خدا کے نام نے میری زندگی بدل دی!
خدا کے نام نے میری زندگی بدل دی!
سینڈی یازی ڈزوزے کی زبانی
جب مورمنوں نے ہمارے دروازے پر دستک دی تو مَیں اور میری بہنیں چھپنے کی غرض سے پلنگ کے نیچے گھس گئیں اور ہنسیمذاق سے ایکدوسرے کو مارنے لگیں۔ * آخرکار مَیں نے دروازہ کھولا اور بڑی گستاخی سے اُنہیں جواب دیا کہ ہم کٹر ناواجو ہیں اور سفیدفاموں کے مذہب کی بابت کچھ نہیں سننا چاہتے۔
ہمارے والدین سوداسلف خریدنے کیلئے بازار گئے ہوئے تھے۔ اُنہوں نے شام تک لوٹنا تھا۔ جب وہ واپس آئے تو انہیں معلوم ہوا کہ مَیں مورمنوں کیساتھ گستاخی سے پیش آئی تھی۔ اُنہوں نے مجھے دوبارہ کبھی کسی سے گستاخی نہ کرنے کی نصیحت کی۔ ہمیں سکھایا گیا تھا کہ ہم لوگوں کیساتھ احترام اور مہربانی سے پیش آئیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ کوئی غیرمتوقع مہمان ہمارے گھر آیا گیا۔ اس روز میرے والدین نے کھانا باہر پکایا تھا۔ اُنہوں نے مہماننوازی کے اظہار میں اسے پہلے کھانے کی دعوت دی اور بعدازاں ہم سب نے کھانا کھایا۔
سرکاری بستی میں زندگی
ہم گنجانآباد شہروں اور قصبوں سے دُور، ہوپی انڈین ریزرویشن (ایک سرکاری بستی) کے نو میل شمالمغرب میں ہاؤیل میسا، ایریزونا میں رہتے تھے۔ ریاستہائےمتحدہ کے جنوبمغرب میں واقع یہ علاقہ ایک قابلِدید ریگستانی منظر پیش کرتا ہے جہاں جگہ جگہ لال ریت کے منفرد پتھر بھی دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں بہت سے ٹیلے بھی ہیں جہاں سے ہم پانچ میل دور تک اپنی بھیڑوں کو چرتے ہوئے دیکھ سکتے تھے۔ مجھے اپنے وطن کے پُرسکون ماحول سے بیحد محبت تھی!
ہائی سکول کے دوران مَیں اپنے رشتہداروں سے بہت گھلمل گئی جو امریکن انڈین موومنٹ (اےآئیایم) کے حامی تھے۔ * مجھے اپنے امریکی انڈین ہونے پر فخر تھا اور مَیں سفیدفاموں کے سامنے کئی عشروں پر محیط اُن مظالم کے خلاف احتجاج کرنے سے بھی خائف نہیں تھی جو میرے خیال میں بیورو آف انڈین افیرز (بیآئیاے) کی شہ پر ڈھائے گئے تھے۔ اپنے رشتہداروں کے برعکس، مَیں نے اپنی نفرت کا اظہار سرِعام کبھی نہیں کِیا تھا۔ یہ راز مَیں نے اپنے دل میں ہی چھپا رکھا تھا۔ اسی وجہ سے مَیں ہر اُس شخص سے نفرت کرنے لگی جس کے پاس بائبل ہوتی تھی۔
مَیں یہ سوچتی تھی کہ بائبل ہی کی وجہ سے سفیدفام ہماری زمین، حقوق اور مذہبی اعتقادات کی آزادی چھیننے کے قابل ہیں! بورڈنگ سکول کے زمانے میں جب چرچ جانے کیلئے ہمیں مجبور کِیا جاتا تھا تو مَیں نے پروٹسٹنٹ اور کیتھولک مذہبی رسومات میں شرکت سے مستثنیٰ قرار پانے کی درخواست پر اپنے والد کے جعلی دستخط بھی کئے تھے۔ ان سکولوں کا مقصد ہمیں معاشرے کے مطابق ڈھالنا اور اپنے آبائی ورثے سے دُور کرنا تھا۔ ہمیں اپنی زبان بولنے کی بھی اجازت نہیں تھی!
