مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مرفینس سنڈروم سے نپٹنا—‏جب جوڑ ہل جاتے ہیں

مرفینس سنڈروم سے نپٹنا—‏جب جوڑ ہل جاتے ہیں

مرفینس سنڈروم سے نپٹنا—‏جب جوڑ ہل جاتے ہیں

برطانیہ میں جاگو!‏ کا رائٹر

‏”‏مَیں دن میں دو مرتبہ مارفین کے کیپسول لیتی ہوں۔‏ اس سے مجھے کچھ آرام رہتا ہے مگر جب درد شروع ہوتا ہے تو مجھے مارفین کا شربت پینا پڑتا ہے۔‏“‏ ہلکے براؤن بالوں والی ایک ادھیڑ عمر خاتون،‏ مشل چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ کیساتھ یہ بات بیان کر رہی تھی جبکہ اُسکا شوہر،‏ فلپ اُسکے پہلو میں بیٹھا اثبات میں سر ہلا رہا تھا۔‏

‏”‏جب تکلیف بڑھنے لگتی ہے،‏“‏ مشل مزید بیان کرتی ہے،‏ ”‏تو ہر گھڑی انتہائی تکلیف‌دہ ہوتی ہے کیونکہ میرے جوڑ اپنی جگہ سے سرک جاتے ہیں۔‏ نتیجتاً،‏ اعصابی کھنچاؤ کے باعث درد ناقابلِ‌برداشت حد تک بڑھ جاتا ہے۔‏“‏ مشل کئی عشروں سے اس بیماری کا بہادری کیساتھ مقابلہ کر رہی ہے۔‏ اُسے مرفینس سنڈروم کا مرض ہے۔‏

یہ بیماری کیا ہے؟‏ کیا اسکا کوئی علاج ہے؟‏ مَیں نے ان سوالوں کا جواب حاصل کرنے کا تہیہ کر لیا۔‏

ایک منحوس سنڈروم

مجھے معلوم ہوا کہ اس سنڈروم کا نام ایک فرانسیسی ماہرِامراضِ‌اطفال،‏ اینٹونیو مرفین کے نام پر رکھا گیا ہے۔‏ سن ۱۸۹۶ میں اُس نے ایک ایسی حالت کا ذکر کِیا جسکا نام اُسی کے نام پر رکھ دیا گیا۔‏ اگرچہ یہ سنڈروم اتنا عام نہیں،‏ تاہم ہر طبقے سے تخمیناً ۰۰۰،‏۱۰ میں سے ۱ شخص اسکا شکار ہوتا ہے۔‏

یہ سنڈروم درحقیقت ایک توارثی بیماری ہے۔‏ اس بیماری کا سبب بننے والا جین مقابلتًا طاقتور ہوتا ہے اسلئے اگر ماں یا باپ میں سے کوئی ایک بھی اس مرض میں مبتلا ہوتا ہے تو یہ اُنکی اولاد میں بھی منتقل ہو سکتا ہے۔‏ یہی وجہ ہے کہ یہ بیماری خاندانوں میں اکثر نسل‌درنسل دیکھنے میں آتی ہے۔‏ خواہ اس کی تشخیص ابتدا میں ہی کیوں نہ ہو جائے،‏ ابھی تک اسکا کوئی علاج دریافت نہیں ہوا ہے۔‏

مشل لمبی اور دُبلی‌پتلی ہے،‏ اُسکے بازو لمبے،‏ ہاتھ اور پاؤں چھوٹے مگر اُنگلیاں لمبی ہیں۔‏ یہ مرفینس سنڈروم کی علامت ہو سکتی ہے۔‏ اس سنڈروم سے متاثرہ ہر شخص میں اس کی تمام علامات اور پیچیدگیوں کا ظاہر ہونا ضروری نہیں ہے لیکن جب ایک بھی علامت نظر آ جائے تو ڈاکٹر سمجھداری کیساتھ دیگر کی تشخیص کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ بعض علامات کیا ہیں؟‏

تشخیص کیلئے طبعیاتی علامات

مرفینس سنڈروم عموماً مائیوپیا—‏قریب‌بینی—‏کا باعث بنتا ہے۔‏ تقریباً ۵۰ فیصد مریضوں کا عدسہ‌چشم بھی اپنی مناسب جگہ سے ہل جاتا ہے۔‏ علاوہ‌ازیں،‏ اورطی والو میں بھی نقص پیدا ہو سکتا ہے۔‏ یہ والو اورطہ—‏انسانی جسم کی سب سے بڑی شریان—‏میں بہنے والے خون کو واپس دل میں جانے سے روکتا ہے۔‏

