مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یوکلپٹس—‏یہ کتنا مفید ہے؟‏

یوکلپٹس—‏یہ کتنا مفید ہے؟‏

یوکلپٹس‏—‏یہ کتنا مفید ہے؟‏

آسٹریلیا میں جاگو!‏ کا رائٹر

ان میں سے بعض کی لمبائی ۳۰۰ فٹ ہے اور انکا شمار دُنیا کے سب سے اُونچے درختوں میں ہوتا ہے۔‏ دیگر چھوٹے اور خم‌دار خشک درخت زمین کی طرف جھکے ہوتے ہیں۔‏ انکے پتے بھی قدرت کا عجوبہ ہیں اور انکے پھول آنکھوں کو لبھاتے ہیں۔‏ غالباً آپ نے بھی اس درخت کے کسی حصے کو ضرور استعمال کِیا ہوگا۔‏

ان میں سے بعض درختوں کے نام نمایاں طور پر فرق ہوتے ہیں،‏ جیساکہ الپائن دیودار اور تسمانیہ کا بلوط لیکن بہتیرے عموماً گوند کے پیڑ کہلاتے ہیں۔‏ تاہم،‏ تکنیکی اعتبار سے گوند درحقیقت کاربوہائیڈریٹ پر مشتمل پانی میں حل‌پذیر مادہ ہے جو یوکلپٹس کے کسی بھی درخت کی پیداوار نہیں۔‏ لہٰذا اس درخت کو گوند کے پیڑ کا نام دینا صحیح نہیں۔‏ ان درختوں کی اقسام کو یوکلپٹس کہنا زیادہ درست ہے اور اس درخت کی ۶۰۰ سے زائد اقسام آسٹریلیا میں پائی جاتی ہیں۔‏

یوکلپٹس کے درخت آسٹریلیا کے گرم مرطوب شمالی علاقے اور زیادہ خشک وسطی میدانوں میں بھی نشوونما پاتے ہیں۔‏ لیکن یہ جنوبی تسمانیہ میں انٹارکٹکا کی سرد ہواؤں اور ساحلی کوہستانی علاقوں کی کُہرآلود آب‌وہوا میں زیادہ پھلتےپھولتے ہیں۔‏ انکی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ انیسویں صدی کے ایک سیاح اور ماہرِحیوانیات نے بیان کِیا:‏ ”‏ہمیں گوند کے درختوں کے علاوہ اَور کچھ نظر نہیں آتا،‏ میلوں تک صرف یہی نظر آتے ہیں۔‏“‏

انیسویں صدی میں یورپ سے نقل‌مکانی کرکے آسٹریلیا آنے والے نوآباد لوگوں کی وجہ سے یوکلپٹس کے درختوں کو کافی نقصان پہنچا۔‏ تخمیناً،‏ ۰۰۰،‏۰۰،‏۳ مربع کلومیٹر کے علاقے میں اُگنے والے ان درختوں کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ خیال کرتے ہوئے جڑ سے اُکھاڑ دیا گیا۔‏ تاہم،‏ ہر کوئی اس قدرتی ذریعے کی قدروقیمت کو نظرانداز نہیں کرتا۔‏ انیسویں صدی کے دوران،‏ یوکلپٹس کے درخت دُنیابھر میں پھیل گئے۔‏

ایک بادشاہ اور طبیب

ابی‌سنیا جو اب ایتھیوپیا کہلاتا ہے،‏ ۱۸۸۰ میں اسکے بادشاہ مینی‌لک دوم کو اپنے نئے دارالخلافہ،‏ عدیس ابابا کے بنجر علاقے کیلئے سایہ‌دار درختوں اور جلانے کیلئے لکڑیوں کی ضرورت پڑی۔‏ تاہم اس علاقے کے جنگلات کی کٹائی کے بعد،‏ افریقہ میں پائے جانے والے تمام درختوں کو اس جگہ کیلئے غیرمناسب قرار دے دیا گیا۔‏ لہٰذا،‏ بادشاہ کے ماہرین نے ایک ایسے درخت کی تلاش شروع کر دی جو انکے شہر جیسی تپتی دھوپ میں بھی پھلتاپھولتا ہو۔‏ ”‏عدیس ابابا“‏ کا مطلب ”‏نیا پھول“‏ ہے اور اس شہر کو یہ نام غالباً یوکلپٹس کی شان میں دیا گیا ہوگا جو بہت جلد ایتھیوپیا کی معیشت میں درآمد کے لحاظ سے ایک اہم کردار ادا کرنے لگا تھا۔‏