ہم اپنے قدرتی ماحول کیلئے بھی گہرا احترام رکھتے تھے۔ ہر صبح ہم مشرق * مَیں نے ناواجو طریقے سے اسی طرح پرستش کرنے کی تربیت پائی تھی جسے مَیں نے بڑے فخر کیساتھ پورے دل سے قبول کِیا تھا۔ آسمان پر جانے کی بابت دُنیائےمسیحیت کا نظریہ مجھے بالکل پسند نہیں تھا اور نہ ہی مَیں دوزخ میں عذاب پر یقین رکھتی تھی۔ مَیں زمین پر زندہ رہنا چاہتی تھی۔
کی جانب رُخ کرکے دُعا کرتے تھے اور امریکی مُقدس مکئی کے بیج شکرگزاری کے طور پر چھڑکتے تھے۔مَیں سکول کی چھٹیوں میں اپنے پُرمحبت خاندان کیساتھ نہایت خوشگوار وقت گزارتی تھی۔ ناواجو میں اپنے گھر—ہوگن—کی صفائی، کپڑے بُننا اور بھیڑوں کی دیکھبھال کرنا میرا روزمرّہ کا کام تھا۔ صدیوں سے ہم ناواجو لوگوں کا پیشہ گلّہبانی ہے۔ جب بھی مَیں اپنے ہوگن (نیچے تصویر دیکھیں) کی صفائی کرتی تو مجھے ایک لال رنگ کی چھوٹی سی کتاب نظر آتی جو بائبل کی زبور کی کتاب اور ”نئے عہدنامے“ کی کئی دیگر کتابوں پر مشتمل تھی۔ مَیں اسکے مواد یا مفہوم پر کوئی توجہ نہ دیتے ہوئے اسے ٹھوکر مار کر اِدھراُدھر کر دیتی تھی۔ لیکن مَیں اس سے کبھی چھٹکارا حاصل نہ کر سکی۔
شادی—فریب اور حقیقت
ہائی سکول سے فارغ ہونے کے بعد مَیں نے نیو میکسیکو، البرکرکی کے صنعتی سکول میں داخلہ لینے کا منصوبہ بنایا۔ تاہم، وہاں جانے سے پہلے میری ملاقات اُس شخص سے ہوئی جو بعدازاں میرا شریکِحیات بنا۔ ہم ناواجو کی سرکاری بستی کو ریز کہتے ہیں جہاں مَیں شادی کیلئے لوٹ آئی۔ میرے والدین کئی سالوں سے ازدواجی رشتے میں بندھے ہوئے تھے۔ مَیں اُنکے نقشِقدم پر چلنا چاہتی تھی لہٰذا مَیں نے بھی شادی کر لی۔ مجھے گھرگِرستی کا بہت شوق تھا۔ خاص طور پر ہمارے بیٹے لائنل کی پیدائش کے بعد تو مَیں اپنی گھریلو زندگی سے بہت لطفاندوز ہوتی تھی۔ مَیں اور میرا شوہر بہت خوش تھے مگر ایک دن میں نے نہایت صدمہخیز خبر سنی!
میرے شوہر کے کسی دوسری عورت کے ساتھ بھی تعلقات تھے! اُس کی بیوفائی نے ہمارے ازدواجی بندھن کو برباد کر دیا۔ مَیں جذباتی تناؤ کا شکار ہو گئی اور اُس سے نفرت کرنے لگی۔ مَیں بدلہ لینا چاہتی تھی! تاہم، ہماری طلاق اور ہمارے بیٹے اور مالی معاملات پر مقدموں نے مجھے آزردہ کر دیا جس سے مَیں نااہلیت اور نااُمیدی کے احساس میں مبتلا ہو گئی۔ اپنے دُکھ کو کم کرنے کیلئے مَیں میلوں دوڑتی تھی۔ مَیں معمولی سی بات پر رو پڑتی اور مجھے بھوک بھی نہیں لگتی تھی۔ مَیں بالکل تنہا محسوس کرنے لگی۔
کچھ عرصے بعد، مَیں نے ایک ایسے شخص سے رشتہ جوڑ لیا جو بالکل میرے جیسے ازدواجی مسائل کا شکار تھا۔ ہم دونوں کے جذبات مجروح ہوئے تھے۔ وہ میرے ساتھ ہمدردی سے پیش آیا اور مجھے درکار جذباتی مدد پیش کی۔ مَیں نے اُسکے سامنے زندگی کی بابت اپنے دلی خیالات اور جذبات کا اظہار کِیا۔ اُس نے میری باتوں پر توجہ دی جس سے مجھے احساس ہوا کہ وہ میری فکر رکھتا ہے۔ ہم نے شادی کا منصوبہ بنایا۔
