مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا اسکا حل ہی مسئلہ بن گیا ہے؟‏

کیا اسکا حل ہی مسئلہ بن گیا ہے؟‏

کیا اسکا حل ہی مسئلہ بن گیا ہے؟‏

‏”‏قیدیوں کیساتھ تحقیرآمیز اور حوصلہ‌شکن برتاؤ اُنہیں باہر کی دُنیا میں رہنے کیلئے تیار کرنے کا بدترین طریقہ ہے۔‏“‏ —‏دی اٹلانٹا کانسٹی‌ٹیوشن کا ایک اداریہ۔‏

بیشتر صورتوں میں قیدخانے محض عارضی پابندی کا کام دیتے ہیں۔‏ جب ایک قیدی رہائی پاتا ہے تو کیا وہ واقعی اپنے جُرم کی سزا بھگت چکا ہوتا ہے؟‏ * متاثرین یا اُن کے عزیزوں کی بابت کیا ہے؟‏ جب ریٹا کے ۱۶ سالہ بیٹے کے قاتل کو تین سال کی سزا کے بعد چھوڑ دیا گیا تو اُس نے کہا،‏ ”‏مَیں ایک مقتول بچے کی ماں ہوں۔‏ ذرا سوچیں۔‏ کیا آپ میرے احساسات کا تصور کر سکتے ہیں؟‏“‏ ریٹا کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ تلخ یادیں اکثر عدالتوں کے فیصلے سنا دینے اور اخباروں کی شہ‌سُرخیوں کے مٹ جانے کے بعد بھی دیر تک قائم رہتی ہیں۔‏

یہ مسئلہ جُرم سے متاثرہ لوگوں کے علاوہ دیگر لوگوں کے لئے بھی توجہ‌طلب ہے۔‏ بہرصورت،‏ رہائی پانے والے قیدیوں کی اصلاح ہوئی ہے یا وہ سلاخوں کے پیچھے اپنے تجربے سے مزید سخت‌دل ہو گئے ہیں،‏ یہ بات اگر آپکے تحفظ کیلئے خطرے کا باعث نہ بھی ہو توبھی یہ آپکو بےسکون ضرور کر سکتی ہے۔‏

مجرموں کی درسگاہیں

قیدخانے کا نظام ہمیشہ مجرمانہ طرزِعمل کو تبدیل نہیں کرتا۔‏ ٹائم میگزین میں جل سمولو نے لکھا،‏ ”‏قیدی کی شخصیت نکھارنے کی بجائے قیدخانے تعمیر کرنے پر پیسہ خرچ کرنا اکثر زیادہ اور بدترین جُرم کا پیش‌خیمہ ہوتا ہے۔‏“‏ چودہ سال سلاخوں کے پیچھے رہنے والا پیٹر * اس بیان سے متفق ہے۔‏ وہ کہتا ہے،‏ ”‏میرے ساتھی قیدی شروع میں تو معمولی جرائم میں ملوث تھے لیکن بعد میں وہ بڑے جُرم کرتے کرتے بالآخر دوسرے انسانوں کے خلاف سنگین جرائم کے ماہر ہو گئے۔‏ اُن کے نزدیک قیدخانے پیشہ‌ورانہ درسگاہیں ہیں۔‏ وہ بدتر بن کر باہر نکلینگے۔‏“‏

قیدخانوں کی وجہ سے مجرم تھوڑی دیر کے لئے گلی‌محلوں سے اُوجھل تو ضرور ہو جاتے ہیں مگر جُرم کا مستقل طور پر سدِباب نہیں ہو پاتا۔‏ اندرونِ‌شہر کے نوجوان لڑکے جیل جانا جوانمردی کی ابتدا سمجھتے ہیں۔‏ وہ اکثر بڑے سنگدل مُجرم بن جاتے ہیں۔‏ اپنی زندگی کا بیشتر حصہ جیل میں کاٹنے والا لیری بیان کرتا ہے کہ ”‏قیدخانوں میں ہرگز آپ کی اصلاح نہیں ہوتی۔‏ جیل سے باہر نکلنے والے لوگ پھر وہی کام شروع کر دیتے ہیں۔‏“‏