جدید دَور میں دوسرے علاقوں میں یوکلپٹس کو متعارف کرانے والا ایک اَور شخص،‏ ڈاکٹر ایڈمنڈو ناوارو ڈے اینڈریڈ ہے۔‏ برازیل کے تیزی سے گھٹتے ہوئے جنگلات کو ازسرِنو تعمیر کرنے کے عزم میں اس نے ۱۹۱۰ میں آسٹریلیا سے یوکلپٹس کے پودے برآمد کرنا شروع کئے۔‏ اس نے ۳۸ ملین درخت لگوائے۔‏ آج برازیل میں یوکلپٹس کے دو ملین سے زیادہ درختوں کی نشوونما کی جا رہی ہے۔‏

لہٰذا،‏ آسٹریلیا کے علاوہ،‏ برازیل میں بھی برساتی جنگلات کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ یوکلپٹس کے درخت پائے جاتے ہیں۔‏ برازیل کی معیشت میں اس بیش‌قیمت اثاثے کے فوائد کے پیشِ‌نظر،‏ ڈاکٹر ناوارو کو اپنے مُلک کی قابلِ‌قدر خدمت انجام دینے کے اعزاز میں ایک خاص میڈل سے نوازا گیا۔‏

حیات کا درخت

یوکلپٹس کے بعض درخت جیسا کہ مالی کے درخت خشک زمین کی دراڑوں سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی جڑوں میں بڑی مقدار میں پانی جمع کر لیتے ہیں۔‏ آسٹریلیا کے ابریجنی لوگوں اور ابتدائی سیاحوں نے خشک وسطی علاقوں میں زندہ رہنے کیلئے پانی کے ان ہی ذخائر سے فائدہ اُٹھایا تھا۔‏ کھدائی کے ذریعے زمین کی سطح کے قریب موجود جڑوں کو چھوٹے حصوں میں توڑا جاتا تھا۔‏ جب ایک حصے کے سرے میں ہوا پھونکی جاتی ہے تو ہلکے بادامی رنگ کا رس نکلتا ہے۔‏ اگرچہ اس کا ذائقہ عام مشروب کی طرح مزیدار نہیں توبھی ایک ۹ میٹر لمبی جڑ سے تخمیناً ۵.‏۱ لیٹر حیات‌بخش رس نکالا جا سکتا ہے۔‏

اس درخت کی دوسری اقسام گرم‌مرطوب ماحول میں نشوونما پاتی ہیں اور سیلا زمین کے پانی کو تیزی سے جذب کر لیتی ہیں۔‏ اٹلی کے لوگوں نے اس خصوصیت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بحیرۂاسود کی دلدلی زمین کا پانی خشک کرنے اور مچھروں سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے ان علاقوں میں رطوبت‌پسند یوکلپٹس کے درخت لگائے۔‏ اب یہ ایک قیمتی زرعی قطعہ بن چکا ہے۔‏

افریقہ،‏ امریکہ،‏ ایشیا اور یورپ میں ۵۰ سے زائد ممالک نے ان کی خوبصورتی اور تجارتی خوبیوں کی وجہ سے یوکلپٹس کی افزائش کو خاص اہمیت دی ہے۔‏ فرنیچرساز انکی چمکدار قرمزی اور سنہری لکڑی کو گراں‌بہا خیال کرتے ہیں۔‏ ایک کتاب بیان کرتی ہے:‏ ”‏یوکلپٹس کے درختوں کی لکڑی سب سے زیادہ بھاری،‏ مضبوط اور دیرپا ہوتی ہے۔‏ اس درخت کی لکڑی کا معیار اور اسکی تیزی سے اُگنے کی صلاحیت .‏ .‏ .‏ اسے دُنیا کی مضبوط‌ترین لکڑی کا بیش‌قیمت ماخذ بنا دیتی ہے۔‏“‏