تاہم، مجھے پتہ چلا کہ وہ بھی بیوفا ہے! اگرچہ میرے لئے ایسا کرنا بڑا مشکل اور تکلیفدہ تھا توبھی مَیں نے اُس سے رشتہ توڑ دیا۔ مَیں نے محسوس کِیا کہ مجھے ٹھکرایا گیا ہے اور مَیں شدید افسردگی کا شکار ہو گئی۔ مجھ مَیں شدید غصے، انتقام اور
خودکشی کے رُجحانات پیدا ہو گئے۔ مَیں نے دو بار اپنی زندگی ختم کرنے کی کوشش کی۔ مَیں مرنا چاہتی تھی۔سچے خدا کا مبہم تصور
مَیں نے اُس خدا کے حضور آنسو بہا بہا کر دُعا مانگی جسے مَیں نہیں جانتی تھی۔ تاہم، مجھے یقین تھا کہ اس مہیب کائنات کو خلق کرنے والی کوئی اعلیٰ ہستی ضرور موجود ہے۔ مجھے غروبِآفتاب کے خوبصورت مناظر بہت پسند تھے اور مَیں سوچتی تھی کہ وہ ہستی کتنی عظیمالشان ہے جو ہمیں ان عجائب سے محظوظ ہونے کا موقع بخشتی ہے۔ مَیں اُس ہستی سے محبت کرنے لگی جسے مَیں جانتی تک نہیں تھی۔ مَیں اُس سے کہنے لگی: ”اَے خدا، اگر تُو واقعی موجود ہے تو میری مددوراہنمائی کر اور مجھے دوبارہ خوشی عطا کر۔“
اس دوران میرا خاندان خاص طور پر میرا والد میرے لئے بہت پریشان رہنے لگا۔ میرے والدین نے میری صحتیابی کے لئے عاملوں کی خدمات طلب کیں۔ میرے والد نے کہا کہ ایک اچھا عامل کبھی بھی آپ سے پیسوں کا مطالبہ نہیں کرتا اور وہ جو کہتا ہے اُس پر عمل بھی کرتا ہے۔ مَیں نے اپنے والدین کی خوشی کی خاطر برکت کیلئے ناواجو کی مذہبی رسومات میں کئی بار شرکت کی۔
مَیں اپنے پلنگ کے سرہانے فقط ایک ریڈیو رکھ کر ہوگن میں ہی کئی کئی دن تنہا گزار دیتی تھی۔ مَیں نے اُس پادری کی باتیں بڑی حقارت سے سنیں جس نے یسوع کو اپنے دل میں قبول نہ کرنے کی وجہ سے مجھے ملامت کی تھی۔ مَیں بالکل بیزار ہو گئی تھی! سفیدفاموں کے مذہب کیساتھ ساتھ میرا اپنا مذہب بھی میرے لئے وبالِجان بن گیا تھا! مَیں نے اپنے تیئں خدا کو تلاش کرنے کا فیصلہ کِیا۔
ہوگن میں اپنی گوشہنشینی کے دوران مجھے وہ لال رنگ کی چھوٹی کتاب دوبارہ نظر آئی۔ مجھے پتہ چلا کہ وہ بائبل کا حصہ ہے۔ مَیں نے زبور کی کتاب پڑھنے سے بادشاہ داؤد کی تکالیف اور افسردگی کی بابت سیکھا جو میرے لئے تسلیبخش ثابت ہوا۔ (زبور ۳۸:۱-۲۲؛ ۵۱:۱-۱۹) تاہم، تکبّر کی وجہ سے مَیں نے اِن تمام باتوں کو نظرانداز کر دیا۔ مَیں کسی سفیدفام کے مذہب کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھی۔
اپنی افسردگی کے باوجود، مَیں اپنے بیٹے کی اچھی پرورش کر رہی تھی۔ وہ میری حوصلہافزائی کا ذریعہ تھا۔ مَیں ٹیلیویژن پر دُعا کے مذہبی پروگرام دیکھنے لگی۔ مَیں نے فوری مدد کیلئے ٹیلیفون پر مُفت سہولت فراہم کرنے والا نمبر ۸۰۰ ملایا۔ جب مجھے یہ پتہ چلا کہ پہلے مجھے ۵۰ یا ۱۰۰ ڈالر کا چندہ دینے کا وعدہ کرنا ہوگا تو مَیں نے غصے سے فون بند کر دیا!
