مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

دہشت‌گردی کے خطرے کا سامنا کرنا

دہشت‌گردی کے خطرے کا سامنا کرنا

دہشت‌گردی کے خطرے کا سامنا کرنا

بعض لوگوں کو ۱۹۸۰ کی دہائی کے آخر میں دہشت‌گردی بالکل ختم ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔‏ تاہم،‏ اب دہشت‌گردی بالکل نئے انداز میں منظرِعام پر آئی ہے۔‏ آجکل دہشت‌گردی کی پُشت پر ایسے انتہاپسند ہیں جو منشیات کے غیرقانونی کاروبار،‏ نجی کاروبار،‏ ذاتی مال‌ومتاع،‏ خیراتی اداروں اور مقامی مالی معاونت کے توسط سے اپنے گروہوں کی کفالت کرتے ہیں۔‏ یہ لوگ ہمیشہ بےرحمی کا ثبوت دیتے ہیں۔‏

حالیہ برسوں کے دوران دہشت‌گردی میں بےحسی کا رُجحان بڑھ گیا ہے۔‏ نیو یارک شہر میں عالمی تجارتی مرکز میں ہونے والے بم دھماکے سے ۶ لوگ ہلاک اور تقریباً ۰۰۰،‏۱ زخمی ہوئے۔‏ ایک مذہبی گروہ نے ٹوکیو کی زمین‌دوز ریل‌گاڑی میں سارن اعصابی گیس چھوڑ دی جس سے ۱۲ ہلاک اور ۰۰۰،‏۵ سے زیادہ زخمی ہو گئے۔‏ ایک دہشت‌گرد نے ٹرک میں بم چھپاکر اوکلاہوما سٹی کی ایک وفاقی عمارت میں دھماکا کر دیا جس سے ۱۶۸ لوگ ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔‏ صفحہ ۴ اور ۵ کے چارٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مختلف اقسام کی دہشت‌گردی تاحال جاری ہے۔‏

عام طور پر،‏ دیکھنے میں آیا ہے کہ دہشت‌گرد جیسے ماضی میں ضبطِ‌نفس کا مظاہرہ کرتے تھے آجکل بالکل ایسا نہیں کرتے۔‏ سن ۱۹۹۵ میں اوکلاہوما سٹی کی وفاقی عمارت کو بم سے اُڑا دینے والے مجرم نے کہا کہ وہ محض توجہ حاصل کرنے کی غرض سے ”‏قتلِ‌عام“‏ کرتا تھا۔‏ سن ۱۹۹۳ میں نیو یارک شہر کے عالمی تجارتی مرکز میں بم دھماکا کرنے والے گروپ کا لیڈر ایک عمارت کو دوسری پر گِرا کر دونوں عمارتوں میں موجود تمام لوگوں کو ختم کرنا چاہتا تھا۔‏

اس کیساتھ ساتھ دہشت‌گردوں کے استعمال میں آنے والے ہتھیاروں کا انتخاب بھی بدل گیا ہے۔‏ دہشت‌گردی کے ایک محقق،‏ لوئس آر.‏ مزل جونیئر نے بیان کِیا:‏ ”‏ہم تباہ‌کُن نیوکلیائی،‏ کیمیائی اور حیاتیاتی اسلحے اور غیظ‌وغضب کے ناقابلِ‌یقین دَور میں رہتے ہیں۔‏“‏ بھاری نقصان کے خواہاں انتہاپسند جدید ٹیکنالوجی کے فراہم‌کردہ زیادہ مُہلک ہتھیار استعمال کرنے کی طرف مائل ہیں۔‏

