مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

دُنیا کا نظارہ کرنا

دُنیا کا نظارہ کرنا

دُنیا کا نظارہ کرنا

برطانیہ میں تبدیلیٔ‌مذہب

دی سنڈے ٹیلی‌گراف بیان کرتا ہے کہ برطانوی لوگ بڑی تیزی سے مذہب تبدیل کر رہے ہیں یعنی ہر ہفتے تقریباً ۰۰۰،‏۱ لوگ اپنا مذہب بدل لیتے ہیں۔‏ ”‏اینگلیکن رومن کیتھولک بن رہے ہیں اور رومن کیتھولک اینگلیکن بن رہے ہیں،‏ یہودی بدھسٹ بن رہے ہیں،‏ مسلمان اینگلیکن اور رومن کیتھولک یہودی بن رہے ہیں۔‏“‏ لوگ اپنا آبائی مذہب چھوڑ کر سب سے زیادہ اسلام،‏ بدھ‌مت،‏ نیو ایج موومنٹس اور دہریت کا رُخ کر رہے ہیں۔‏ انگلینڈ کی ڈربی یونیورسٹی کا ڈاکٹر احمد اینڈریوز جو بذاتِ‌خود ایک نومرید ہے بیان کرتا ہے،‏ ”‏اس مُلک میں ۰۰۰،‏۵ سے ۰۰۰،‏۱۰ سفیدفام نومسلم ہیں اور ان میں سے بیشتر جنہیں مَیں جانتا ہوں پہلے کیتھولک تھے۔‏“‏ یہودیوں میں سے ۱۰ تا ۳۰ فیصد بدھسٹ بن کر رہے ہیں۔‏ جب سے چرچ آف انگلینڈ نے عہدۂاُسقف کیلئے عورتوں کی تقرری کا فیصلہ کِیا ہے تب سے اینگلیکن بڑی تعداد میں کیتھولک بننے لگے ہیں۔‏ ربّی جوناتھن رومان کے مطابق،‏ ”‏لوگ روحانی خلا محسوس کرتے ہیں جسے پُر کرنے کیلئے پھر وہ دوسرے مذاہب کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔‏“‏

طرزِزندگی اور کینسر

لندن کا اخبار دی گارڈین بیان کرتا ہے:‏ ”‏تقریباً ۰۰۰،‏۹۰ جڑواں اشخاص پر کی گئی تحقیق نے ظاہر کِیا ہے کہ انسان کی شخصیت کی بجائے اُسکی رہائش،‏ اُسکے اعمال اور اُسکی زندگی میں پیش آنے والے واقعات بڑی حد تک کینسر کا سبب بنتے ہیں۔‏“‏ سویڈن کے کارولن‌سکا انسٹی‌ٹیوٹ کے ڈاکٹر لچ‌ٹن‌سٹن نے اس تحقیق کے لئے ماہرین کی ٹیم کی پیشوائی کی۔‏ وہ بیان کرتا ہے:‏ ”‏جینز کی بجائے ماحول زیادہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔‏“‏ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ تمباکونوشی ۳۵ فیصد کینسر کا سبب بنتی ہے جبکہ مزید ۳۰ فیصد کا تعلق خوراک سے ہے۔‏ تاہم پراسٹیٹ،‏ کولوریک‌ٹل اور بریسٹ کینسر میں تو جینز کا عمل‌دخل ہوتا ہے مگر آکسفورڈ،‏ انگلینڈ میں امپیریل ریسرچ فنڈ کا ڈاکٹر ٹم کائے مشورہ دیتا ہے:‏ ”‏اگر آپ کے خاندان میں [‏کینسر]‏ کا مرض ہو تو بھی آپ کا طرزِزندگی نہایت اہمیت کا حامل ہے۔‏ تمباکونوشی سے پرہیز کریں اور اپنی خوراک کا خیال رکھیں۔‏ اِن سے فرق پڑتا ہے۔‏“‏