طلاق کے مقدمے کی کارروائیوں کے دوران اپنے شوہر کو قبائلی جج کے سامنے جھوٹ بولتے دیکھنا مجھے مزید افسردہ کر دیتا تھا۔ اپنے بیٹے کی تحویل پر اختلافات کی وجہ سے ہماری طلاق کی منظوری کو کافی وقت لگا۔ تاہم، مَیں مقدمہ جیت گئی۔ میرے والد نے مقدمے کی ان کارروائیوں کے دوران بڑی شفقت اور خاموشی سے میرا ساتھ دیا۔ وہ جانتا تھا کہ مجھے شدید دُکھ پہنچا ہے۔
گواہوں کیساتھ میری پہلی ملاقات
مَیں نے مستقبل کی بابت فکر کرنا چھوڑ دی۔ ایک بار مَیں نے ایک ناواجو خاندان کو ہمارے پڑوسیوں سے باتچیت کرتے ہوئے دیکھا۔ مَیں چھپ کر اُنہیں دیکھنے لگی۔ یہ لوگ سب کے گھروں میں جا رہے تھے۔ وہ میرے گھر بھی آئے۔ سینڈرا ایک ناواجو تھی جس نے اپنے تعارف میں کہا کہ وہ یہوواہ کی گواہ ہے۔ نام یہوواہ سب سے زیادہ میری توجہ کا مرکز بنا۔ مَیں نے کہا: ”یہوواہ کون ہے؟ لگتا ہے کہ آپ کا مذہب نیا ہے۔ مجھے چرچ میں خدا کا نام کیوں نہیں سکھایا گیا؟“
اُس نے مہربانہ انداز میں اپنی بائبل زبور ۸۳:۱۸ پر کھولی جس میں لکھا ہے: ”تاکہ وہ جان لیں کہ تُو ہی جسکا نام یہوؔواہ ہے تمام زمین پر بلندوبالا ہے۔“ اُس نے وضاحت کی کہ یہ خدا کا ذاتی نام ہے اور یہوواہ کا بیٹا، یسوع مسیح بھی اُس کا گواہ تھا۔ اُس نے مجھے یہوواہ اور یسوع کی بابت سکھانے میں مدد کی پیشکش کی اور مجھے کتاب سچائی جو باعثِابدی زندگی ہے دی۔ * مَیں نے خوشی سے کہا: ”جیہاں۔ مَیں اس نئے مذہب کی بابت جاننا چاہونگی!“
مَیں نے ایک ہی رات میں یہ کتاب پڑھ لی۔ اسکا مواد بالکل نیا اور مختلف تھا۔ اس میں وضاحت کی گئی کہ زندگی کا ایک مقصد ہے اور اپنی زندگی میں دوبارہ دلچسپی پیدا کرنے کیلئے مجھے اسی کی ضرورت تھی۔ مَیں نے بائبل کا مطالعہ شروع کِیا جس سے مجھے اپنے بیشتر سوالات کا جواب ملا جو میرے لئے باعثِمسرت تھا۔ مَیں نے سیکھی ہوئی تمام باتوں پر یقین کِیا۔ یہ معقول تھیں اسلئے انکا سچا ہونا بھی یقینی تھا!
