،‏ ۱۹۴۲ کے دن چاپانیوں نے اس شہر پر حملہ کر دیا۔‏ ہر جگہ بم گِرے جس سے ہر طرف آگ پھیل گئی!‏ جیل کے نگران کی نظر بہن سانٹوس پر پڑی جسکی کوٹھڑی سامنے ہی تھی۔‏ ”‏یہ کیا!‏ یہوواہ کے گواہ ابھی تک قید میں ہیں!‏“‏ وہ چلّایا۔‏ ”‏دروازہ کھولو اور انہیں جانے دو!‏“‏ ہم نے یہوواہ کی طرف سے تحفظ کیلئے اُس کا شکر ادا کِیا۔‏

ہم ساتھی گواہوں کی تلاش میں فوراً پہاڑی علاقوں کی طرف نکل پڑے۔‏ ہمیں کمپوسٹیلا کے شہر میں ایک گواہ ملا۔‏ وہ شروع میں منادی کے کام میں بہت سرگرم تھا مگر اب اس نے منادی چھوڑ کر سیبو شہر میں مختلف چیزیں بیچنے کا کاروبار شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔‏ تاہم،‏ ہمارا فیصلہ اٹل تھا کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے،‏ ہم خدا کی بادشاہت کی منادی جاری رکھیں گے۔‏

ہمارے پاس کتابچہ کمفرٹ آل دیٹ مورن ‏[‏سب غمزدہ کو تسلی دو‏]‏ کی کئی کاپیاں تھیں اور ہم نے انہیں لوگوں تک پہنچانے کی بھرپور کوشش کی۔‏ تاہم،‏ بہتیروں نے ہمیں خوفزدہ کرنے کی کوشش کی کہ اگر چاپانیوں نے ہمیں دیکھ لیا تو وہ ہمارے سر قلم کر دیں گے۔‏ کچھ ہی عرصے بعد،‏ جاپانی گوریلوں کے خلاف ایک تحریک چلائی گئی اور جس شخص نے منادی کا کام چھوڑ کر سیبو شہر میں کاروبار شروع کر دیا تھا وہ گرفتار ہو گیا۔‏ ہمیں یہ جان کر افسوس ہوا کہ اسے جاپانی جاسوس ہونے کے الزام میں سزائےموت دے دی گئی تھی۔‏

جاسوس ہونے کا الزام

اس دوران ہم پہاڑی علاقوں میں منادی کرتے رہے۔‏ ایک دن ہمیں ایک دلچسپی رکھنے والی خاتون کا پتہ چلا مگر اس سے ملاقات کرنے کیلئے ہمیں گوریلا چوکیوں سے گزرنا تھا۔‏ ہم مانگابون کے علاقے میں پہنچے جہاں وہ خاتون رہتی تھی مگر ایک فوجی دستے نے ہمیں دیکھ لیا اور پوچھا:‏ ”‏تمہارے یہاں آنے کا مقصد کیا ہے؟‏“‏

‏”‏ہم یہوواہ کے گواہ ہیں،‏“‏ مَیں نے جواب دیا۔‏ ”‏کیا آپ ہمارا پیغام سننا چاہتے ہیں جو ہم اس فونوگراف کے ذریعے سب کو دے رہے ہیں؟‏“‏ انکے مثبت جواب پر مَیں نے دی ویلیو آف نالج کا ریکارڈ لگایا۔‏ پھر ہماری تلاشی لی گئی اور ہمیں تفتیش کے بعد ٹابونان کے شہر میں گوریلا ہیڈکوارٹرز لیجایا گیا۔‏ ہم نے تحفظ کیلئے یہوواہ سے دُعا کی کیونکہ عام رپورٹ کے مطابق وہاں جانے والے تمام لوگوں کو سزائےموت دی جاتی تھی۔‏

ہمیں زیرِنگرانی رکھا گیا اور ہم پر تشدد بھی کِیا گیا۔‏ اب ہم اس صورتحال میں تھے جسکا ذکر مَیں نے شروع میں کِیا تھا جب مجھے ماراپیٹا گیا اور فوجی افسر نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏تم ایک جاسوس ہو!‏“‏ کچھ عرصے تک ہم پر تشدد جاری رہا مگر سزائےموت کی بجائے ہم سے سخت مشقت کرائی گئی۔‏

