مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

شہروں کا مستقبل کیا ہے؟‏

شہروں کا مستقبل کیا ہے؟‏

شہروں کا مستقبل کیا ہے؟‏

‏”‏اپنے شہروں پر نگاہ ڈالنا اپنے مستقبل میں جھانکنے کے مترادف ہے۔‏“‏ ورلڈ بینک کے اسماعیل سراج‌الدین نے بیان کِیا۔‏ لیکن ابھی تک ہم نے جوکچھ بھی دیکھا ہے اُس سے تو مستقبل روشن نظر نہیں آتا۔‏

تاہم قابلِ‌تعریف بات یہ ہے کہ بیشتر شہروں میں زندگی کو بہتر بنانے کیلئے سنجیدہ کوششیں جاری ہیں۔‏ نیو یارک شہر میں مین‌ہیٹن میں واقع ٹائمز سکوائر کو نئے سرے سے آراستہ‌وپیراستہ کرنے کا کام حال ہی میں مکمل ہوا ہے۔‏ ماضی میں یہ فحاشی،‏ منشیات اور جُرم کیلئے مشہور تھا۔‏ اب اس علاقے میں قطاردرقطار اشیائےخوردونوش کے نئے اڈے اور تھیئٹر نظر آتے ہیں جو ہزاروں مشاہدین کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں۔‏ نیشنل جیوگرافک میگزین کے مطابق ناپلز،‏ اٹلی ”‏ایک جگمگاتا متمدن شہر جو کبھی لندن اور پیرس کے مقابلے پر ہوا کرتا تھا،‏“‏ دوسری عالمی جنگ کے دوران بالکل تباہ‌وبرباد ہو گیا۔‏ ناپلز بالآخر جُرم اور بدنظمی کا شکار ہو گیا۔‏ تاہم،‏ جب اس شہر کو ۱۹۹۴ میں ایک سیاسی کانفرنس کیلئے منتخب کِیا گیا تو اس شہر کے مرکز کو کسی حد تک ازسرِنو آراستہ کِیا گیا۔‏

بِلاشُبہ،‏ شہروں کو محفوظ اور صاف‌ستھرا رکھنا کافی مہنگا پڑتا ہے۔‏ اضافی تحفظ کا مطلب اکثر پولیس میں اضافہ ہوتا ہے۔‏ ایک دوسری بھاری قیمت خلوت کی کمی ہو سکتی ہے۔‏ بعض عوامی حلقے ٹی‌وی کیمروں اور عام لباس میں ملبوس پولیس اہلکاروں کی متواتر نگرانی کے تحت ہوتے ہیں۔‏ جب آپ ایک پارک میں فواروں،‏ مجسّموں یا پھولوں کی کیاریوں کے پاس سے گزرتے ہیں تو شاید ناخواستہ طور پر آپ سکیورٹی چیک‌پوائنٹ کے قریب سے گزر رہے ہونگے۔‏

بعض‌اوقات غریبوں کو ایسی بہتری کے لئے بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔‏ اب ذرا اشراف‌داری پر غور کریں جس کے تحت زیادہ آمدنی والے افراد کم‌آمدنی والے علاقوں میں نقل‌مکانی کر لیتے ہیں۔‏ اشراف‌داری کا تعلق معیشت میں تبدیلی کیساتھ ہے—‏”‏مصنوعات تیار کرنے سے اُنہیں بیچنے پر آ جانا،‏ اوسط درجے کی مہارتوں سے برقی آلات پر تکیہ کرنا۔‏“‏ (‏نیل سمتھ اور پیٹر ولیمز کی مطبوعہ،‏ جنٹری‌فیکیشن آف دی سٹی‏)‏ ادنیٰ ملازمتوں کے ختم ہو جانے اور پیشہ‌ورانہ اور ٹیکنیکل کارکنوں کی مانگ میں اضافے کے ساتھ ساتھ متوسط طبقے کیلئے مناسب رہائش کے تقاضوں میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔‏ مضافاتی علاقہ‌جات کا رُخ کرنے کی بجائے اچھی تنخواہیں پانے والے لوگ نسبتاً کم آمدنی والے علاقوں میں ازسرِنو گھر تعمیر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔‏

قدرتی طور پر،‏ اس سے علاقے میں کافی بہتری آ جاتی ہے۔‏ مگر علاقے کی حالت میں بہتری آ جانے کیساتھ ہی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔‏ پھر غریب لوگ عموماً ایسے علاقے میں گزربسر کرنا مشکل پاتے ہیں جہاں اُنہیں رہتے اور کام کرتے ہوئے کئی سال ہو گئے ہیں!‏

