مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

جہاں اونٹ اور برمبی آزاد گھومتے ہیں

جہاں اونٹ اور برمبی آزاد گھومتے ہیں

جہاں اونٹ اور برمبی آزاد گھومتے ہیں

آسٹریلیا میں جاگو!‏ کا رائٹر

آسٹریلیا کے دُورافتادہ علاقے—‏جب آپ اِن کا ذکر سنتے ہیں تو آپ کے ذہن میں کیا آتا ہے؟‏ اِدھراُدھر اُچھلتے کودتے کنگرو اور نہ اُڑنے والے ایموز کی سرزمین،‏ تپتے صحرا اور بلا کی گرمی؟‏ کسی حد تک آپ درست ہیں مگر یہ عجائبات کی سرزمین بھی ہے۔‏

کیا آپ کو معلوم تھا کہ زمین پر آسٹریلیا ہی جنگلی اونٹوں کا گھر ہے،‏ یہاں دیگر دُنیا کی نسبت سب سے زیادہ جنگلی گھوڑے بھی پائے جاتے ہیں،‏ یہاں ایسے گدھے بھی کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں جو دُنیا کے کسی دوسرے خطے میں نہیں ملتے؟‏ ان سخت‌جان جانوروں کی آمدوبقا دراصل انکی قوتِ‌برداشت اور بقائےاصلح کی غیرمعروف داستان ہونے کے باوجود ماضی کی زندہ مثال ہے۔‏

اونٹ کی کوہان تعمیروترقی میں معمد

گزشتہ چالیس برسوں سے آسٹریلوی چرواہوں نے بالکل وہی شکایت کی ہے جو ایک کاؤبوائے [‏گوالے]‏ نے کتاب دی کیمل اِن آسٹریلیا میں کی تھی:‏ ”‏یہاں مجھے ایسے نشانات ملے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ۵ اونٹوں نے ۱۰ کلومیٹر لمبی باڑ توڑ دی تھی .‏ .‏ .‏ ایک جگہ پر اُنہوں نے تاروں کے علاوہ بانسوں اور دیگر چیزوں کو بھی توڑ ڈالا تھا۔‏“‏

مہنگی باڑیں کسی بھی مشتعل اونٹ کی لمبی ٹانگوں اور وزن کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔‏ تاہم،‏ انہی سخت ٹانگوں کی بدولت اس برّاعظم کے خشک علاقوں میں ناگزیر رسد اور باربرداری کیلئے راستے تعمیر کئے گئے تھے۔‏

سن ۱۸۶۰ میں انڈیا سے لائے گئے اونٹوں کے ساتھ برک اور وِلز نامی دو سیاح بھی آسٹریلیا کے جنوب سے شمال تک کا یادگار سفر کرنے کے لئے آئے تھے۔‏ یہ بدیسی جانور اپنے غیرمعمولی زور اور قوتِ‌برداشت کی وجہ سے شروع میں مہم‌جوئی کرنے والوں کا پسندیدہ ساتھی بن گیا۔‏ اُن کی حیرت‌انگیز قوتِ‌برداشت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اُنہوں نے صرف ۱۵ لیٹر پانی پی کر ۳۰۰ کلوگرام وزن کے ساتھ ۸۰۰ کلومیٹر کا سفر طے کِیا۔‏

اونٹ اسقدر قابلِ‌اعتماد ہیں کہ انہیں سونے کی کانوں تک خوراک اور سازوسامان پہنچانے،‏ ایڈلیڈ سے ڈاروِن تک ٹیلی‌گراف لائن بچھانے اور سڈنی اور پرتھ کو جوڑنے والی آسٹریلین ریلوے کیلئے سروے کی خاطر استعمال میں لایا گیا۔‏ انہوں نے چار ملین مربع کلومیٹر کے رقبے پر ایک راستہ بنا ڈالا جبکہ جدید مشینوں کیلئے یہ کام نہایت مشکل ہے۔‏

سن ۱۹۲۲ میں پالتو اونٹوں کی تعداد ۰۰۰،‏۲۲ تھی لیکن آٹوموبیل گاڑیوں کی آمد سے بہتیرے اونٹوں کو آوارہ چھوڑ دیا گیا۔‏ رپورٹ کے مطابق،‏ ان آوارہ اونٹوں میں افزائشِ‌نسل کی وجہ سے اب ۰۰۰،‏۰۰،‏۲ سے زائد اونٹ آسٹریلوی ریگستانوں میں بسیرا کرتے ہیں اور بعض کا اندازہ ہے کہ انکی تعداد آئندہ چھ برس میں دُگنی ہو جائیگی۔‏