ڈاکٹر اکثر مرفینس سنڈروم کے مریضوں کو جسمانی مشقت والی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے منع کرتے ہیں۔‏ اگرچہ اس سنڈروم میں مبتلا ۱۰ میں سے صرف ۱ مریض کو ہی دل کے سنگین مسائل کا سامنا ہوتا ہے توبھی موروثی کمزوری سب میں ہوتی ہے جس کی وجہ سے احتیاط برتنے کی تاکید کی جاتی ہے۔‏ اگر اورطہ پھٹ جائے تو عام طور پر موت یقینی ہوتی ہے۔‏ چھ فٹ پانچ انچ لمبی،‏ امریکہ کی ایک والی‌بال کی لولمپک کھلاڑی،‏ فلو ہائےمین بھی مرفینس سنڈروم کی پیچیدگیوں کی وجہ سے ۱۹۸۶ میں جاپان میں ایک میچ کے دوران ۳۱ سال کی عمر میں وفات پا گئی۔‏

مرفینس سنڈروم میں مبتلا اشخاص کے سینے کی بناوٹ اور ریڑھ کی ہڈی کی خمیدگی بھی غیرمعمولی ہو سکتی ہے۔‏ سنگین صورتحال میں،‏ اُوپر والے جبڑے اور تالو سے متعلق مشکلات بھی نمایاں ہو سکتی ہیں۔‏ جب بچپن میں اس بیماری کی تشخیص ہو جائے تو مسلسل نگہداشت انتہائی ضروری ہوتی ہے جس میں فیزیکل تھراپی اور سرجری درکار ہو سکتی ہے۔‏ مشل کی طرح بعض مریضوں کے جوڑ اپنی جگہ سے ہل جاتے ہیں۔‏ اسکی کیا وجہ ہے؟‏

فائبرلن کا کردار

سن ۱۹۸۶ میں سائنسدانوں نے فائبرلن نامی ایک پروٹین دریافت کی۔‏ یہ پروٹین توصلی بافت کا لازمی جُز ہے اور اسکی مضبوطی اور لچک کیلئے مفید ہوتی ہے۔‏ سن ۱۹۹۱ میں انسانی کروموسوم ۱۵ کے جینیاتی خاکے میں ایک ناقص جین کو مرفینس سنڈروم کا سبب قرار دیا گیا۔‏ عموماً یہ جین جسم کو فائبرلن پیدا کرنے کا حکم دیتا ہے لیکن جب فائبرلن کم یا ناکارہ ہو تو بافتیں عام دباؤ برداشت نہیں کر سکتیں جس کی وجہ سے یہ غیرمعمولی طور پر پھیلنے لگتی ہیں۔‏ اس بات سے غالباً مرفینس سنڈروم کے مریضوں کو درپیش پھیپھڑوں کے مسائل کی وضاحت ہو جاتی ہے۔‏ مضبوط توصلی بافت پھیپھڑوں میں موجود چھوٹی‌چھوٹی ہوادار جھلیوں کو استحکام اور لچک فراہم کرنے کیلئے بہت ضروری ہوتی ہے۔‏

تاہم،‏ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مرفینس سنڈروم کے مریض دمے،‏ برونکائٹس یا ہوائی چھالے جیسی بیماریوں کا بھی آسانی سے شکار ہو جاتے ہیں۔‏ تاہم،‏ بعض‌اوقات پھیپھڑے اچانک کام کرنا بند کر دیتے ہیں جس کیلئے فوری طبّی امداد نہایت ضروری ہوتی ہے۔‏ مشل نے بتایا کہ اُسکے پھیپھڑے بھی بُری طرح متاثر ہو چکے ہیں اسلئے اُسے ایسی ہنگامی صورتحال کیلئے تیار رہنا پڑتا ہے۔‏

اب میری دلچسپی اس بات کو جاننے میں تھی کہ مشل ان تمام مشکلات کے باوجود اپنی روزمرّہ زندگی کیسے بسر کرتی ہے۔‏