کمپیوٹر کے ذریعے حملہ

کمپیوٹر پر دہشت‌گردی میں جدید ٹیکنالوجی کا خاصا عمل‌دخل ہے۔‏ ایک ہتھیار کمپیوٹر وائرس ہے جو ڈیٹا یا پورے نظام کو خراب کر دیتا ہے۔‏ اس کے علاوہ ”‏لوجک بم“‏ بھی ہیں جو کمپیوٹروں سے ایسے کام کرواتے ہیں جو دراصل وہ نہیں کر سکتے اور یوں اُن کی کارکردگی کو ناقص بنا دیتے ہیں۔‏ اگرچہ قوموں کی معیشت اور سلامتی کا انحصار بڑی حد تک انفارمیشن نیٹ‌ورک پر ہے توبھی بیشتر کا خیال ہے کہ عوام دہشت‌گردوں کے ایسے حملوں کا آسانی سے نشانہ بن گئے ہیں۔‏ اس کے علاوہ چونکہ بیشتر افواج نیوکلیئر جنگ کے دوران بھی اپنا مواصلاتی نظام درست رکھتی ہیں اسلئے زیادہ‌تر شہری نظام—‏بجلی کی دستیابی،‏ آمدورفت اور مالی نظام—‏ہی تباہی کی لپیٹ میں آتا ہے۔‏

مثال کے طور پر،‏ چند سال پہلے اگر ایک دہشت‌گرد سارے برلن شہر کی بجلی بند کرنا چاہتا تو اُسے برقی نظام کو تباہ کرنے کے لئے الیکٹرک کمپنی میں ملازمت اختیار کرنی پڑتی۔‏ مگر اب بعض کا کہنا ہے کہ کوئی ماہر کمپیوٹر پروگرامر دُنیا کے کسی بھی گوشے میں اپنے گھر میں بیٹھےبیٹھے اس پورے شہر کو تاریک کر سکتا ہے۔‏

چند سال پہلے سویڈن کے ایک شخص نے فلوریڈا کے کمپیوٹر نظام میں داخل ہو کر ایمرجنسی سروس سسٹم کو ایک گھنٹے کے لئے درہم‌برہم کر دیا جس سے پولیس،‏ آگ بجھانے اور ایمبولینس کی خدمات حاصل نہ ہو سکیں۔‏

انفارمیشن وارفیر ٹاسک فورس آف دی سینٹر فار سٹرےٹی‌جک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز (‏سی‌ایس‌آئی‌ایس)‏ کے ڈائریکٹر فرینک جے.‏ چلوفو نے بیان کِیا:‏ ”‏المختصر ہم نے ایک ایسی دُنیا تشکیل دی ہے جس میں پولیس کا شعبہ نہیں ہے۔‏“‏ اس کے علاوہ،‏ سی‌ایس‌آئی‌ایس کے سینیئر ایڈوائزر رابرٹ کوپرمین نے ۱۹۹۷ میں بیان کِیا کہ اگر دہشت‌گرد اعلیٰ ٹیکنالوجی استعمال کرنے کا انتخاب کرتے ہیں تو ”‏اس وقت کوئی بھی سرکاری ایجنسی اُنکے حملے کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔‏“‏

بعض تجزیہ‌نگاروں کا خیال ہے کہ کمپیوٹر دہشت‌گردوں کے پاس سیکیورٹی فورسز کے ہر طرح کے حفاظتی آلات کو ناکارہ بنانے کے جدید طریقے موجود ہیں۔‏ یو.‏ایس.‏ سنٹرل انٹیلی‌جنس ایجنسی کے ڈائریکٹر جارج ٹی‌نٹ نے بیان کِیا:‏ ”‏صحیح وائرس منتقل کرنے یا صحیح کمپیوٹر ٹرمینل تک رسائی کرنے کی صلاحیت رکھنے والا کوئی بھی دُشمن بہت زیادہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔‏“‏

کیمیکلز اور جراثیم کے ذریعے دہشت‌گردی

کیمیائی اور حیاتیاتی اسلحے کا استعمال بھی تشویشناک ہے۔‏ سن ۱۹۹۵ کے اوائل میں ٹوکیو کے زمین‌دوز ریلوے نظام پر زہریلی گیس کیساتھ دہشت‌گردوں کے حملے نے دُنیا کو حواس‌باختہ کر دیا تھا۔‏ اس واقعہ کا ذمہ‌دار ایک ایسے گروہ کو قرار دیا گیا جو اس دُنیا کی حتمی تباہی کی منادی کرتا ہے۔‏

