تتلیوں کا شوقین خالق کی تعظیم کرنا چاہتا تھا
تتلیوں کا شوقین خالق کی تعظیم کرنا چاہتا تھا
ایک امریکی مجسّمہساز، ہرمن سٹریکر کی وفات ایک صدی پہلے واقع ہوئی۔ اس کا مشغلہ تتلیاں جمع کرنا تھا۔ لہٰذا اپنی موت کے وقت اس نے بڑی تعداد میں تِتلیوں اور پتنگوں کا ایک بھاری ترکہ اپنے پیچھے چھوڑا۔ تقریباً ۰۰۰،۵۰ قسم کے یہ حشرات اب شکاگو، ایلینوائس یو.ایس.اے. کے فیلڈ میوزیم میں موجود ہیں۔ جنوبی امریکا سے تعلق رکھنے والے بڑے زحلی پتنگے کی ایک قسم اپنے نام کی وجہ سے مرکزِنگاہ بن گئی۔ مسٹر سٹریکر نے اپنی کتاب لیپیڈوپٹیرا میں وضاحت کی کہ اس نے اس پتنگے کو کسی شخص کا نام نہیں دیا جو شاید انعام کے طور پر اسے کھانے پر لیجاتا یا اسے پیسوں کی بخشش دیتا۔ * اس کی بجائے، اُس نے اسے خالق کا نام دیا۔ یوں خدا اس ”نہایت دلکش“ پتنگے کو دیکھنے والوں کی توجہ کا مرکزِنگاہ بن گیا۔ لہٰذا، مسٹر سٹریکر کی خالق کی تعظیم کرنے کی خواہش کے نتیجے میں آج اس زحلی پتنگے کا سائنسی نام کوپیوپٹرکس جیہوواہ ہے۔
تاہم، مسٹر سٹریکر کے بعض ہمعصروں نے خدا کے نام کے استعمال پر اعتراض کِیا، جیساکہ ایک نقاد نے لکھا، ”یہ نام متین اور ذیفہم لوگوں کی توجہ محض مُقدس چیزوں پر دلاتا ہے۔“ اس تنقید کے جواب میں مسٹر سٹریکر نے کہا: ”اگر ایسا ہے تو مَیں واقعی اپنے انتخاب پر خوش ہوں کیونکہ میرے خیال میں خالق کی طرف توجہ مرتکز کرانے والی کوئی بھی چیز بُری نہیں ہو سکتی؛ اور مُقدس چیزوں—خدائی طاقت اور شانوشوکت کے مظاہر—پر غوروفکر کرنے سے بہتر اَور کیا ہو سکتا ہے؟“ لہٰذا، تتلیاں اور پتنگے جمع کرنے کے شوقین، سٹریکر نے یہ نتیجہ اخذ کِیا: ”میرے لئے یہ بات سمجھنا مشکل ہے کہ خالق کی اسقدر دلچسپ تخلیق کو اُسکا نام دینا معقول طور پر باعثِاعتراض کیسے ہو سکتا ہے۔“
سٹریکر کی عقیدتمندی اور خالق کیلئے اُسکا عزتواحترام قابلِغور ہیں۔ مسیحی آجکل بڑی احتیاط کیساتھ یہوواہ کے شاندار نام کو ایسے طریقوں سے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن سے اُسے جلال ملتا ہے۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 2 مسٹر سٹریکر کی کتاب کا مکمل نام لیپیڈوپٹیرا رہوپالوسیرس اینڈ ہیٹروسیرس، انڈیجینس اینڈ ایکسوٹک؛ وِد ڈسکرپشنز اینڈ کلرڈ السٹریشنز (۱۸۷۲) ہے۔
[صفحہ ۱۱ پر تصویر]
ہرمن سٹریکر
[تصویر کا حوالہ]
Vol. 8/The ,The Passing Scene Herman Strecker: From the book
Historical Society of Berks County
[صفحہ ۱۱ پر تصویر]
(اصل سائز)