اُس نے جینا سیکھ لیا

مشل نے وضاحت کی کہ ”‏مجھے ۱۵ سال کی عمر سے سارے جسم میں درد رہنے لگا جسکی بعدازاں مرفینس سنڈروم کے طور پر تشخیص ہوئی۔‏ ہمارے خاندان کا اب خیال ہے کہ شاید ہمارے والد کو بھی یہی مسئلہ تھا۔‏ کئی سال تک اُس نے آرتھرائٹس کی وجہ سے تکلیف اُٹھائی جو مرفینس سنڈروم کی علامات کو مبہم کر دیتا ہے۔‏ ہمارا ۲۴ سالہ بیٹا،‏ جاون یقیناً اس سے متاثر ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اُس میں یہ بیماری کیا صورت اختیار کرتی ہے۔‏

‏”‏مَیں نے حالیہ برسوں میں سڑائڈز کا استعمال شروع کِیا جس سے مجھے خاطرخواہ افاقہ بھی ہوا مگر جب مَیں انکا استعمال بند کرتی تھی تو درد شدت اختیار کر جاتا تھا۔‏ * میرے کندھوں،‏ ہاتھوں،‏ گھٹنوں،‏ کلائیوں اور ٹخنوں کے جوڑ اپنی جگہ سے ہل سکتے ہیں۔‏ اگر رات کو سوتے میں کروٹ بدلتے وقت ایسا ہو جائے تو مَیں چلّا اُٹھتی ہوں۔‏ لیکن فلپ بہت ہی اچھا شوہر ہے!‏ وہ بعض‌اوقات ساری رات میرے ساتھ جاگتا رہتا ہے اور مجھے تسلی دینے کیساتھ ساتھ خدا سے ہم دونوں کو طاقت بخشنے کیلئے دُعا بھی کرتا رہتا ہے۔‏

‏”‏مَیں حتی‌المقدور گھر کا کام بھی کرتی ہوں،‏ اگرچہ سیڑھیاں چڑھنا میرے لئے بہت مشکل ہے لیکن اس کیلئے مَیں چیئر لفٹ استعمال کرتی ہوں۔‏ درحقیقت فلپ اور جاون میری بہت مدد کرتے ہیں۔‏ جب میری حالت بہت بگڑ جاتی ہے تو میرے ہاتھوں پر دھاتی پٹے لپیٹ دئے جاتے ہیں۔‏ میرے ٹخنوں کو سہارا دینے کیلئے کچھ پٹے میری ٹانگوں کے گرد لپیٹ دئے جاتے ہیں۔‏ لیکن یہ پٹے بہت بھاری ہوتے ہیں اور انکی وجہ سے حرکت کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔‏ مزیدبرآں،‏ جب تک یہ لپٹے رہتے ہیں مَیں ورزش نہیں کر پاتی جو میرے لئے نقصاندہ ہے۔‏“‏

مَیں نے کہا ”‏آپ کبھی‌کبھار افسردہ ہو جاتی ہونگی۔‏“‏

مشل نے جواب دیا،‏ ”‏یقیناً۔‏ مسلسل درد اور دل کے مسائل کیساتھ افسردگی بھی ضرور اثرانداز ہوتی ہے۔‏ پس مَیں ایسی ہی تکلیف میں مبتلا اپنے دیگر ممالک کے بھائی‌بہنوں کیلئے دُعاگو ہوں۔‏ مَیں پُرمحبت اور تعاون کرنے والے خاندان اور شفیق ڈاکٹر اور اُسکے طبّی عملے کی شکرگزار ہوں۔‏

‏”‏بعض‌اوقات تو مَیں لیٹےلیٹے اُکتا جاتی ہوں اور گھر مجھے کھانے کو دوڑتا ہے۔‏ اسی وجہ سے مَیں نے ۱۱ سال پہلے فلپ کے ساتھ مشورہ کرنے کے بعد باقاعدہ پائنیر،‏ کُل‌وقتی مبشر کے طور پر نام درج کرانے کا فیصلہ کر لیا۔‏ اگرچہ اُس وقت سے میری صحت بہت خراب ہو گئی ہے توبھی مجھ سے جتنا بن پڑتا ہے مَیں ضرور کرتی ہوں اور فلپ اکثر گھرباگھر کی منادی میں میرے ساتھ جاتا ہے۔‏ لیکن میں غیررسمی گواہی بھی دیتی ہوں اور خطوط اور ٹیلیفوں کا استعمال بھی کرتی ہوں۔‏