اس درخت کی پانی جذب نہ کرنے والی اقسام جہاز،‏ آب روک،‏ ٹیلیفون کے کھمبے،‏ باڑ اور فرش بنانے میں استعمال ہوتی ہیں۔‏ اسکے علاوہ،‏ یوکلپٹس اور ائرن‌بارک کہلانے والی قسمیں اپنے خوبصورت پھولوں میں ایک ایسا میٹھا رس پیدا کرتی ہیں جسے شہد کی مکھیاں ایک خاص قسم کے لذیذ شہد میں تبدیل کرتی ہیں۔‏ حالیہ برسوں میں،‏ یوکلپٹس کی ۵.‏۴ ملین ٹن لکڑی آسٹریلیا سے برآمد کی گئی ہے جسکی وجہ سے ۲۵۰ ملین ڈالر سالانہ آمدنی ہوئی ہے۔‏

خشک رال،‏ تیل اور تینن

خون کی طرح لال،‏ گوند جیسا مادہ جو خشک رال کہلاتا ہے یوکلپٹس کی چھال اور لکڑی سے نکلتا ہے۔‏ خشک رال کی بعض اقسام لکڑی کو کیڑا لگنے سے بچانے کیلئے استعمال ہوتی ہیں۔‏ خشک رال کو بہتے ہوئے خون کو روکنے والی ادویات میں بھی استعمال کِیا جاتا ہے۔‏ دوسری اقسام کے چھال سے تینن حاصل ہوتا ہے جو چمڑے اور کپڑوں کو رنگنے کے کام آتا ہے۔‏

اس کے پتے ایک حیرت‌انگیز ڈیزائن ہیں اور ان سے قیمتی تیل نکلتا ہے۔‏ یہ ایک بےجان ہاتھ کی نرم انگلیوں کی طرح لٹکتے ہیں اور ان کے سرے درخت کی طرف جھکے ہوتے ہیں۔‏ یہ نمونہ پتوں کو ایک بڑی قیف کی طرح کام کرنے میں مدد دیتا ہے۔‏ ان کے پتے ہوا کی نہایت اہم رطوبت کو اپنی سطح پر روک لیتے ہیں جو اُن کے سخت اور لچکدار کناروں سے بہہ کر پیاسی جڑوں تک پہنچ جاتی ہے۔‏

عمل‌کشید کے ذریعے یوکلپٹس کے پتوں میں سے خوشبودار،‏ تقویت‌بخش اور شفابخش تیل نکالا جاتا ہے۔‏ اس کا استعمال وسیع پیمانے پر ہوتا ہے،‏ مثال کے طور پر اسے عطر،‏ صابن،‏ ادویات،‏ مٹھائیوں اور صفائی کی مصنوعات میں استعمال کِیا جاتا ہے۔‏ اس کے فطرتی عمل میں،‏ یہ تیل پتوں میں سے نکلکر ہوا میں شامل ہو جاتا ہے اور سورج کی روشنی میں اس کے چمکتے ہوئے چھوٹے چھوٹے قطرے یوکلپٹس کے جنگل کو نیلے رنگ کی شبِیہ دیتے ہیں جو اس کی نمایاں خصوصیت ہے۔‏ اسی خصوصیت کی وجہ سے سڈنی کے شہر کی مغربی انتہا کی حدبندی کرنے والے پہاڑ،‏ کوہِ‌نیل کو ایسا غیرمعمولی نام دیا گیا ہے۔‏

نزاکت‌پسندوں کی غذا

یوکلپٹس کے جنگلوں میں رہنے والے سب سے مشہور اور خوبصورت کیسہ‌دار جانور کوآلہ کہلاتے ہیں۔‏ یہ نبات‌خور جانور جو کھانے میں بڑے نزاکت پسند ہوتے ہیں تقریباً ۱۲ مختلف اقسام کے یوکلپٹس کے پتوں کو پسند کرتے ہیں۔‏ ایسی امتیازی غذا کوآلہ کے علاوہ،‏ بیشتر جانوروں کیلئے خطرناک ہو سکتی ہے۔‏ ایسا کیوں؟‏

اس کی وجہ اُس کا نظامِ‌انہضام ہے جو خاص طور پر ترتیب دیا گیا ہے اور جس میں موجود آنت ایک سے دو میٹر لمبی ہوتی ہے۔‏ نسبتاً،‏ انسانی اپینڈیکس صرف آٹھ سے پندرہ سینٹی‌میٹر لمبی ہوتی ہے۔‏ کوآلہ کی غیرمعمولی اپینڈیکس اس چھوٹے سے جانور کو پتوں کی اس غذا سے تمام پروٹین،‏ کاربوہائیڈریٹ اور چربی جذب کرنے کی اجازت دیتی ہے جس کی اسے ضرورت ہوتی ہے۔‏