انسٹیٹیوٹ فار ڈیفنس اینالےسس کا بریڈ رابرٹ کہتا ہے:‏ ”‏دہشت‌گردی بدل گئی ہے۔‏ روایتی دہشت‌گرد سیاسی مراعات چاہتے تھے۔‏ لیکن اب بعض گروہوں کا کہنا ہے کہ اُنکا بنیادی مقصد قتل‌وغارت ہے۔‏ اس وجہ سے حیاتیاتی اسلحہ دہشت‌گردوں کو زیادہ پسند آتا ہے۔‏“‏ کیا ایسا اسلحہ حاصل کرنا مشکل ہے؟‏ میگزین سائنٹیفک امریکن بیان کرتا ہے:‏ ”‏ایک شخص اپنی ذات کو نقصان پہنچائے بغیر کھربوں بیکٹیریا تیار کر سکتا ہے جس کیلئے اُسے صرف بیئر میں تخمیر پیدا کرنے والے سادہ سازوسامان سے بھی زیادہ سادہ آلات اور بیکٹیریا کی افزائش کیلئے درکار لحمیات،‏ ایک گیس ماسک اور پلاسٹک کے لباس کی ضرورت ہوتی ہے۔‏“‏ جراثیم کی تیاری کے بعد اُنکی منتقلی کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوتی۔‏ جب کوئی جراثیمی ہتھیار استعمال کِیا جاتا ہے تو متاثرین کو اسکے اثرات کا فوراً ہی نہیں بلکہ ایک یا دو دن بعد پتہ چلتا ہے۔‏ لیکن اُس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔‏

عموماً این‌تھریکس کو حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کِیا جاتا ہے۔‏ اس بیماری کا نام کوئلے کیلئے استعمال ہونے والے یونانی لفظ سے لیا گیا ہے۔‏ یہ لفظ اُن لوگوں کی جِلد کے زخموں پر آنے والے سیاہ کھرنڈ کی طرف اشارہ کرتا جو کسی نہ کسی طرح این‌تھریکس میں مبتلا مویشیوں سے یہ بیماری اُٹھا لیتے ہیں۔‏ دفاعی منصوبہ‌سازی کرنے والا عملہ پھیپھڑوں کے انفیکشن کیلئے زیادہ فکرمند ہے جو این‌تھریکس بیکٹیریا کی موجودگی میں سانس لینے سے لگتا ہے۔‏ انسانوں میں،‏ این‌تھریکس انفیکشن کی وجہ سے اموات کی شرح بہت زیادہ ہے۔‏

این‌تھریکس اسقدر مؤثر حیاتیاتی ہتھیار کیوں ہے؟‏ اسلئےکہ اسکا بیکٹیریا تیار کرنا بہت آسان ہے مگر اسے ختم کرنا بہت مشکل ہے۔‏ کئی دن گزر جانے کے بعد مریض کو اسکی ابتدائی علامت،‏ فلو جیسی بےچینی اور تھکن کا احساس ہوتا ہے۔‏ اس کے بعد کھانسی اور سینے میں معمولی سی تکلیف شروع ہوتی ہے۔‏ بعدازاں سانس لینے میں سخت تکلیف اور شدید دباؤ محسوس ہوتا ہے اور پھر چند ہی گھنٹوں میں موت واقع ہو جاتی ہے۔‏

دہشت‌گردوں کے ہاتھ میں نیوکلیئر اسلحہ؟‏

سویت یونین کی شکست‌وریخت کے بعد بعض لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ آیا نیوکلیئر اسلحے کی غیرقانونی خریدوفروخت ہوگی یا نہیں۔‏ تاہم،‏ بیشتر ماہرین کا خیال تھا کہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔‏ مسبوق‌الذکر رابرٹ کوپرمین بیان کرتا ہے کہ ”‏اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ کسی دہشت‌گرد گروہ نے نیوکلیئر اسلحہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔‏“‏

