مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

جنگ کی بجائے امن کی حمایت

جنگ کی بجائے امن کی حمایت

جنگ کی بجائے امن کی حمایت

ڈورتھی ہورلے کی زبانی

میری پیدائش ۱۹۱۹ میں،‏ وِلمنگٹن،‏ ڈلویئر،‏ یو.‏ایس.‏اے.‏ میں ایک اطالوی کیتھولک خاندان میں ہوئی۔‏ میرے والدین خود تو چرچ نہیں جاتے تھے مگر ہم تین بہنوں کو ضرور بھیجتے تھے۔‏ مَیں چرچ کی شاندار عمارتوں،‏ مجسّموں اور طمطراق سے بہت متاثر تھی۔‏

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مَیں کیتھولک مذہب سے بیزار ہوتی گئی۔‏ چرچ بائبل کو کوئی اہمیت نہیں دیتا تھا جبکہ میرے والد اسکا گہرا احترام کرتے اور اسے باقاعدگی سے پڑھتے تھے۔‏ مجھے چرچ بلیٹن بھی پسند نہیں تھے جن میں چندے دینے والوں کے نام اور رقم بتائی جاتی تھی۔‏ مذہبی پیشواؤں کی بداخلاقی کی بابت بھی بہت سی افواہیں پھیلی ہوئی تھیں۔‏ مَیں نے ۱۵ سال کی عمر میں کیتھولک مذہب کی پیروی چھوڑ دی تھی۔‏ اس سے مجھے فنونِ‌لطیفہ میں تربیت حاصل کرنے کا زیادہ وقت مل گیا۔‏

مجسّمہ‌سازی کا پیشہ

سن ۱۹۴۰ میں جب میری عمر ۲۱ سال تھی تو مَیں نے ولیم ہورلے سے شادی کر لی جو جنگی جہازوں،‏ فوجیوں،‏ بندوقوں اور بحری جہازوں کی تصویریں بنانے کا بہت شوقین تھا۔‏ بِل یہ جان کر خوش ہوا کہ مَیں بھی مُصوّری جانتی ہوں اور اُسی نے مجھے آئل پینٹس کا پہلا سیٹ لیکر دیا۔‏ مَیں نے پُرانے اور تجربہ‌کار مُصوّروں کے طریقۂ‌کار کو سیکھنا شروع کر دیا۔‏

شادی کے دو سال بعد،‏ بِل نے سیسے سے عسکری مجسّمے بنانے کا مشغلہ اختیار کر لیا۔‏ فوجی کھلونے؟‏ ہرگز نہیں!‏ وہ فنی لحاظ سے حقیقت کے قریب‌تر چیزیں بنانا چاہتا تھا۔‏ دیگر کاریگر پلاسٹک،‏ لکڑی یا پلاسٹر سے یہ کام کرتے تھے مگر بِل کیلئے سیسہ استعمال کرنا نہایت موزوں تھا کیونکہ اُس نے مشینسٹ کی تربیت حاصل کر رکھی تھی۔‏

وہ سب سے پہلے ڈیزائن بناتا اور پھر سانچہ تیار کرکے سیسے کی چیز بنا لیتا تھا۔‏ وقت کیساتھ ساتھ وہ سانچے بنانے،‏ ٹانکے لگانے،‏ رگڑائی اور پالش کرنے میں ماہر ہو گیا تھا۔‏ بعدازاں،‏ اُس نے پلاسٹر آف پیرس کے سانچے بنانے چھوڑ کر دانت بنانے والے سیمنٹ سے سانچے بنانے شروع کر دئے۔‏ اس سے وہ اپنا کام زیادہ نفاست سے کر سکتا تھا۔‏

جب مجسّمہ تیار ہو جاتا تھا تو اُس کی رہی‌سہی نوک‌پلک سنوارنا میرا کام ہوتا تھا۔‏ جامع تحقیق سے ہم نے پُرانے فوجی یونیفارموں—‏بٹن،‏ پٹیوں،‏ بلے اور رنگ—‏کی بابت معلومات حاصل کر لی تھیں۔‏

کلاں‌نما شیشے کی مدد سے مَیں خاص طور پر دھات پر ٹھہرنے والا رنگ‌وروغن بھی کرتی تھی۔‏ اس سے ہمارے بنائے ہوئے مجسّموں میں جان آ جاتی تھی۔‏ ہم نے فلاڈلفیہ،‏ پینسلوانیہ میں اپنے چھوٹے سے تہ‌خانے سے امریکن انڈینز،‏ خانہ‌جنگی میں حصہ لینے والے سپاہیوں،‏ یو.‏ایس.‏ بحریہ کے جوانوں،‏ نپولینی گھوڑوں اور اُنکے سواروں،‏ مصری مملوک،‏ الجیریئن زاؤس جیسے دیگر بہت سے شاہکار تخلیق کئے۔‏