دماغ استعمال کریں

اخبار ونکوئر سن بیان کرتا ہے کہ ”‏اگر ہم دماغ کو استعمال کرتے رہیں گے تو یہ ساری زندگی صحیح رہے گا۔‏“‏ اوہائیو،‏ یو.‏ایس.‏اے.‏ میں کاس ویسٹرن ریزرو یونیورسٹی میڈیکل سکول کا ڈاکٹر عامر سوآس بیان کرتا ہے:‏ ”‏پڑھیں،‏ پڑھیں اور صرف پڑھیں۔‏“‏ عمر بڑھنے کیساتھ ساتھ اپنی دماغی صلاحیتوں کو محفوظ رکھنے کیلئے ذہنی مشقت والے مشاغل کا انتخاب کریں،‏ نئی زبان سیکھیں،‏ کوئی ساز بجانا سیکھیں یا مباحثوں میں شریک ہوں۔‏ ڈاکٹر سوآس کہتا ہے:‏ ”‏ہر وہ کام کریں جو دماغ کو سوچنے کی تحریک دیتا ہے۔‏“‏ وہ ٹی‌وی کم دیکھنے کی سفارش بھی کرتا ہے۔‏ وہ کہتا ہے کہ ”‏جب آپ ٹی‌وی دیکھتے ہیں تو آپکا دماغ سُست ہو جاتا ہے۔‏“‏ اخبار سن مزید بیان کرتا ہے کہ صحتمند دماغ کو صحتمند شریانوں کے ذریعے آکسیجن حاصل کرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔‏ لہٰذا،‏ ورزش اور مناسب خوراک جیسی جو چیزیں عارضۂ‌قلب اور ذیابیطس میں معاون ہیں وہی دماغ کیلئے بھی مفید ہیں۔‏

ہاتھی ”‏اپنے دوستوں کو کبھی نہیں بھولتے“‏

نیو سائنٹسٹ میگزین بیان کرتا ہے:‏ ”‏ہاتھی کبھی کچھ—‏یا کم‌ازکم اپنے دوستوں کو—‏نہیں بھولتے۔‏“‏ یونیورسٹی آف سیوسک،‏ انگلینڈ کی ڈاکٹر کیرن میک‌کومب نے امبوسیلی نیشنل پارک،‏ کینیا میں مادہ افریقی ہاتھیوں کی مدھم آوازیں ریکارڈ کر لیں اور پھر یہ دیکھا کہ کونسے ہاتھی اکثروبیشتر آپس میں ملتے رہتے ہیں اور کونسے الگ رہتے ہیں۔‏ اس کے بعد اُس نے ہاتھیوں کے طرزِعمل کا جائزہ لینے کے لئے ہاتھیوں کے ۲۷ خاندانوں کو وہ آوازیں سنوائیں۔‏ اگر ہاتھی آواز نکالنے والے کو بخوبی پہچانتے تھے تو وہ بھی آواز نکالتے تھے۔‏ اگر وہ آواز کو کم پہچانتے تھے تو وہ سنتے تو تھے مگر کسی طرح کا ردِعمل ظاہر نہیں کرتے تھے اور غیرمانوس آواز کو سُن کر وہ غصے میں آ جاتے تھے اور دفاعی انداز اختیار کر لیتے تھے۔‏ مضمون بیان کرتا ہے کہ ”‏اُنہوں نے آوازوں کی مدد سے کم‌ازکم ۱۴ مختلف خاندانوں کے ارکان کو پہچان لیا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہر ہاتھی تقریباً ۱۰۰ دوسرے ہاتھیوں کو یاد رکھ سکتا ہے۔‏“‏ ہاتھی انسانوں کو بھی یاد رکھ سکتے ہیں۔‏ انگلینڈ کے برسٹل چڑیاگھر میں ممالیوں کا انچارج جان پیٹرج بیان کرتا ہے کہ ایشیا کے جس ہاتھی کیساتھ اُس نے ۱۸ برس تک کام کِیا تھا وہ تین سال اُس سے علیٰحدہ رہنے کے باوجود اُسے پہچان گیا تھا۔‏

