دُنیا کا نظارہ کرنا
دُنیا کا نظارہ کرنا
اُناسی ملین عورتیں ”لاپتہ“
رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق یواین کی جانب سے ”انڈیا، پاکستان، بنگلہدیش، نیپال، سریلنکا، بھوٹان اور مالدیپ“ میں کئے جانے والے ایک سروے کے مطابق، ”پیدائش سے پہلے اور بعد میں عورتوں سے امتیازی سلوک کے باعث تقریباً ۷۹ ملین عورتیں ’جنوبی ایشیا میں لاپتہ‘ ہیں۔“ اِن عورتوں کے ”لاپتہ“ ہونے کی وجہ اسقاطِحمل کے علاوہ ”طفلکُشی اور اِس خطے میں غذا کی تقسیم کے سلسلے میں نر بچوں کو ترجیح دینا“ ہے۔ ایسا برتاؤ جوانی میں بھی جاری رہتا ہے جسکے نتیجے میں عورتیں غذا کی کمی سے متعلقہ سنگین مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، ”نوجوان لڑکیوں اور عورتوں میں دورانِحمل اموات کی شرح بہت زیادہ ہے۔“ اُناسی ملین کی تعداد کا تعیّن اس حقیقت کی بِنا پر کِیا گیا تھا کہ اِس خطے کے ہر ۱۰۰ مردوں کیلئے صرف ۹۴ عورتیں ہیں جبکہ دُنیابھر میں ہر ۱۰۰ مردوں کیلئے ۱۰۶ عورتیں ہیں۔
طویلترین سرنگ
فرانکفرٹر آلگمینی زیتنگ اخبار کی رپورٹ کے مطابق، ناروے میں دُنیا کی طویلترین سرنگ بنائی گئی ہے۔ اِس سرنگ کا نام لارڈل ہے جس کی لمبائی ۵.۲۴ کلومیٹر ہے اور یہ ناروے کے دو بڑے شہروں، آسلو اور برگن کو جوڑتی ہے۔ اس سے پہلے ڈرائیوروں کو یا تو پیچوخم والے پہاڑی راستے سے جانا پڑتا تھا یاپھر لمبی اور تنگ کھاڑی کو بذریعہ کشتی پار کرنا پڑتا تھا۔ نئی سرنگ میں تحفظ کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ اس میں ہر ۵۰۰ میٹر کے بعد گاڑی موڑنے کے لئے جگہ دی گئی ہے، بڑےبڑے آگ روک پنکھے دھوئیں یا زہریلی گیس کو باہر نکالتے ہیں اور جدید ایمرجنسی نظام نصب کئے گئے ہیں۔ بیشتر لوگ لمبی سرنگوں سے خوفزدہ ہوتے ہیں لہٰذا کھلے میدان لارڈل کو چار حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ دن کی روشنی اور تازہ ہوا کا اثر پیدا کرنے کے لئے ان میدانوں کی دیواریں نیلی روشنیوں سے آراستہ کی گئی ہیں۔ تاہم، ایک سروے نے ظاہر کِیا کہ ناروے کے ۲۵ فیصد لوگ جو حادثات یا آگ سے ڈرتے ہیں اس سرنگ کو استعمال کرنے سے گریز کریں گے۔
خطرۂمعدومیت سے دوچار جانوروں کی اسرائیل واپسی
اسرائیل کے اخبار ہاریتس نے بیان کِیا کہ جو جانور پہلے اسرائیل سے غائب ہو گئے تھے اب دوبارہ آ گئے ہیں۔ گیدڑ اور بھیڑیوں کے غول نجب اور گولان ہائٹس میں پھر سے دکھائی دینے لگے ہیں۔ آخری گنتی کے مطابق، شمالی اسرائیل میں عقابوں کی تعداد بڑھ کر ۴۵۰ ہو گئی تھی۔ گلیل میں تو ایک چیتا بھی دکھائی دیا ہے۔ ایک خیال کے مطابق اس علاقے میں چیتے بالکل ناپید ہو گئے تھے جبکہ بھیڑیوں کو یہی خطرہ لاحق تھا۔ تاہم اب ان شکاری جانوروں کے علاوہ ان کے شکار—بارہسنگا، جنگلی بکری اور ہرن—بھی لوٹ آئے ہیں۔ بعض جانور تو اپنےآپ آئے ہیں تاہم دیگر کو ان کے سابقہ گھر میں لایا گیا ہے۔ ان میں ۱۰۰ سے زائد جنگلی گدھے شامل ہیں جو نجب میں پھر سے گھوم رہے ہیں۔
چھاتی سے دودھ پلانے کے مزید فوائد