پھر بِل کو یو.‏ایس.‏ بحریہ کی جانب سے ۱۹۳۹ سے قبل پیکنگ (‏اب بیجنگ)‏،‏ چین میں گھوڑوں پر سوار بحری فوج کے ایک دستے کا مجسّمہ بنانے کیلئے کہا گیا۔‏ ہماری دن‌رات کی محنت رنگ لائی اور ۱۹۵۴ میں ہم نے یہ شاہکار واشنگٹن ڈی.‏سی.‏ میں سمتھ‌سونین انسٹی‌ٹیوشن میں پیش کِیا۔‏ کچھ سال بعد،‏ صدر لنڈن جان‌سن نے اسے وائٹ ہاؤس میں منتقل کرنے کی درخواست کی جسے پورا کرنے کیلئے ہم فوراً راضی ہو گئے۔‏

ہم اپنے بنائے ہوئے مجسّموں کو بیچتے نہیں تھے لیکن بِل سینکڑوں مجسّمے ایسے ہی دوسرے میں بانٹ دیتا تھا۔‏ فوجیوں کے مجسّمے بنانے پر تحریر ہونے والی کتابوں میں کئی مرتبہ ہمارا نام بھی چھپا۔‏ کوئینز،‏ نیو یارک میں،‏ فلشنگ میڈوپارک کے مقام پر ۱۹۶۵ کے عالمی میلے میں ہمارے کام کی نمائش بھی ہوئی۔‏ بہتیرے عجائب‌گھروں نے ہمارے مجسّموں کیلئے درخواست کی۔‏ امریکی خانہ‌جنگی کے ایک مؤرخ،‏ بروس کیٹن نے اپنی کتابوں میں ہمارے کئی مجسّموں کی تصاویر شائع کیں۔‏

زندگی کی بابت سوالات پیدا ہونا

جب میں ۴۰ سال کی ہوئی تو میری زندگی میں تبدیلیاں واقع ہونے لگیں۔‏ مَیں نے خدا کی بابت سوچنا شروع کر دیا تھا۔‏ ایک کرسمس کے موقع پر،‏ پانچ کیتھولک بچے اپنے گھر میں آتشزدگی سے جل کر ہلاک ہو گئے جبکہ اُن کے والدین چرچ گئے ہوئے تھے۔‏ مَیں نے سوچا کہ ’‏خدا اپنے جنم‌دن پر ایسے حادثے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے؟‏‘‏ مَیں نے ایک کتاب دیکھی جس میں یہودی ہالوکاسٹ کے مظالم کا ذکر کِیا گیا تھا۔‏ ان کے علاوہ دُنیا میں رُونما ہونے والے دیگر کئی ہولناک واقعات نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ’‏خدا کہاں ہے؟‏ وہ اپنے کام سے غافل ہے!‏‘‏

اپنے باپ کے نمونے پر غور کرتے ہوئے مَیں نے محسوس کِیا کہ ان سوالوں کا جواب یقیناً بائبل ہی میں ہوگا۔‏ پس مَیں فلاڈلفیہ میں اپنے گھر کے قریب کیتھولک فادروں کی رہائش‌گاہ پر گئی اور ایک فادر کیساتھ بائبل پر گفتگو کرنے کا بندوبست بنایا۔‏ مَیں انتظار کرتی رہی لیکن وہ نہ آیا۔‏ چار ہفتوں تک مَیں اُس فادر سے ملنے جاتی رہی لیکن ایک مرتبہ بھی گفتگو نہ ہو سکی۔‏

ایک شام مَیں نے نہایت افسردگی کے عالم میں اپنی آنکھیں آسمان کی طرف اُٹھا کر دُعا کی:‏ ”‏مَیں نہیں جانتی کہ تُو کون ہے۔‏ مَیں یہ بھی نہیں جانتی کہ کس مذہب کو تیری مقبولیت حاصل ہے لیکن مَیں یہ ضرور جانتی ہوں کہ تُو موجود ہے۔‏ اب مجھ پر ظاہر ہو!‏“‏ تھوڑی ہی دیر بعد،‏ یہوواہ کے گواہوں نے میرے دروازے پر دستک دی۔‏

مَیں نے اکثر یہوواہ کے گواہوں کو اپنی کاریں کھڑی کرکے مختلف گھروں میں جاتے دیکھا تھا۔‏ مَیں اُنکی بابت اور لوگوں کے گھروں میں جانے کے اُنکے مقصد کی بابت کچھ نہیں جانتی تھی لیکن پھربھی مَیں اُنکے اس کام سے متاثر تھی۔‏