شہر کی موت؟‏

شہروں نے شاید حال ہی میں جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ہونے والی تبدیلی کے اسباب کو محسوس کرنا شروع کِیا ہو۔‏ خریدوفروخت اور کاروبار کے سلسلے میں انٹرنیٹ کی مقبولیت میں بتدریج اضافہ حیران‌کُن نتائج پیدا کر سکتا ہے۔‏ نئی ٹیکنالوجی نے تو بعض کاروباری حضرات کیلئے شہروں سے باہر کاروبار کرنا اور بہت سے کارکنوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا آسان بنا دیا ہے۔‏

ٹیلی‌فون اور کمپیوٹر کے ذریعے خریدوفروخت اور کام کرنے کے رُجحان میں اضافے کیساتھ ممکن ہے کہ لوگ بِھیڑبھاڑ والے کاروباری علاقوں کی طرف جانا کم کر دیں۔‏ کتاب سٹیز اِن سولائزیشن بیان کرتی ہے:‏ ”‏شاید ہمیں ایسے جُزوقتی چند ملازمین ہی نظر آئیں گے جو گھر یا پھر علاقے کے ورک‌سٹیشنوں پر کام کرتے ہیں .‏ .‏ .‏ اور اسطرح ٹریفک میں کمی ہو جائیگی۔‏“‏ اسی طرح ماہرِتعمیر موس سافدی قیاس‌آرائی کرتا ہے:‏ ”‏ان نئے حالات کے تحت ہو سکتا ہے کہ لاکھوں دیہاتوں کی ہمہ‌گیر تقسیم ہو جائے جسکی بدولت لوگوں کو مقامی طور پر چھوٹے قصبے کی سی سہولیاتِ‌زندگی اور کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے حوالے سے عظیم تاریخی شہروں کی سی ثقافتی خوشحالی مل جائے۔‏“‏

شہروں کا مستقبل کیا ہے؟‏

بیشتر مشاہدین کا خیال ہے کہ ٹیکنالوجی کے علاوہ شہروں میں ایسی سہولیات اور فوائد ہیں جو لوگوں کو اپنی جانب راغب کرتے رہینگے۔‏ مستقبل خواہ کیسا بھی ہو آجکل شہر مشکل کا شکار ہیں!‏ علاوہ‌ازیں شہروں میں رہنے والے لاکھوں غریب لوگوں کی رہائش اور صفائی‌ستھرائی کے سلسلے میں درپیش بیشمار مسائل کا کوئی حل نظر نہیں آتا۔‏ کوئی بھی شخص ابھی تک جُرم،‏ ماحولیاتی شکست‌وریخت یا شہری آلودگی کو ختم کرنے کے قابل نہیں ہوا۔‏

بعض شاید یہ دلیل پیش کریں کہ حکومتوں کو اپنے شہروں پر اَور زیادہ پیسہ خرچ کرنا چاہئے۔‏ تاہم اگر اُس تمام رقم کا ریکارڈ دیکھا جائے جو حکومتوں نے اپنے شہروں کی دیکھ‌بھال کے سلسلے میں خرچ کی ہے تو کیا یہ سوچنا حقیقت‌پسندی ہو گا کہ شہروں کے مسائل حل کرنا محض چیک لکھنے کے مترادف ہے؟‏ کئی عشرے قبل کتاب دی ڈیتھ اینڈ لائف آف گریٹ امریکن سٹیز نے بیان کِیا:‏ ”‏یہ محض خام‌خیالی ہے کہ اگر ہمارے پاس کافی پیسہ ہو تو ہم اپنے تمام خستہ‌حال علاقوں کو ٹھیک کر لینگے۔‏ .‏ .‏ .‏ مگر غور کریں کہ ہم نے پہلے کئی بلین ڈالر خرچ کرکے کیا انجام دیا ہے:‏ کم آمدنی والے پروجیکٹس جو خستہ‌حال علاقوں کو بہتر بنانے کے خیال سے شروع کئے گئے تھے مگر وہ جرم،‏ سرکاری یا نجی املاک کی غارت‌گری اور عمومی معاشرتی محرومی کے بدترین مراکز ثابت ہوئے ہیں۔‏“‏ یہ الفاظ سچ ثابت ہو رہے ہیں۔‏