اس سے بھی زیادہ تشویش کا باعث نیوکلیئر بم سے تعلق رکھنے والا خاموش مگر مُہلک تابکاری مادّہ ہے۔‏ یہ دھماکاخیز نہیں ہے اور نہ ہی آگ لگاتا ہے۔‏ بلکہ یہ ایسی شعاعیں خارج کرتا ہے جو انسانی خلیوں کو تباہ کر دیتی ہیں۔‏ بالخصوص یہ ہڈی کے گودے میں پائے جانے والے خلیوں کو متاثر کرتا ہے۔‏ خلیوں کا خاتمہ مختلف اثرات مرتب کرتا ہے جن میں سیلانِ‌خون اور مدافعتی نظام کی خرابی شامل ہے۔‏ کیمیائی اسلحے کے برعکس جسکا اثر آکسیجن اور نمی کی صورت میں کم ہونے لگتا ہے،‏ تابکاری مادّہ سالوں تک نقصان پہنچا سکتا ہے۔‏

جنوب وسطی برازیل کے شہر گیانا میں پیش آنے والا ایک حادثہ ظاہر کرتا ہے کہ تابکاری شعاعیں کتنی مُہلک ہو سکتی ہیں۔‏ سن ۱۹۸۷ میں ایک عام شخص نے مسترد طبّی آلات سے جڑے ہوئے سیسے کے ایک ڈبے کو کھول دیا۔‏ اس ڈبے میں سیزیم ۱۳۷ بھری ہوئی تھی۔‏ پتھر کی خوبصورت نیلی روشنی سے محظوظ ہوتے ہوئے اُس نے اسے اپنے دوستوں کو بھی دکھایا۔‏ ایک ہفتے کے اندر اندر اس سے متاثرہ لوگ مقامی ہیلتھ کلینک میں آنا شروع ہو گئے۔‏ ہزاروں کا معائنہ کِیا گیا کہ کہیں وہ بھی اس سے متاثر تو نہیں ہیں۔‏ تقریباً ایک سو لوگ بیمار ہو گئے۔‏ پچاس کو ہسپتال داخل کرنا پڑا اور چار مر گئے۔‏ دہشت‌گردی کی روک‌تھام کرنے والے ماہرین یہ سوچ کر خوفزدہ ہیں کہ اگر سیزیم کو جان‌بوجھ کر پھیلا دیا جاتا تو کتنا بڑا نقصان ہو سکتا تھا۔‏

دہشت‌گردی کی بھاری قیمت

افسوس کی بات ہے کہ دہشت‌گردی کے باعث سب سے زیادہ جانی نقصان ہوتا ہے۔‏ تاہم،‏ اس سے اَور بھی بہت نقصان ہوتا ہے۔‏ دہشت‌گردی دُنیا میں ابتری کا شکار علاقوں میں امن قائم کرنے کی کاوشوں کو ختم کر سکتی یا پھر اسے التوا میں ڈال سکتی ہے۔‏ یہ فسادات کو نہ صرف ہوا دیتی ہے بلکہ انہیں مسلسل جاری رکھتے ہوئے تشدد میں تیزی بھی برپا کرتی ہے۔‏

دہشت‌گردی قومی معیشت کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔‏ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے حکومتیں کثیر وقت اور وسائل استعمال کرنے پر مجبور ہو گئی ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ صرف ریاستہائےمتحدہ ہی میں،‏ سن ۲۰۰۰ میں دہشت‌گردی کی روک‌تھام کیلئے دس بلین سے زائد ڈالر کا بجٹ تیار کِیا گیا تھا۔‏

خواہ ہم اس سے واقف ہیں یا نہیں،‏ دہشت‌گردی ہم سب پر اثرانداز ہوتی ہے۔‏ یہ ہمارے سفر اور سفر کے دوران ہمارے انتخابات کو متاثر کرتی ہے۔‏ یہ دُنیابھر میں حکومتوں کو اپنے ٹیکس کی بڑی رقم ممتاز شخصیات،‏ اہم تنصیبات اور شہریوں کے تحفظ کیلئے خرچ کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔‏

پس یہ سوال ابھی باقی ہے،‏ کیا دہشت‌گردی کے مسئلے کا کوئی دائمی حل ہے؟‏ اس پر اگلے مضمون میں بات‌چیت کی جائیگی۔‏