تاہم،‏ یہ سارے اونٹ آوارہ نہیں ہیں۔‏ سینٹرل آسٹریلین کیمل ایسوسی‌ایشن کے ایک نمائندے نے جاگو!‏ کو بتایا:‏ ”‏ساری دُنیا میں صرف آسٹریلیا کے پاس ہی بیماری سے پاک اونٹ ہیں اسلئے ہر سال ان میں سے کچھ ریاستہائےمتحدہ اور ایشیا کے چڑیاگھروں اور پارکوں میں بھیج دئے جاتے ہیں۔‏“‏ سیروسیاحت کا انتظام کرنے والے مقامی ادارے بھی سیاحوں کو موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ اونٹ پر بیٹھ کر آسٹریلیا کی جنگلی حیات کے علاقوں کی سیر کریں جس میں دیگر باربردار جانور بھی آزاد گھومتےپھرتے ہیں۔‏

برمبی کیا ہے؟‏

سن ۱۷۸۸ میں آسٹریلیا کے ساحل پر پہنچنے والا پہلا برطانوی بیڑا اپنے ساتھ بہت سے قیدی،‏ فوجی اور گھوڑے لے کر آیا۔‏ اس مُلک میں گھوڑوں کی تاریخ اُنکے ساتھ آنے والے انسانوں کی تاریخ کی طرح تصوراتی اور المناک ہے۔‏

اس نئے علاقے میں سب سے پہلے پہنچنے والے لوگ اس پر قابض ہونے کیلئے گھوڑوں پر سوار ہو کر اسکے چاروں اطراف میں پھیل گئے۔‏ باقی گھوڑے اِدھراُدھر بھٹک گئے اور آوارہ ہو گئے اور یہی گھوڑے برمبی کہلانے لگے۔‏ لفظ ”‏برمبی“‏ شاید کوئینزلینڈ کے ابریجنی لفظ بارومبی بمعنی ”‏جنگلی“‏ سے ماخوذ ہے۔‏

برمبی کی آزاد اور تُند طبیعت مختلف شعرا کے کلام جیسےکہ اے.‏ بی.‏ (‏بانجو)‏ پیٹرسن اور اُس کی نظم ”‏برفانی دریا کا آدمی“‏ کا مرکزی خیال بھی رہی ہے جسکی وجہ سے بہتیرے آسٹریلوی لوگوں کے دلوں میں برمبی کا ایک خاص مقام ہے۔‏ پہلی عالمی جنگ کے بعد جب والر—‏آسٹریلین لائٹ ہورس بریگیڈ اور برٹش انڈیا آرمی کے استعمال کے لئے خاص طور پر پالا جانے والا گھوڑا—‏کی مانگ کم ہو گئی اور انہیں آوارہ چھوڑ دیا گیا تو برمبی کی تعداد میں اضافہ ہو گیا۔‏ اب اس برّاعظم میں تقریباً ۰۰۰،‏۰۰،‏۳ جنگلی گھوڑے آوارہ گھومتےپھرتے ہیں۔‏

ان آوارہ گھوڑوں کے پاؤں مٹی پر لوہار کے ہتھوڑے کی طرح پڑتے ہیں اور جھیل‌ودریا کے کناروں کی زمین میں دراڑیں ڈال دیتے ہیں۔‏ خشک‌سالی میں یہ بھوک یا پیاس کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔‏ اس مُلک میں مویشیوں کی تعداد پہلے ہی بہت زیادہ ہے اس لئے برمبی ایک ناقابلِ‌برداشت بوجھ بن گئے ہیں۔‏ لہٰذا،‏ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں انہیں قانونی طور پر ہلاک کر دیا جاتا ہے۔‏ بعض کو انسانوں اور پالتو جانوروں کی خوراک کیلئے استعمال کِیا جاتا ہے۔‏

تعداد کے لحاظ سے تو برمبی کا رشتہ‌دار،‏ گدھا بھی پیچھے نہیں ہے۔‏ اس کی افزائش جنگلی گھوڑے سے بھی زیادہ ہوتی ہے اور اونٹ کی نسبت یہ زیادہ علاقوں میں پایا جاتا ہے اس لئے اس کی کثرت ہی اس کی موت کا سبب بن گئی ہے۔‏

گھر کا بھیدی

گھوڑوں کی طرح گدھے بھی ۱۷۰۰ کے دہے کے آخر میں باربرداری اور کھیتوں میں ہل چلانے کیلئے لائے گئے تھے جو جلد ہی اس علاقے کے عادی ہو گئے۔‏ جب ۱۹۲۰ کے دہے میں انہیں جنگل میں چھوڑ دیا گیا تو انکی تعداد جنگلی گدھوں سے بھی ۳۰ گُنا زیادہ ہو گئی۔‏