سن ۱۹۶۱ کے اُس دن پر جب گواہ میرے گھر آئے تو مَیں بہت پریشان تھی کیونکہ مَیں خدا کی تلاش میں مسلسل ناکام ہو رہی تھی۔‏ جب مَیں اپنے گھر کا دروازہ صاف کر رہی تھی تو ایک عورت جسکا نام مارگ برائن تھا سیڑھیاں چڑھ کر میرے پاس آئی اور مجھے سلام کِیا۔‏ مَیں نے اُسے مڑ کر دیکھنے کی زحمت کئے بغیر ہی اُسے بالکل نظرانداز کر دیا۔‏ لیکن جب اُس نے زمین کے خوبصورت فردوس بن جانے کا ذکر کِیا تو مَیں نے اُسکی ہر بات پر دھیان دینا شروع کر دیا۔‏ آخر میں اُس نے کہا ”‏کیا آپ میری بات سن رہی ہیں؟‏“‏

مَیں نے اُس کی ہر بات کو اُس کے سامنے دہرایا،‏ حتیٰ‌کہ وہ صحیفہ بھی جو اُس نے یسعیاہ ۵۵:‏۱۱ سے پڑھا تھا۔‏ پھر مَیں نے مڑ کر اُسکا ہاتھ تھاما اور اُس سے کہا کہ ”‏اندر آ جائیں!‏“‏ اُس نے مجھے بائبل اور بائبل مطالعے کیلئے امدادی کتاب فرام پیراڈائز لوسٹ ٹو پیراڈائز ریگینڈ دی۔‏ اُس نے مجھے بائبل پر باقاعدہ گفتگو کی پیشکش بھی کی جسکی توقع دراصل مَیں نے کیتھولک چرچ سے کی تھی۔‏

مَیں ہفتے میں دو مرتبہ بائبل مطالعہ کرنے کے باعث تیزی سے ترقی کرنے لگی۔‏ جلد ہی مجھے احساس ہو گیا کہ مَیں نے سچائی پا لی ہے۔‏ خدا کے نام یہوواہ سے واقف ہونا میرے لئے نہایت ہیجان‌خیز تجربہ تھا۔‏ (‏زبور ۸۳:‏۱۸‏)‏ ذرا تصور کریں کہ مَیں بچپن سے اسی خدا کو جاننے کی آرزومند تھی!‏ مَیں نے یہ بھی سیکھا کہ خدا کا بیٹا،‏ یسوع مسیح پُراسرار تثلیث کا حصہ نہیں ہے۔‏ (‏یوحنا ۱۴:‏۲۸‏)‏ مَیں نے جلد ہی یہوواہ کے گواہوں کے مسیحی اجلاسوں پر حاضر ہونا شروع کر دیا اور میرے اندر بائبل کے پیغام کی کُل‌وقتی مناد بننے کی خواہش پیدا ہوئی۔‏

اہم فیصلے کرنا

اب میرے سامنے سب سے بڑا امتحان تھا۔‏ کیا مَیں ولیم اور ڈورتھی ہورلے کی فنکارانہ جوڑی کو توڑ دونگی؟‏ اپنے فن سے جنگ کی حمایت کرنے کیساتھ ساتھ مَیں امن کے خدا اور اُسکے بیٹے،‏ سلامتی کے شہزادے کی خدمت کیسے کر سکتی تھی؟‏ (‏یسعیاہ ۹:‏۶‏)‏ کیا یہوواہ کا یہ وعدہ نہیں ہے کہ ”‏وہ زمین کی انتہا تک جنگ موقوف کراتا ہے“‏؟‏ (‏زبور ۴۶:‏۹‏)‏ پس کسی ایسی چیز کی حمایت کیوں کریں جسے خدا ختم کر دیگا؟‏ نیز کیا یسعیاہ نے یہ پیشینگوئی نہیں کی ہے کہ خدا کے لوگ ”‏اپنی تلواروں کو توڑ کر پھالیں“‏ بنا لینگے اور وہ پھر کبھی جنگ کرنا نہیں سیکھینگے؟‏ (‏یسعیاہ ۲:‏۴‏)‏ مَیں نے نہایت سوچ‌بچار اور سنجیدگی سے دُعا کی۔‏ ”‏مَیں اب ان پر رنگ‌وروغن نہیں کر سکتی!‏“‏ یہ میرا فیصلہ تھا۔‏ اپریل ۲۵،‏ ۱۹۶۴ کو مَیں نے یہوواہ خدا کیلئے اپنی مخصوصیت کی علامت میں پانی کا بپتسمہ لیا۔‏