جیل سے ایک بار نکلکر دوبارہ قانون‌شکنی کی وجہ سے جیل میں آنا اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ ریاستہائےمتحدہ کی ایک تحقیق کے مطابق صرف ۵ فیصد مُجرم ہی ۵۰ فیصد جرائم کے مُرتکب کیوں ٹھہرتے ہیں۔‏ ٹائم میگزین بیان کرتا ہے:‏ ”‏جب قیدیوں کو اپنا وقت گزارنے کا کوئی مفید طریقہ نہیں سوجھتا تو وہ اکثر اپنا وقت اپنے دل میں نفرت پیدا کرنے اور نئی‌نئی ترکیبیں گھڑنے میں صرف کرتے ہیں اور رہائی کے بعد انہیں استعمال کرتے ہیں۔‏“‏

یہ صورتحال صرف ریاستہائےمتحدہ تک ہی محدود نہیں ہے۔‏ یونان میں ایک فوجی قیدخانے کا ڈاکٹر جان واٹس بیان کرتا ہے:‏ ”‏ہمارے قیدخانے خطرناک،‏ متشدّد اور گھٹیا اشخاص تیار کرنے میں بہت مؤثر ثابت ہوئے ہیں۔‏ رہائی کے بعد بیشتر قیدی معاشرے سے انتقام لینا چاہتے ہیں۔‏“‏

معاشرتی لاگت

قیدخانوں کا بحران ہماری جیب تک پہنچ گیا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ ایک اندازے کے مطابق ریاستہائےمتحدہ میں،‏ ایک قیدی کے لئے ٹیکس دہندگان کو سالانہ تقریباً ۰۰۰،‏۲۱ ڈالر ادا کرنے پڑتے ہیں۔‏ ۶۰ سال سے زیادہ عمر والے قیدیوں کے لئے اس سے تین گُنا زیادہ ادا کرنا پڑتا ہے۔‏ کئی ممالک میں مختلف وجوہات کی بِنا پر لوگوں کا تعزیراتی نظام سے اعتماد اُٹھتا جا رہا ہے۔‏ اس سلسلے میں گہری تشویش کا اظہار کِیا جا رہا ہے کہ بعض مُجرموں کو سزا پوری ہونے سے پہلے ہی رِہا کر دیا جاتا ہے جبکہ بعض مُجرم ہوشیار وکلا کے قانونی داؤپیچ کے باعث سزا سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔‏ عموماً متاثرین خود کو مزید مُجرمانہ کارروائیوں سے محفوظ محسوس نہیں کرتے اور شاید اُنہیں قانونی عمل کے خلاف آواز اُٹھانے کا بھی حق نہیں ہوتا۔‏

عوامی تشویش میں اضافہ

جیسا کہ ساتھ والے بکس میں بیان کِیا گیا ہے کہ قیدیوں کیساتھ ہونے والے انسانیت‌سوز سلوک کی وجہ سے قیدخانوں کے نظام پر عوام کا اعتماد کم ہوتا جا رہا ہے۔‏ جن قیدیوں کیساتھ سزا کے دوران بدسلوکی کی جاتی ہے وہ بمشکل ہی اصلاح کی جانب راغب ہوتے ہیں۔‏ علاوہ‌ازیں،‏ انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والے اداروں نے قیدخانوں میں اقلیتی گروہوں کے لوگوں کی بڑی تعداد پر تشویش کا اظہار کِیا ہے۔‏ وہ پوچھتے ہیں کہ آیا یہ محض اتفاق ہے یا پھر نسلی امتیاز کا نتیجہ ہے۔‏