ٹابونان میں قید کئے جانے والے پائنیروں میں سے ایک میرا بھائی برنابی تھا۔‏ ہر صبح قیدیوں سے یہ گیت گانے کا تقاضا کِیا جاتا تھا،‏ ”‏امریکہ پر خدا کی برکت ہو“‏ اور ”‏فلپائن پر خدا کی برکت ہو۔‏“‏ اسکے برعکس،‏ گواہ یہ گیت گایا کرتے تھے،‏ ”‏خداوند کی طرف کون ہے؟‏“‏ ایک بار نگران افسر اُونچی آواز میں چلّایا:‏ ”‏جو بھی ’‏امریکہ پر خدا کی برکت ہو‘‏ کا گیت نہیں گائیگا،‏ اسے اُس کیکر کے درخت پر سولی دے دی جائیگی!‏“‏ تاہم،‏ ان دھمکیوں کے باوجود ہم میں سے کسی کو ہلاک نہیں کِیا گیا۔‏ بالآخر،‏ ہمیں دوسرے کیمپوں میں منتقل کر دیا تھا۔‏ بالآخر جولائی ۱۹۴۳ میں ایک دن میری رہائی کے کاغذات آ گئے۔‏ اُس وقت تک،‏ مَیں آٹھ مہینے اور دس دن کی قید کاٹ چکا تھا۔‏

عمربھر منادی کرنا

دلچسپی رکھنے والے اشخاص سے دوبارہ ملاقات کرنے کی ہماری خواہش نے ہمیں ۶۰ کلومیٹر دُور،‏ ٹولیڈو کے شہر تک پیدل سفر طے کرنے کی تحریک دی۔‏ وہاں باقاعدہ اجلاس منعقد کئے گئے اور آخرکار بہتیرے لوگوں نے بپتسمہ لیا۔‏ پھر ۱۹۴۵ میں جنگ ختم ہوگئی۔‏ جنگ کے دو سال بعد اور میرے بپتسمے کے تقریباً نو سال بعد،‏ مَیں اپنے پہلے کنونشن پر شرکت کرنے کے قابل ہوا جو منیلا کے سانٹا اینا ریس کے میدان میں منعقد ہوا تھا۔‏ تقریباً ۲۰۰،‏۴ اشخاص عوامی تقریر بعنوان ”‏تمام لوگوں کے واسطے خوشی“‏ کیلئے جمع ہوئے تھے۔‏

فلپائن میں جنگ شروع ہونے سے قبل،‏ کوئی ۳۸۰ گواہ تھے مگر ۱۹۴۷ تک انکی تعداد تقریباً ۷۰۰،‏۲ ہو گئی!‏ اُس وقت سے لیکر مجھے یہوواہ کی خدمت میں کئی استحقاقات حاصل ہوئے۔‏ مَیں نے ۱۹۴۸ سے ۱۹۵۰ تک،‏ سوریگاؤ کے علاقے میں سفری نگہبان کے طور پر خدمت کی۔‏ سن ۱۹۵۱ میں،‏ میری شادی ناٹیویڈاڈ سانٹوس سے ہوئی جس نے جنگ کے دوران ہمارے گروپ کیساتھ دلیری سے منادی کی تھی۔‏ اپنی شادی کے بعد،‏ ہم نے ۱۹۵۴ سے لیکر ۱۹۷۲ تک منڈاناؤ کے پورے علاقے میں سفری خدمت جاری رکھی۔‏

سن ۱۹۷۲ میں ہم سپیشل پائنیر بن گئے تاکہ اپنے عمررسیدہ والدین کے قریب رہ کر اُنکی دیکھ‌بھال کر سکیں۔‏ ہم دونوں اب ۸۰ سال کے ہو چکے ہیں مگر ابھی تک پائنیر خدمت کر رہے ہیں اور ہم نے مجموعی طور پر ۱۲۰ سال سے زائد عرصہ کُل‌وقتی خدمت کی ہے۔‏ فلپائن میں خدا کی بادشاہت کی خوشخبری کا پرچار کرنے والے ۰۰۰،‏۳۰،‏۱ سے زائد گواہوں کو دیکھ کر ہمیں بیحد خوشی ہوتی ہے!‏ اب بھی ہماری خواہش ہے کہ ہم مزید لوگوں کی یہ سمجھنے میں مدد کریں کہ خدا کی بادشاہت ہی زمین پر حقیقی امن اور خوشی سے لطف‌اندوز ہونے کی واحد اُمید ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۲ پر عبارت]‏

ہم پر جاپانی جاسوس ہونے کا شُبہ تھا اسلئے پوری رات تفتیش جاری رہی

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

بوہول کے جزیرے پر،‏ ۱۹۶۳ میں اپنے دوستوں کیساتھ۔‏ مَیں اور میری بیوی دائیں جانب چوتھے اور پانچویں نمبر پر ہیں

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

آجکل اپنی بیوی کیساتھ

‏[‏صفحہ ۲۰ پر تصویر کا حوالہ]‏

Background photo: U.S. Signal Corps photo