”کیا آپ اپنے بچے کی ذہانت کا تناسب بڑھانا چاہتے ہیں؟“ رسالہ سائیکولوجی ٹوڈے سوال کرتا ہے۔ ”اس کا سب سے آسان طریقہ ڈبے کے دودھ کی بجائے چھاتی سے دودھ پلانے کا انتخاب کرنا ہے۔“ چھاتی کے دودھ میں دو روغنی تیزاب—ڈوکوساہیکسائیونک ایسڈ (ڈیایچاے) اور آراکائڈونک ایسڈ (اےاے)—ہوتے ہیں جو بظاہر اعصابی نظام کی نشوونما میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اس رسالے کے مطابق تجربات کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ ”ڈیایچاے اور اےاے استعمال کرنے والے بچوں نے یادداشت، سوال حل کرنے اور زبان سیکھنے کی صلاحیتوں کے لحاظ سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کِیا تھا“ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ چھاتی کا قدرتی دودھ ہی بہترین ہے۔
”تحقیق نے اس بات کو بھی اُجاگر کِیا کہ لوگ اپنے روایتی کھانوں کو کیوں اسقدر پسند کرتے ہیں،“ سائنس رسالہ بیان کرتا ہے۔ ”جو خواتین حمل یا دودھ پلانے کے دوران گاجر کا رس پیتی تھیں اُنکے بچے گاجر پسند کرنے لگے۔ . . . یہ تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ چھاتی کا دودھ ڈبے کے دودھ سے بہتر ہے کیونکہ اس سے بچوں میں نئی غذا کھانے کا شوق پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ بھی سیکھتے ہیں کہ کونسی غذا صحت کیلئے مفید ہے۔ اس سے واقعی حاملہ اور دودھ پلانے والی ماؤں کیلئے غذائیتبخش خوراک کھانے کی اہمیت نمایاں ہوتی ہے۔“
موزوں ملازمت کی خواہش
ہنووَر میں عالمگیر نمائش ایکسپو ۲۰۰۰ پر منعقد ہونے والے مجلسِمذاکرہ، ”گلوبل ڈائیلوگ“ پر ہینوورشے آلگمینی زیتنگ کی ایک شہسُرخی بیان کرتی ہے، ”سب کے لئے موزوں ملازمت—ایک خواب۔“ اگرچہ مردوزن کے لئے برابر کام کی برابر تنخواہ کا اُصول ۱۹۵۱ میں نافذ کِیا گیا اور بچوں سے کام کرانے پر ۱۹۷۳ میں پابندی عائد کی گئی توبھی پوری دُنیا میں ۱۵۰ ملین لوگ بیروزگار ہیں، ۸۵۰ ملین کو اُن کی محنت کا پورا معاوضہ نہیں ملتا اور ۲۵۰ ملین بچے مزدوری کرتے ہیں۔ دُنیا کی نصف آبادی روزانہ دو ڈالر سے بھی کم پیسوں پر گزارہ کرتی ہے۔ تاہم، تمام کوششوں کے باوجود امیروں اور غریبوں کے درمیان فاصلہ کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ گیا ہے۔ امیر اور غریب ممالک کی فکریں بھی مختلف ہیں۔ یورپ کے سیاستدان شیئرز خریدنے کے منصوبوں اور مزدور یونین کے اثرات پر توجہ دیتے ہیں جبکہ ترقیپذیر ممالک سے اُن کے ساتھیوں کو ابھی سب کے لئے بنیادی تعلیم اور نئی نسل کے لئے ملازمتوں کی فراہمی جیسے اہم مسائل کو حل کرنا ہے۔
رپورٹ پیش کرتے ہوئے جرمن اخبارکیا مصادا خطرے میں ہے؟
”مصادا دوبارہ اسیر نہیں ہونا چاہئے!“ اس نعرے نے یہودیوں کو جدید اُمتِاسرائیل کو مضبوط کرنے کی تحریک دی ہے۔ اینبیسی (نیشنل براڈکاسٹنگ کارپوریشن) کی خبر کے مطابق ”درحقیقت مصادا فطری طاقتوں سے دوبارہ اسیر ہو سکتا ہے۔“ یہ جگہ ”اس سیارے کے سب سے خطرناک شگاف، بحرِمُردار کی وادیٔشگاف میں واقع“ ہونے کے باوجود سیاحوں میں بڑی مقبول ہے۔ یہاں چٹانوں میں سینکڑوں دراڑیں ہیں جن میں سے بعض ممکنہ طور پر زلزلے سے اَور زیادہ کھلی بھی ہو سکتی ہیں۔ کمپیوٹر کے تجزیے نے ظاہر کِیا ہے کہ سنیک پاتھ کے کئی مشرقی حصوں میں ایسا ہو رہا ہے جنہیں ۶۰ فٹ لمبی فولادی سلاخوں سے مضبوط کِیا گیا ہے۔ تاہم، مصادا کے جنوب میں بادشاہ ہیرودیس کے تعمیرکردہ محل کے کھنڈرات کی ”بنیادیں بھی ہل رہی ہیں“ اسلئے اِنہیں بھی مضبوط کِیا جانا چاہئے۔ تاہم، مالی وسائل کی کمی کے باعث ابھی تک اس حصے پر کام شروع نہیں ہو سکا۔ یروشلیم سے ۶۰ میل دُور واقع مصادا ہی وہ جگہ ہے جہاں پر تقریباً ۲۰۰۰ سال پہلے ۹۶۷ یہودی باغیوں نے رومی فوج کے محاصرے کا دو سال تک مقابلہ کِیا تھا۔ ایک رائے کے مطابق جس رات رومی فوجوں نے انکی فصیلیں تباہ کیں تو یہودیوں نے ان کے آگے ہتھیار ڈالنے کی بجائے خودکشی کرنی چاہی۔
سورج سے بچیں
میکسیکو کے اخبار ایل یونیورسل میں ایک مضمون نے بیان کِیا کہ مناسب حفاظتی تدابیر کے بغیر دھوپ میں زیادہ دیر تک رہنے سے جِلد کا کینسر ہو جاتا ہے۔ جِلدی امراض کی ماہر ایڈریانہ اینیڈس فونسیکا کے مطابق، شمسی تابکاری متواتر ہمارے جسم میں جمع ہوتی رہتی ہے اور عموماً ۵۰ سال کی عمر کے بعد مُہلک اثرات مرتب کرتی ہے۔ وہ سورج کی روشنی میں جانے سے ۳۰ منٹ پہلے سن سکرین لگانے اور ہر تین یا چار گھنٹوں بعد، پانی میں جانے کے بعد یا بہت زیادہ پسینہ آنے کی صورت میں اسے دوبارہ لگانے کا مشورہ دیتی ہے۔ گورے لوگوں کو ۳۰ یا ۴۰ جبکہ سانولے لوگوں کو ۱۵ سے ۳۰ سن پروٹیکشن فیکٹر والے فلٹر کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم اس کے باوجود یہ یاد رکھنا چاہئے کہ سن سکرین تابکاری کے نقصان کو مکمل طور پر زائل نہیں کرتی اور رنگ سانولا کرنے والے لوشن جِلد کو جلانے سے معاملہ مزید بگاڑ سکتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کو سورج کی براہِراست شعاعوں سے بچانے کا خاص خیال رکھا جانا چاہئے کیونکہ انکی جِلد کا دفاعی نظام ابھی مضبوط نہیں ہوتا۔
پادری بننے کا شوق ختم
دی نیو یارک ٹائمز بیان کرتا ہے کہ کیتھولک والدین اب ”فخر کے ساتھ یہ نہیں کہتے کہ ’میرا بیٹا پادری ہے۔‘ کیتھولک راہنما . . . اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ پادریوں میں کمی کی بنیادی وجہ اپنے بچوں کی پادری بننے کے لئے حوصلہافزائی کرنے والے کیتھولک والدین کی کمی ہے۔“ مضمون بیان کرتا ہے کہ اس سلسلے میں پیش کی جانے والی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ کم افراد پر مشتمل کیتھولک خاندانوں کے لئے ”یہ قبول کرنا مشکل ہے کہ انکا اکلوتا بیٹا پادری بن کر کنوارا رہے۔ اس کے علاوہ، والدین نے انٹرویوز میں کہا کہ پادریوں کی بچوں کے ساتھ بدسلوکی کرنے کی خبروں نے گزشتہ عشرے میں ان کی شہرت کو کافی حد تک متاثر کِیا ہے۔“ کیتھولک بشپوں کی نیشنل کانفرنس کی طرف سے چرچ میں سب سے زیادہ سرگرم کیتھولک ارکان پر کئے جانے والے ایک سروے نے ظاہر کِیا کہ دو تہائی والدین راہب یا راہبہ بننے کے لئے اپنے بچوں کی حوصلہافزائی نہیں کرنا چاہتے۔ اس گروہ کے نمائندے اور راہب، ایڈورڈ جے. برنز کے مطابق، کسی خاندانی اجتماع پر اگر کوئی نوجوان غیرشادیشُدہ جوڑا یہ کہے کہ وہ اکٹھے رہتے ہیں تو کوئی بھی اس پر اعتراض نہیں اُٹھائے گا۔ تاہم، اگر کوئی نوجوان پادری بننے کی بابت سوچتا بھی ہے تو خاندان کے افراد اُسے نصیحتیں کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”کیا تم نے سوچسمجھ کر یہ فیصلہ کِیا ہے؟“