جب لائنل چھ سال کا تھا تو مَیں نے اُسے بھی بائبل سچائی سکھانا شروع کر دی۔ ہم ملکر دُعا کرتے تھے۔ ہم ایک دوسرے کی اس خیال سے حوصلہافزائی
کرتے تھے کہ یہوواہ ہماری فکر کرتا ہے اسلئے ہمیں اُس پر بھروسا رکھنا چاہئے۔ بعضاوقات میری قوتِبرداشت جواب دے جاتی تھی۔ تاہم، میرے گرد اُسکے ننھے بازوؤں اور اُسکے اعتماد اور اِس ہمتافزا بیان سے مجھے بڑی تقویت ملتی کہ ”امی، مت روئیں، یہوواہ ہماری دیکھبھال کریگا۔“ اس سے مجھے بڑی تسلی حاصل ہوتی اور بائبل مطالعہ جاری رکھنے کیلئے میرا عزم اَور مضبوط ہو جاتا تھا! مَیں نے راہنمائی کیلئے دُعا کرنا جاری رکھا۔مسیحی اجلاسوں کا اثر
یہوواہ کے لئے ہماری قدردانی نے ہمیں ٹیوبا شہر میں یہوواہ کے گواہوں کے اجلاسوں پر شرکت کیلئے ۱۵۰ میل کا دو طرفہ سفر طے کرنے کی تحریک دی۔ ہم موسمِگرما کے دوران ہفتے میں دو بار اور سردی کے مہینوں میں خراب موسم کی وجہ سے اتوار کا پورا دن اجلاس پر حاضر ہوتے تھے۔ ایک بار جب ہماری گاڑی خراب ہو گئی تو ہم کسی کی گاڑی میں کنگڈم ہال پہنچے۔ لمبا سفر تھکا دینے والا تھا مگر لائنل کہتا تھا کہ صرف موت ہی ہمیں اجلاسوں سے دُور کر سکتی ہے اور اُس کی اس بات نے میرے ذہن پر یہوواہ کی روحانی ہدایات کو کبھی معمولی خیال نہ کرنے کی اہمیت نقش کر دی۔
اجلاسوں پر جب ہم مصائب سے پاک ہمیشہ کی زندگی کی بابت بادشاہتی گیت گاتے تھے تو میرے آنسو بہنے لگتے تھے۔ مَیں نے یہوواہ کے گواہوں سے تسلی اور حوصلہافزائی حاصل کی تھی۔ وہ مہماننوازی ظاہر کرتے ہوئے ہمیں اپنے گھروں میں دوپہر کے کھانے اور مشروبات کیلئے دعوت دیتے تھے اور ہم اُنکے خاندانی بائبل مطالعوں میں بھی شرکت کرتے تھے۔ وہ ہم میں دلچسپی رکھتے تھے اور توجہ کیساتھ ہماری بات سنتے تھے۔ خاص طور پر بزرگوں نے ہمارے لئے ہمدردی ظاہر کرنے اور ہمارے اس اعتماد کو مضبوط کرنے میں کلیدی کردار ادا کِیا کہ یہوواہ خدا کو ہماری فکر ہے۔ مَیں حقیقی دوست حاصل کرکے بہت خوش تھی۔ اُنکی رفاقت تازگیبخش تھی اور جب مَیں ہمت ہار کر رونے لگتی تو میرے ساتھ اُنکے بھی آنسو بہہ نکلتے تھے۔—متی ۱۱:۲۸-۳۰۔
دو اہم فیصلے
جب مَیں یہوواہ کی فراہمیوں سے اطمینان حاصل کرنے لگی تو اُس وقت میرا بوائےفرینڈ تعلقات بحال کرنے کیلئے میرے پاس واپس آیا۔ مَیں اُس سے اب بھی محبت کرتی تھی اور اُسکی التجا کو ٹھکرا نہ سکی۔ ہم نے شادی کرنے کا منصوبہ بنایا۔ مَیں سمجھتی تھی کہ سچائی اُسے بدل دے گی۔ یہ میری زندگی کی سب سے بڑی بھول تھی! مَیں خوش نہیں تھی۔ میرا ضمیر مجھے سخت ملامت کرتا تھا۔ مجھے اس وقت بڑی مایوسی ہوئی جب اُس نے سچائی قبول نہ کی۔
مَیں نے اس سلسلے میں ایک بزرگ سے بات کی۔ اُس نے صحائف سے استدلال کرتے ہوئے میرے فیصلے کی بابت میرے ساتھ دُعا کی۔ مَیں اس نتیجے پر پہنچی کہ یہوواہ مجھے کبھی نقصان نہیں پہنچائیگا لیکن ناکامل انسانوں سے چاہئے جتنی بھی محبت کریں وہ نقصان پہنچانے سے باز نہیں آتے۔ درحقیقت مَیں یہ سمجھ گئی کہ قانونی اور مذہبی طور پر ناجائز بندھن میں کوئی تحفظ نہیں ہوتا۔ مَیں نے فیصلہ کر لیا۔ اس رشتے کو ختم کرنا نہایت ہی مشکل اور تکلیفدہ تھا۔ مالی مشکلات کے باوجود مَیں نے پورے دل سے یہوواہ پر بھروسا کِیا۔