جدید ٹیکنالوجی اور منشیات کے اسمگلر

ایک زمانہ تھا جب کولمبیا میں منشیات کے اسمگلر اپنی منشیات کو ہوائی جہازوں اور بحری جہازوں میں چھپا کر بھیجتے تھے۔‏ تاہم،‏ حال ہی میں حکومتی اہلکار یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اسمگلر نہایت جدید دوہرے فریم والی آب‌دوز بنا رہے تھے جسکا قطر ۱۱ فٹ سے زیادہ تھا اور جس میں ۲۰۰ ٹن کوکین بھری جا سکتی تھی۔‏ شک کی بِنا پر قریب ہی رہنے والے لوگوں نے پولیس کو ”‏بگوٹا کے باہر ایک گودام کی بابت آگاہ کِیا جو اینڈیز سے ۵۰۰،‏۷ فٹ اُونچا اور کسی بھی بندرگاہ سے ۳۰۰ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے،‏“‏ دی نیو یارک ٹائمز بیان کرتا ہے۔‏ ”‏یہ ۱۰۰ فٹ لمبی آب‌دوز سمندر پار کرنے کے بعد میامی یا کسی بھی دوسرے ساحلی شہر میں پانی سے اُوپر آکر وہاں خفیہ طور پر اپنی ساری منشیات اُتار سکتی تھی۔‏“‏ اُس جگہ پر کوئی موجود نہ ہونے کی وجہ سے کوئی گرفتاری عمل میں نہ آئی لیکن خیال ہے کہ روسی اور امریکی جرائم پیشہ لوگ اور ایک ماہر آب‌دوز انجینیئر اس میں ملوث ہیں۔‏ افسران کا کہنا ہے کہ ٹریلروں کے ذریعے پوری آب‌دوز کو تین حصوں میں ساحل پر منتقل کِیا جا سکتا تھا۔‏ اُنہوں نے اس بات پر سخت تشویش کا اظہار کِیا کہ منشیات کا ناجائز کاروبار کرنے والے اپنی اشیا کو برآمد کرنے کے لئے کس حد تک جا سکتے ہیں۔‏

ڈی‌ایم‌زیڈ میں افزائشِ‌حیوانات

‏”‏سن ۱۹۵۳ میں کوریا کی جنگ کے اختتام پر ڈی‌ایم‌زیڈ [‏غیرفوجی علاقہ]‏ قائم کِیا گیا تھا۔‏ اُس وقت سے لیکر اسکے تحفظ پر مامور عملے نے اس علاقے اور اسکے گردونواح کے قدرتی ماحول کی کوئی دیکھ‌بھال نہیں کی،‏“‏ دی وال سٹریٹ جرنل بیان کرتا ہے۔‏ ”‏اگرچہ معاشی ترقی کی وجہ سے شمالی اور جنوبی کوریا کے بیشتر علاقے جانوروں اور پرندوں کیلئے غیرموزوں ہو گئے ہیں توبھی یہ جزیرہ‌نما سرحدی علاقہ ان کے لئے نہایت اہم پناہ‌گاہ بن گیا ہے۔‏“‏ کمیاب اور معدومیت کے خطرے سے دوچار پرندے اور جانور یہاں رہتے ہیں۔‏ خیال ہے کہ یہاں شیر اور چیتے بھی پائے جاتے ہیں۔‏ ماہرِماحولیات اب فکرمند ہیں کہ شمالی اور جنوبی کوریا کے مابین حالیہ امن سمجھوتے کی کاوشیں ڈی‌ایم‌زیڈ،‏ جانوروں کے اس بسیرے کو ختم کر سکتی ہیں۔‏ لہٰذا وہ یہ درخواست کر رہے ہیں کہ یہاں کی جنگلی حیات کو بچانے اور دونوں اطراف کے جانوروں کو افزائشِ‌نسل کا موقع دینے کی غرض سے ”‏دونوں سرحدوں کیساتھ ’‏امن پارک‘‏“‏ بنایا جائے۔‏ جرنل بیان کرتا ہے:‏ ”‏ماہرِماحولیات اس وجہ سے مطمئن ہیں کہ جسطرح سردمہری میں کمی عرصۂ‌دراز سے جدا خاندانی افراد کو ایک دوسرے کے قریب لے آئی ہے ویسے ہی امن ان جانوروں کو اکٹھا کر سکتا ہے۔‏“‏