تاہم اگر پیسہ نہیں توپھر کیا چیز اسکا حل ہے؟‏ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ شہر محض عمارتوں اور سڑکوں سے نہیں بلکہ لوگوں سے بنتے ہیں۔‏ لہٰذا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر شہری زندگی کو بہتر بنانا ہے تو اس کیلئے لوگوں میں تبدیلی لانا ضروری ہے۔‏ لوئس ممفورڈ دی سٹی اِن ہسٹری میں بیان کرتا ہے،‏ ”‏کسی بھی شہر کی بہترین معیشت اُس کے لوگوں کی دیکھ‌بھال اور اکتسابی اہلیت میں پنہاں ہے۔‏“‏ لیکن اگر منشیات کے غلط استعمال،‏ عصمت‌فروشی،‏ ماحولیاتی شکست‌وریخت،‏ معاشرتی عدمِ‌مساوات،‏ سرکاری یا نجی املاک کی غارت‌گری،‏ دیواروں پر نقش‌ونگار اور تحریروں اور اسی طرح کی دیگر چیزوں کا خاتمہ مقصود ہے تو پولیس کی نفری میں اضافے یا ازسرِنو رنگ‌وروغن کرانے سے زیادہ کچھ درکار ہے۔‏ اپنی سوچ اور طرزِعمل میں ڈرامائی تبدیلی لانے کے سلسلے میں لوگوں کی مدد کی جانی چاہئے۔‏

انتظامیہ میں تبدیلی

بدیہی طور پر ایسی جامع تبدیلی کا نفاذ انسانی دسترس سے باہر ہے۔‏ لہٰذا،‏ موجودہ شہروں کے مسائل کو حل کرنے کی کوششیں خواہ کتنی ہی نیک‌نیتی پر مبنی کیوں نہ ہوں،‏ بالآخر ناکام ہو جائینگی۔‏ تاہم،‏ بائبل کے طالبعلم کبھی مایوس نہیں ہوتے کیونکہ وہ آجکل کی شہری مشکلات کو محض اس سیارے کا انتظام کرنے کی انسانی نااہلیت کی ایک مثال خیال کرتے ہیں۔‏ آجکل کے وسیع‌وعریض،‏ بدنظمی کے شکار شہروں پر بائبل میں یرمیاہ ۱۰:‏۲۳ کے الفاظ کا بخوبی اطلاق ہوتا ہے:‏ ”‏اَے خداوند!‏ مَیں جانتا ہوں کہ انسان کی راہ اُسکے اختیار میں نہیں۔‏ انسان اپنی روش میں اپنے قدموں کی راہنمائی نہیں کر سکتا۔‏“‏ حکومت کرنے کی انسانی کوششیں بڑے پیمانے پر مشکلات کا باعث بنی ہیں—‏ایسے مسائل جو ہمارے اپنے شہروں میں نظر آتے ہیں۔‏

پس شہری باشندے مکاشفہ ۱۱:‏۱۸ میں قلمبند بائبل کے اس وعدہ سے تسلی حاصل کر سکتے ہیں کہ خدا ”‏زمین کے تباہ کرنے والوں کو تباہ“‏ کریگا۔‏ یہ الفاظ انسان کیلئے منفی کی بجائے مثبت مستقبل کی نشاندہی کرتے ہیں۔‏ یہ یقین دِلاتے ہیں کہ ایک حکومت یا بادشاہت کے ذریعے خدا ہمارے نظام کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیگا۔‏ (‏دانی‌ایل ۲:‏۴۴‏)‏ اس کے بعد لاکھوں لوگ غربت کی زندگی بسر نہیں کرینگے،‏ وہ موزوں گھروں اور بنیادی صفائی‌ستھرائی،‏ وقار اور سہارے سے محروم نہیں ہونگے۔‏ خدا کی حکمرانی کے تحت لوگ مادی خوشحالی،‏ اچھی صحت اور عمدہ گھروں سے استفادہ کرینگے۔‏—‏یسعیاہ ۳۳:‏۲۴؛‏ ۶۵:‏۲۱-‏۲۳‏۔‏

یہ نئی دُنیا ہی موجودہ شہروں کے مسائل کا واحد حقیقت‌پسندانہ حل ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۸،‏ ۹ پر تصویریں]‏

بہتیرے شہروں میں زندگی کو بہتر بنانے کیلئے سنجیدہ کوششیں جاری ہیں

ناپلز،‏ اٹلی

نیو یارک سٹی،‏ یو.‏ایس.‏اے۔‏

سڈنی،‏ آسٹریلیا

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

SuperStock

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

خدا کی نئی دُنیا آجکل شہروں میں رہنے والوں کے مسائل کا حل پیش کرتی ہے