‏[‏صفحہ ۷ پر بکس/‏تصویر]‏

ماحولیات کے نام پر دہشت‌گردی

آریگونین اخبار بیان کرتا ہے کہ ”‏جانوروں اور اُن کے ماحول کو بچانے کے بہانے آتش‌زنی،‏ بم دھماکوں اور توڑپھوڑ“‏ نے ایک نئی قسم کی دہشت پیدا کر دی ہے۔‏ اِن تباہ‌کُن کاموں کو ماحولیاتی دہشت‌گردی کا نام دیا گیا ہے۔‏ سن ۱۹۸۰ سے اس قسم کے کم‌ازکم ایک سو بڑے بڑے واقعات مغربی ریاستہائےمتحدہ میں رونما ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے ۸.‏۴۲ ملین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔‏ ایسے جرائم کا خاص مقصد جنگلات کی کٹائی،‏ سیروتفریح کے لئے جنگلات کا استعمال نیز اُون،‏ خوراک یا تحقیق کی خاطر جانوروں کے استعمال کو روکنا ہے۔‏

اِن کارگزاریوں کو دہشت‌گردی خیال کِیا جاتا ہے کیونکہ ان میں انسان کے طرزِعمل،‏ نظام یا عوامی پالیسیوں کو تبدیل کرنے کی غرض سے تشدد کرنا شامل ہے۔‏ ماحولیاتی دہشت‌گرد اکثر رات کو دُوردراز کے علاقوں پر حملہ کرنے اور اپنے پیچھے تباہی کے علاوہ کوئی نشان نہ چھوڑنے سے تفتیش کرنے والوں کو ہراساں کر دیتے ہیں۔‏ کچھ عرصہ پہلے تک ماحولیاتی تحفظ کے نام پر جرم کا اثر محدود اور بہت ہی کم توجہ کا حامل تھا۔‏ مگر حالیہ برسوں میں اِن واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے۔‏ یو.‏ایس.‏ فارسٹ سروس کا تجربہ‌کار محقق،‏ خاص ایجنٹ جیمز این.‏ ڈمی‌شیو بیان کرتا ہے:‏ ”‏اِن لوگوں کا نصب‌اُلعین تبدیلی لانے کے مقصد پر توجہ دلانا ہے۔‏ لہٰذا،‏ جب وہ محسوس کرتے ہیں کہ اُنہیں توجہ نہیں دی جا رہی تو وہ کوئی اَور طریقہ استعمال کرتے ہیں۔‏“‏

‏[‏صفحہ ۱۰ پر بکس/‏تصویر]‏

دہشت‌گردی اور میڈیا

تقریباً سات برس تک لبنان میں دہشت‌گردوں کی قید میں رہنے والا ایک صحافی،‏ ٹیری اینڈرسن بیان کرتا ہے کہ ”‏تشہیر اُن لوگوں کا بنیادی ذریعہ اور حربہ ہے جو معصوم عوام میں دہشت پھیلا کر اپنے سیاسی مفادات کو فروغ دینا یا محض بدنظمی برپا کرنا چاہتے ہیں۔‏ سیاسی اغوا،‏ قتل یا خطرناک بم دھماکا کسی دہشت‌گرد کی پہلی فتح ہوتی ہے۔‏ اگر ایسے سفاکانہ کاموں کو عالمی شہرت حاصل نہ ہو تو یہ بےمعنی ہوتے ہیں۔‏“‏

‏[‏صفحہ ۸،‏ ۹ پر تصویریں]‏

۱۔‏ ماسکو،‏ روس میں بم دھماکے سے متاثرہ اشخاص کا خاندان

۲۔‏ نیروبی،‏ کینیا میں ایک کار میں چھپایا گیا بم پھٹنے سے ہونے والی تباہی

۳۔‏ نسل‌پرست دہشت‌گردوں نے کولمبو،‏ سری لنکا کے ایک بینک کو بم سے اُڑا دیا

۴۔‏ یروشلیم،‏ اسرائیل میں بم دھماکا جس میں دھماکا کرنے والا خود بھی ہلاک ہو گیا

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Heidi Levine/Sipa Press

A. Lokuhapuarachchi/Sipa Press

AP Photo/Sayyid Azim

Izvestia/Sipa Press