دُنیا کا نظارہ کرنا
دُنیا کا نظارہ کرنا
مذہبی تاریخ کی تعلیم؟
اخبار لی مونڈ اور نوٹر ہسٹوری میگزین کے ایک حالیہ سروے میں صرف ۵۷ فیصد فرانسیسی لوگوں نے کہا کہ وہ سرکاری سکولوں میں مذہبی تاریخ کے نصاب کی حمایت میں ہیں۔ نوٹر ہسٹوری کا کہنا ہے کہ ”حیرت کی بات ہے کہ مخالفین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سے یہ خدشہ ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ کہیں اپنا مذہب تبدیل نہ کر لیں نیز یہ ایک ایسے سکول کے نظریے کی بھی عکاسی کرتا ہے جس میں مذہبی تعلیم بالکل نہ ہو۔“ مسئلہ یہ ہے کہ اکثریت کے خیال میں ایسے نصاب طالبعلموں کے اندر رواداری کو فروغ دینگے۔ رائےشماری کے مطابق، اسلام چالیس لاکھ معتقدین کیساتھ اس وقت فرانس میں کیتھولک کے بعد دوسرا بڑا مذہب ہے جبکہ پروٹسٹنٹ، یہودی، بدھسٹ، آرتھوڈکس مسیحی اور یہوواہ کے گواہ بھی ملک کے ”متفرق مذاہب“ میں شامل ہیں۔
وبائی امراض کی منتقلی
”وبائی امراض نلکا کھولنے یا ٹیلیفون اُٹھانے کے سادہ عمل سے بھی ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہو سکتے ہیں،“ لندن کا دی گارڈین بیان کرتا ہے۔ ٹکسن یو.ایس.اے. میں ایریزونا یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے بیان کِیا کہ زکام میں مبتلا ایک شخص جب ناک پونچھنے کے بعد نلکا کھولتا ہے تو وہ ”اس پر ۰۰۰،۱ سے زائد جراثیم چھوڑ سکتا ہے۔“ اسکے بعد اگر کوئی دوسرا شخص نلکا کھولتا ہے اور اپنے مُنہ، ناک یا آنکھوں کو چھوتا ہے تو اِن میں سے بیشتر جراثیم اُسے متاثر کر سکتے ہیں۔ جراثیم اور جراثیمخور وائرس پر کئے گئے تجربات نے ظاہر کِیا کہ ”ٹیلیفون کے ریسیوروں نے ٪۳۹ جراثیم اور ٪۶۶ وائرس منتقل کئے جبکہ نلکا کھولنے کی وجہ سے بالترتیب ٪۲۸ جراثیم اور ٪۳۴ وائرس منتقل ہوئے۔“ متاثرہ اُنگلی سے نچلے ہونٹ کو چھونا ایک تہائی سے زیادہ جراثیم اور وائرس منتقل کرتا ہے۔ روٹاوائرس سے پھیلنے والی بیماریاں اور سالمونیلا سے پھیلنے والی اسہالی بیماری گندے ہاتھوں سے بآسانی لگ سکتی ہے۔
ٹڈیدَل کے حملے کا سدِباب
لندن کے دی ڈیلی ٹیلیگراف کی رپورٹ کے مطابق، ”۲۵ سال کے دوران چین پر ٹڈیدَل کے سب سے بڑے حملے کو پسپا کرنے کیلئے ۰۰۰،۰۰،۷ بطخوں اور مرغیوں کے ایک لشکر کو خصوصی تربیت دی گئی ہے۔“ سن ۲۰۰۰ کے موسمِگرما میں ٹڈیدَل نے ملک کے شمال اور مشرق میں ۱.۴ ملین ایکڑ فصلیں تباہ کر دیں اور مغربِبعید میں زنجانگ میں ۶.۹ ملین ایکڑ سبزہزار چٹ کر گئیں۔ بطخوں اور مرغیوں کو سیٹی کی آواز پر اِن کیڑوں کو تلاش کرکے کھا جانے کی تربیت دی گئی ہے۔ زنجانگ میں اِن پرندوں کو تربیت دینے کے بعد استعمال کِیا جاتا ہے۔ لہٰذا، یہاں واقع ٹڈیوں اور چوہوں پر قابو پانے کے دفتر کا ڈپٹی ہیڈ زاؤ زنچن بیان کرتا ہے: ”کسان جانتے تھے کہ مرغیاں بڑے شوق سے ٹڈیاں کھاتی ہیں، لہٰذا ہم نے کچھ تجربات کئے اور یہ دریافت کِیا کہ مرغیوں کی نسبت بطخیں زیادہ [روزانہ ۴۰۰ ٹڈیاں] کھا سکتی ہیں، یہ خراب موسم کو مرغیوں سے زیادہ برداشت کر سکتی ہیں اور نیولے یا عقاب کے قابو میں بھی نہیں آتیں۔ . . . ہم اُنہیں سبزہزار میں چھوڑ کر جب سیٹی بجاتے ہیں تو وہ ٹڈیوں کو چٹ کر جاتی ہیں۔“ یہ پرندے اُسی پروگرام کا حصہ ہیں جس میں فصل پر چھڑکاؤ کرنے والے جہاز اور ٹڈیوں کو ختم کرنے والے خوردبینی جاندار شامل ہیں۔