سن ۱۹۹۸ کی ایک ایسوسی‌ایٹڈ پریس رپورٹ نے پینسلوانیہ،‏ یو.‏ایس.‏اے.‏ میں ہومزبرگ قیدخانے کے سابق قیدیوں کی بدحالی پر توجہ دلائی جنکا دعویٰ تھا کہ قید کے دوران اُنہیں بالکل جانوروں کی طرح کیمیاوی تجربات کے لئے استعمال کِیا گیا تھا لہٰذا اُنہیں اس کا معاوضہ ملنا چاہئے۔‏ علاوہ‌ازیں،‏ ریاستہائےمتحدہ میں قیدیوں کو بیڑیاں پہنا کر اُن سے کام لینے کی سزا کے دوبارہ شروع ہونے کی بابت کیا ہے؟‏ ایم‌نسٹی انٹرنیشنل بیان کرتا ہے:‏ ”‏ان قیدیوں کو ۱۰ سے ۱۲ گھنٹے اکثر سخت دھوپ میں کام کرنا پڑتا ہے اس دوران پانی پینے کا وقفہ بہت کم ہوتا ہے اور دوپہر کے کھانے کے لئے صرف ایک گھنٹہ دیا جاتا ہے۔‏ .‏ .‏ .‏ ان قیدیوں کی رفع‌حاجت کے لئے ایک عارضی پردے کے پیچھے نقل‌پذیر بیت‌اُلخلا رکھا جاتا ہے۔‏ اسے استعمال کرتے وقت بھی قیدی ایک ساتھ زنجیروں میں جکڑے ہوتے ہیں۔‏ جب اس عارضی بیت‌اُلخلا تک رسائی ممکن نہیں ہوتی تو مُجرموں کو سب کے سامنے ہی زمین پر حاجت رفع کرنے پر مجبور کِیا جاتا ہے۔‏“‏ یقیناً تمام قیدخانوں میں تو ایسا نہیں ہوتا۔‏ تاہم،‏ ایسا گھٹیا سلوک قیدیوں کے علاوہ،‏ پولیس حکام کے انسانی اوصاف کو بھی سَلب کر لیتا ہے۔‏

کیا اس میں عوام کا فائدہ ہے؟‏

قدرتی بات ہے کہ جب خطرناک مُجرم سلاخوں کے پیچھے ہوتے ہیں تو لوگ خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں۔‏ دیگر لوگ مختلف وجوہات کی بِنا پر قیدخانوں کو پسند کرتے ہیں۔‏ جب آسٹریلیا کے ایک چھوٹے سے قصبے کوما میں ایک قیدخانے کو ختم کِیا جانے لگا تو لوگوں نے احتجاج کِیا۔‏ کیوں؟‏ اس لئے کہ قیدخانہ میں تنگ‌دست لوگ ملازمت کرتے تھے۔‏

حالیہ برسوں میں،‏ بعض حکومتوں نے پیسہ بچانے کے لئے اپنے قیدخانے نجی اداروں کو فروخت کر دئے ہیں۔‏ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ زیادہ قیدی اور طویل سزائیں کاروباری اعتبار سے فائدہ‌مند ہیں۔‏ پس،‏ انصاف کاروبار کا روپ دھار سکتا ہے۔‏

اسکے باوجود،‏ ہمارا بنیادی سوال جوں کا توں ہے:‏ کیا قیدخانے مُجرموں کی اصلاح کرتے ہیں؟‏ اکثر اس کا جواب نفی میں ہونے کے باوجود بھی شاید آپ یہ جان کر حیران ہوں کہ بعض قیدیوں کو واقعی تبدیلی لانے میں مدد ملی ہے۔‏ آئیں دیکھیں کیسے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 3 اگرچہ ہم قیدیوں کو مذکر کے طور پر استعمال کر رہے ہیں مگر جن اُصولوں پر بحث کی جا رہی ہے اُنکا اطلاق عموماً عورتوں اور مردوں دونوں طرح کے قیدیوں پر ہوتا ہے۔‏

^ پیراگراف 6 اس مضمون میں بعض نام تبدیل کر دئے گئے ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۶،‏ ۷ پر بکس/‏تصویر]‏