مَیں یہوواہ سے محبت کرتی تھی اور اُس کی خدمت کرنے کے لئے پُرعزم تھی۔ مَیں نے مئی ۱۹، ۱۹۸۴ کو یہوواہ خدا کیلئے اپنی زندگی کی مخصوصیت کی علامت میں پانی کا بپتسمہ لیا۔ میرا بیٹا لائنل بھی یہوواہ کا بپتسمہیافتہ گواہ ہے۔ میرے سابقہ شوہر اور خاندان کی طرف سے ہمیں کافی اذیت کا سامنا ہوا لیکن ہم نے یہوواہ پر توکل قائم رکھا۔ ہمیں مایوسی نہ ہوئی۔ میرے خاندان کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا اور ۱۱ سال کے طویل عرصے کے بعد اُنہوں نے ہمارے نئے طرزِزندگی کو قبول کر لیا۔
مَیں اُن سے بیحد محبت کرتی ہوں اور میری فقط یہی خواہش ہے کہ وہ بھی یہوواہ کی بابت سیکھ کر خوشی حاصل کر سکیں۔ میرے والد نے دلیری سے میری حمایت کی جو کبھی یہ سوچتا تھا کہ وہ افسردگی اور خودکشی کے
باعث اپنی بیٹی کھو بیٹھے گا۔ وہ مجھے دوبارہ خوش دیکھ کر مطمئن تھا۔ مَیں نے سمجھ لیا کہ یہوواہ سے دُعا، یہوواہ کے گواہوں کے اجلاسوں میں شرکت اور خدا کے کلام کا اطلاق جذباتی بحالی کے اہم ذرائع ہیں۔مستقبل کی اُمید
مَیں اُس وقت کی منتظر ہوں جب دُکھتکلیف، ناکاملیت، جھوٹ اور نفرت کا مکمل خاتمہ ہو جائیگا۔ مَیں تصور میں اپنے ناواجو کی سرزمین کو بےشمار پودوں اور پھولوں کے علاوہ ایک بار پھر آڑو اور خوبانی کے درختوں سے بھرا ہوا دیکھتی ہوں۔ مَیں اپنے ذہن کی آنکھوں سے اپنے وطن کے مختلف قبیلوں کو ندیوں اور بارش کے پانی سے اس بنجر زمین کو ایک خوبصورت فردوس بنانے میں حصہ لیتے ہوئے دیکھ کر خوش ہوتی ہوں۔ مَیں حالیہ سالوں کے برعکس، اپنے ہوپی پڑوسیوں اور دوسرے قبائل کو ایک دوسرے کا حریف بننے کی بجائے اس علاقے میں صلح اور اتفاق سے رہتا ہوا دیکھتی ہوں۔ مَیں اب سمجھ سکتی ہوں کہ خدا کا کلام کیسے تمام نسلوں، قبیلوں اور فرقوں کو متحد کرتا ہے۔ مَیں مستقبل میں خاندانوں اور دوستوں کو قیامت کے ذریعے اپنے مُتوَفّی عزیزوں سے دوبارہ ملتے ہوئے دیکھونگی۔ یہ ہمیشہ کی زندگی کے پیشِنظر نہایت شادمانی کا وقت ہوگا۔ میرے خیال میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہوگا جو اس شاندار امکان کی بابت سیکھنا نہیں چاہتا۔
ناواجو میں تھیوکریٹک توسیع
ٹیوبا کے شہر میں ایک کنگڈم ہال اور ناواجو اور ہوپی لوگوں کی سرکاری بستیوں *—چنلی، کےانٹا، ٹیوبا اور کیمز کینین—میں چار کلیسیاؤں کی ترقی کو دیکھنا ہیجانخیز ثابت ہوا ہے۔ جب مَیں نے ۱۹۸۳ میں پہلی بار تھیوکریٹک منسٹری سکول میں اپنا اندراج کرایا تو مَیں نے سوچا کہ ایک وقت ایسا آئیگا جب یہ سکول ناواجو میں بھی منعقد ہوگا۔ اب یہ محض میرا خیال ہی نہیں ہے۔ یہ سکول ۱۹۹۸ سے ناواجو زبان میں منعقد ہو رہا ہے۔