نیند انتہائی ضروری
جنوبی افریقہ کا اخبار دی نیٹل وِٹنس بیان کرتا ہے کہ ”جنوبی افریقہ کے تقریباً ایک چوتھائی لوگ نیند کی کمی یا نیند سے متعلق امراض کی وجہ سے آدھی قوت کیساتھ کام کر رہے ہیں۔“ نیند پر تحقیق کرنے والے ڈاکٹر جیمز ماس کے مطابق، نیند دماغ کو اہم عصبی ترسیلی نظام کو تازہ کرنے کے قابل بناتی ہے، لہٰذا اچھی یادداشت، اختراعی صلاحیتوں، مسائل کے حل اور اکتسابی لیاقتوں کو بہتر بنانے کیلئے مناسب نیند انتہائی ضروری ہے۔ ناکافی نیند کے اثرات میں مایوسی، چڑچڑاپن، پریشانی، مزاح کی حس اور سماجی فنون کا فقدان، توجہ دینے اور یاد رکھنے کی صلاحیت میں کمی، رابطہ رکھنے اور فیصلے کرنے کی قوت میں کمی، خطرات مول لینے میں اضافہ اور پُرمطلب اور معیاری زندگی بسر کرنے میں ناکامی شامل ہے۔ جو لوگ پانچ گھنٹے یا اس سے بھی کم سوتے ہیں اُنکے اندر بیماریوں کے خلاف مدافعت کی قوت بھی کم ہو جاتی ہے۔ ماس بیان کرتا ہے کہ ”عمدہ کارکردگی کیلئے، ہمیں اپنی زندگی کا ایک تہائی حصہ نیند کیلئے مختص کر دینا چاہئے جو کہ اوسطاً ہر رات آٹھ گھنٹے کے برابر ہے۔“
سمندر کی تہ میں مونگے
کینیڈا کے نیشنل پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق، ”شمالی یورپ کے گہرے، تاریک، یخ پانیوں میں مونگے کی چٹانیں ملی ہیں جن میں حاری علاقوں کی طرح ہی گوناگوں اقسام کی بحری حیات بکثرت پائی جاتی ہے۔“ مونگے سینکڑوں انواع کی کفالت کرتے ہیں جن میں اسفنج، سمندری پنکھوں اور ”بحری کیڑوں کی اتنی زیادہ اقسام“ شامل ہیں ”جن میں سے بیشتر کا سائنسدانوں نے کبھی ذکر ہی نہیں کِیا۔“ سمندر کی تہ میں موجود مادے کے نمونوں میں بیشمار چھوٹے جانور ملے ہیں ”جن میں سے تقریباً نصف سائنس کے لئے بالکل نئے تھے،“ برطانیہ میں ساؤتھایمپٹن یونیورسٹی کے بحری جغرافیہ کے مرکز سے ایلکس روجرز بیان کرتا ہے۔ ”ہمیں اِن چٹانوں کی صرف مونگوں کے لئے ہی نہیں—کیونکہ یہ تو دوسری جگہوں پر بھی کسی قسم کی حیات کے بغیر موجود ہوتے ہیں—بلکہ ان میں بسیرا کرنے والے دیگر جانداروں کی خاطر بھی حفاظت کرنی چاہئے۔“ اُس کا اندازہ ہے کہ مونگوں کے اندر تقریباً ۹۰۰ مختلف انواع کے جاندار رہتے ہیں۔ اخبار کے مطابق، یہ بھی خیال کِیا جاتا ہے کہ یہ مونگے ”تجارتی اعتبار سے نہایت اہم مچھلیوں کے ابتدائی مراحل“ میں انکا مسکن بھی ہوتے ہیں۔
برطانیہ میں خاندانی شکستوریخت