اونٹ کی طرح گدھا بھی صحرا میں رہنے کے قابل ہے کیونکہ یہ ڈی‌ہائیڈریشن کی صورت میں پسینہ خارج نہیں کرتا جس سے یہ اپنے جسم کے ۳۰ فیصد وزن کے برابر پانی کی کمی کے باوجود زندہ رہ سکتا ہے۔‏ (‏دیگر بہتیرے جانور ۱۲ تا ۱۵ فیصد پانی کی کمی سے مر جاتے ہیں۔‏)‏ انہیں سرسبز چراگاہوں میں چرنا بہت پسند ہے مگر یہ ایسی جھاڑیاں کھا کر بھی پروان چڑھتے رہتے ہیں جنہیں عام مویشی چکھنا بھی پسند نہیں کرتے۔‏ ۱۹۷۰ کے دہے تک ۰۰۰،‏۵۰،‏۷ سے زیادہ گدھے نصف برّاعظم میں پھیل چکے تھے۔‏ ایسی تیزرَو افزائش ماحول اور صنعت‌مویشیاں کے لئے خطرہ بن گئی جس کی وجہ سے کارروائی کرنا لازمی ہو گیا۔‏

صرف شمال‌مغربی آسٹریلیا کے علاقے میں قانونی طور پر ۱۹۷۸ سے ۱۹۹۳ تک ۰۰۰،‏۰۰،‏۵ گدھوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔‏ حال ہی میں ان سے خلاصی پانے کا ایک طریقہ نکالا گیا ہے جس میں ۳۰۰ گدھوں کے ساتھ ریڈیو ٹرانس‌میٹر لگائے گئے ہیں۔‏ جب ان گدھوں کو چھوڑا جاتا ہے تو یہ اپنے غول میں چلے جاتے ہیں اور یوں ہیلی‌کاپٹر سے انکا تعاقب کرتے ہوئے باقی ساتھیوں کی تلاش کرکے اُنہیں ہلاک کر دیا جاتا ہے۔‏ جب یہ ٹرانس‌میٹر والا گدھا کسی دوسرے گروہ میں شامل ہوتا ہے تو اُنکا بھی پتہ لگا کر خاتمہ کر دیا جاتا ہے۔‏

مغربی آسٹریلیا میں تحفظِ‌زراعت کے آفیسر نے جاگو!‏ کو بتایا:‏ ”‏یہ مسئلہ جلدی ختم ہونے والا نہیں۔‏ اگر تھوڑے سے گدھے بھی باقی رہ گئے تو کچھ ہی دیر بعد ان کی تعداد اُتنی ہی ہو جائیگی جتنی ۱۹۷۰ کے دہے میں تھی۔‏“‏ اُس نے مزید کہا کہ ”‏لوگ اکثر یہ نہیں سمجھتے کہ ان جانوروں کو ہلاک کر کے مُردہ کیوں چھوڑ دیا جاتا ہے۔‏ لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ بعض علاقے ناقابلِ‌رسائی ہیں۔‏ بیشتر علاقوں تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں صرف ہیلی‌کاپٹر کے ذریعے ہی پہنچا جا سکتا ہے۔‏ دراصل انسانی مداخلت ہی سارے مسئلے کی جڑ ہے اس لئے ہمیں بڑی شائستگی سے نقصان کو کم کرنے کی کوشش کرنی ہے۔‏“‏

سخت‌جان اور بارآور

اب آپ سمجھ گئے ہونگے کہ آسٹریلیا کا مرکزی حصہ ان ناخواستہ باربردار جانوروں کی وجہ سے کیوں کھچاکھچ بھرا رہتا ہے۔‏ لیکن آسٹریلیا کے دیہی علاقے بہت وسیع ہیں۔‏ یہ جانور جس علاقے میں کھلے گھومتےپھرتے ہیں اُس کا رقبہ یورپ جتنا اور فاصلہ تقریباً چاند جتنا ہے یہ علاقہ وسعت اور فاصلے کے اعتبار سے یورپ اور چاند دونوں کی مانند ہے۔‏ ان پر قابو پانا تو درکنار،‏ انکے غول کی تلاش کرنا ہی مشکل ہے۔‏

معدومیت کے خطرے میں مبتلا دیگر انواع کے برعکس،‏ یہ سخت‌جان اور بارآور جانور اس جگہ کا مستقل حصہ بنتے جا رہے ہیں۔‏ یہ قدرتی شکارخوروں اور بیماری سے آزاد ہونے کی وجہ سے آسٹریلیا کے دیہی علاقوں میں آزاد گھومتے ہیں!‏

‏[‏صفحہ ۱۷ پر تصویر]‏

تقریباً ۰۰۰،‏۰۰،‏۲ اونٹ آسٹریلیا کے ریگستانوں میں کھلے گھومتےپھرتے ہیں

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Agriculture Western Australia

‏[‏صفحہ ۱۶ پر تصویر]‏

صحرائےسمپسن میں آزاد برمبی

‏[‏صفحہ ۱۶ پر تصویر]‏

اُون سے لدا ہوا اونٹوں کا کارواں،‏ ۱۹۲۹

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Image Library, State Library of New South Wales

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویر]‏

دیہی علاقے میں برمبی گھیرنا

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Esther Beaton ©

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویر]‏

ایک گدھے کیساتھ ٹرانس‌میٹر لگایا جا رہا ہے

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Agriculture Western Australia