‏”‏مجھے اپنے پڑوسیوں کو بائبل سچائیوں کی تعلیم دیکر اور بالخصوص اُنہیں یہوواہ کے بپتسمہ‌یافتہ خادم بنتے دیکھ کر بڑی خوشی حاصل ہوتی ہے۔‏ یہوواہ خدا کی نئی دُنیا کی بابت گفتگو کرنے سے مجھے سب سے زیادہ حوصلہ ملتا ہے کیونکہ اُس دُنیا میں کوئی دُکھ‌تکلیف حتیٰ‌کہ موت بھی نہیں ہوگی۔‏ مَیں چلتےچلتے یہوواہ سے دل ہی دل میں باتیں کرتی ہوں جس سے مجھے اُسکی رُوح‌اُلقدس کی طاقت حاصل ہوتی ہے اور یوں مَیں درد برداشت کرنے کے قابل ہوتی ہوں۔‏ یقین کریں،‏ دُنیا میں اُس جیسی کوئی طاقت نہیں!‏“‏

مشل نے بیان کِیا کہ وہ بائبل پڑھنے سے خاص تسلی حاصل کرتی ہے۔‏ اُس نے زبور ۷۳:‏۲۸؛‏ ۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۷؛‏ فلپیوں ۴:‏۱۳ اور مکاشفہ ۲۱:‏۳،‏ ۴ جیسے حوالہ‌جات کا ذکر کِیا جو اُس کیلئے خاص طور پر تسلی‌بخش ثابت ہوئے ہیں۔‏ بائبل کی ان آیات کو خود پڑھنے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ مصیبت میں مبتلا کسی بھی شخص کیلئے یہ واقعی بہت حوصلہ‌افزا ہو سکتی ہیں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 20 سٹرائڈز مرفینس سنڈروم کا معیاری علاج نہیں ہے۔‏ اسکا انحصار زیادہ‌تر مسئلے کی نوعیت اور معالجاتی ترجیحات پر ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۱۲ پر بکس/‏تصویریں]‏

تاریخی شہادت؟‏

ڈاکٹروں نے توصلی بافت کے حوالے سے ۲۰۰ مختلف بیماریوں کی شناخت کی ہے۔‏ اگرچہ ایسے امراض کی شناخت حالیہ برسوں میں ہی ہوئی ہے،‏ سائنسدانوں اور مؤرخین نے ماضی کی ایسی ممتاز شخصیات کی جسمانی خاصیتوں کا جائزہ لیا ہے جنکی بابت اُنکا خیال ہے کہ وہ مرفینس سنڈروم یا ایسی ہی کسی بیماری میں مبتلا تھے۔‏

سن ۱۷۸۲ سے ۱۸۴۰ کے زمانے کا وائلن‌نواز،‏ لمبا اور دُبلاپتلا نکولو پاگنینی اسی بیماری کا شکار تھا۔‏ وہ اسقدر ماہر تھا کہ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ اُس نے اپنی غیرمعمولی قابلیت کے عوض اپنی جان ابلیس کو بیچ ڈالی ہے۔‏ پاگنینی کے ڈاکٹر،‏ فرانسسکو بیناٹی نے بیان کِیا:‏ ”‏اُسکے ہاتھ کی لمبائی تو معمول سے زیادہ نہیں ہے مگر اسکے تمام حصوں میں غیرمعمولی لچک کی وجہ سے اُسکے انگوٹھے اور چھوٹی انگلی کے سروں کا درمیانی فاصلہ اس سے دُگنا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ اسکا مطلب ہے کہ وہ اپنے ہاتھ کے رُخ کو تبدیل کئے بغیر بائیں ہاتھ کی انگلیوں کے اُوپر والے جوڑوں کو بڑی آسانی اور تیزی کیساتھ دونوں اطراف میں موڑ سکتا تھا۔‏“‏

محققین نے اس سے بھی قدیم زمانے میں جھانک کر نفرطیتی کے شوہر،‏ مصری فرعون اخناتون کا جائزہ بھی لیا ہے۔‏ اُسکا چہرہ پتلا اور گردن،‏ بازو،‏ ہاتھ اور پاؤں لمبے تھے۔‏ اُسکے خاندان کے بہت سے لوگ اوائل عمری میں ہی وفات پا گئے جو قدیم زمانے میں مرفینس سنڈروم سے ہلاک ہونے والوں کی ایک مثال ہے۔‏

‏[‏تصویروں کے حوالہ‌جات]‏

Great Men and Famous Women From the book

Ägyptisches Museum der Staatlichen Museen Preußischer

Kulturbesitz, Berlin

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویر]‏

فلپ اکثر مشل کیساتھ گھرباگھر کی خدمتگزاری میں جاتا ہے