دوسروں کو خدا کے ذاتی نام سے روشناس کرانا کثیر برکات کا باعث بنا ہے۔ بروشرز زمین پر ابد تک زندگی کا لُطف اُٹھائیں! خدا ہم سے کیا تقاضا کرتا ہے؟ اور حالیہ اشاعت آپ خدا کے دوست بن سکتے ہیں! میں موجود ایمانافزا باتوں کو اپنی آبائی زبان ناواجو میں پڑھنے اور دوسروں کو بتانے کی خوشی ناقابلِبیان ہے۔ مَیں دیانتدار اور عقلمند نوکر کی ممنون ہوں جو بائبل کے اس تعلیمی کام کی پیشوائی کر رہے ہیں تاکہ ڈینے یعنی ناواجو لوگوں کے علاوہ تمام قومیں، قبیلے اور اہلِزبان بھی اس سے مستفید ہو سکیں۔—متی ۲۴:۴۵-۴۷۔
مَیں اپنی کفالت کے لئے کُلوقتی ملازمت کرنے کیساتھ ساتھ امدادی پائنیر خدمت میں بھی باقاعدہ حصہ لینے سے خوشی حاصل کرتی ہوں۔ مَیں اس بات کی بھی قدر کرتی ہوں کہ اب مَیں غیرشادیشُدہ ہوں اور بِلاانتشارِخیال یہوواہ کی خدمت کر سکتی ہوں۔ مَیں اپنے قبیلے کے علاوہ دوسروں کو اور خاص طور پر مایوسی کا شکار لوگوں کو یہ بتانے سے اطمینان اور خوشی حاصل کرتی ہوں کہ ”[یہوواہ] شکستہ دلوں کے نزدیک ہے اور خستہ جانوں کو بچاتا ہے۔“—زبور ۳۴:۱۸۔
مَیں اب یہ محسوس نہیں کرتی کہ بائبل سفیدفاموں کی مذہبی کتاب ہے۔ خدا کا کلام، بائبل اُن تمام لوگوں کیلئے ہے جو اُسے سیکھنا اور اسکا اطلاق کرنا چاہتے ہیں۔ جب یہوواہ کے گواہ آپ سے ملنے آئیں تو انہیں یہ بتانے کا موقع دیں کہ آپ حقیقی خوشی کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔ وہ آپ کو خدا کے نام یہوواہ کی بابت خوشخبری دیتے ہیں جس نے میری زندگی بدل دی! ”جیہاں، خدا کا نام یہوواہ ہے۔“
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 3 مورمن مذہب کی بابت مفصل معلومات کے لئے نومبر ۸، ۱۹۹۵ کا اویک! دیکھیں۔
^ پیراگراف 7 اےآئیایم شہری حقوق کی تنظیم ہے جسے ایک امریکی انڈین نے ۱۹۶۸ میں قائم کِیا تھا۔ یہ اکثر ۱۸۲۴ میں قائم ہونے والی حکومتی ایجنسی بیآئیاے پر تنقید کرتی ہے جو بظاہر ملک کے انڈینز کی خوشحالی کو فروغ دینے کیلئے قائم کی گئی تھی۔ بیآئیاے سرکاری بستیوں کی معدنیات، پانی اور دیگر سہولیات اُن لوگوں کو کرائے پر دیتی تھی جو انڈین نہیں تھے۔—ورلڈ بُک انسائیکلوپیڈیا۔
^ پیراگراف 9 بیجوں کو مُقدس خیال کرنے کے علاوہ زندگی اور احیا کی علامت کے طور پر دُعا اور رسومات میں بھی استعمال کِیا جاتا ہے۔ ناواجو ایمان رکھتے ہیں کہ جس راستے پر بیج چھڑکے گئے ہوں اس پر چلنے سے جسم مُقدس ہو جاتا ہے۔—دی انسائیکلوپیڈیا آف نیٹوو امریکن ریلیجنز۔
^ پیراگراف 25 یہوواہ کے گواہوں کی شائعکردہ مگر اب خارجالطباعت۔
^ پیراگراف 39 مزید معلومات کیلئے ستمبر ۸، ۱۹۹۶ کے اویک! میں سلسلہوار مضامین ”امریکن انڈینز—اُنکا مستقبل کیا تھامے ہوئے ہے؟“ پڑھیں۔
[صفحہ ۲۱ پر تصویر]
ایک عام ناواجو ہوگن
[صفحہ ۲۱ پر تصویر]
اپنے بیٹے لائنل کیساتھ
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
ماسکو میں ۱۹۹۳ کے بینالاقوامی کنونشن پر روسی بھائیوں کیساتھ
[صفحہ ۲۴ پر تصویر]
کےانٹا، ایریزونا کلیسیا میں اپنے روحانی خاندان کیساتھ