یورپ کے اندر برطانیہ میں طلاق کی شرح سب سے زیادہ ہے اور شادی کے بغیر اکٹھے رہنے والے جوڑوں میں علیٰحدگی کی شرح اس سے بھی زیادہ ہے۔ ایک حکومتی سروے کے تحت ”خاندانی شکستوریخت کی لاگت“ کے عنوان سے لکھی گئی رپورٹ آگاہ کرتی ہے: ”خاندانی شکستوریخت بچے کی فلاحوبہبود میں واقع ہونے والی کمی کی بنیادی وجہ ہے کیونکہ ماں اور باپ کی علیٰحدگی سے بچے کی پرورش کی بنیادی اکائی ٹوٹ جاتی ہے۔“ اس سلسلے میں برطانوی ٹیکسدہندگان کو تو بِلاواسطہ اوسطاً ۱۱ پاؤنڈ فی ہفتہ قیمت ادا کرنی پڑتی ہے مگر بالواسطہ اسکی قیمت میں منقسم خاندانوں کیلئے درکار اضافی گھر اور اس کے نتیجے میں ماحول کو پہنچنے والا نقصان بھی شامل ہے۔ اگر اخلاقی پہلو کو نظرانداز کر بھی دیا جائے توبھی رپورٹ بیان کرتی ہے: ”ہمارے خیال میں وقت گزرنے کیساتھ ساتھ یہ ثابت ہو گیا ہے کہ شادی ہی مستحکم معاشرے اور بچوں کی پرورش کی ٹھوس بنیاد ہے۔“
لاپرواہ نوجوان ہاتھی
ایک افریقن وائلڈلائف رپورٹ بعنوان ”سونڈ سے نہ مارنے سے ہاتھی کا بچہ بگڑ جاتا ہے“ بیان کرتی ہے کہ ۱۹۹۱ سے جنوبی افریقہ میں ہلوہلووی امفولوزی پارک میں جوان نر ہاتھیوں نے ۳۶ گینڈے ہلاک کر دئے ہیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ کروجر نیشنل پارک کی ہاتھی مار مہم سے بچنے والے ہاتھی زیادہ جارحیتپسند ہیں کیونکہ وہ والدین کی نگرانی سے محروم ہیں اور عام وقت سے کئی سال پہلے ہی مستی یا جنسی جنون کا تجربہ کرنے لگے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ عام ماحول سے محرومی ہی ان ہاتھیوں کے تُند رویے کا سبب ہے۔ اسی لئے اِن بدمزاج جوان ہاتھیوں کی تربیت کرنے کے لئے کروجر نیشنل پارک سے دس نر ہاتھی لائے گئے ہیں۔ اسی طرح کے ایک دوسرے پارک سے جہاں یہ پروگرام ۱۹۹۸ میں متعارف کرایا گیا تھا کسی گینڈے کے ہلاک ہونے کی خبر نہیں ملی۔
چین کی ٹیراکوٹا فوج حملے کی زد میں
لندن کا دی گارڈین بیان کرتا ہے، ”چین کی سیاحت کرنے والوں کی توجہ کا مرکز، ۲۰۰،۲ سال پُرانی ٹیراکوٹا فوج کو ایک نئے دُشمن کا سامنا ہے۔“ ملک کے قدیم داراُلحکومت، زآن کے باہر چین کے حاکم کن شیانگ کے عالیشان مقبرے کے قریب دریافت ہونے والے پوری قدوقامت کے ۰۰۰،۸ سے زائد سپاہیوں، تیراندازوں اور گھوڑوں میں سے ۴۰۰،۱ پر چالیس قسم کی پھپھوندی نے حملہ کر دیا ہے۔ یہ شاندار مجسّمے ۱۹۷۴ میں دریافت ہوئے تھے اور اب انہیں ایک زمیندوز محرابی تہخانے میں رکھ دیا گیا ہے۔ لندن کا دی ٹائمز انہیں لاحق خطرے کی ایک اَور وجہ یوں بیان کرتا ہے: ”ہر روز تقریباً ۳۰۰،۴ لوگ یہاں آتے ہیں جن کے سانس اور بدنوں کی حرارت سے ان مجسّموں کا رنگ اُتر رہا ہے۔“ پھپھوندی کو تمام مجسّموں میں پھیلنے سے روکنے کیلئے، زآن شہر کے اربابِاختیار نے پھپھوندی کی روکتھام میں ماہر بیلجیئم کی ایک کمپنی کو بلایا ہے۔
موسمِسرما—دوست یا دُشمن؟
جرمن نیوزلیٹر اپوتھیکن امسچاؤ بیان کرتا ہے کہ ضروری نہیں کہ سردی یا برسات کا موسم آپ کیلئے نقصاندہ ہو۔ اس کے برعکس، میڈیکل ماہرِموسمیات ڈاکٹر انجیلا شو کے مطابق، موسمِسرما میں باقاعدہ چہلقدمی آپکے دل اور دورانِخون کی کارکردگی کو بہتر اور آپکے سارے بدن کو توانائی بخش سکتی ہے۔ گرم کمروں میں رہنے کی وجہ سے آپکا جسم درجۂحرارت میں تبدیلی کیلئے مناسب ردِعمل دکھانے سے قاصر رہ سکتا ہے۔ خیال ہے کہ اس کی وجہ سے انفیکشن، تھکن اور سردرد بہت جلد متاثر کر سکتے ہیں۔ لیکن ”خراب“ موسم میں باقاعدہ ورزش سے مضبوط جسم کی قوتِبرداشت بڑھ جاتی ہے اور وہ سردی سے اتنا زیادہ متاثر نہیں ہوتا۔