کھانے کے پریشان‌کُن وقفے

لندن کا فائننشل ٹائمز رپورٹ پیش کرتا ہے،‏ ”‏جاریت‌پسند برطانوی طبقے میں دوپہر کے کھانے کا وقفہ کمزور لوگوں کے لئے خیال کِیا جاتا ہے کیونکہ کام کے دیوانے ملازمین دوپہر کے وقت کھانا کھانے کی نسبت اپنے میز پر بیٹھے بیٹھے ایک سینڈوچ کھا لینا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔‏“‏ حالیہ تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ برطانیہ میں ”‏کھانے کا وقفہ“‏ اب اوسطاً ۳۶ منٹ کا ہے۔‏ طبّی ماہرین کا کہنا ہے کہ دوپہر میں کھانے کا وقفہ دباؤ کو کم کرتا ہے۔‏ مگر بعض مالک کھانے کے وقفے کے دوران میٹنگ رکھ لیتے ہیں اور یوں ملازمین کو کوئی وقفہ نہیں ملتا۔‏ رپورٹ تیار کرنے والی ریسرچ آرگنائزیشن،‏ ڈیٹامانیٹر بیان کرتی ہے:‏ ”‏ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہوتے ہوئے جو اپنے ملازمین سے زیادہ کام کا تقاضا کرتا اور وقت کو انتہائی قیمتی چیز خیال کرتا ہے،‏ بیشتر لوگوں کے لئے کھانے کا وقفہ دراصل ایندھن ڈلوانے کے لئے رُکنے کے مترادف ہے۔‏“‏ ڈیٹامانیٹر کی تجزیہ‌نگار سائرہ ننی مزید بیان کرتی ہے:‏ ”‏ہمارا مقابلہ عالمی منڈی کے ساتھ ہے۔‏ اب یہ کہنے کا وقت نہیں کہ ’‏مَیں یہ کام بعد میں کر لونگا۔‏‘‏ ہر کام اُس کے مقررہ وقت پر ہونا ضروری ہے۔‏“‏

میکسیکو میں تمباکونوشی کی عادت

میکسیکو میں تمباکونوشی کی روک‌تھام کے حالیہ پروگرام کے ایک حصے میں نیشنل سیکرٹری آف ہیلتھ،‏ جوسے اینٹونیو گونزالز فرنانڈس نے بیان کِیا کہ میکسیکو کے ۷.‏۲۷ فیصد باشندے تمباکونوشی کرتے ہیں۔‏ تشویش کی بات یہ ہے کہ اندازً ایک ملین تمباکونوش ۱۲ سے ۱۷ سال کے ہیں۔‏ مسٹر گونزالز نے بیان کِیا کہ ہر روز تقریباً ۱۲۲ اموات کا تعلق تمباکونوشی سے ہوتا ہے۔‏ وہ افسوس سے کہتا ہے کہ ”‏اس کی وجہ سے قوم کی معاشی ترقی کو درپیش سب سے بڑا خطرہ،‏ نتیجہ‌خیز انسانی زندگی کے ایّام میں کمی .‏ .‏ .‏ اور وہ تکلیف ہے جو ہمیں اپنے اردگرد سگریٹ‌نوشی کرنے والوں کی وجہ سے برداشت کرنی پڑتی ہے۔‏“‏

روحانی ضرورت پوری کرنا؟‏

خوداعتمادی،‏ مثبت سوچ اور ذاتی کامیابی کا چرچا کرنے والے خودساختہ گروؤں کی مقبولیت میں اضافہ درحقیقت ”‏باضابطہ مذہب سے دُور لوگوں کے رُجحان سے وابستہ ہے،‏“‏ کینیڈا کا گلوب اینڈ میل اخبار بیان کرتا ہے۔‏ ”‏روحانیت میں دلچسپی تو بڑی حد تک برقرار ہے مگر اسکی روایتی جڑیں کھوکھلی ہو رہی ہیں۔‏“‏ تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ اگرچہ ۸۰ فیصد کینیڈین خدا پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر اُن میں سے مسیحیت کا دعویٰ کرنے والے ۲۲ فیصد کسی چرچ کی تعلیمات کی بجائے اپنے ذاتی اعتقادات کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔‏ اخبار گلوب بیان کرتا ہے کہ اپنی مدد آپ کے ذریعے حاصل ہونے والی روحانیت محض ”‏ایک ایسی چیز ہے جو آپکو ذاتی کامرانیوں کی راہ پر گامزن رہنے کیلئے ازسرِنو طاقت بخشتی ہے۔‏“‏