قیدخانوں کا اندرونی جائزہ

زیادہ قیدی:‏ یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ برطانیہ کے قیدخانے میں قیدیوں کی تعداد حد سے زیادہ ہے!‏ پورے مغربی یورپ میں ۰۰۰،‏۰۰،‏۱ کی آبادی میں ۱۲۵ قیدیوں کی شرح کیساتھ یہ ملک قیدیوں کی سب سے زیادہ تعداد کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہے۔‏ ساؤ پالو برازیل کے سب سے بڑے قیدخانے میں ۵۰۰ قیدیوں کی گنجائش ہے۔‏ مگر اس میں ۰۰۰،‏۶ قیدیوں کو رکھا گیا ہے۔‏ روس میں،‏ جن کوٹھڑیوں میں ۲۸ قیدی ہونے چاہئیں وہاں ۹۰ سے ۱۱۰ رکھے گئے ہیں۔‏ مسئلہ اسقدر سنگین ہے کہ قیدی شفٹوں میں سوتے ہیں۔‏ ایشیا کے ایک ملک میں ۳۰ مربع فٹ کی کوٹھڑی میں ۱۳ یا ۱۴ قیدی رہتے ہیں۔‏ مغربی آسٹریلیا کے اہلکاروں نے جگہ کی کمی پر قابو پانے کی غرض سے قیدیوں کو بڑے بڑے کنٹینرز میں رکھنا شروع کر دیا ہے۔‏

تشدد:‏ جرمن نیوزمیگزین در سپائجل بیان کرتا ہے کہ جرمن کے قیدخانوں میں ”‏الکحل،‏ منشیات،‏ جنس اور سُودخوری کے غیرقانونی کاروبار کرنے والے قیدی مقابلہ‌بازی“‏ کی وجہ سے ایک دوسرے کو بڑی سنگدلی سے اذیت پہنچاتے اور قتل کرتے ہیں۔‏ نسلی تناؤ بھی اکثر قیدخانے کے اندر تشدد کو ہوا دیتے ہیں۔‏ در سپائجل بیان کرتا ہے،‏ ”‏یہاں ۷۲ قوموں کے قیدی بند ہونے کی وجہ سے لڑائی جھگڑوں پر قابو پانا ناممکن ہے۔‏“‏ جنوبی امریکہ کی ایک جیل کے اہلکاروں نے بیان کِیا کہ ہر مہینے اوسطاً ۱۲ قیدی ہلاک ہو جاتے تھے۔‏ لندن کے فائنینشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق قیدیوں کا کہنا ہے کہ یہ تعداد دُگنی تھی۔‏

جنسی بدسلوکی:‏ مضمون ”‏جیل میں عصمت‌دری کا بحران“‏ میں دی نیو یارک ٹائمز بیان کرتا ہے کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق ریاستہائےمتحدہ میں،‏ ”‏ہر سال جیل کے اندر ۰۰۰،‏۹۰،‏۲ سے زائد آدمی جنسی بدسلوکی کا نشانہ بنتے ہیں۔‏“‏ رپورٹ مزید بیان کرتی ہے:‏ ”‏خوفناک جنسی بدسلوکی اِکادُکا واقعات کی بجائے روزانہ کا معمول ہے۔‏“‏ ایک ادارے کا اندازہ ہے کہ یو.‏ایس.‏ قیدخانوں میں ہر روز تقریباً ۰۰۰،‏۶۰ ناخواستہ جنسی واقعات رُونما ہوتے ہیں۔‏

صحت اور صفائی:‏ قیدیوں میں جنسی بیماریوں کی منتقلی بہت عام ہے۔‏ روس اور چند افریقی ممالک کے قیدیوں میں تپِ‌دق کا پھیلاؤ عالمی شہرت‌یافتہ معاملہ ہے جبکہ دُنیابھر کے قیدخانوں میں علاج‌معالجے،‏ صفائی‌ستھرائی اور خوراک کی سہولیات کے سلسلے میں عدم‌توجہی بھی چھپی ہوئی نہیں ہے۔‏

‏[‏تصویر]‏

ساؤ پالو،‏ برازیل میں قیدیوں سے بھرا ایک قیدخانہ

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

AP Photo/Dario Lopez-Mills

‏[‏صفحہ ۴،‏ ۵ پر تصویر]‏

پیرس،‏ فرانس میں کڑی نگرانی والا قیدخانہ،‏ لا سانتے

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

AP Photo/Francois Mori

‏[‏صفحہ ۶ پر تصویر]‏

میناگوا،‏ نکاراگوا کے قیدخانے میں خواتین

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

AP Photo/Javier Galeano