آسٹریلیا کا ایک اَور جانور جو اتنا مقبول تو نہیں مگر کوآلہ کی طرح یوکلپٹس کے پتوں کی مخصوص غذا کھاتا ہے سب سے بڑا گلائیڈنگ اوپوسم ہے۔‏ یہ کیسہ‌دار جانور پالتو بلی جتنا ہوتا ہے۔‏ اسکی گچھےدار دُم چالیس سینٹی‌میٹر لمبی ہوتی ہے اور اسکے آگے اور پیچھے کی ٹانگوں کے درمیان لچکدار چمڑی ہوتی ہے۔‏ ان گوشتین پروں کی مدد سے اوپوسم ایک شاخ سے کودتا،‏ تقریباً ۱۰۰ میٹر کی دُوری تک اُڑتا اور پھر ۹۰ ڈگری کے دائرے میں مڑ کر بآسانی کسی دوسری شاخ کو پکڑ لیتا ہے۔‏

بش‌فائرز اور دوبارہ نشوونما

بش‌فائر،‏ جیساکہ یہ آسٹریلیا میں کہلاتے ہیں،‏ یوکلپٹس کے جنگلات کے لئے خطرہ ہیں۔‏ تاہم،‏ ان درختوں کی ساخت انہیں محفوظ رکھتی ہے۔‏ وہ کیسے؟‏

اس درخت کی چھال کے نیچے،‏ اسکے تنے اور شاخوں کیساتھ ساتھ مخفی پھوٹن کلیاں بھی ہوتی ہیں۔‏ جب آگ اس درخت کی چھال اور پتوں کو تباہ کر دیتی ہے تو یہ کلیاں بڑھنے لگتی ہیں۔‏ یہ درخت کے جلے ہوئے سیاہ تنے کو تازہ ہرے پتوں سے ڈھانپ دیتی ہیں۔‏ نتیجتاً،‏ اصل درخت بچ جاتا ہے۔‏ اسکے علاوہ،‏ زمین پر گِرے ہوئے درخت کے مخفی بیج بھی پھوٹنے لگتے ہیں اور یوں نئے پودے اُگنا شروع ہو جاتے ہیں۔‏

ایک قابلِ‌قدر درخت

کیا آپ نے اپنے گلے کو راحت پہنچانے کے لئے کبھی یوکلپٹس سے تیارکردہ دوا استعمال کی ہے یا یوکلپٹس کے شہد کی بنی ہوئی مٹھائی کھائی ہے؟‏ کیا آپ نے اس درخت کی بنی ہوئی کشتی میں سفر کِیا ہے یا اپنے گھر کو یوکلپٹس کی لکڑی سے گرم کِیا ہے؟‏ ممکنہ طور پر آپ نے کسی نہ کسی طریقے سے اس حیرت‌انگیز درخت سے ضرور فائدہ اُٹھایا ہوگا۔‏ لہٰذا اگلی بار جب آپ ایک پشم‌دار کوآلہ یا اُسکی تصویر کو دیکھیں تو ممکن ہے آپ کو یہ حیرت‌انگیز درخت یاد آ جائے جو درحقیقت کوآلہ کا گھر ہے۔‏

یقیناً پائیدار اور ہمہ‌گیر افادیت والا یوکلپٹس ایک ایسا درخت ہے جسکے بیشمار فوائد ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۱۶،‏ ۱۷ پر تصویر]‏

یوکلپٹس کا شمار دُنیا کے قدآور درختوں میں ہوتا ہے

‏[‏صفحہ ۱۷ پر تصویر]‏

شہد کی مکھیاں یوکلپٹس کے رس سے لذیذ شہد تیار کرتی ہیں

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویر]‏

یوکلپٹس سے حاصل ہونے والی ”‏لکڑی سب سے بھاری،‏ مضبوط اور دیرپا ہوتی ہے“‏

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویریں]‏

کوآلہ (‏دائیں جانب)‏ اور گلائیڈنگ اوپوسم (‏اُوپر)‏ یوکلپٹس کے پتے کھاتے ہیں

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Alan Root/Okapia/PR ©

‏[‏صفحہ ۱۶ پر تصویر کا حوالہ]‏

Geoff Law/The Wilderness Society

‏[‏صفحہ ۱۷ پر تصویر کا حوالہ]‏

Courtesy of the Mount Annan Botanic Gardens