بِل اکثر یہ کہا کرتا تھا کہ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک دن موت ہم دونوں کو جُدا کر دیگی۔‏ جب مَیں نے بائبل کا مطالعہ شروع کِیا تو مَیں اُس سے کہتی تھی:‏ ”‏بِل ہم خدا کی نئی دُنیا میں ہمیشہ تک زندہ رہینگے!‏“‏ (‏یسعیاہ ۲۵:‏۸؛‏ مکاشفہ ۲۱:‏۴،‏ ۵‏)‏ لیکن وہ سوچتا تھا کہ شاید مَیں پاگل ہو گئی ہوں۔‏ جب مَیں نے اُسے بتایا کہ اب میرا ضمیر مجھے عسکری مجسّموں پر رنگ کرنے کی اجازت نہیں دیتا تو وہ بھڑک اُٹھا اور مجھے چھوڑ دینے کی دھمکی دی اور بعدازاں اُس نے ایسا ہی کِیا۔‏

بِل کئی سال تک اکیلا ہی ایسے مجسّمے بناتا رہا۔‏ لیکن وہ ہم سے زیادہ دُور نہیں گیا تھا اور ہمیشہ میری اور ہمارے بیٹے کریگ کی مدد کرتا تھا جو ۱۹۴۲ میں پیدا ہوا تھا۔‏ سن ۱۹۸۸ میں بِل واپس آ گیا اور ہم نے اُسکی وفات تک دس سال اکٹھے گزارے۔‏

اسی دوران،‏ ۱۹۶۶ میں،‏ مَیں نے پائنیر خدمت اختیار کرنے کی ضرورت محسوس کی۔‏ اُس وقت سے،‏ مَیں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔‏ مجھے اپنی بڑی بہن کے ساتھ بائبل مطالعہ کرنے کا شرف حاصل ہوا۔‏ اُس نے بائبل تعلیم کو قبول کِیا اور اپنی موت تک وفادار گواہ ثابت ہوئی۔‏ میرے والد نے بھی بائبل کا پیغام سنا اور دو ہفتوں کے اندر کنگڈم ہال میں اجلاس پر حاضر ہونا شروع کر دیا۔‏ اُنہوں نے ۷۵ سال کی عمر میں بپتسمہ لیا اور ۸۱ سال کی عمر میں اپنی موت تک وفادار رہے۔‏ میری والدہ نے بھی یہوواہ کو اپنا خدا قبول کر لیا تھا اگرچہ وہ اپنی مخصوصیت سے پہلے ہی وفات پا گئیں۔‏ اُنکی عمر تقریباً ۹۴ برس تھی۔‏

امن کے خدا یہوواہ نے مجھے ان برسوں کے دوران بیشمار برکات سے نوازا ہے۔‏ اب ۸۱ سال کی عمر میں بھی مَیں پائنیر خدمت کر رہی ہوں اگرچہ مجھے چلنےپھرنے میں بڑی دقت ہوتی ہے۔‏ مَیں بالکل پولس رسول کی طرح محسوس کرتی ہوں جس نے لکھا تھا:‏ ”‏مَیں اپنے طاقت بخشنے والے خداوند مسیح یسوؔع کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے مجھے دیانتدار سمجھ کر اپنی خدمت کے لئے مقرر کِیا۔‏“‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۱:‏۱۲‏)‏ یہ واقعی بہت شاندار خدمت ثابت ہوئی ہے!‏ مَیں نے جن لوگوں کیساتھ بائبل مطالعہ کِیا اُن میں سے بہتیروں نے ہمارے رحیم خدا کی خدمت کرنے کیلئے اپنی بہت سی خواہشات کو قربان کر دیا ہے۔‏

مجھے افسوس ہے کہ میرے پورے خاندان نے بائبل سچائی کو قبول نہیں کِیا۔‏ شاید وقت آنے پر وہ قبول کر لیں۔‏ تاہم،‏ میرے معاملے میں یسوع کے یہ الفاظ سچ ثابت ہوئے ہیں کہ اُس کے شاگرد ”‏اب اِس زمانہ میں سو گُنا .‏ .‏ .‏ گھر اور بھائی اور بہنیں اور مائیں اور بچے“‏ پائینگے۔‏ (‏مرقس ۱۰:‏۳۰‏)‏ یہوواہ نے یقیناً مجھے دولت بخشی ہے۔‏ واقعی جنگ‌وشہرت کے بدلے خدا اور امن کو حاصل کرنا عزت‌وشادمانی کا باعث ہے!‏

‏[‏صفحہ ۲۲ پر تصویر]‏

سن ۱۹۵۴ میں جنرل ایل.‏سی.‏ شیفرڈ جونیئر کیساتھ

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

‏(Defense Dept. photo )‎Marine Corps‎

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

‏(‏اصل سائز)‏

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

۸۱ سال کی عمر میں اب مجھے پائنیر خدمت کرتے ہوئے ۳۰ سے زیادہ سال ہو گئے ہیں